فیروز گاندھی کے دوسرے پوتے کی آواز سنو

بی جے پی کے نوجوان ممبر پارلیمنٹ ورون گاندھی بلا شبہ مینکا گاندھی کی گودکے پروردہ ہیں لیکن وہ سنجے گاندھی کا خون اور فیروز گاندھی کے پوتے بھی ہیں ۔ سنجے گاندھی نے 1979میں ایمرجنسی کے نام پر جو کیا اس نے لوگوں کو خون کے آنسو رُلائے ہیں لیکن 1980میں ووٹ مانگتے وقت صرف معاف کردیجئے ({kek djnhft,)کے علاوہ انھوں نے دوسرا لفظ نہیں کہا۔ اس پر ہندوئوں نے کیا جواب دیا یہ وہ جانیں لیکن مسلمان کا ایمان ہے کہ اس کا پروردگار بھی معاف کرنے کو پسند کرتا ہے۔ اس لیے اس نے معاف کردیا۔

ورن گاندھی کو جب بی جے پی نے لوک سبھا کا پہلا ٹکٹ دیا تو وہ بالغ تو تھے لیکن ذہنی طور پر نابالغ تھے۔ انھوں نے بی جے پی کے ٹکٹ کا مطلب یہ سمجھا کہ بس انہیں مسلمانوں کی مخالفت میں بولنا ہے اور انھوں نے ا یسی بچکانہ تقریریں کیں کہ خود ان کی پارٹی کے لوگوں کے علاوہ ان کی تایازاد بہن پرینکا گاندھی نے بھی سمجھایا کہ پہلے گیتا غور سے پڑھو پھر اس کا حوالہ دو یا اس کی قسم کھائو۔ 2014میں انہیں سلطان پور سے ٹکٹ دیا جو امیٹھی سے ملی ہوئی سیٹ ہے۔ ٹکٹ دینے والوں نے سمجھا تھا کہ ان کی آواز امیٹھی میں بھی سنی جائے گی جس سے راہل گاندھی پر چوٹ پڑے گی۔لیکن وہ ذہنی طور پر بالغ ہوچکے تھے اور جب ان سے ایک رپورٹر نے معلوم کیاتھا کہ اگر پارٹی آپ کو سونیا گاندھی کی مخالفت میں رائے بریلی تقریر کرنے کے لیے کہے گی تو آپ کیا کریں گے؟ اس وقت ورون نے جواب دیا تھا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ پارٹی مجھ سے ایسی بات نہیں کہے گی اور اگر کہا بھی تو میں کہہ دوں گا کہ وہ مخالف پارٹی کی صدر ضرور ہیں مگر میری تائی بھی ہیں میں ان کے خلاف کیسے بول سکتا ہوں ؟

ورون گاندھی کو ان کے حاشیہ برداروں نے سمجھانا شروع کردیا تھا کہ اتر پردیش میں راہل کا جواب بی جے پی کے پاس صرف آپ ہیں جیسے سونیا جی اور کانگریس کے لوگ راہل گاندھی کو وزیر اعظم کے طور پر تیار کررہے ہیں اسی طور پراترپردیش کے وزیر اعلیٰ کے لیے بی جے پی کے پاس راہل کے مقابلہ کے لیے آپ کے نام کے علاوہ کون سا نام ہے؟ اور پھر جگہ جگہ ورون گاندھی کو مستقبل میں اترپردیش کے وزیر اعلیٰ کے چہرہ کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔ اس کی دیکھا دیکھی دوسرے چہرے بھی سامنے آنے لگے تو بی جے پی نے اس فتنہ کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنے کا ذہن بنا لیا اور ورون گاندھی کو اس ٹیم میں بھی نہیں رکھا جو لیڈر کے طور پر الیکشن میں حصہ لے گی۔

ورن گاندھی نے اس سے پہلے بھی کسانوں کے معاملات پر حکومت کی پالیسی پر تنقید کی ہے اور اب تو پورے سسٹم پر انھوں نے زبردست اعتراضات کیے ہیں ا ور ان کا یہ کہنا کہ حکومت غریب کسانوں کی خودکشی کرنے والوں کی تعداد 7500بتا کر گمراہ کررہی ہے ان کے حساب سے یہ تعداد 50,000ہے۔ اس کے ساتھ انھوں نے اعلیٰ تعلیم یافتہ پی ایچ ڈی کرنے والے ایک دلت لڑکے کا خودکشی کرنے والا خط پڑھا تو کہا کہ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ورن نے پورے سسٹم پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ہزاروں کروڑ قرض لے کر وجے مالیا کو ملک سے جانے دیا جاتا ہے اور چھوٹے چھوٹے قرض کے لیے کسان خودکشی کرتے ہیں اور سب تماشہ دیکھ رہے ہیں ۔ ورن نے اقلیتوں کے ساتھ جو امتیازی سلوک ہورہا ہے اسے بھی اسی سسٹم کا حصہ قرار دیا ہے۔

ایک زمانہ تھا جب پارٹی کے اندر رہتے ہوئے کوئی لیڈر کسی کام کو غلط سمجھتا تھا تو اس پر کھل کر تنقید کرتا تھا اور وہ بڑا ہی رہتا تھا۔ لیکن اندرا گاندھی نے جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا اور’’ انڈیا از اندرا اور ا ندرا از انڈیا‘‘کہنے والوں کے علاوہ ہر کسی کے لیے پارٹی کے دروازے بند کردئے۔ بی جے پی کے آنے کے بعد اور 180 سیٹیں لانے کے بعد یہ سمجھا جارہا تھا کہ اندرا گاندھی کا سانچہ توڑ دیا جائے گا اور کھل کر لوگ سسٹم پر تنقید کریں گے لیکن نریندر دامودرداس مودی نے تو سب سے پہلے پارٹی کے تینوں بزرگوں اڈوانی جی جوشی جی اور سنہا جی کے منہ پر ٹیپ لگا یا اور ایسی جگہ بٹھادیا جہاں سے ان کی آواز بھی باہر نہ جائے۔

اور پارٹی میں ہر آدمی نے سمجھ لیا کہ اب ’’جے مودی‘‘،’’ جے نریندر‘‘ کے علاوہ کچھ بھی کہنے کی گنجائش نہیں ہے۔اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ الیکشن اترپردیش میں ہورہا ہے اور ورن گاندھی اندور میں سسٹم کا ماتم کررہے ہیں اور کیسے نہ کریں کہ سسٹم یہ ہے کہ چند پولیس والے دو ہندو لڑکوں کو گولی مار دیتے ہیں وہ اسے انکائونٹر بتاتے ہیں اور مرنے والوں کے رشتہ دار سارا زور لگا کر سی بی آئی سے تحقیق کراتے ہیں اور اس قتل کو فرضی انکائونٹر ثابت کرنے میں 20 برس لگتے ہیں ۔ ان 20 برسوں میں وہ پولیس والے تو نوکری کرتے رہتے ہیں ، تنخواہ بھی وصول کرتے ہیں قدم قدم پر رشوت بھی لیتے ہیں اور مرنے والوں کے وارث اپنی ساری پونجی مقدمہ میں پھونک دیتے ہیں اور 20سال کے بعد چار کانسٹبل کو عمر قید کی سزا دی جاتی ہے اور ستم یہ ہے کہ حکومت جو ان کی مدد کے لیے روپے دے دیتی ہے وہ ڈی ایم یہ کہہ کر روک لیتے ہیں کہ جب انکائونٹر فرضی ثابت ہوجائے گا تب ملیں گے۔

اور یہ وہی سسٹم ہے کہ میرٹھ کے 50مسلمان لڑکوں کی پولیس کی گولیوں سے موت کو اب 30برس ہوگئے ہیں ۔ ابھی یہی معلوم نہیں ہوسکا کہ کون کس کی گولی سے مرا جب کہ مرنے والے 50 تھے اور مارنے والی پی اے سی کی ایک ٹکڑی ۔ جس کے ہر سپاہی کے پاس رائفل تھی۔ لیکن یہ سسٹم ہے کہ یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کون کس کی گولی سے مرا؟ اور یہ قیامت تک نہیں معلوم ہوگا۔ یہ تو نہ مرنے والے کو معلوم ہے اور نہ مارنے والے کو تو سزا کیسی؟ اگر ورون اس سسٹم پر اعتراض کرتے ہیں تو ہماری طرف سے لعنت ہے اس سسٹم پر بھی اور اور یہ سسٹم بنانے والوں پر بھی اور جو چلا رہے ہیں ان پر بھی۔ اگر دنیا بنانے اور چلانے والے نے ٹوٹے ہوئے دلوں کی پکار سن لی ہوگی ا ور پنجاب و اترپردیش میں وہ ہوجائے گا جو بہار اور بنگال میں ہوا ہے تو امید کرنا چاہیے کہ پھر یہ سوچنا سب کی مجبوری ہوجائے گی کہ بہت کچھ بدل دیا جائے کیونکہ پھر بھی نہ بدلا تو 2019میں سب کچھ بدل جائے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔