مخالف صفوں میں جوش اور ہوش دونوں ضروری ہیں

حفیظ نعمانی

بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی پہلے بھی بی جے پی حکومت پر تنقید کرتی رہی ہیں لیکن جیسے جیسے بی جے پی بنگال کی فضا کو گندہ کررہی ہے ویسے ہی ممتا بنرجی کا پارہ بھی چڑھتا جارہا ہے اور انہوں نے ہر اس پارٹی سے مذاکرات کرنا شروع کردیئے ہیں جو اب یہ سمجھنے لگی ہے کہ مودی سرکار کو ہٹانا مشکل نہیں ہے۔

ممتا بنرجی تیسرے محاذ کی بات کررہی ہیں وہ یہ بھی کہہ رہی ہیں کہ وہ سونیا گاندھی سے ملیں گی لیکن ان کا جو رُخ ہے وہ وہی ہے جو 1977 ء میں جنتا پارٹی کا تھا کہ نہ بی جے پی اور نہ کانگریس۔ مسز سونیا گاندھی نے دو ہفتہ پہلے تمام مخالف پارٹیوں کو کھانے پر بلایا تھا اور خبروں کے مطابق لیڈر گئے بھی تھے۔ لیکن ہم یہ نہیں سمجھ سکے کہ سونیا جی کیسے یہ سوچ رہی ہیں کہ مخالف پارٹیاں ان کی قیادت قبول کرلیں گی؟ جبکہ ملک کے تمام اہم صوبے ان کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔ وہ یا تو بی جے پی کے پاس ہیں یا علاقائی پارٹیوں کے پاس۔ مسز سونیا گاندھی کو جیسے راہل گاندھی کو صدر بنانے کی جلدی تھی ایسے ہی وہ ان کو وزیراعظم دیکھنا چاہتی ہیں۔ وہ ماں ہیں اگر ان کی یہ خواہش ہے تو کون اسے غلط کہہ سکتا ہے لیکن خود انہیں اور راہل گاندھی کو سوچنا چاہئے کہ ایسی مرکزی حکومت کس کام کی جس کے کھمبے دوسروں کے ہاتھوں میں ہوں اور جس کے 22 صوبے دشمن پارٹی کے پاس ہوں۔

ممتا بنرجی کا یہ کہنا کہ 2019 ء کا الیکشن بہت دلچسپ ہوگا اس اعتبار سے غلط نہیں ہے کہ صرف ایک سال پہلے لوگ ایک دوسرے کے کان میں بھی یہ بات نہیں کہتے تھے کہ مودی حکومت تبدیل ہوسکتی ہے۔ اور اب آندھرا ہو یا تلنگانہ چھوٹے چھوٹے صوبے بھی آنکھیں دکھارہے ہیں اور کرناٹک کا الیکشن بی جے پی ایسے لڑرہی ہے جیسے 2019 ء کا فیصلہ کرناٹک ہی کرے گا۔

ہم نہیں جانتے کہ ممتا بنرجی کی اکھلیش یادو، مس مایاوتی اور میسا یادو سے کیا کیا بات ہوئی؟ لیکن اسے کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے کہ بہار میں کانگریس گٹھ بندھن میں شریک تھی اور اب پورے خلوص کے ساتھ وہ لالو یادو کے ساتھ ہے۔ اترپردیش میں بار بار اکھلیش یادو نے کہا ہے کہ کانگریس سے اس کے رشتے ہیں۔ مہاراشٹر میں کانگریس اور شردپوار مستقل مل کر لڑتے تھے۔ لیکن پچھلے الیکشن میں دونوں الگ ہوگئے اور جب بی جے پی کو شیوسینا نے آنکھیں دکھائیں تو شرد پوار نے مودی جی کی پالکی اٹھانے کے لئے اپنا کاندھا پیش کردیا۔ اب ممتا بنرجی 30 منٹ تک شرد پوار سے بات کرتی ہیں اور شیوسینا کے لیڈروں سے بھی اور بعد میں کہتی ہیں کہ وہ سونیا جی سے بھی بات کریں گی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ الیکشن میں ایک سال ہے اور ایک سال بہت ہوتا ہے یہ ایک سال مودی جی کے لئے بھی بہت ہے اگر وہ مان لیں کہ چار سال انہوں نے جو سوچا اور جو کیا اس نے ملک کو دس سال پیچھے کردیا۔ اور مان لیں کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی دونوں فیصلے غلط تھے اور قوم سے دونوں کے لئے معافی مانگیں۔ لیکن جتنا ان کے بارے میں دیکھا اور پڑھا ہے اس سے اس کی توقع نہیں کہ وہ تسلیم کرلیں کہ وہ غلطی پر غلطی کرتے آئے ہیں۔ کیونکہ وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ اندرا گاندھی کے زمانہ میں کتنے صوبوں میں ترنگا تھا اور میرے زمانہ میں کتنے صوبوں میں بھگوا جھنڈا ہے؟

ممتاجی نے اشارہ دیا ہے کہ وہ بزرگ لیڈر یشونت سنہا اور ارون شوری سے بھی ملیں گی اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں وہ ہیں جنہیں کریم کہا جاتا ہے لیکن اس کی توقع کرنا شاید ٹھیک نہ ہو کہ یہ دونوں کسی کی قیادت میں کام کرسکتے ہیں۔ لیکن یہی بہت ہوگا کہ ان کی سرپرستی حاصل رہے اس لئے کہ شردپوار اگر محاذ میں سنجیدگی سے شریک ہوتے ہیں تو سب سے اونچی کرسی وہ چاہیں گے اور شرد یادو کے ہوتے ہوئے شرد پوار کو سر پر بٹھانا کسی طرح مناسب نہیں ہے۔ ممتا بنرجی کو دو چار ملاقاتوں میں اس کا اندازہ بھی ہوجائے گا کہ اُدھو ٹھاکرے اور شردپوار ذاتی دوست تو ہوسکتے ہیں سیاسی دوست نہ ہوئے ہیں اور نہ ہوں گے۔

مودی سرکار کو اُکھاڑنے کا جوش پارٹیوں میں اترپردیش کے ضمنی الیکشن کے نتیجوں کی وجہ سے آیا۔ اگر آدتیہ ناتھ یوگی نے گورکھ پور کا الیکشن خود لڑنے کے بجائے ورکروں کے سپرد کردیا ہوتا اور نتیجہ وہ ہوتا جو ہوا تو کوئی بات نہیں تھی۔ لیکن سب کی زبان پر ہے کہ وزیراعلیٰ نے اپنی شخصیت اور پوری طاقت جھونک دی اور ایک سیٹ کے لئے گیارہ بہت بڑے جلسوں کو خطاب کیا اس کے بعد جو نتیجہ آیا اس نے پورے ملک کو ہلا دیا اور آج جو پارٹی کے صدر امت شاہ کرناٹک میں ’’لنگایت‘‘ نام کے ایک فرقہ کے سربراہ کے قدموں میں سر رکھ کر فریاد کررہے ہیں کہ آپ بی جے پی کی ہی سرپرستی کریں اور ہر جگہ کہہ رہے ہیں کہ کانگریس ہندوؤں کو تقسیم کررہی ہے۔ وہ یہی لنگایت ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم ہندو نہیں ہیں اور کانگریس نے ان کی بات مان کر انہیں اقلیتی فرقہ قرار دے دیا ہے۔

ہندوستان میں سب سے مشکل اتحاد سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کا مانا جاتا تھا۔ اس بار زمین آسمان سب بدل گئے۔ الیکشن سے صرف ایک ہفتہ پہلے مس مایاوتی نے بند بند الفاظ میں اعلان کیا کہ گورکھ پور اور پھول پور میں جو ہمارے ہیں وہ اسے ووٹ دیں جو بی جے پی کو ہرا رہا ہو۔ اس وقت تک مس مایاوتی کو بھی اس نتیجہ کی اُمید نہیں تھی۔ لیکن اسی کامیابی نے ان کی جھجھک ختم کردی اور اب وہ ہر قدم پر اکھلیش کے ساتھ ہیں۔ اب یہ خدمت بی جے پی کے ہارے ہوئے لیڈر انجام دے رہے ہیں کہ وہ مایاوتی کو گیسٹ ہاؤس کے واقعہ کو یاد دلا رہے ہیں۔ اور مس مایاوتی دیکھ رہی ہیں کہ ان کے اس فیصلہ نے ہر بی جے پی مخالف کو طاقت کے انجکشن دے دیے ہیں اور اس منظر کی یاد دلادی ہے جب کوئی بڑا جانور مرنے کے لئے زمین میں پڑا ہوتا تھا تو درجنوں گدھ اس کی موت کے انتظار میں درخت پر یا زمین پر بیٹھے ہوتے تھے اور اس کے مرتے ہی اس پر ٹوٹ پڑتے تھے اور دو چار گھنٹوں میں صرف ہڈیاں رہ جاتی تھیں۔ اور یہ اس وجہ سے ہوتا تھا کہ ان کے اندر اتحاد ہوتا تھا۔ اگر بی جے پی مخالف تمام پارٹیاں متحد ہوجائیں اور سلیقہ کے ساتھ مقابلہ کریں تو نتیجہ وہی ہوگا جو ہر ایسے اتحاد کے بعد ہوتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔