مسئلہ گوشت کھانے کا کم بے روزگاری کا زیادہ ہے!

حفیظ نعمانی

اترپردیش کی نئی حکومت نے کابینہ کی پہلی میٹنگ میں وعدہ کے مطابق کسانوں کا ایک لاکھ تک کا قرض معاف کردیا۔ کسی کایہ کہنا کہ جتنا کہا تھا اتنا نہیں کیا یا تفریق برتی، یہ باتیں بے معنی ہیں ۔ اس لیے کہ یہ کہا جارہا تھا کہ صوبائی حکومت اس لیے قرض معاف نہیں کرسکتی کہ قرض بینکوں سے لیا گیا ہے  اور بینک مرکزی حکومت کے کنٹرول میں ہوتے ہیں ۔ خود کشی پر  مجبور ہوجانے والے کسانوں کے لیے بلا شبہ یہ تحفہ ہے۔

کابینہ کی میٹنگ میں مذبح کے با رے میں سخت رُخ برقرار رہا ، کہا گیا ہے کہ ریاست میں غیر قانونی مذبح کہیں بھی نہیں چلنے دیا جائے گا۔ اس کے لیے تو کوئی نہیں کہے گا کہ غیر قانونی کام کرنے کی اجازت دی جائے اور وہ بھی مسلمانوں کو جن کے بارے میں ونے کٹیار کہہ چکے ہیں کہ مسلمان ہمیں ووٹ نہیں دیتے ہم انہیں ٹکٹ نہیں دیتے۔ لیکن یہ سوچنے کی بات ہے کہ غیر قانونی مذبح اگر کہیں بنایا جاتا ہے تو صرف اس لیے کہ قانونی مذبح میں گنجائش کم ہے اور ضرورت کہیں زیادہ ہے۔ جس کا اندازہ اس لیے کیا جاسکتا ہے کہ ٹنڈے کے مشہور کبابوں کی شاید ۱۰ سال پہلے چوک  میں صرف ایک دوکان تھی۔ اور زیادہ سے زیادہ  ایک وقت میں دس آدمی وہاں بیٹھ کر کھانا چاہتے تھے تو کھا لیتے تھے۔ جبکہ اب صرف امین آباد کی دوکان میں پانچ سو آدمی بیک وقت کباب بریانی اور مرغ مسلم کھاتے ہوئے مل سکتے ہیں ۔ اور اس دکان کے علاوہ شہر کے ہر کونے میں ٹنڈے کباب کی دوکانوں کی ایجنسی دیدی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ جتنا گوشت صرف اس ایک دکان کوچاہیے صرف اس کے لیے ہی ایک مذبح ناکافی ہوگا۔

اب تک جن پارٹیوں کی حکومت رہی انھوں نے بکرے کے گوشت، مرغ اور انڈوں کی دوکانوں کو وہ حیثیت دی جو سبزی منڈی کے باہر سڑک پر عورتیں ، لڑکے اور لڑکیاں ڈلیوں میں نیبو، ہرا دھنیہ، پودینہ، ہری مرچ لے کر بیٹھ جاتی ہیں اور پولیس والے کو دیکھ کر اسے اٹھا کر اندر چلی جاتی ہیں ۔ نہ ان کا لائسنس ہوتا ہے نہ رجسٹریشن۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ان میں کوئی چیز ایسی نہیں ہوتی جس سے نشہ ہویا جسے کھا کر بیماری کا ڈر ہو۔ بھینس کے گوشت کے لیے یہ خطرہ رہتا ہے کہ جانور بیمار ہو اور جو ڈاکٹر اس کے معائنہ کے لیے بیٹھا ہے وہ صرف پیسے لیتا اور مہر لگاتا ہے جیسے کارپوریشن کے با ہر ایک ڈاکٹر رکشا چلانے والوں کو صحت کا سرٹیکفیکٹ دیتا ہے اور ڈاکٹر کے سامنے کھانس کھانس کر خون تھوکنے والے کو بھی دوگنی فیس لے کر دارا سنگھ کا سرٹیکفکٹ دے دیتا ہے۔ صرف اس لیے کہ وہ کسی کی سفارش سے وہاں کمانے کے لیے بٹھایا جاتا ہے۔

اگر بی جے پی حکومت جائزہ لے لے کہ شراب سے مرنے والوں کا اوسط کیا ہے اور گوشت کھا کر مرنے والوں کا کیا؟ تو وہ انصاف کے تقاضے پورے کرے اور جس طرح یلغار کرکے اپنے کہنے کے مطابق 26؍ غیر قانونی مذبح خانوں پر بلڈوزر چلائے اور ان پر تالے ڈالے ہیں ایسے ہی غیر قانونی شراب فروشوں کے ٹھکانوں پر حملے کرے۔

سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ شراب کی کوئی دوکان نیشنل ہائی وے سے 500 میٹر کے اندر نہیں ہونا چاہیے۔ اس سے پہلے بھی حکم تھا کہ مندر مسجد اور اسکولوں سے سو میٹر کے ا ندر شراب کی کوئی دکان نہ ہو۔ لیکن بی جے پی کے لیڈر اور ورکر بھی جانتے ہیں کہ اس حکم کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑادیا جاتا تھا۔ صرف اس لیے کہ اس پر عمل پولیس کو کرانا تھا اور پولیس کا یہ حال ہے کہ ہر تھانہ چاہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ دکانیں اس کے دائرہ میں ہوں تاکہ خود بھی مفت کی پی سکیں اور دوسروں کو بھی پلائیں ۔ ہر پولیس والے کو معلوم ہے کہ غیر قانونی شراب کہاں بن رہی ہے؟اور یہ بھی معلوم ہے کہ لائسنس والی د کانوں میں جو بوتلیں رکھی ہیں ان میں ایک بھی خالص نہیں ہے ہر بوتل میں ناجائز شراب ملی ہوئی ہے۔ لیکن گلے میں زعفرانی پٹکا کمل کے پھول والا ڈالے ہوئے کوئی نظر نہیں آیا جو ان دکانوں سے باز پرس کرتا کہ تمہاری دکان ہائی وے سے کتنی دور یا مندر مسجد اور اسکول سے کتنی دور ہے؟

کل ٹی وی کے ایک چینل کے ذریعہ پورے اترپردیش اور اتراکھنڈ میں جگہ جگہ یہ منظر دیکھا کہ بہادر عورتیں ہاتھوں میں لاٹھیاں لیے ہوئے شراب کی دکانوں پر اس طرح ٹوٹیں کہ دوکان کے مالکوں کو جان بچانا مشکل ہوگیا۔ اور جو دوکان سپریم کورٹ کے حکم کی حد کے اندر ملی اسے ایسا برباد کیا کہ جتنی شراب تھی یا زمین میں بہ رہی تھی یا جل رہی تھی اور جس مالک نے اعتراض کیا اسے ننگا کرکے مارا اور سب سے  خاص بات یہ تھی کہ پولیس کھڑی دم بخود تماشہ دیکھ رہی تھی وہ جانتی تھی کہ اگر طاقت دکھائی تو سیکڑوں لاٹھیاں ایک ساتھ پڑیں گی۔

کابینہ کی میٹنگ میں مذبح کے بارے میں تو سپریم کورٹ اورنیشنل گرین ٹریبونل کا حوالہ دیا گیا ہے۔ لیکن شراب کے لیے نہیں کہا کہ ہائی وے سے 500  میٹر کے اندر کوئی دکان نہیں رہنے دی جائیں گی جبکہ وزیر اعظم ہوں یا وزیر اعلیٰ دونوں ایک سے بڑھ کر ایک مذہبی ذہن والے ہیں ۔ اور وزیر اعلیٰ نے تو پان کھا کر آنے پر بھی پابندی لگا دی ہے۔

بات جب مذبح اور گوشت کی آئے گی تو اس کے دو رُخ ہیں ۔ ایک کھانے والوں کا شوق، عادت اور ضرورت اور دوسرا یہ کہ جو اس روزگار سے کتنے جڑے ہوئے ہیں ، ان میں کتنے بے روزگار ہوگئے؟ کھانے والوں کی تعداد مسلمانوں کی زیادہ ہے لیکن مسلمان تو وہ ہیں جو ہر سال کے ایک مہینے رمضان میں سحری سے افطار تک 15 گھنٹے یا اور زیادہ دیر تک پانی بھی نہیں پیتے ،ان پر گوشت بند کرنا نہ کرنا برابر ہے کیوں کہ انہیں سب سے زیادہ صبر کے فائدے بتائے گئے ہیں لیکن بے روزگار کرنا کوئی حکومت اس لیے پسند نہیں کرے گی کہ بے روزگاری ہی غلط راستے پر لے جاتی ہے، چور، ڈاکو، اسمگلر اور دلال صرف بے روگاری بناتی ہے۔ ہندوستان میں مسلمان کو گوشت نہ ملے گا تو وہ مر نہیں جائے گا لیکن کام نہیں ہوگا تو وہ بھٹک جائے گا اور یہ داغ لگے گا کہ لشکر سے جڑ گیا یا القاعدہ سے یا جیش سے اور اسے کوئی حکومت پسند نہیں کرے گی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔