مودی نے کرناٹک کے لئے اپنے کو قربان کردیا

حفیظ نعمانی

اگر صحیح صورت حال بیان کی جائے تو یہ کسی گورنر کی توہین نہیں ہے کہ ان کی حیثیت وزیراعظم کے سرکاری ملازم کی نہیں ذاتی ملازم جیسی ہوتی ہے۔ وزیراعظم اگر ناراض ہوجائیں تو اس کی بھی ضرورت نہیں کہ کابینہ میں گورنر کے ہٹانے یا تبدیل کرنے کے مسئلہ پر بات کریں۔ یہی وجہ ہے کہ دستور اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کی نظیر کے ہوتے ہوئے کرناٹک میں جنتادل ایس کی طرف سے 117  ممبروں کا دعویٰ پیش کرنے والے کو گورنر نے نہیں بلایا اور 104  والے کو اس بھروسہ پر بلاکر حلف دلادیا کہ وہ اکثریت ثابت کردیں گے اور 15  دن کا وقت بھی دے دیا کہ جتنا بھرشٹاچار کرسکتے ہو کرلو۔

گورنر اگر واقعی گورنر صاحب ہوتے تو ان کے پاس جواب تھا کہ مجھے الیکشن کمیشن نے الیکشن کا نتیجہ بھیجا ہے اس میں آپ کے پاس 104  ممبر ہیں اور صرف 2 ممبر ایسے ہیں جن کی خرید و فروخت ہوسکتی ہے ایسے میں آپ کو میں کیسے بلالوں؟ لیکن جو یہ دعویٰ پیش کرنے گیا تھا وہ پرانا کھلاڑی اور وزیراعظم کا گھوڑا تھا اس کے پاس یہ جواب تھا کہ آپ 8 ممبروں کی بات کررہے ہیں میرے پاس حکومت ہے اور 75  فیصدی سے زیادہ صوبوں کے وزیر اعلیٰ ہیں۔

بہرحال کرناٹک کا گورنر ہو یا کہیں اور کا اُسے یہ معلوم ہونا چاہئے کہ وہ جو گورنر بنا بیٹھا ہے اور لاکھوں روپئے مہینہ کما رہا ہے وہ اس جمہوریت کا تحفہ ہے جس کی جڑ پر وہ کلہاڑی چلا رہا ہے۔ اگر جمہوریت نہیں رہی تو گورنر کیوں ہوں گے۔ صوبہ دار ہوں گے جو اپنی طاقت کے بل پر صوبہ پر قبضہ کریں گے اور وہ ایسے اپاہج نہیں ہوں گے کہ بجٹ اجلاس شروع کرتے ہوئے جب وہ خطبہ پڑھنے کھڑے ہوں تو مخالف ممبر کاغذ کے گولے ان کے اوپر پھینکیں یا اور زیادہ ناراض ہوں تو جوتا چپل پھینک دیں اور ان کے محافظ انہیں بچائیں۔ وہ صوبہ دار جواب میں اپنے ہی ریوالور سے دو چار ممبروں کو سابق بنا دیں گے۔

ہندوستان میں شاید کسی گورنر نے بے ایمانی، بدعنوانی اور اتنے بڑے بھرشٹاچار کے لئے اب تک کسی کو موقع نہیں دیا ہوگا اور یہ کام ان کے لئے ہورہا ہے جنہوں نے اپنے اقتدار کے ابتدائی مہینے میں کارگل میں ہزاروں باوردی فوجیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں آپ کو بھرشٹاچار مکت بھارت دوں گا اور انہوں نے ویسے ہی زندہ باد کے نعرے لگائے تھے جیسے چار برس کے بعد 15  مئی کی رات کو انہوں نے جب 104  سیٹوں کو ملنے کے بعد بھی فتح کہا اور کرناٹک کے کارکنوں اور ووٹروں کا شکریہ ادا کیا ارو اس بات کا بھی شکریہ ادا کیا کہ وہ کنڑ زبان یا انگریزی کے بجائے ہندی میں بولتے رہے اور کرناٹک والوں نے سمجھ لیا اور ووٹ دیا تو مودی مودی مودی کے نعرے بھی انعام میں ان کو ملے۔

کرناٹک کے الیکشن کے آخری دنوں میں مودی جی نے محسوس کرلیا تھا کہ آگے اندھیرا ہے۔ انہوں نے اپنا لہجہ انتہائی تلخ کردیا تھا چک منگلور اور کولا میں انہوں نے راہل گاندھی پر الزام لگایا کہ ان کو تکبر ہوگیا ہے اور اب انہیں صرف وزیراعظم کی کرسی نظر آرہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ راہل نے اپنی پارٹی کا سب سے بڑا عہدہ سنبھالنے کے بعد نئے کلچر کا آغاز کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ بار بار جھوٹ بولو زور سے جھوٹ بولو جتنا ہوسکے اتنا جھوٹ بولو۔ اور آج پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ نریندر مودی 104  سیٹیں جیتنے کے بعد اسے فتح کہہ رہے ہیں جو جھوٹ ہے اپنے آدمی کو وزیراعلیٰ بنانے کے لئے گورنر کے پاس بھیج رہے ہیں اور اس سے کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس اکثریت ہے جو جھوٹ ہے اور امت شاہ اس فلم کے ڈائرکٹر ہیں اور دوسرے کابینی وزیر اس جھوٹ کے داہنے بائیں لگے ہیں۔

کرناٹک میں مودی جی نے 21 ریلیاں کیں دھوپ اور گرمی میں پانی کی طرح پسینہ بہایا انتہا یہ ہے کہ چہرہ کا رنگ بھی میلا کرلیا اور اپنی تقریروں میں وکاس کے موضوع کے بجائے صرف نہرو خاندان کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے راہل گاندھی کے بارے میں کہا کہ سونے کا چمچہ منھ میں لے کر پیدا ہونے والے راہل کو چاہئے کہ وہ کیمرہ لے کر غریب کے گھر جائیں اور دیکھیں کہ غریب بیت الخلا کے بغیر کیسے رہتے ہیں۔ انہوں نے ہر جگہ راہل کو نامدار اور اپنے کو کامدار بتایا۔ اور یہ حقیقت ہے کہ وہ اتنے بڑے کامدار ہیں کہ ہارنے کے بعد ہار کو تسلیم نہیں کرتے اسے بے ایمانی کے ذریعہ جیت میں بدلتے ہیں اور یہی ان کی کامداری ہے۔ حیرت ہے کہ ملک اور بی جے پی کے لوگ اتنی بڑی بے ایمانی اور دن کے وقت سب کے سامنے لوٹنے کی اس واردات کو دیکھ رہے ہیں اور اپنے گالوں پر چپت مارتے ہوئے اور توبہ توبہ کرتے ہوئے پارٹی چھوڑکر باہر نہیں آتے۔

اُترپردیش اور گجرات کے الیکشن کے وقت تک پنجاب نیشنل بینک اور دوسرے بینکوں سے ایک مودی کے ہاتھوں 22  ہزار کروڑ کا نقصان سامنے نہیں آیا تھا اس وقت انہوں نے جو انداز تقریروں میں اپنایا وہ ان کی فطرت تھی لیکن اتنے بڑے حادثہ کے بعد اور جو یہ دولت لے کر بھاگا اس سے تعلق ظاہر ہونے کے بعد خیال تھا کہ اب مودی جی اپنا انداز بدل دیں گے۔ لیکن یہ اپنے دل کی بات ہے کہ ہم جیسوں کو شرم آتی ہے جب وہ ننگے سر آدھی آستین کا کرتہ پہنے بے ضرورت گلا پھاڑ رہے ہوں اور اپنے اور اپنی پارٹی والوں کے جھوٹ کو نظر انداز کرکے دوسرے کو جھوٹا کہہ رہے ہوں۔ یہ حالت اس وقت اور زیادہ شرم ناک محسوس ہوتی ہے جب وہ خود یہ محسوس کررہے ہوں کہ وہ ہار رہے ہیں اور دوسرے کو کہیں کہ وہ اپنی یقینی شکست کو دیکھتے ہوئے ہار کا بہانہ تلاش کرنے میں مصروف ہوگئے ہیں اور وہ مشین ای وی ایم کو قصوروار بتانے کی بات سوچ رہے ہیں۔

وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ میں لوک سبھا (2014)  کے جلسوں کے مقابلہ میں زیادہ ہجوم دیکھ کر جذباتی ہوگیا ہوں۔ یہ ان کی خاص ادا ہے کہ جہاں جاتے ہیں ان کا یہ جملہ ضرور ان کے منھ سے نکلتا ہے میں نے دہلی میں سنا تھا کہ بی جے پی کی ہوا چل رہی ہے لیکن یہاں آکر دیکھا تو آندھی نظر آئی۔ وہ اپنی شان میں نعرے سننے کے شوق میں حاضرین جلسہ کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں تو جواب میں مودی مودی مودی انہیں سننے کو مل جاتاہے جس کے وہ بھوکے ہیں۔ دُکھ اس بات کا ہے کہ وہ اپنے ملک کے وزیراعظم ہیں اور اب سب کو معلوم ہوچکا ہے کہ وہ کیا ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔