نفرت آمیز سیاست ملک کی خوشحالی میں رکاوٹ 

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

وطن عزیز میں اقلیتوں خصوصا مسلمانوں کی حصہ داری تعلیم، سیاست اور ملک کے دیگر فعال ومتحرک اوربنیادی شعبوں میں حد درجہ تشویشناک ہے اس کی من جملہ وجوہات میں سے ایک اہم وجہ یہ ہیکہ مسلمانوں نے ابھی تک اپنی قیادت اور مرکزئیت کی اہمیت وافادیت کو نہیں سمجھا اور نہ ہی مسلمانوں کی کوئی ایسی ملی یا سیاسی تنظیم  ہے جو ملت کی صحیح معنوں میں ترجمانی کر سکے، جن جماعتوں کو اپنا مسیحا جانا انہوں نے بڑی ہوشیاری سے ملک کی دوسری اکثریت مسلمانوں کا استعمال تو کیا مگر انکے دکھ درد کا مداوا  نہیں کیا، بلکہ سچائی یہ ہیکہ مسلمانوں کی یکجائیت اور  مضبوط ملی قیادت نہ ہونے کا فائدہ ملک کی تقریبا تمام سیاسی جماعتوں نے اٹھا یا ہے اور مزید اٹھاتی رہینگی، اس لئے سب سے بڑا قصور خود اپنا ہیکہ آج تک ہم ملی قیادت سے محروم ہیں، اس بارے میں انتہائی سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔

وہیں یہ بھی حقیقت ہیکہ آزادی کے بعد سے اب تک سیاسی جماعتوں نے مسلم اقلیت کو صرف اپنے مفاد یعنی ووٹ کے لئے استعمال کیا ہے۔ طرفہ تماشہ یہ ہیکہ  بعض سیاسی جماعتوں نے تو اکثریت کا خوف دکھاکر متعدد بار ملک میں اپنا سیاسی تسلط جمایا ہے مگر انہیں بدلہ میں   کچھ بھی نہیں دیا ہے۔ یہی کام اب حکمراں جماعت کے افراد  کررہے ہیں، فرق صرف اتنا ہیکہ یہا ں مسلمانوں کا خوف دکھاکر ملک کی ہندو اکثریت کو پوری طرح اپنی طرف مائل کرنے کی سعی جاری ہے اور  بہت حد تک فرقہ فرست طاقتیں اپنے مشن میں  کامیاب نظر آرہی ہیں، اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ بی جے پی نے بھی ابھی تک بدلہ میں ہندؤں کو کچھ بھی نہیں دیا ہے، ہاں ملک میں نفرت، تعصب اور مذہبی منافرت کا کافی حد تک گزشتہ برسوں میں اضافہ ہوا ہے، اس کی واضح مثال یہ ہیکہ ملک کی یکجہتی اور بھائی چارگی کے انمنٹ نقوش کو مٹانے کے لئے آئے دن ملک کے طول و عرض سے نفرت آمیز بیانات اور مسلم اقلیت کو زدو کوب، سب و شتم اور ظلم و عدوان سے دوچار کرنے کی خبریں موصول ہوتی رہی ہیں۔

گزشتہ دنوں بی جے پی کے سابق راجیہ سبھا ممبر اور رام جنم بھومی نیاس کے سینئر رکن ڈاکٹر ویدانتی نے ایک بار پھر متنازع بیان دیکر سیاسی و مذہبی حلقوں میں بیچینی بڑھادی ہے، انہوں نے ایودھیا میں ایک پروگرام کے دوران دھمکی آمیز لفظوں میں میں کہا کہ” جس طرح اچانک ہم نے بابری مسجد منھدم کرادی تھی اسی طرح مندر کی تعمیر بھی شروع کرسکتے ہیں اسی پر بس نہیں بلکہ عدالت عظمی کی توہیں کرتے ہوئے کہا کہ مندر کی تعمیر کرانے کے لئے عدالت کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے”   جو اپنے آپ میں انتہائی شرمناک حرکت ہے، جبکہ یہ سب جانتے ہیں ہیں کہ بابری مسجد کا مقدمہ عدالت عظمی میں زیر سماعت ہے اس کا جو بھی فیصلہ ہو گا ملک کے ہر باشندے کو سر تسلیم خم منظورہوگا البتہ ایسے متعصب افراد کا اس طرح کا متنازع بیان دینا ملک کی بقاؤ سالمیت کے لئے ٹھیک نہیں ہے، بی جے پی کے نیتاؤں کی اس طرح کی بیان  بازی کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے جب سے بی جے پی نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ہے تب سے پیہم متنازع اور اشتعال انگیز باتوں کا سلسلہ جاری ہے ، جس کی وجہ سے ملک میں نفرت کا ماحول پیدا ہوتا ہے اور امن وامان کی راہ بھی مخدوش و مجروح ہوجاتی ہے، یہاں یہ بتانا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ  اس طرح کے بیان دیکر حکمراں جماعت  2019 کے لئے ماحول ساز گار کررہی ہے اس وقت مودی حکومت کے پاس  عوام کو رجھانے کے لئے کوئی بنیادی اور مؤثر ذریعہ نہیں ہے اس لئے اگر اقتدار میں واپس آنا ہے تو ہندوستانی عوام کے مابین مذہبی کارڈ کھیلنا ضروری ہے، بابری مسجد کے مسئلہ کو بنیاد بناکر حکمراں جماعت کو اقتدار ملا ہے اور اسی کی آڑ میں پھر سیاسی فائدہ حاسل کرنے کی پالیسی اپنانا شروع کردی ہے۔

اگر حکومت کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں اقتصادی پالیسی کو زبردست نقصان ہوا ہے، اقلیتوں اور دلتوں کا مسلسل استحصال کیا جارہا ہے، ملک کے  جمہوری نظام پر خطرات کے بادل منڈلارہے ہیں، اس کے علاوہ  کاشتکار اور چھوٹے تاجر ماتم کناں ہیں، مہنگائی آسمان چھورہی ہے غربت اور بے روزگاری کی شرح میں لگاتار اضافہ ہورہا ہے، عوام کا پیسہ لوٹ کر بڑے بڑےسرمایہ کار فرار ہورہے ہیں اور حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، ان حالات کے تناظر میں کہاجاسکتا ہے کہ بی جے پی کے پاس عوام کے درمیان جاکر ووٹ مانگنے کے لئے کوئی وجہ نہیں رہجاتی ہے اس لئے ہندو مسلم منافرت کا سیاسی حربہ استعمال کرنا بی جے کی مجبوری ہے اس کے لئے چاہے عدالت کی توہین ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ اگر ملک کی جمہوری اور آئینی قدروں کی حفاظت کرنی یے تو ہندوستانی سماج کو غور کرنا ہوگا کہ ملک میں سماجی ہم آہنگی اور ہندومسلم اتحاد کا اصل دشمن کون ہے، نیز ایسے عناصر کے منفی عزائم، مخالفانہ روش اور دوغلی پالیسی کو سمجھ کر  قد غن لگانے کی ضرورت ہے، اگر بر وقت سماج دشمن عناصر کاعلاج نہ کیا گیا تو مزید ان کے حوصلے بلند ہونگے اور ملک کا  سماجی تانا بانا متاثر ہوجائے گا، اس کا خمیازہ نہ صرف موجودہ سماج کو اٹھانا پڑیگا بلکہ آنے والی نسلیں  بھی اس کا نقصان برداشت کرنے کے قابل نہیں ہوسکینگی، سیاسی قائد  اچھی طرح جانتے ہیں کہ عوام کی کب کونسی نبض پکڑ کر مشتعل کرنا ہے اور ان کا ووٹ حاصل کر کے اقتدار تک پہنچنا ہے، ظاہر ہے اب الیکش کا معاملہ گرما رہا ہے تمام سیاسی جماعتوں نے اس کے لئے تقریبا کمر کس لی ہے، ادھر سیکولر اتحا د  حکمراں جماعت کو دھول چٹانے کی تیاری میں ہے، اس لئے ایسے نازک وقت میں حکمراں جماعت کو رام مندر کی یاد آنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔

افسوسناک بات یہ ہیکہ ہندوستان جیسے مقدس جمہوری نظام کی آن بان شان پرکچھ لوگوں کی نگاہ بد مرکوز ہے اور ہندوستانی سماج کی صدیوں پرانی تہذیب بھائی چارگی، قومی سلامتی، گنگا جمنی تہذیب اور قومی اتحاد جیسی تابناک روایات کو مسمار کرنے پر تلے ہوئےہیں، جبکہ انہیں اس بات کا دھیان رکھنا چاہئے ہمیشہ سے  ملک کا امتیاز یہی ہے کہ یہاں تمام انسان باہم ملکر پیار و محبت سے رہتے رہے ہیں، انیکتا میں ایکتا کی بنیاد پر پوری دنیا میں ہندوستان کی الگ اور نمایاں پہچان  ہے، ہندوستانی عوام کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ الیکش کے وقت ہی ایسے مدعے کیوں اٹھائے جاتے ہیں جو انسانی برادری کے مابین نفرت کی دیوار بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں  اور باہم دوریاں پیدا کردیتے ہیں، ایسے پرآشوب ماحول میں ہر ہندوستا نی کی ذمہداری بنتی ہے کہ وہ ملک میں امن، رواداری، انصاف، مساوات اور عدم تفریق کے پیغام کو عام کرے، وہیں سماج دشمن عناصر کی نفرت آمیز اور شدت پسند رویوں کی چال کو اپنی مٹھاس اور محبت کی زبان سے دبانے کا کام کیاجائے تاکہ کوئی سر پھرا مذہب اور ذات پات کے نام پر ملک کی عوام کو تقسیم کرنے کی ہمت نہ جٹا سکے، ہم ہندوستان کی خوبصورتی کو جاننا چاہیں تو یہ کہنا درست ہے کہ  ہندوستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس میں متعدد مذاہب کے علمبردار، مختلف زبانو ں کے بولنے والے، جداگانہ  تہذیبوں کے رکھوالے موجود ہیں نیز ہندوستا ن متنوع برادریوں سے معمور  ہے، تمام افکار و نظریات کے حاملین کی قدر کرنا ہر ہندوستانی شہری پر واجب ہے ، بڑے دکھ کے ساتھ عرض کرنا پڑ رہاہے کہ حکمراں جماعت نے سب کے ساتھ اور سب کے وکاس کا جو نعرہ دیا تھا وہ اب پورے طور پر جملہ ثابت ہورہا ہے گزشتہ چار برسوں کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ فرقہ وارانہ فسادات کے علاوہ کتنے بے قصور مسلمانوں کو گائے کے تحفظ کے نام پر انتہائی بے رحمی سے قتل کرڈالا اخلاق سے لیکر سمیع الدین تک ایک طویل فہرست ہے یقینا مذکورہ افراد کا قتل صرف اس لئے کیا گیا کہ ان کا تعلق مسلم کمیونٹی سے تھا، اس کے علاوہ مسلم طبقہ کو مسلسل مشکوک نگاہوں سے دیکھنے اور ان پر ظلم کرنے کا سلسلہ جاری ہے ہاں طریقہ اور زاویہ بدلتے رہے ہیں مگر زیادتی اور ناانصافی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے، اس کا سیدھا مطلب یہ ہیکہ ان  واردات سے   حکمراں جماعت کو  سیاسی  فائدہ حاصل ہوتا ہے۔

مضحکہ خیز بات یہ ہیکہ حکمراں جماعت جن وعدوں اور دعووں کے بل بوتے اقتدار تک پہنچی ہے ابھی تک ان کی تکمیل نہیں ہو پائی ہے جبکہ کسی حکومت کے کارناموں کا اندازہ لگانے کے لئے چار سال کا وقت بہت ہوتا ہے اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا قطعی غلط نہیں ہے کہ مستقبل میں بھی حکمراں جماعت کی کار کردگی ملک کی ترقی کے لئے بہتر ثابت نہیں ہوسکتی ہے اس لئے عوام کو اپنے طور پر انتہائی بیدار ہونے کی سخت ضرورت تاکہ ملک کی عوام خوشحال زندگی بسر کرسکے اگر عوام  حکمراں جماعت کے   پر فریب  اور مسحور کن نعروں میں الجھی رہی تو کچھ بھی ہاتھ آنے والا نہیں ہے۔ اس بات کو  سمجھنے بھی کی  سخت ضرورت ہے کہ عوامی خوشحالی اور ملکی ترقی اقتدار میں بیٹھے لوگوں  کا مقصد نہیں ہے اور نہ ہی ملک کے سیکولر نظام سے کوئی دلچسپی ہے اس لئے عام انتخابات سے قبل عوام کو انتہائی تسلی سے فیصلہ کرنا ہوگا ورنہ کہنا پڑیگا لمحوں نے خطا کی صدیوں نے سزا پائی ۔ موجودہ صورت حال سے پتہ چلتا ہیکہ ملک میں مسلم طبقہ انتہائی خوف و ہراس میں جی رہا ہے، حتی کہ اب تو  مسلم اقلیت کو اپنے مذہب، تہذیب، کلچر تعلیمی اداروں  اور جان کی حفاظت کا بھی خدشہ لاحق ہے ، مسلمانوں  کی پسماندگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اگر تعلیم کے مسئلہ کو اجاگر کیا جائے اور سچر کمیٹی کی سفارشات کا جائزہ لیا جائے  تو معلوم ہوگا کہ مسلمان ملک کے تمام باشندوں  سے کتنے   پیچھے ہیں، اس کے باوجود مسلمانوں کے اداروں کو نشانہ پر رکھا جاتا ہے حالیہ معاملہ یہ سامنے آیا کہ یوپی کے سربراہ یوگی آدتیہ ناتھ نے ایک نیا شگوفہ چھوڑ کر سیاست کو نیاروپ دینے کی کوشش کی ہے  علیگڑہ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ مہیں دلتوں کو رزرویشن دیا جائے جس طرح بنارس ہندو یونیورسٹی میں دیا جاتا ہے اس متنازع بیان کے جہاں دیگر کئی سیاسی مطلب نکالے جا سکتے ہیں وہیں اس کا ایک واضح مطلب یہ بھی ہیکہ ملک میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دلتوں پر بھی  تابڑ توڑ مظالم کئے جارہے ہیں حتی کہ اخبارات کی اطلاع کے مطابق بعض مقامات پر دلتوں نے اپنا مذہب تک تبدیل کرلیا ہے جس کی وجہ سے دلت موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے برہم ہیں اس لئے دلتوں کو خوش کرنے کیلئے یہ حربہ استعمال کیا جارہا ہے۔

دوسری اہم وجہ یہ بھی ہیکہ کہ ملکی سطح پر دلتوں اور مسلمانوں کے اتحاد کی بات چل رہی ہے اس لئے بی جے پی ان دونوں طبقوں کو آمنے سامنے کرکے اپنا سیاسی داؤ کھیلنے کی جگاڑ میں ہے، غور کرنے کی بات یہ ہے کہ دلتوں کے رزرویشن کی یاد آنا وہ بھی اس وقت جب ملک میں سیاست اپنے آخری پائدان پر کھڑی ہے اس کا کیا مطلب اخذ کیا جائے؟  اگر حکومت دلتوں اور دیگر محنت کش، مزدوروں کے تئیں اتنی ہمدرد ہے تو ملک کے دیگر شعبوں میں انہیں حصہ داری دے نیز آئے دن ان پر ہورہے مظالم کا مضبوطی سے سدباب کرے، آخر میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ حکمراں جماعت کے شگوفوں اور جملوں کی سچائی اور حقیقت کو  جاننا ہوگا کیوں کہ  ملک میں خوشحالی صرف اچھی  تقریروں سے نہیں آتی ہے بلکہ ملک کی ترقی کے لئے زمینی سطح پر عمل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

آج دنیا میں جو ممالک خوشحال ہیں وہ صرف باتوں سے نہیں ہے بلکہ ان کی ترقی کے لئے بلا بھید بھاؤ کے جدو جہد کی گئی ہے اگر یم ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں مل جھل کر عمل کرنا ہو گا وہیں باہم احترام، عزت نفس اور تحفظ نفس کا بھی پورا پورا خیال رکھنے کی ضرورت ہے، اسی کے ساتھ ملک کی فضا کو بد عنوانی، بدامنی، اور سماجی تفریق، فرقہ پرست طاقتوں کی تخریب کاری  سے بھی بچانے کی ضرورت ہے، تبھی جاکر نفرت آمیز سیاست کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا، آج نفرت آمیز سیاست نے سماجی تعاون اور ہم آہنگی کے تصور کو متاثر کرڈالا ہے، بنا بریں سماج کے رشتوں کو مضبوط کرنے اور آپسی خلفشار کو مٹانے کی سخت ضروت ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔