نکاحِِ حلالہ کا حیلہ اور مودی حکومت کی حکمت عملی

سید منصور آغا

گزشتہ پیر(2؍جولائی)سپریم کورٹ میں جیسے ہی نکاح حلالہ کی فائل کھلی، یہ خبرپھرآئی کہ عدالت میں مودی سرکار ثمینہ بیگم اوردیگرمدعیان کے اس موقف کی تائید کرے گی کہ نکاح حلالہ اور کثرت ازدواج غیرآئینی ہیں، ان پر روک لگائی جانی چاہئے۔ اس معاملے کی کئی پہلو ہیں جن سے باخبررہنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً قانونی پہلو، جو سپریم کورٹ کے زیرغورہے۔ سماجی اورشرعی پہلو، جن پر ہماری توجہ درکارہے۔اس کاایک پہلو سیاسی بھی ہے، جو سب سے خطرناک ہے۔ ہمیں جذباتی باتیں کرنے کے بجائے ہرپہلو پرسنجیدگی سے غوروفکر کرکے اپنی حکمت عملی طے کرنی چاہئے جس سے نہ تو شریعت پر کوئی آنچ آئے اورنہ ہم ہم سیاسی کھیل میں فٹ بال کی گیند بن جائیں۔

قانونی پہلو

سب سے پہلے مختصراًقانونی پہلو۔ ہمارے آئین (دفعہ 25)ضمیر کی اورمذہب کی آزادی دیتا ہے اوراس آزادی کی گارنٹی بھی دیتا ہے۔ لیکن وہ تمام افعال جوعام طورسے  مذہبی مراسم کے طورپر اداکئے جاتے ہیں، اس تحفظ کے دائرے میں نہیں آتے۔یہ معاملہ تمام مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ یکساں ہیں۔ ہمارے ساتھ کوئی تفریق نہیں برتی جاتی، جس کی مثالیں موجود ہیں۔ کون سے افعال تحفظ کے تحت آتے ہیں اورکون سے نہیں اس کی تفصیل یوں ہے۔

قانون شریعت کے تحت ہمارے مذہبی اعمال کے دوزمرے ہیں۔ اولاً عبادات اوردوم معاملات۔ ان کوبھی الگ زمروں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ مثلاً قرآن اورسنت رسول ﷺ میں کچھ چیزیں فرض  ہیں یا واجب ہیں۔ باقی تمام یاتوسنت و مستحب ہیں یا مباح ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں ایک ممتازماہر قانون نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے صرف وہ اعمال آئینی تحفظ کے دائرے میں آتے ہیں جو قرآن اورسنت کی رو سے فرض یا واجب ہیں، یا جن کو کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ لیکن مباحات لازما ًاس دائرے میں نہیں آتے، خصوصاً وہ مباحات جن کا استعمال غلط طریقے سے کئے جانے کے سبب ناپسندیدہ ہوگئے  اور جو عمل  خود علمائے اسلام کے نزدیک ناپسندیدہ  اور بدعی قرارپائے، ان کے لئے   آئینی تحفظ کادروازہ بند ہے۔اب جب کوئی معاملہ عدالت کے سامنے جاتا ہے توبنیادی طورسے یہی دیکھا جاتا ہے کہ قرآن اورسنت سے وہ عمل ثابت ہے یا نہیں ؟ اگرثابت ہے تو تحفظ کا جواز موجود ہے۔ عدالت کا کام یہہے کہ کسی عمل کو، جس کو ہم اپنے پرسنل لاء کا حصہ قراردیتے ہیں، اس کی حیثیت متعین کرے۔ ایسا دیگرمذاہب کے معاملے میں بھی ہوا ہے۔ چنانچہ تین طلاق کیس میں سپریم کورٹ نے قرآن میں مذکوراسلامی طریقۂ طلاق کو تفصیلکے ساتھ بیان کیا ہے اورکہا ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق قرآنی طریقہ کار کی روح کومجروح کرتی ہے۔اس پر فقہا ء کی رایوں میں اختلاف ہے۔ چنانچہ مسلمان مرد کے طلاق کے اختیار کو چھوئے بغیر صرف تین طلاق کے طریقہ کو غیرقانونی قراردیدیا گیا کہ یکمشت تین طلاق شریعت کا ایسا حصہ نہیں جس کو ترک کردینے سے طلاق کے اختیارمیں کوئی نقص واقع ہوگا۔

اب امکان یہ ہے کہ غیرمشروط کثرت ازدواج، جس میں سابق بیوی کی حق تلفی اور مظلومیت عموماً شامل ہوتی ہے، قانون کی زد میں آئے گی۔جہاں تک حلالہ کا تعلق تو کسی مطلقہ خاتون کے اس حق کوعدالت تلف نہیں کرسکتی کہ وہ دوسرا نکاح کرلے۔ خصوصاً ایسی صورت میں جب کہ سپریم کورٹ بغیرنکاح وشادی عورت مرد کے ساتھ رہنے (live in ralation-ship) کو قانونی جواز دے چکی ہے۔چنانچہ طلاق کے بعد خاتون نے جس مرد سے شادی کی ہے  کچھ عرصہ بعد اگر قرآن میں مذکورطریقے سے اس سے طلاق ہوجاتی ہے یاشوہر فوت ہوجاتا ہے تواس عورت کو دوبارہ سابق شوہر سے نکاح کو بھی نہیں روکا جاسکتا۔ البتہ یہ جو مذموم طریقہ اختیارکیا جاتا ہے کہ ایک رات کے لئے عورت کو دوسرے مرد کے حوالے کردیا جائے اور اس کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرکے اگلے دن چھوڑ دے، جسم فروشی کے زمرے میں شامل کرکے قانون کی زد میں آسکتا ہے۔

سیاسی پہلو

ہرچند کہ سپریم کورٹ نے متعلقہ عرضیوں پر فوری طورسے سماعت سے انکارکردیا ہے مگران تمام عرضی دعووں کو جو نکاح حلالہ اور کثرت ازدواج سے متعلق ہیں، پانچ رکنی آئینی بنچ کے سپردکرنے کی گزارش پر غورکرنے سے اتفاق کیا ہے۔ لیکن سیاسی طوفان کھڑاکرنے کے لئے اتناہی کافی ہے کہ میڈیا میں خبرآگئی۔ آئندہ ایک سال میں کئی ریاستی اسمبلیوں اورلوک سبھاکے چناؤ ہونے والے ہیں۔ بھاجپا سرکاریں اپنی ناقص کارکردگی، غلط پالیسیوں اوروعدہ خلافیوں کی بدولت نرغے میں ہیں، اس لئے وہ اس معاملہ کو اسی طرح سیاسی حربہ کے طورپر استعمال کریں گی جس طرح سابق میں تین طلاق کو کیا گیا۔ اب یہ بات ہمارے ارباب حل وعقد اورسوشل میڈیا پرسرگرم افرادکی صوابدید پر ہے کہ وہ چالاک شکاری کے بچھائے ہوئے سیاسی جال میں پھنس کراس کی مراد کو پوری ہونے دیتے ہیں، جیسا کہ تین طلاق کے معاملہ میں ہوا، یا حکمت ودانائی سے کام لے لراس کا ناکام کردیتے ہیں۔

ہمیں اس حقیقت کو نمایاں کرنے کی ضرورت ہے کہ اگرچہ’ نفاذ شریعت ایکٹ 1937‘کے تحت  ( جس کو مسلم پرسنل لاء کہتے ہیں ) اگرچہ مسلمان ایک سے زیادہ بیوی رکھ سکتا ہے اور 1955 کے ہندومیرج ایکٹ کے تحت ایک بیوی کی موجودگی میں کسی ہندوکودوسری بیوی رکھنا قانوناً  جرمہے،مگراس کے باوجود ہندستانی مسلمانوں کے مقابلے یہاں کے ہندوؤں میں ایک سے زیادہ بیوی رکھنے کا تناسب کہیں زیادہ ہے۔آخری دستیاب سرکاری اعداد و شمار (مردم شماری 1962) کے مطابق ایک سے زایدبیویاں رکھنے کا چلن سب سے زیادہ (15.25 فیصد) آدی واسیوں میں ہے جوہندوہی شمارہوتے ہیں۔ یہ تناسب دیگر ہندوؤں میں 5.8فیصد ہے۔ ان دونوں کا اوسط ہوا، 10.54فیصد۔ جب کہ مسلمانوں میں صرف 5.78 فیصد ہے۔ بودھوں میں بھی اس سے زیادہ 7.9فیصدہے۔ گوا میں ہندوؤں کو دوسری شادی پر کوئی پابندی نہیں۔

اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ہندوؤں میں کثرت ازدواج کی شرح زیادہ ہے۔ اس کی ایک وجہ ہے آدی باسیوں میں کئی کئی بیویاں رکھنے اورکئی کئی آدی باسی عورتوں کا ایک مرد کے ساتھ آرام سے رہ لینے کا قدیم رواج۔ اس کے علاوہ  قانون میں ایسی کھڑکیاں کھول لی گئی ہیں کہ کوئی بھی ہندو اصل بیوی کی موجودگی میں دوسری عورت رکھ سکتا ہے۔جس کو ہندی میں ’رکھنی ‘ یا’ رکھیل‘ کہا جاتا تھامگراب ’اُپ پتنی‘،اور ’لیوان ریلشن ‘ کا مہذب نام دیدیاگیا ہے۔ اگرچہ وہ قانون کی نظر میں بیوی نہیں کہلائے گی مگرقانون اس کواور اس سے ہونے والے بچوں کو اصل بیوی اوراس کے بچوں کے برابرحق دیتا ہے۔جب کہ اسلا م بغیر نکاح کسی کو رکھ لینے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔

یہ بات عام معلوم ہے کہ ہندو راجہ مہاراجائوں اورسیٹھوں میں ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کا چلن تھا۔جس کا جتنا بڑاحرم اس کا اتنا ہی بڑارتبہ۔ اس دورمیں بھی بہت سی اہم شخصیات نے ایک سے زیادہ شادیاں کیں۔ معرف فلم اداکار دھرمیندرسنگھ کی ہیما مالنی سے یہ دوسری شادی ہے اور دونوں بھاجپا کے ٹکٹ پر لوک سبھاکے لئے چنے گئے۔ ملائم سنگھ یادو، رام ولاس پاسوان اوردگ وجے سنگھ کے نام بھی دوسری بیوی رکھنے والوں میں لئے جاتے ہیں۔ سکھوں میں بھی کثرت ازدواج کی شہادت ملتی ہے۔تاریخ میں گرو ارجن دیو، گرو ہرگوبند جی،گروہری رائے اورگروگوبند سنگھ جی کی ایک سے زیادہ بیویوں کا ذکر ملتا ہے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد ان کی  چتا کے ساتھ ان کی چار رانیوں اوران کے حرم کی سات خواتین کے ستی ہونے کا حوالہ بھی موجود ہے۔ اس سے یہ واضح ہے کثرت ازدواج کسی مخصوص مذہب یا فرقہ تک محدود نہیں، بلکہ اکثراقوام میں اس کا چلن ہے اورچلن فطری ہے۔بسااوقات ایک بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلا اگر بیوی لاولد ہے یا کسی ایسے مرض میں مبتلا ہے کہ وہ گھرگرہستی کو نہیں سنبھال سکتی وغیرہ۔ ایسی صورت میں بھی قانون کا یہ تقاضا جب تک پہلی مرنہ جائے یا طلاق نہ ہوجائے، دوسری شادی نہیں کرسکتا، انصاف کا خون ہے۔ ہمارامطالبہ یہ ہونا چاہئے کہ جب ہندودھرم اورسکھ دھرم اور روایات میں کثرت ازدواج جائز ہے توموجودہ قانون میں ترمیم کرکے بعض حالات میں دوسری شادی کی اجازت ہونی چاہئے، جس کی سفارش لاء کمیشن نے بھی کی تھی۔ لیکن ہمارا مزاج یہ ہوگیا کہ خود اپنی دفاع میں پڑجاتے ہیں اورحملہ کرنے والے کے کمزور پہلو کواجاگرنہیں کرتے۔ مگریہ کام بھی حکمت اورسلیقہ سے ہونا چاہئے۔ یہ بات واضح ہے  یہ محض سیاسی حربہ ہے کہ بھاجپا لیڈر ہندو عوام  کو مسلمانوں سے برگشتہ کرنے کے لئے چارچار شادیوں اوربہت سارے بچوں کا شورمچاتے رہتے ہیں۔ اس پروپگنڈے کا جواب ہوش مندی سے دیاجانا چاہئے۔

حلالہ

حلالہ کا جوطریقہ اخذ کیا گیا ہے وہ دراصل ایک نشست میں تین طلاق کو قطعی تسلیم کرنے اوراس کے بعد بیوی کو واپس لوٹانے کی تدبیر ہے۔جس عورت پر حلالہ کا دباؤہوتاہے، اس کے ضمیرپر کیاگرزتی ہوگی! عورت کوئی چلتی پھرتی بے حس واشنگ مشین نہیں کہ جوچاہے اس میں اپنے کپڑے دھو لے۔ اس کی عزت نفس کی حفاظت ہونی چاہئے۔ ایسے موقع پر کیا حرج ہے کہ ضدکو چھوڑ کردوسرے مسلک کی فقیہ کی رائے پر عمل کیا جائے؟ اصولاًبہت سے علماء کا رجحان اس طرف ہے،مگرپھر بھی رجوع کرنے میں سخت تردد ہے حالانکہ مفقودالخبرشوہر کے معاملہ رجوع کیا گیا ہے۔ افسوس یہ کہ تین طلاق کو شریعت کا لازمی حصہ قرار دینے کی جو مہم چلائی گئی، اس نے ایک طرف تو تین طلاق کی شناعت کو کم کردیا۔ جس کواللہ کے رسول نے سخت ناپسند فرمایا اس کی تائید میں زورلگادیا گیاجس سے حلالہ کی بے حیائی عوامی  بحث کا موضوع بحث گئی۔ اگرچہ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے سپریم کورٹ میں یکشمت تین طلاق کیس کی سماعت کے دوران مگربالکل آخری مرحلہ میں ایک مشاورتی اپیل بھی جاری کی اورملت کوطلاق سے بچنے اوربصورت مجبوری قرآن میں مذکورطریقے کو اختیارکرنے کی ترغیب دی گئی مگر یہ بہت تاخیرسے یہ ہوا۔ مقدمہ کی سماعت کے دوران اگرچہ کئی حلقوں سے یہ مشورہ آیا کہ سپریم کورٹ کے سامنے طلاق کے اسی طریقہ کی پیروی کی جائے جو قرآن میں مذکور ہے مگرایسا ہونہیں سکا۔ افسوس کہ، ’کارواں گزرگیا، ہم غباردیکھتے رہے۔‘

کثرت ازدواج

  جہاں تک چارتک شادی کی اجازت کا تعلق ہے توقرآن کی اسی آیت مبارکہ (نساء۔ ۴) میں یہ واضح ہدایت موجود ہے کہ ’’ اوراگرتم کو اندیشہ ہوکہ تم (دونوں بیویوں کے ساتھ) عدل نہیں کرسکوگے توایک ہی نکاح پراکتفا کروـ‘‘۔ لیکن جب ہم یہ اصرارکرتے ہیں کہ کثرت ازدواج کی قرآن اجازت دیتا ہے تواس شرط کو بھلا دیتے ہیں اوراکثرمعاملات میں پہلی بیوی کے ساتھ انصاف نہیں ہوتا بلکہ شدید ظلم ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں اگراجتماعی ہمدردی ظلم کرنے والے کے ساتھ ہوجائے اور مظلوم کی دادرسی نہ ہو توکیا انجام بخیر ہوجائے گا؟قرآن کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی اورارباب حل وعقد کے رویہ سے پہلی بیوی کے حقوق سے روگردانی کرنے والوں کی تائیدبیشک سخت تشویش کا باعث ہے۔مجھے اندیشہ ہے کہ یہ روش صاحبِ ایمان ہونے کی نشانی نہیں۔  سورہ البقرہ ( آیت ۸ تا۱۰)  میں جوبات کہی گئی ہے کہیں وہ ہم پر توصادق نہیں آرہی؟ فرمایا ’’اورلوگوں میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں، جو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ پراورآخرت کے دن پر، حالانکہ وہ ایمان والے نہیں ہیں۔ وہ اللہ کو اور مومنوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں، حالانکہ وہ صرف اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں مگران کو شعورنہیں۔ ان کے دلوں میں روگ ہے۔‘‘

 اللہ ہمیں اس روگ سے بچائے کہ قرآن کے حکم کے ایک حصہ سے توفائدہ اٹھالیں مگر اس کے ساتھ جوکھلی شرط ہے اس کو نظرانداز کردیں، تو یہ کس طرف اشارہ ہے؟ اللہ پر اورآخرت پر ایمان پختہ ہونے کا یا اس میں نقص کا؟کہیں ایسا تو نہیں ہوجائے گا کہ اپنی اس روش سے ہم اللہ کے رسول صلعم کو ہی اپنے خلاف گواہ بنالیں، جیسا کہ سورۃ فرقان (۳۰) میں وعید ہے: ’’اوررسول کہے گا ؛اے میرے رب، میری قوم نے اس قرآن کو قطعی نظرانداز کردیا۔‘‘ جان لیجئے اگرہم قرآن کے واضح احکامات اوررسول ؐ کی روشن سنت کو اپنے رویہ کا اس طرح حصہ بنالیں گے کہ ان کے الفاظ کے ساتھ ان کی روح بھی چلتی پھرتی نظرآئے، اور اگر مگر کر کے ان پر کسی اور کی رائے کو ترجیح نہیں دیں گے، تو بہت سے الزامات آج جو اسلام اورمسلمانوں پر لگتے ہیں ان کا خود بخود خاتمہ ہوجائے گا۔وما توفیقی الا باللہ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. شاہ عبدالوہاب کہتے ہیں

    محترم
    السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
    آپ نے بہت صحیح فرمایا.اللہ سے دعا ہے کہ ہمارے بڑوں کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت عطا کرے.

تبصرے بند ہیں۔