چار بڑی یونیورسٹیوں میں بھگوا طلبہ کی انجمن کو کراری شکست

عبدالعزیز

ملک میں بہت دنوں کے بعد ایک اچھی خبر سننے کو ملی کہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی، دہلی یونیورسٹی، گوہاٹی یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی کے کمیونسٹ اور کانگریس سے منسلک اور متاثر طلبہ یونین نے انتخاب میں زعفرانی طلبہ یونین کو کراری شکست دی ہے۔ 2013ء میں جب انہی یونیورسٹیوں میں آر ایس ایس کی طلبہ تنظیم اے بی وی پی (اکھِل بھارتیہ ودیارتھی پریشد) کی جیت ہوئی تھی تو بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے کہا تھا کہ بھاجپا اور آر ایس ایس کے وچار دھارا (نظریہ)  کی جیت ہوئی ہے۔ اب امیت شاہ کی زبان میں کہا جاسکتا ہے کہ بھگوا وچار دھارا (زعفرانی نظریہ) کی ہار ہوئی ہے۔

 مذکورہ یونیورسٹیوں میں خاص طور سے جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) اور دہلی یونیورسٹی میں تو اے بی وی پی کی طرف سے غنڈہ گردی اور بدمعاشی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی، ساتھ ہی حکومت کی مدد سے طلبا اور طالبات کو ہر طرح سے ستایا اور ہراساں کیا گیا۔ کنہیا کمار، عمر خالد اور دیگر طلبہ پر غداریِ وطن کاالزام عائد کیا گیا اور انھیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ جب کنہیا کمار پٹیالہ ہاؤس کورٹ میں حاضر ہورہے تھے تو بی جے پی کا کالی کوٹ والے (وکلاء) نے کنہیا کمار پر حملہ بول دیا۔ بعض ایسے بھی بی جے پی وکلاء نے بیان دیا کہ ان کا بس چلے تو جیل میں جاکر کنہیا کمار کو گولی سے اڑادیں۔ الغرض غیر سنگھی طلبہ کو ہر طرح سے ڈرایا دھمکایا ہی نہیں گیا بلکہ ان کا جینا حرام کر دیا گیا۔ ان سب کے باوجود کمیونسٹ اور سیکولر تنظیموں کے طلبا و طالبات اپنے موقف اور نظریہ پر ڈٹے رہے۔

کہا جاتا تھا کہ نریندر مودی وزیر اعظم ہونے کے بعد معمولی سے معمولی الیکشن میں مہم چلاتے ہیں، شاید وہ طلبہ کی انجمنوں کے انتخابات میں بھی نہ کود پڑیں۔ لوگوں کا قیاس صحیح ثابت ہوا۔ الیکشن سے پہلے حکومت نے زبردستی تمام تعلیمی اداروں کو سرکلر جاری کیا کہ سوامی ویویکا نند کی امریکہ میں 125 ویں برسی کے موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی تقریر کریں گے۔ سب طلبا و طالبات کو سننا ضروری ہوگا۔ اچھا ہوا کہ مودی جی کو اپنی اوقات معلوم ہوگئی کہ اب طلبہ اور نوجوانوں میں ان کی مقبولیت کتنی گھٹی یا بڑھی ہے۔

 معاملہ یہ ہے کہ تعلیم گاہوں کو اکھاڑہ یا قتل گاہ بنانے کی آر ایس ایس یا ان کے طلبہ تنظیم کی کوششوں کو عام طلبہ نے بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا۔دہلی کے ایک کالج میں جے این یو کے عمر خالد کی تقریر ہونے والی تھی۔ اس کالج میں اے بی وی پی کے ممبروں نے کالج کے طلبہ پر دھاوا بول دیا اور غنڈہ گردی کی حد کردی۔ تقریر ہونے نہیں دی۔ ان سب کا طلبا اور طالبات نے زبردست نوٹس لیا اور حکومت اور ان کے حامی طلبہ کی آمریت کو طلبا و طالبات نے نہ صرف ناپسند کیا بلکہ اپنے ووٹوں سے بتا دیا کہ اس طرح کی جارحانہ سیاست یا غنڈہ گردی نہ ملک کیلئے اچھی ہے اور نہ تعلیمی اداروں کیلئے بہتر ہے۔ افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ جو لڑکے اور لڑکیاں آر ایس ایس یا بھاجپا سے متاثر ہورہے ہیں ان کا رنگ ڈھنگ بالکل بدلا ہوا نظر آتا ہے۔ وہ اپنے بڑوں اور بزرگوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ۔ وہ تعلیم گاہ کو تعلیم گاہ نہیں بلکہ قتل گاہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں ۔ اکبر نے صحیح کہا تھا   ؎

یوں قتل سے بچوں کے بدنام نہ ہوتا …

افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی

آر ایس ایس کی فرعونیت اپنے حامی طلبہ کے کردار کو بگاڑ رہی ہے۔غور کرنا چاہئے کہ ایسے نوجوان یا طلبہ جب ڈگریاں لے کر حکومت کی مشنری میں کام کریں گے تو یا غیر سرکاری سیکٹر میں ملازمت کریں گے تو وہ کس طرح کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کریں گے؟ یہی ماحول آج جے این یو اور ڈی یو میں یا دیگر یونیورسٹیوں میں پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کانگریسی حکومت کے زمانے میں بھی بعض یونیورسٹیوں کا کم و بیش یہی حال رہا ہے کیونکہ اقتدار اور اختیار لوگوں کو خراب کر دیتا ہے۔ کانگریس کیونکہ فرقہ پرست جماعت نہیں تھی اور نہ ہے وہ کسی طرح اپنے حامی طلبہ کو سنبھالنے میں کامیاب ہوگئی اور کا نظریہ بھی جارحانہ نہیں ہے اور نہ تھا۔ بدقسمتی سے آر ایس ایس اور بھاجپا کا نظریہ جارحانہ ہے اور جب انھیں کرسی پر بیٹھنے کا موقع مل گیا تو ان کے اندر جارحیت کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی جس سے سارا ملک پریشان ہے۔ بھگوا پرتشدد ہجوم بھی جس کی جان لینا چاہتا ہے آسانی سے لے لیتا ہے۔

تعلیم گاہوں کی طلبہ تنظیموں کے انتخابات کے نتائج جو آئے ہیں اس سے آر ایس ایس اور بھاجپا کے ذمہ داروں کو سبق لینا چاہئے اور سمجھنا چاہئے کہ نمرودیت اور فرعونیت تمام لوگ پسند نہیں کرتے۔ دیر یا سویر اس کے خلاف کھڑے ہوجاتے ہیں اور پھر وقت کے فرعون کو غرق آب ہونا پڑتا ہے۔ بھاجپا کی حکومت خواہ مرکزی ہو یا ریاستی ہر محاذ پر ناکام ہے اور جو Non-issue کو مسائل بناکر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے اس سے بھی ملک کے عوام دیر یا سویر واقف ہوکر رہیں گے کیونکہ حکمراں جماعت کا کوئی وعدہ پورا نہیں ہورہا ہے۔ رام مندر کی تعمیر اور گائے کے تحفظ جیسے فرقہ وارانہ مسائل کو چھیڑ کر کب تک عوام کو گمراہ کرتے رہیں گے؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔