کشمیر سے لے کر کنیا کماری تک تشدّد، قتل، خون اور بربریّت:آخر ذمّہ دار کون؟

صفدرامام قادری

ہندی کے مشہور شاعر آلوک دھنوا کی ایک نہایت پُراثر نظم کا عنوان ’سفید رات‘ ہے جہاں شاعر نے ملک کے حالات کا نقشہ اِن لفظوں میں کھینچنا چاہا ہے: ’’لکھنؤ میں بہت کم بچا ہے لکھنؤ ؍ الہ آباد میں بہت کم الہ آباد ؍ کانپور اور بنارس اور پٹنہ اور علی گڑھ ؍ اب انھی شہروں میں ؍ کئی طرح کا تشدّد ؍ کئی طرح کے بازار ؍ کئی طرح کے سودائی ؍ ان کے اندر ، ان کے آس پاس؍ ان سے بہت دوربمبئی، حیدرآباد، امرتسر؍ اور شری نگر تک؍ تشدّد ؍ اور تشدّد کی تیاری؍ اور تشدّد کی طاقت ؍ بحث نہیں چل پاتی ؍ قتل ہوتے ہیں؍ پھر جو بحث چلتی ہے؍ اس کا نتیجہ بھی قتل ہوتا ہے ؍بھارت میں جنم لینے کا؍ میں بھی کوئی مطلب پانا چاہتا ہوں‘‘۔

نریندر مودی نے 2014ء کے انتخاب میں جس جارحانہ انداز سے انتخاب کی سرگرمیوں کو انجام تک پہنچایا اور ملک کو جس نتیجے تک پہنچایا ؛ انھی کالموں میں خاکسار نے شاہ سرخی کے ساتھ ساحر لدھیانوی کا مصرع پیش کیا تھا: مبارک کہہ نہیں سکتا مرا دل کانپ جاتا ہے۔ نتائج سلسلے وار انداز سے سامنے آتے جارہے ہیں۔ اب ہندو مسلمان کے نام پر فسادات انھیں زیادہ نہیں کرنے ہیں۔ جیسے جیسے صوبائی حکومتیں ان کے قبضے میں آرہی ہیں، عمومی انتظامیہ کے ذمہ دار ہونے کے ناطے وہ ایسے بدنامی کا ٹیکہ لگانے میں کیوں مشغول ہوں۔ اس لیے ملائم سنگھ اور اکھیلیش یادو کے دور میں اترپردیش میں فسادات کی جو سرگرمیاں تھیں، اس کے مقابلے اب زور گھٹا ہوا ہی معلوم ہوتا ہے۔

یہ سوچی سمجھی حکمتِ عملی ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر ہمارے اوسط دماغی درجۂ حرارت میں اگر دوچار ڈگری تب و تاب کا اضافہ کردیا جائے تو ملک میں انتشار پیدا کرنے کے لیے آر۔ایس۔ایس اور بھاجپا کے کارکنوں کی زیادہ ضرورت بھی نہیں، ان کے کام اپنے آپ دوسرے لوگ ہی انجام دے دیںگے۔ آپ دیکھتے جائیں، کشمیر تو پرانا روگ ہے اور اس کا واضح طور پر بین الاقوامی تناظر ہے ؛ اس لیے وہاں تو گرمیِ بازار کی کیفیت ہونی ہی ہے مگر کرناٹک اور تمل ناڈو جیسے معتدل اور نرم سیاسی علاقے میں جب رہ رہ کر زندگی کے معمولات درہم برہم ہونے لگیں تو یہ بات سمجھنے کی ہے کہ کہیں کوئی ایک جگہ بیٹھا ہوا اعتدال میں خلل ڈالنے اور امن میں پلیتہ مارنے کا کام مہارت کے ساتھ انجام دے رہا ہے۔

بہار ، یوپی تو یوں بھی اپنے عوامی درجۂ حرارت کی وجہ سے پورے سیاسی منظر نامے پر بدنام رہتے ہیںمگر جنھیں ترقی یافتہ اور روزی روٹی کے مسائل سے اوپر اٹھنے کے مواقع ملے وہاں کیا حالات ہیں؟ پنجاب، دلی اور مہاراشٹر میں سیاسی، سماجی حلقے میں نشہ خوری، زنا بالجبر، قتل اور گئورکچھا جیسے سوالات کچھ اس طرح سے اپنا روپ ظاہر کررہے ہیں جیسے ترقی یافتگی اور اطمینان کی زندگی کے نام پر غیر انسانی کاموں کا انھیں کچھ سرٹیفیکیٹ ہی دے دیا گیا ہو۔ لاقانونیت اور اپنے ہاتھ میں قانون لے کر خود سے فیصلہ کرلینا اس زمانے کی ایک خاص بات سامنے آرہی ہے۔ اسی سے اپنے آپ دماغی درجۂ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے۔ بارہویں اور بی۔اے۔ کے طلبا کے عشق و محبت کے قصے میں ان دنوں بڑی آسانی سے گولی، بندوق اور کنبے کا کنبہ قتل گاہ میں پہنچ جارہا ہے۔ کہاں محبت کے نرم اور نازک جذبے کی ڈور پکڑ کر نوجوان نفرت سے مقابلہ کرتے لیکن اخبار میں روز ایک دوسرے کی جان پر پِل پڑنے کے لیے ماحول سازی میں مبتلا ہیں۔

آلوک دھنوا کی نظم یوںتو دو دہائی قبل کی ہے لیکن سچا شاعر آنے والے وقت کی آواز پہچانتا ہے اور آسمان کی لکیروں کی زبان سمجھتا ہے۔ تشدّد کا یہ ماحول اگرچہ ایک دن میں نہیں بنا اور اسے بڑھانے میں سب سیاسی جماعتوں نے مقدور بھر شراکت کی۔ جب سنجیدہ مسئلوں پر بیٹھ کر خوش مزاجی کے ساتھ گفتگو نہیں ہوگی تو آخر ہزاروں ، لاکھوں مسئلے کیا بغیر تبادلۂ خیالات کے انجام تک پہنچ پائیںگے؟ لیکن جب سماج میں اقتدار اور اس کے جبر کا نشہ حاوی ہو تو کون کسے سمجھائے اور کتنی دور تک تشدّد کی ناہمواریوں اور سماجی یا قانونی نزاکت کے بارے میں اشتہار چسپاں کیا جائے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہندستان میں رہنے والا ہر شہری یہ سمجھنا چاہتا ہے کہ اس ملک میں واقعی آلوک دھنوا کی طرح اسے بھی اپنے رہنے اور ہونے کا واضح مطلب چاہیے۔

لالو پرساد یادو جب پہلی بار وزیراعلا ہوئے تو انھوںنے اپنے مخصوص سیاسی دبنگ زبان میں کہا تھا: میں بیس سال تک حکومت کروںگا۔ لالو یادو ، ان کی اہلیہ رابڑی دیوی اور اب ان کے صاحب زادے تیجسوی پرساد یادو مل کر بھی اس بیس برس کے اعداد و شمار مکمل نہ کرپائے۔ اسی زمانے میں مشہور صحافی کشن کالجئی نے اپنے کالم میں بجا طور پر یہ اعتراض کیا تھا کہ بیس برس راج کرنے کی بولی جمہوریت کی بولی نہیں ہوسکتی۔ مگر امت شاہ اور نریندر مودی نے مل کر تو اس تودۂ خاشاک میں آگ لگائی ہے جہاں آنے والے وقت میں کریدنے سے بھی کچھ نہیں ملے گا اور غالب کی زبان میں ہم ماتم کرتے ہوئے نظر آئیںگے: جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا۔

پورے ہندستان میں ناگپور اورگجرات کے کامیاب بھاجپائی تجربے نافذ کرنے کے لیے بھاجپا کی نئی حکمتِ عملی یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے حلقے میں نفرت کا ماحول پیدا کیا جائے۔ اترپردیش میں الگ الگ علاقوں میں جب ’لوجہاد‘ کے ذاتی معاملات کو سماجی رنگ دینے کی کوشش کی گئی تھی توایک کونے سے دوسرے کونے تک آگ بھڑکتی چلی گئی تھی۔ اسی کے قائد یوگی آدتیہ ناتھ آج وہاں وزیر اعلا کی کرسی پر وراج مان ہیں۔ گھریلو سوالوں کو گائوں محلے میں پھیلایا جائے اور پھر اسے سیاسی آگ میں کچھ اس طرح تپا کر واپس کیا جائے کہ ایک گھر نہیں سو اور ہزار گھر جل اٹھیں۔ یہ ایک ایسی حکمتِ عملی ہے جس نے بھاجپا کو قومی اور صوبائی حکومتیں طشت میں رکھ کر پیش کی ہے۔

کشمیر میں یا پانی کے سوال پر کرناٹک اور تمل ناڈو میں جو کھیل کھیلے گئے، بھارتیہ جنتا پارٹی کی چٹان کی طرح طاقت ور کہی جانے والی حکومت اسے سنبھالنے میں کہاں ناکام ہورہی ہے۔ جب حکومت کا اعلان یہ ہو کہ انصاف اور ترقی کی بنیاد پر ملک کو عالمی نقشے میں امتیازی مقام عطا کرنا ہے مگر ٹھیک اس سے الٹی چال چلنے کی باتیں سامنے آتی ہیں۔ وزیراعظم ہر ہفتے نئے ملک کا دورہ کرتے ہیں مگر ہفتے میں چار بار اپنے ملک میں اتحاد اور اپناپن کا خون دیکھنے کو ملتا ہے۔ بھاجپا کا ہر کارکن اقتدار کے نشے میں چور ظالمانہ اختیار اور آخرش سماجی انتشار کا قائد نظر آتا ہے۔ وہ جس انداز سے اپنے کاموں کو انجام دے رہا ہے، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ اپنے بڑے قائدین کی نگرانی اور اشارے کے بغیر ایسی حرکت کبھی بھی انجام نہیں دے سکتا تھا۔

کانگریس کے زمانے میں ہندومسلمان اور ہندستان پاکستان کے معاملات کے سہارے نفرت کی فصلیں شاداب کی جاتی تھیں۔ اب ان مستقل ایجنڈوں پر تو کوئی خاموشی اختیار کرنے سے رہا مگر اسے مزید استحکام کے لیے عمومی سماجی نفرت اور دماغ کی گرمی کو بڑھانے کے سوالوں کی ایجاد اصل خطرے کی گھنٹی ہے۔ اسی سے بس ، ٹرین اور سڑک ہر جگہ یہاں تک کہ فوج سے بھی جو شکایتیں آرہی ہیں، وہاں بھی اعتدال کی صاف صاف کمی نظرآتی ہے۔ نریندر مودی کی حکومت کا بنیادی مطمحِ نظر ہی یہی ہے کہ ہندستانی سماج سے اعتدال کی کیفیت کو جب تک ختم نہ کیا جائے اور دماغ اور دل میں تشدد کے شعلے نہ بھڑکیں تو اس ملک پر ہمیشہ کے لیے ان کا بول بالا قائم نہیں ہوسکتا ہے۔

پانچ برس کے لیے ایک بار وزیراعظم بن جانے سے ایسی طاقتوں کا دل نہیں بھرے گا۔ ان کا دل ایک رام مندر بنالینے سے بھی نہیں خوش ہوگا۔ ہندستان میں ساری صوبائی حکومتیں اور مرکزی حکومت اس وقت تک بھاجپا کو حاصل نہیں ہوسکتیں جب تک ہندوتو کے جبر سے ہندستانی رواداری اور جمہوریت کا ایک ایک تار نہ ٹوٹ جائے۔ بھاجپا اسی مقصدکے لیے سماجی سطح پر نفرت اور ظلم کے عمومی ماحول کو قائم کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ اب صرف ہندستان اور پاکستان یا کشمیر کے بہانے سیاست نہیں ہورہی ہے۔ بھاجپا نے واضح طور پر اپنا انداز بدلا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ گھر گھر میں اور ایک ایک نوجوان اور ناسمجھ بچے کے دماغ میں زہر اور نفرت کی چنگاریوں کو پیوست کیے بغیر ملک خوش گوار اور معتدل مزاج میں آگ نہیں لگائی جاسکتی۔

اسی لیے ہمارے دماغی درجۂ حرارت میں اضافہ کرنے کی ایک عمومی مہم الگ الگ ناموں سے بھاجپا نے شروع کردی ہے۔ وہ بحث کے موضوعات لاتے ہیں لیکن بحث نہیں کرنا چاہتے۔ وہ قانون کا سوال اٹھاتے ہیں مگر انھیں قانون سے کوئی غرض نہیں۔ انھیں ہندستان میں نفرت کی کھیتی کرنی ہے اور سماجی رواداری کو تہس نہس کردینا ہے۔ ایسے موقعے سے بھاجپا کے حلقۂ اثر سے باہر کے لوگوں کو ہوشیار ہوجانا چاہیے کیوںکہ سیکولر قوتوں کا ہی حقیقی امتحان ہے ۔ ان کے متحد ہوئے بغیر اس ملک کو بچاپانا ناممکن ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔