کیا مودی اپنا اور اپنی پارٹی کا چہرہ بدلنا چاہتے ہیں؟

گزشتہ دو روز سے کوزی کوڈ میں عوامی جلسہ کو خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے جو باتیں پاکستان اور مسلمانوں کے متعلق کہی ہیں ان سے تو بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنا اور اپنی پارٹی کا فرقہ پرستانہ اور فسطائیت کا چہرہ بدلنے کے موڈ میں ہیں۔ آر ایس ایس اوربی جے پی کے سب سے قد آور لیڈر بن کر مودی کے ابھرنے کی سب سے بڑی وجہ تھی کہ وہ مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف سب سے زہریلی اور نفرت انگیز باتیں کیا کرتے تھے۔ جو لوگ ہندستانی مسلمانوں پر پاکستان کے تعلق سے حملے کرتے تھے ان میں مودی کا نام سر فہرست تھا۔ مودی جیسے لوگ مسلمان اور پاکستان کو دو چیز سمجھنے سے قاصر تھے۔ مسلمان جو دور دور سے پاکستان سے نہ کوئی تعلق رکھتا تھا نہ رکھتا ہے اور نہ پاکستان جیسے ملک سے اس کی کسی قسم کی امیدیں وابستہ تھیں اور نہ ہیں، ا س کے باوجود اسے پاکستان کے نام پر ہر قسم کی اذیتیں دی جاتی رہی ہیں جن کا سلسلہ آج تک بند نہیں ہوا ہے۔ آج بھی شک و شبہ کی بنیاد پر ہزاروں مسلم نوجوان پس زنداں ہیں اور سال دو سال نہیں بلکہ بیس پچیس سال گزر جاتے ہیں اور بے قصور سزائیں اور انتہائی ذلت اور مشقت کی زندگی جیلوں میں گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ کانگریسی راج میں ہوتا رہا ہے اور اب تک یہ سلسلہ بند نہیں ہوا ہے۔ کانگریسی حکومتوں نے بی جے پی اور آر ایس ایس کے ڈر اور خوف سے مسلمانوں پر ہر طرح کے مظالم روا رکھا تھا اور بی جے پی کا حال یہ تھا کہ ایک طرف کانگریس کو مسلمانوں کو بے جا مدد اور خوشامد کرنے کا الزام عائد کرتی تھی اور دوسری طرف کانگریس کو مسلمانوں کو بیوقوف بنانے کی بات بھی کرتی تھی کہ مسلمانوں کیلئے کانگریس نے کچھ نہیں کیا۔ حالانکہ دونوں متضاد باتیں تھیں مگر بی جے پی اسے سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتی تھی اورکرتی ہے ۔ مسٹر نریندر مودی اس کے بڑے ماہر تھے۔ وہ مسلمانوں کو ایک طرف اپنی ریاست میں نیچا دکھانے اور کچلنے کی کوشش کرتے تھے اور دوسری طرف ان کو اچھوت اور لائق نفرت سمجھتے تھے۔
دو ڈھائی سال کے بعد مودی جی کے منہ سے مسلمانوں کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کرنا اور اپنی پارٹی کے لوگوں سے جن سنگھ کے بانی پنڈت دین دیال اپادھیائے کے حوالے سے کہنا کہ مسلمانوں کونہ تو appesement کرنے کی کوشش کی جائے اور نہ ہی ان کو خوش کرنے کیلئے انعام و اکرام دینے کی بات کی جائے بلکہ ان کو بااختیار بنانے کی سعی و جہد کی جائے۔ انھیں ووٹ کی منڈی بنانے کے بجائے اپنا سمجھا جائے۔ انھیں نفرت اور عناد کی نگاہوں سے نہ دیکھا جائے۔ وہ بھی اپنے ہیں، ان کو اپنانے یا اپنا بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ مودی جی کی تقریروں کے بارے میں اندر اور باہر بہت سی باتیں کی جارہی ہیں۔ ایک بات تو یہ کہی جارہی ہے کہ وہ غریبی اور افلاس سے لڑنے کی بات کر رہے ہیں اور دلت اور مسلمانوں کو قریب کرنے یا اپنانے کی بھی بات کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اترپردیش اور دیگر ریاستوں کے الیکشن کو سامنے رکھ کر بات کر رہے ہیں کہ اگر وہ فرقہ پرستانہ انداز اپنائیں گے تو دہلی اور بہار میں جو حال ن کی پارٹی کا ہوا ہے وہی ہوگا۔
راقم نے مغربی بنگال کے ایک ایسے فرقہ پرست شخص سے جو 25 سال تک آر ایس ایس کے پرچارک تھے اور اب آر ایس ایس سے ناراض ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جس قدر دشمنی کرنا چاہئے نہیں کر رہی ہے، لہٰذااسی لئے وہ الگ سمیتی بناکر مغربی بنگال میں فرقہ پرستی پھیلانے کا کام انجام دے رہا ہے۔ فون پر رابطہ کیا اور جاننا چاہا کہ کیا مودی جی خود کو اور اپنی پارٹی کو سیکولر امیج دینے کی کوشش کر رہے ہیں تو اس کا جواب تھا کہ وہ تو یہ چاہتا ہے کہ پاکستان جو حرکتیں کر رہا ہے، اس کو کرارا جواب دینے کی ضرورت ہے مگر مودی جی یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہندستان کے سبھی لوگوں کو ساتھ لے کر اگر پاکستان کو اس کی حرکتوں کا جواب دیا جائے جب ہی کارگر اور نتیجہ خیز ہوگا اس لئے مودی جی سب کو ساتھ لینے اور سب کے ساتھ چلنے کی بات کر رہے ہیں۔
آر ایس ایس اور بی جے پی کے ایک ہمدرد اور سمجھ دار شخص سے مودی جی کے بدلے ہوئے انداز پر تاثر جاننا چاہا تو اس نے کہاکہ مودی جی ملک میں راج کرنا چاہتے ہیں اور اب ڈھائی سال میں انھوں نے دنیا دیکھ لی ہے۔ ان کی سمجھ میں آگیا ہے کہ کانگریس جس طرز پر اور جس انداز سے ملک میں حکمرانی کر رہی تھی more and less (کم و بیش) وہی انداز اپنانا ہوگا۔ اگر ملک پر حکمرانی کرنا ہے تو سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ کسی حصہ سے دوستی اور کسی حصہ سے دشمنی حکمران کو کبھی راس نہیں آتی۔ پہلے وہ اپوزیشن میں تھے تو دشمنی اور فرقہ پرستی ان کو یا ان کی پارٹی کو راس آتی تھی مگر اب حکمرانی کرتے ہوئے اپوزیشن کا انداز جو پہلے تھا اپنا کر حکمرانی نہیں کرسکتے۔
مودی جی میں Drastic Change (غیر معمولی تبدیلی) کی جو بھی وجہ ہو مگر اس تبدیلی کو یقیناًخوش آئند کہا جاسکتا ہے بشرطیکہ اس کا اثر زمین پر عملاً دکھائی دے کیونکہ جب سے ان کو اقتدار ملا ہے ان کی پارٹی اور وہ دونوں نشے میں تھے اور اقتدار اور طاقت کے نشے میں جس کی وجہ سے ملک بھر میں لا قانونیت بڑھی ہے۔ لوگوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اور جو چاہا کیا۔ اس سے مسلمان سب سے زیادہ شکار ہوئے پھر دلتوں کو نشانہ بنایا گیا اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ اگر مودی جی کے قول و فعل میں مطابقت پیدا ہوجائے اور اپنی پارٹی کے جنونیوں، دہشت گردوں اور لاقانونیت کو پھیلانے والوں کا ہاتھ پکڑنے لگیں اور ملک بھر میں قانون کی حکمرانی ہوجائے جب ہی مودی جی کے بدلے ہوئے تیور کو قابل ستائش کہا جاسکتا ہے۔ ممکن ہے مودی جی اپنے سابقہ تجربہ و مشاہدہ سے کچھ سبق لینا چاہتے ہوں اور کچھ کر دکھانا چاہتے ہوں اگر ایسا کچھ ہوا تو ملک کے حق میں اور ملک کے سارے باشندوں اور شہریوں کے حق میں بہتر ہوگا اور ملک میں جو حقوق انسانی کی پامالی ہورہی ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر میں ملک بدنام ہورہا ہے وہ بدنامی کی لعنت سے بھی بچ جائے گا۔ اس سے مودی جی کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔

عبدالعزیز

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔