گزشتہ چار سال کے کرپشن اور وسندھرا حکومت کاخوف

  ڈاکٹر سیدّ احمد قادری

  ’’ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اب تک  جو سب سے بڑی کامیابی حاصل کی ہے، وہ یہ ہے کہ اس نے بدعنوانی کی راہ آسان کر دی ہے۔‘‘

یہ جملہ میرا نہیں ہے، بلکہ موجودہ وقت میں ملک کے اندر بدعنوانیوں کی بڑھتی رفتار پر طنز کرتے ہوئے کانگریس کے سینئر رہنما اور ریاست ہماچل پردیش کے وزیر اعلیٰ ویر بھدر سنگھ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہی ہے۔ ویر بھدر سنگھ نے یہ بھی کہا ہے کہ امت شاہ اور ان کے بیٹے کی دولت میں سولہ ہزار گنا اضافے کا معجزہ بی جے پی کی حکومت میں ہی ممکن ہے۔ اسی راہ کو مزید آسان کرنے کے لئے راجستھان کی وسندھرا راجے سندھیا کی حکومت اپنی ریاست میں ایک ایسا قانون نافذ کئے جانے پر مصر ہے، جس کے تحت بدعنوانی میں ملوث نہ صرف ریاست سے تعلق رکھنے والے ممبران پارلیامنٹ، بلکہ ریاستی اسمبلی کے ممبران اور وہاں کے نوکر شاہ کے ساتھ ساتھ وہاں کے جج کو بھی حکومت چاہے تو محفوظ رکھ سکتی ہے۔

حکومت کی اجازت کے بغیران لوگوں پر انگلی اٹھانے والے کو دو سال کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ ایسے لوگوں کی  نگاہ میں، اس ریاست سے تعلق رکھنے والے کاگرکوئی بدعنوانی کا معاملہ سامنے آتا ہے توان کرپٹ لوگوں پر بولنے، لکھنے اور کسی طرح کی پوسٹ سوشل میڈیا پر لگانے کے ساتھ ساتھ اخبارات میں اس کی خبر دینے اور الیکٹرانک چینلوں پر اس طرح کی کسی بھی خبر کو نشر کیا جانا جرم تصور کیا جا ئے گا۔ وسندھرا راجے سندھیا حکومت کے اس کالے قانون کو وسندھرا کے آمرانہ رویۂ کا نام دیا جا رہا ہے۔ لیکن میرے خیال میں وسندھرا حکومت کا یہ آمرانہ رویۂ نہیں ہے، بلکہ دراصل یہ وہ خوف ہے، جو، اب جیسے جیسے ریاستی انتخاب کا وقت قریب آ رہا ہے، یہ خوف زیادہ ستانے لگا ہے کہ اگلے انتخاب میں برسراقتدار نہیں آئے، تو میری جگہ کہاں ہوگی؟ اس لئے وسندھرا راجے سندھیا حکومت کی پریشانی کافی بڑھی ہوئی ہے، جو بجا ہے۔ بجا اس لئے ہے کہ اس حکومت نے اپنی پوری مدّت کار میں کوئی ایسا عوامی فلاحی کام نہیں کیا، جن کا ڈھنڈورا پیٹ پیٹ کر ریاست کے عوام سے ووٹ کی بھیک مانگی جائے۔

مسئلہ یہ بھی ہے کہ راجستھان کی ریاستی اسمبلی کا انتخاب کو بس سال ڈیڑھ سال کا عرصہ  رہ گیا ہے اور اس حکومت نے اپنی مدت کار میں سوائے ہندو، مسلمان کے درمیان نفاق پیدا کرنے  او ربدعنوانیوں کا ریکارڈ بنانے میں وقت گزار دیا۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وسندھرا راجے سندھیا پر نہ صرف للت مودی گیٹ اسکینڈل، بلکہ مائننگ سے منسلک کئی بدعنوانیوں کے الزامات  عائد ہیں۔ للت مودی اسکینڈل کے ضمن میں ’دی نیؤ یارک ٹائمز‘ نے لکھا تھا کہ ’ویاپم گھوٹالہ تو جیسے للت اسکینڈل سے ہوڑ لگاتے ہوئے سامنے آیا ہے۔

یہ دونوں گھوٹالے ان ریاستوں میں ہوئے ہیں، جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی  اقتدار میں ہے اور مودی دونوں معاملوں میں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ‘۔ منی لانڈرنگ اور دیگر کئی بدعنوانیوں میں ملوث سابق بی پی ایل کمشنر للت مودی کامعاملہ جب سامنے آیا تھا تو  17جولائی15ء کو  کانگریس کے رہنماراہل گاندھی نے کہا تھا کہ راجستھان میں وسندھرا یا بھاجپا کی نہیں بلکہ للت مودی کی حکومت ہے۔ اسی زمانے میں کانگریس نے راجستھان میں 653 مائنس الاٹمنٹ کے معاملے میں 45000 ہزار کروڑ روپئے کا الزام لگاتے ہوئے راجستھان کی وزیراعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا سے فوری طور پر استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا۔ للت مودی بدعنوانی معاملے میں وسندھرا کے متنازعہ مائننگ گھوٹالہ میں گھرنے کا یہ دوسرا بڑا معاملہ تھا۔

ابھی حال ہی میں راجستھا  ن سمیت چار ریاستوں میں آر ٹی او کے ذریعہ  80,000 ہزار کروڑ روپئے کی ناجائز وصولی کے خلاصے پر مرکزی وزیر نتن گٹکری نے اس بدعنوانی کا اعتراف کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ اگلے تین ماہ میں یہ کرپشن ختم کر دینگے۔ ان بدعنوانیوں کے علاوہ نوٹ بندی کے بہت بڑے گھوٹالے کی پرتیں راجستھان کے سُمیر پور کی کھل رہی ہیں، جہاں کے کوآپریٹیو بینک میں بہت بڑا گھوٹالہ سامنے آیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اس وقت میں صرف راجستھا ن کے گھوٹالوں کی تفصیل نہیں، بلکہ صرف ذکر بھی کروں تو یہ صفحہ پُر  ہوجائیگا اور کرپشن کی داستان ختم نہیں ہوگی۔ یہ چند مثالیں میں  نے ا س لئے بھی دی ہیں کہ بھاجپا کے لیڈران یہ کہتے نہیں تھکتے کہ وہ، ان کی پارٹی اور ان کی حکومت کرپشن سے پاک ہے۔ للت مودی اور مائننگ اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد وزیراعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا  کے ملوث ہونے کے الزامات لگے تھے، اور ان کے خلاف راجستھان سے لے کر دہلی تک جس طرح زبردست احتجاج اور مظاہرے ہوئے تھے، اور ان سے استعفیٰ کا پُزور مطالبہ کیا جا رہا تھا۔

اس وقت جمہوری اور آئینی تقاضہ یہ تھا کہ وسندھرا وزیراعلیٰ کے عہدہ سے سبکدوش ہو جاتیں۔ لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا اور ان بدعنوانیوں کے معاملے میں وزیراعظم کی خاموشی نے انھیں مذید حوصلہ بخشا کہ وزیراعظم انھیں کرپشن میں ملوث پانے کے باوجود عہدہ سے برطرف کئے جانے کی بجائے پوری طرح خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم کے اس عمل سے اور پھر اقتدار کا نشہ ایسا تھا کہ وسندھرا نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی نے انھیں اس قدر مغرور کر دیا کہ بہت کچھ آزادانہ چھوڑ دیا، جس کے نتیجے میں راجستھا ن سے بدعنوانیوں کی خبریں آئے دن اخبارات  کی سرخیاں بنتی رہیں۔

 اب جب کہ ریاستی اسمبلی کے انتخابات کو سال ڈیڑھ سال رہ گیا ہے، ایسے میں وسندھرا کو یہ خوف ستانا واجب ہے کہ آیا اگر دوبارہ حکومت نہیں بنی، تو کیا ہوگا ؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس کالے قانون اور آرڈیننس کو لاکر وہ نہ صرف خود کو، بلکہ اپنے وزرأ اور دیگر لوگوں کے ساتھ ساتھ اپنے سیکریٹریٹ کے مختلف محکموں میں مامور افسران کو  بھی بدعنوانیوں سے پاک قرار دینا چاہتی ہیں۔ اس قانون اور آرڈیننس کے خلاف حزب اختلاف کے ساتھ ساتھ ان ہی کی پارٹی کے دو ایم ایل اے بھی مخالفت پر آمادہ نظر آ رہے ہیں۔

 وسندھرا حکومت میں وزیر رہے، سنگانیر کے ممبر اسمبلی گھنشیام تواڑی اور ایک دوسرے ایم ایل اے نرپت سنگھ رجوی نے اس متنازعہ بل پیش کئے جاتے وقت زبردست مخالفت کرتے ہوئے اسے کالا قانون قرار دیا  اور اسے غیر آئینی کہا۔ تواڑی کے مطابق یہ بل وزیراعلیٰ سکریٹریٹ میں کام کرنے والے کچھ افسران اور کچھ وزرأ کو بچانے کے لئے لایا گیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وزیراعلیٰ اور ان کے سیکریٹری بدعنوانی میں ملوث ہیں، جس سے بچنے کے لئے پہلے آرڈیننس اور پھر بل لایا گیا ہے۔ سنگانیر کے ایم ایل اے تیواڑی نے مذید بتایا کہ یہ بل دراصل کالا قانون ہے، جو ایمرجنسی کی یاد دلاتا ہے۔ انھوں نے اپنے عزم کو دہراتے ہوئے کہا کہ میں ہاؤس میں اور ہاؤس سے باہر ا س آرڈیننس کی مخالفت کرتا رہونگا۔ راجستھان کے بھاجپا ایم ایل اے گھنشیام تیواڑی  کی اس مخالفت سے یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ کالا قانون یا آرڈیننس حکومت میں شامل کچھ کرپٹ لوگوں کے خوف کا نتیجہ ہے، ورنہ تیواڑی او رنرپت جیسے بھاجپا کے ممبران اسمبلی اس قانون کی اتنی شدید مخالفت نہیں کرتے۔ گرچہ راجستھان حکومت کے ذریعہ اسمبلی میں پیش کئے جانے  والے اس متنازعہ بل کی مخالفت اور احتجاج کے بعد اسے سیلیکٹ کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا ہے، جسے بی جے پی کے لیڈر سبرامنئیم سوامی نے ایک اچھا قدم بتایا ہے۔

متنازع آرڈیننس کی مخالفت میں کانگریس کے رہمنأ سچن پائلٹ پوری طرح نبرد آزما ہیں اور اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ ایک سیاہ قانون ہے، جس کے ذریعہ چار سال کے کرپشن کو چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس لئے ہم کسی قیمت پر اسے نافذ نہیں ہونے دینگے۔ اس سلسلے میں کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی نے گہری ناراضگی جتاتے ہوئے وسندھرا راجے سندھیا کو ایسے آرڈیننس لانے پر طنزیہ انداز میں کہا ہے کہ اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں ، یہ 2017 ء ہے 1817 ء نہیں۔ اس ٹوئٹ کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنے ٹو ئٹر پر ریاستی حکومت کے آرڈیننس سے متعلق ایک رپورٹ بھی منسلک کیا ہے، جس کا عنوان ہے کہ ’ قانونی ماہرین کی رائے میں راجستھان کا آرڈیننس شخصی آزادی کے خلاف ہے ‘۔

   ہندوستان کی عوام اس وقت ایک عجیب کشمکش میں مبتلا ہیں کہ ملک میں یہ کیا ہو رہا ہے۔ عوام کی ہر طرح کی آزادی کیوں سلب کی جا رہی ہے۔ مرکزی حکومت سے لے کر ان ریاستی حکومتوں، جہاں جہاں بھاجپا برسر اقتدار ہے، وہاں کی حکومتوں پر ا س قدر خوف کیوں طاری ہے کہ بولو نہیں، چپ رہو۔ اگر بولنا ہے تو بس میری حمایت میں بولو، ورنہ چپ رہو، اور اگر بولے تو تمہیں غدّار وطن بنا کر جیل رسید کر دیا جائے گا۔ ہر جانب پہرے بٹھائے جا رہے ہیں، ہر کی زبان پر تالے جڑے جا رہے ہیں۔ ابھی ابھی چھتیس گڑھ میں جس طرح ایک صحافی ونود ورما کو ایک وزیر کی غلط کارستانی اجاگر کئے جانے کے خوف کے باعث گرفتار کیا گیا، یہ سب نہ صرف غیر جمہوری اور غیر آئینی ہے۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بھاجپا کی حکومت دراصل ہر جگہ اپنی عوامی مقبولیت کھو چکی ہے، یہی وجہ ہے کہ اب اسے صرف اپنے خزانے بھرنے کی فکر ہے کہ ممکن ہے یہی خزانے کھول کر اور لوگوں کا سودا کر، ان کے ضمیر کو خرید کر ایک بار پھر اقتدار پر قابض ہو جائے۔ لیکن جس طرح بھاجپا پارٹی اور اس سے منسلک لیڈران کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں، وہ یقینی طور پر بھاجپا حکومت کے لئے بہت ہی لمحئہ فکریہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بقول بھاجپا رہنمأ ارون شوری یہ ڈھائی افراد کی حکومت نے ملک کوایک ایسے دو راہے پر کھڑا کر دیا ہے، جہاں سے ہر ترقی اور خوشحالی کے راستے معدوم نظر آ رہے ہیں۔ ملک کی معیشت اور اقتصادی صورت حال چرمرا کر رہ گئی ہے۔ ملک کے بینکوں سے بڑے بڑے صنعتکاروں کے اتنے ارب روپئے قرض معاف کئے گئے ہیں کہ بینکوں کی حالت خستہ ہو گئی ہے۔ بینکوں کو اس بد حالی سے ابارنے کے لئے 2.11  لاکھ کروڑ  روپئے مرکزی حکومت بینکوں کو قرض دے رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک کا سارا نظام درہم برہم ہو گیا ہے۔

موجودہ حکومت نے ملک کے عوام  کو بد حالی کے اس مقام پر پہنچا دیا ہے، جہاں ہر طرف اندھیرا  اور مایوسیاں ہیں۔ کسان، جوان، نوجوان، غریب، بے روزگار، سب کے سب پریشان ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔  ہم کون سی ترقی اور خوش حالی کے راستے پر جا رہے ہیں، یہ کیسا وعدہ تھا کہ اچھے دن آئینگے۔ یہ کیسے اچھے دن ہیں۔ ؟ملک کی ایسی حالت پر افسوس کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا نے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ملک میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ ہے۔

 میرا خیال ہے کہ اگر موجودہ حکومت  پورے ملک میں منافرت، عدم رواداری، گائے، گؤ مانس، گؤ رکشا، مدرسہ، وندے ماترم، لو جہاد، گھر واپسی، پاکستان جاؤ وغیرہ  جیسے فروعی معاملات کی بجائے ملک کے عوام کے بنیادی مسائل پر توجہ دیتی، تو شائد اتنی جلد انھیں عوام سے اتنا زیادہ خائف نہیں ہونا پڑتا۔ بیرون ممالک میں جس طرح ملک کی شبیہ بن رہی ہے اور میڈیا جس طرح ملک کے حقائق کو اجاگر کر رہا ہے، ا س سے یقینی طور پر مستقبل قریب میں بہت زیادہ نقصان ہوگا۔ یوں بھی کرپشن، لا قانونیت، منافرت، بہت تیزی سے گرتی معیشت وغیرہ پر بیرون ممالک میں تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ہر سال کے سروے میں ملک پچھڑتا جا رہا ہے، لیکن ملک پر حکومت کرنے والوں کوان مسائل کی قطئی پرواہ نہیں۔

 راجستھان کی وزیراعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا، خوف زدہ ہو کر جس طرح کا آرڈیننس لائی ہیں، اگر اسے ابھی نہیں روکا گیا تو بہت ممکن ہے ہر ریاست میں ایسی ہی نظیر دیکھنے کو ملے گی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔