گوپال کرشن گاندھی مردِ میدان بن سکتے ہیں!

عبدالعزیز

  گوپال کرشن گاندھی اور ان کے بڑے بھائی راج موہن گاندھی جمہوری اور سیکولر قدروں کے علمبردار ہیں ۔ مہاتما گاندھی اور راج گوپال اچاریہ کے دونوں پوتے اور نواسے ہیں ۔ گوپال کرشن گاندھی اچھے ڈپلومیٹ، قابل قدر سیاستداں ، رائٹر اور اسکالر ہیں ۔ بڑے بھائی اچھے رائٹر، اسکالر اور صحافی ہیں۔ ہمیشہ دونوں غیر جمہوری اور غیر سیکولر طاقتوں سے نبرد آزما رہے ہیں ۔ بڑے بھائی اچھائیوں اور قدروں کے حامی ہونے کے باوجود سیاست کے میدان میں بظاہر کامیاب نہیں ہوئے۔ گوپال کرشن گاندھی مغربی بنگال کے گورنر کے بعد اور پہلے ملک کیلئے اپنے اچھے خیالات کا پرچار کرتے رہے۔ کانگریسی حکومت کے وقت میں بھی صدر جمہوریہ کے امیدوار کے طور پر ان کا نام کئی پارٹیوں نے پیش کی۔ کانگریس کو بھی گوپال کرشن گاندھی پسند تھے مگر سی پی ایم کی حمایت سے کانگریس کی حکومت مرکز میں قائم تھی سی پی ایم گوپال کرشن گاندھی کو بعض وجوہ سے خاص طور سے مغربی بنگال میں ان کی صاف گوئی اور حق گوئی سے ناراض تھی جس کی وجہ سے وہ صدر جمہوریہ کے امیدوار نہیں بن سکے۔

 صدر جمہوریہ کے امیدوار کی حیثیت سے مودی کے راج میں اپوزیشن پارٹیوں نے قریب قریب ان کے نام کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اس وقت سی پی ایم کے سامنے ان کی خوبیاں اجاگر ہوچکی تھیں مگر مودی شاہ کی چوڑی نے ایک کم صلاحیت کے دلت رام ناتھ کو وندکو این ڈی اے کا صدر جمہوریہ کیلئے جب امیدوار کا اعلان کیا تو اپوزیشن پارٹیوں کو مجبوراً ایک دلت مینا کمار (جگ جیون رام کی بیٹی) کو صدر جمہوریہ کیلئے امیدوار کا اعلان کرنا پڑا۔ اچھا ہوا کہ اپوزیشن پارٹیوں نے حکمراں جماعت سے پہلے ہی نائب صدر جمہوریہ کیلئے ایک اچھے اور قابل شخص گوپال کرشن گاندھی کا ان کی مرضی کے بعد اعلان کیا۔ گوپال کرشن گاندھی اچھی طرح جانتے تھے کہ اس جنگ میں ان کی ہار یقینی ہے۔بی جے پی کے ایک کم صلاحیت شخص وینکیا نائیڈو کا ان کو مقابلہ کرنا تھا۔ گوپال کرشن گاندھی ایک اچھے دانشور، مدبر اور اچھے رائٹر ہیں جبکہ وینکیا نائیڈو ایک ایسے سیاستداں ہیں جو مودی کیمپ میں آنے کے بعد مودی کی تعریفوں کا پل باندھتے تھے اور انھیں قدرت کا دیا ہوا تحفہ قرار دیتے تھے۔ وہ ایمرجنسی کے زمانے میں کانگریس کے صدر بروا کا رول بی جے پی میں ادا کرتے تھے۔ بروا بھی کہتا تھا کہ ’انڈیا اندرا ہے‘ اور ’اندرا انڈیا ہے‘۔ بس ایسے ہی ایک حاشیہ بردار قسم کے سیاست داں ہیں وینکیا نائیڈو جو اب نائب صدر کی کرسی پر بیٹھیں گے۔

 گوپال کرشن گاندھی نے اپنی رضا مندی محض اس لئے ظاہر کی کہ ان کے قول کے مطابق 18 اپوزیشن پارٹیوں نے انھیں سیکولر اور جمہوری قدروں کی علامت کے طور پر چنا تھا تاکہ وہ فرقہ پرستی اور فسطائیت کے خلاف ایک اسٹینڈ لے سکیں ۔ گوپال کرشن گاندھی نے ووٹروں کو یاد دلانے کی کوشش کی تھی کہ وہ ہندستان کے حق میں فیصلہ کریں ۔ جمہوریت اور سیکولرزم کے حق میں ووٹ دیں ، تاکہ ملک سیاسی اور معاشی اور اخلاقی بحران سے نکل سکے، لیکن گاندھی کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی اور جو مید تھی وہی ہوا۔ فرقہ پرستی اور فسطائیت جن کے دماغوں اور دلوں میں سرایت کرچکی ہے، گاندھی کی آواز ان کے دماغوں اور دلوں سے ٹکرا کر واپس آگئی۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو اصول اور قدروں کو فروغ دینے اور فاسد طاقتوں سے لڑنے سے کچھ زیادہ ہی موقع ہار یا شکست سے گوپال کرشن گاندھی کو مل گیا ہے۔ نائب صدر کی حیثیت سے وہ بہت بڑا کردار نہیں ادا کرسکتے تھے۔ اگر گوپال کرشن گاندھی اس وقت فیصلہ کرلیں کہ وہ فرقہ پرستوں سے ملک کو ہر قیمت پر بچائیں گے تو ملک ایسا لگتا ہے کہ اُسی طرح تیار ہے جس طرح اندرا گاندھی کے بحرانی دور میں جے پرکاش نرائن کیلئے تیار ہوا تھا۔ اندرا گاندھی کی اعلانیہ ایمرجنسی بھی اندرا گاندھی کو شکست سے نہیں بچا سکی۔ اس وقت ملک میں جو غیر اعلانیہ ایمرجنسی ہے اگر گوپال کرشن گاندھی حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے اٹھ کھڑے ہوں تو آج کے جے پرکاش نرائن ثابت ہوسکتے ہیں ۔

 ایسے لوگوں کو جو لوگ آر ایس ایس اور بی جے پی کی سیاست اور فرقہ پرستی سے اوب چکے ہیں اور تنگ آچکے ہیں گوپال کرشن گاندھی سے ملاقات کرکے ان کو حوصلہ دینا چاہئے اور اس بحرانی دور کیلئے تیار کرنا چاہئے۔ ایسی شخصیت کی ملک تلاش میں ہے جو قابل ہو اور میدان میں لڑسکتا ہو۔ معاملہ اپوزیشن پارٹیوں کا ہے کہ وہ جس طرح ان کو نائب صدر کی امیدوار کیلئے تیار کرنے میں کامیاب ہوئی تھیں اسی طرح ان کو آج کے حالات میں میر کارواں بننے کیلئے تیار کریں ۔ کانگریس کا اس میں سب سے بڑا فائدہ ہوگا کیونکہ کانگریس پارٹی بھی بحران کا شکار ہے۔ اگر وہ ایسا سوچتی ہے اور کرتی ہے تو امید ہے کہ دیگر اپوزیشن پارٹیاں بھی ساتھ دیں گی۔ کانگریس اگر یہ سوچتی ہے کہ کوئی اور مردِ میدان ہوگا تو راہل گاندھی کا کیا ہوگا؟ کانگریس کو کانگریس کیلئے سوچنا چاہئے، راہل گاندھی کیلئے نہیں ۔ اُس وقت اٹل بہاری واجپئی اور ایل کے ایڈوانی کا قد اپنی پارٹی میں بہت اونچا تھا جب بھی جن سنگھ جے پرکاش نرائن کے پیچھے اندرا گاندھی کو منظر سے ہٹانے کیلئے تیار ہوگئی۔ آج نریندر مودی کی پوزیشن ملک میں وہی ہے جو اندرا گاندھی کی تھی۔ اندرا گاندھی آمریت کی علامت بن چکی تھیں ۔ مودی کا بھی وہی حال ہے بلکہ اس سے بھی خراب حال ہے۔ اس لئے ملک کو بچانا ہے تو پارٹی سے اوپر اٹھ کر سوچنا ہوگا۔ جب ہی ملک کا بھلا ہوسکتا ہے۔ گوپال کرشن گاندھی اس وقت ’بھارت بچاؤ اندولن‘ یا ’ملک بچاؤ تحریک‘ کی سربراہی کیلئے موزوں اور مناسب شخصیت ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔