ہاشم پورہ سانحہ کی داستان اور مسلم لیڈر شپ!

عبدالقادر صدیقی

میرٹھ ہاشم پورہ فساد کی داستان بڑی المناک ہے۔تقریبا ۳۰ سال قبل میرٹھ شہر میں قانون کے محافظوں اور رکھوالی کے دعوی کرنے والوں نے جمہوریت اور انسانیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آزاد ہندوستان میں ظلم و بربریت کی بدترین مثال پیش کرتے ہوئے جمہوریت اور انسانیت کا قتل کیا تھا ۔میرٹھ کے ہاشم پورہ اور دوسرے محلوں میں پولیس اور فوج نے مبینہ طور سے مسلمانوں کی نسل کشی کی تھی۔ بوڑھی مائیں یہ سمجھنے سے قاصر تھیں کہ ان کا پچیس سالہ جوان بیٹاجو ان کے بوڑھاپے کا سہارا تھا، جو کل تک زندہ تھا آج مردہ کیسے ہو گیا۔بوڑھے باپ یہ نہیں سمجھ پا رہے تھے کہ ان کے سامنے ہی ان کے امیدوں کے چراغ کیسے گل ہوگئے۔

بسی ہوئی بستی اجڑ کیسے گئی ، ہرا بھرا چمن مرجھا کیسے گیا بنا بنایا نشیمن جل کیسے گیا !!  ہاشم پور میں 30 برس قبل کیا ہوا تھا اس کو جاننے کے لیے ہم نے جب کوشش کی تو تمام ذرائع میں دو ذرائع این ڈی ٹی وی رپورٹر سرینیواسن کی ’’ایکسلوزو اسٹوری ‘Truth vs Hype Exclusive: Behind the Hashimpura Massacre, a Tale of Vendetta and Cover-Up  اوروں کے مقابلے میں کچھ  بہتر ہے لیکن یہ بہت مختصر ہے ۔ اس پر سب سے بہتر مواد ایم جے اکبر کی کتاب ’’ رائٹ آفٹر رائٹ ‘ میں دستیاب ہے جو فساد کے منظر اور پس منظر کو بخوبی بیان کرتا ہے ۔ ایم جے اکبر اب کیا ہیں اور کس ’’مسلک‘‘ کے پیرو کار ہیں مجھے اس سے بحث نہیں ہے ۔ میرے لیے اتنا بہت ہے کہ وہ اس وقت کانگریس کے ساتھ تھے ، وزیر اعظم راجیو گاندھی کے صلاح کار اور کانگریس پارٹی کے اسپوک پرسن ہواکرتے تھے ۔ فساد کے بعد وزیر اعظم راجیو گاندھی کے ساتھ انہوں نے ہاشم پورہ سمیت میرٹھ کے پورے متاثرہ علاقہ کا دورہ کیا تھا اور جو کچھ دیکھا اور سمجھا اسے  جون 1987 میں Meerut’s Politics of Communalism  کے عنوان سے بیان کیا ہے ۔ان کا یہ مضمون انکی کتاب  رائٹ آفٹر رائٹ میں موجود ہے۔ ا س مواد کا ترجمہ تو نہیں لیکن خلاصہ یہاں پیش کرنے جارہا ہوں ۔جس میں نئی اور نسل کے لیے سیکھنے کی بہت کچھ ہے۔

میرٹھ شہر کے درمیان میں شاہراہ پر سابق وزیر اعظم ہند اندراگاندھی کے نام پر ان دنوں اندرا چوک واقع تھا،جس کے آگے گلشن سنیماہال ہوا کرتا تھا اس کے آگے موڑ سے ایک تنگ گلی ہاشم پورہ کو جاتی ہے۔ اس محلہ کی بھی اپنی تاریخ ہے ۔،آزادی کے بعد بہاری بن کر ( جولاہے)سماج کا غریب محنت کش طبقہ آکے میرٹھ شہر کے ایک محلہ میں آباد ہوجاتا ہے اور آگے چل کے یہی محلہ ہاشم پورہ کہلاتا ہے ۔ اس غریب سماج کی ترقی 1969-1971 کے زمانے اس وقت شروع ہوتی ہے جب حکومت انہیں سستے قرضے (Loan)  فراہم کرتی ہے اور کچھ تجارتی رعایتیں فراہم کرتی ہیں ۔ بہت مختصر عرصہ میں یہ سماج معاشی طور پر خوشحال اور خود کفیل ہوجاتا ہے ۔ جس کی وجہ سے یہ ’ کھاتا پیتا سماج ‘ بن جاتا ہے۔ان لوگوں کے پاس اینٹ کا پکّا گھر ہوتا ہے اور دوسروں کے پاس مٹی کا کچّا گھر۔ اور یہی چیزیں میرٹھ کی اکثریتی طبقہ کی آنکھوں کو کھٹکنے لگتی ہیں ۔

ہاشم پورہ فرقہ وارانہ فساد اور مظفر نگر فساد میں بڑی مماثلت ہے دونوں ہی فساد ایکدم سے نہیں ہوئے بلکہ دونوں ہی کے لیے پہلے سے زمین ہموار کی گئی تھیں ۔ فساد سے سال دو سال قبل سے دونوں فرقوں میں تنائو بڑھنے لگا تھا ۔ ’’سالا پاکستانی‘‘ اور’’ دیش دروہی‘‘  جیسے القاب سے مسلمان نواز ے جانے لگے تھے ۔ کور چشم مسلم قیادت بھی اس کی بڑی ذمہ دار تھی جو بجائے حکمت کا راستہ اختیار کر نے کے اشتعال انگیز بیان دینا شروع کردیا تھا ۔ فساد کے 1987 میں رمضان کے مہینے میں شروع ہوا ۔اور فساد کے بعد 22 مئی کو ہتھیا ر تلاشی کے نام پر گھر گھر تلاشی شروع کی ۔ سرینیواسن کے خاص رپورٹ کے مطابق سی آئی ڈی نے جو چارج شیٹ لگا ئی ہے اس کے مطابق اسی دن پی اے سی( PAC) پر حملہ ہوا تھا اور اس کے دو ہتھیار لوٹ لئے گئے تھے ۔ اس کی ایک اور وجہ چارج شیٹ میں درج ہے کہ اس دن بی جے پی کے مقامی لیڈر شکنتلا شرما کے بھتیجے پربھات کوشک (Parbhat Koshik )جو کہ ہندو توا کا جارح پرچارک تھاکی موت کسی طرف سے آنے والی  گمنام گولی کے لگنے سے ہوگئی تھی۔ جس نے جلتے پر گھی کا کام کیا اور اس کی آڑ میں ہندوں کو مسلمانوں کے خلاف خوب ابھارا گیا۔

اس واقعہ کے بعد پولیس نے غیر قانونی ہتھیار کا پتہ لگانے کے نام پر ہاشم پورہ محلے کے گھر گھر کی تلاشی لینی شروع کی ۔ وہ جمعہ کا دن تھا جب جمعہ کی نماز کے بعد ہاشم پورہ کے گھر گھر کی تلاشی لیتے ہوئے شام پانچ بجے پولیس اس کے گھر داخل ہوئی ۔ محلے میں عبدالماجد کا گھر سب سے الگ اس لیے تھا کیوں کہ اس کے صحن میں بڑا سا نیم کا درخت تھا ۔پولیس نے دونو میاں بیوی سے کہا وہ گھر کی تلاشی لینا چاہتے ہیں ۔ اس لیے تب تک وہ نیم کے پیڑ کے نیچے بیٹھ جائیں ۔ بڑی تلاشی کے بعد پولیس کو دونوں کمروں میں سوائے عبدالماجد کے بیس سالہ جوان بیٹے دین محمد کے کچھ بھی نہیں ملا جواپنے ماں باپ کی روزی روٹی کا آخری سہارا تھا ۔ پولیس نے ماں باپ کے احتجاج کے باوجود اسے اپنی حراست میں لے لیا اور دونوں میاں بیوی آہ بکا کرتے رہ گئے۔ چھ دن کے بعد 28 مئی 1987 عشاء کے بعد کچھ پولیس والے عبدالماجد کے گھر یہ کہنے آئے کہ اسکا بیٹا جیل میں اس سے ملنے کے لیے بے چین ہے لہذا وہ اس کے ساتھ چلے ۔ عبدالماجد کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ پولیس کے ٹارچر کی وجہ جیل میں اس کے بیٹے کی حالت خراب ہے ۔

وہ اپنے دوستوں کے ساتھ 9 بجے رات کو پولیس اسٹیشن پہنچا جہاں اسے بجائے بیٹے سے ملا نے کے بیٹھا دیا گیا۔ یہ عید کی چاند رات تھی ، مسلمانوں کے لیے خوشی کی سب سے بڑی رات!  ملک سمیت دنیا بھر میں صبح مسلمان عید کی خوشی منانے والے تھے ۔ لیکن یہ عبدالماجد اور ہاشم پورہ کے دوسرے مسلمانوں کے لیے یہ دسویں محرم سے کم نہ تھی ۔ ڈھا ئی بجے رات میں وہ  اس وقت حواس باختہ ہو گیا جب پولیس نے اس کے بیٹے کی لاش اس کے حوالے کرتے ہوئے سختی سے یہ ہدایت دی کہ اسے صبح ہونے سے قبل دفنا دیا جائے۔ تاکہ عید کی نماز کے وقت لوگوں کو اس کا پتہ نہ چل سکے اور کوئی احتجاج نہ ہو ۔

پولیس نے قبر پہلے سے کھودوا رکھی تھی جب عبدالماجد اپنے دوستوں کے ساتھ جوان بیٹے کا جنازہ پڑھنے کے بعدلاش کو اپنے بوڑھے کندھے پر لے کے قبرستان پہنچا تو دیکھا کہ وہ اکیلا نہیں ہے ۔ تین اور باپ اپنے اپنے کندھوں پہ اپنے جوان بیٹوں کا جنازہ لے کے  قبرساتان آئے ہیں ۔ یہ سب وہ جوان تھے جو فساد یوں کے نہیں بلکہ جیل میں پولیس کی سفاکیت کے شکار ہوئے تھے۔ پولیس کسٹڈی میں مسلمانوں کے ساتھ پولیس کے اس بے رحمانہ برتائو سے میرٹھ کے مسلمانوں میں خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی تھی۔ ایسے کئی واقعات سامنے آئے جس میں پی اسے سی(PAC )Provincial Armed Constabularyکے فرقہ پرست ذہن نے میرٹھ کے بے قصور مسلمانوں کو آبادی سے دور لے جا کے بڑی بے رحمی اور سفاکیت سے قتل کر دیا۔ اس میں 22 مئی کا ہی وہ واقعہ بھی ہے جب پولیس نے ہاشم پورہ کے دو درجن سے زائد نوجوانوں کو اٹھا کے پی اسے سی کے جوانو ں کے حوالے کردیا ان لوگوں نے جنہیں دریا ہنڈن کے کنارے لے جاکے گولی مار کے پانی میں بہا دیا ۔ یہ راز کبھی بھی نہیں کھلتا کہ ہاشم پورہ کے مرنے والے مسلم جوان فسادیو ں کے بجائے پی اے سی کے فرقہ وارانہ سفاکیت کا شکار ہوئے ہیں اگر پانی میں بہا دیے جانے والے جوانوں میں سے دو جوان معجزاتی طور پربچ   نہیں جاتے ۔مجیب الرحمن اور بدرالدین نامی جوان کو پی اے سی کے جوان نے سینے میں گولی مار کے ہنڈن ندی کے تیز دھارے میں بہا دیاتھا، لیکن وہ دونوں معجزاتی طور پر یہ بچ گئے تھے ۔

دس کیلو میٹر کی دوری پر جب لوگوں کی اطلاع پر مراد نگر کی پولیس نے ان دونوں کو پانی سے نکالا تو ان کی سانسیں چل رہی تھیں ۔انہیں نرندر موہن ہاسپٹل پہنچا یا گیا جہاں پولیس کی سخت سکیورٹی میں انہوں نے پی اے سی کی فرقہ واری سفاکیت کا پردہ چاک کرتے ہوئے اپنا بیان درج کرایا۔ یہ اندازلگانا کسی کے لیے بھی بے حد مشکل ہے کہ اس رات کتنے لوگ پی اے سی کی سفاکیت کا شکار ہوئے ہیں ۔ یوپی انتظامیہ نے جو بیان دیا تھا اس کے مطابق اس دن میرٹھ کے 70 محلوں سے 2568  مسلمانوں کو پی اے سی نے اٹھایا تھا ۔ اب یہ سب ماردیے گئے یا وہی لوگ مرے جو اب سرکاری رپورٹ بتاتی ہے ۔

یہ ایک معمہ بن چکا ہے اس کا اندازہ ہم نہیں کرسکتے ہیں ۔ اس اعداد وشمار میں نہ جاکے اس کے بعد کے واقعات پر نظر ڈالتے ہیں ۔ مجیب الرحمن اور بدرالدین کے بیان سے پی اے سی کے کردار اور رویہ کے سامنے آتے ہی پولیں سپرٹنڈنٹ کو برخاست کردیا گیا اور ایک دن بعد پی اے سی کو واپس بلانے کا آرڈر آ گیا۔ لیکن دوسری طرف پولیس کے یہ جوان ہندوں کی نظر میں ہیرو بن چکے تھے ۔ فساد 18 مئی کو شروع ہوا تھا 20 مئی کو پی اے سی کے جوان شہر میں داخل ہوئے اور اس کے بعد کا جو کچھ ہوا وہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے۔ ہاشم پورہ ککے مسلمانپی اے سی کے لیے ’’ سالا پاکستانی‘‘ بن چکا تھا جہاں انہوں نے ’’مذہبی جنگ‘‘ لڑی اور اپنی ’’دیش بھکتی‘‘ دیکھانے کی کوشش کی ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پولیس اور پی اے سی نے میرٹھ کے مسلمانوں کے ساتھ جو برتائو کیا وہ درندگی ، برحمی اور سفاکیت کی بدترین مثال ہے ۔ وزیر اعظم راجیو گاندھی30-31 مئی کو ایم جے اکبر اور دوسرے لیڈر و مشیروں کے ساتھ کرفیو زدہ میرٹھ اور ہاشم پورہ کا دورہ کیا ۔ راجیو گاندھی کی آمد پر مقامی ہندو نعرہ لگا رہے تھے ’’پی اے سی زندہ باد!  زندہ باد! !ایم جے اکبر لکھتے ہیں کہ جب وہ ویران مسلم بستیوں سے گذر رہے تھے تب انکی ملاقات کھدر پہنے ہوئے ایک بوڑھے شخص سے ہوئی جو خود کو کانگریس کا پرانا خدمت گار بتا رہا تھا ۔ اس نے سب سے حیرت انگیز جو بات کہی وہ یہ تھی کہ میرٹھ میں ہر کوئی (ہر ہندو) چاہتا ہے کہ ابھی پی اے سی یہاں رہے ۔ آپ یہاں کسی سے بھی (ہندوو ) سے بھی پوچھ لیں ۔ ستم تو یہ تھا کہ جب وزیر اعظم راجیو گاندھی نے میرٹھ کا دورہ کیا تھا تب اتر پردیش کے وزیر اعلی ویر بہادر سنگھ نے  پی اسے سی جوان کے حمایت میں مظاہرے کئے تھے۔ مختصر کلام یہ کہ میرٹھ سمیت یوپی انتظامیہ کا رویہ مسلم مخالف ہوگیا تھا ۔

میرٹھ فرقہ فساد اور ہاشم پورہ سانحہ 1987 کے 9 برس بعد1996 میں سی بی آئی اور سی آئی ڈی نے چیف مجسٹریٹ جوڈیشیل غازی آباد کے سامنے 19 پی اسے سی والوں کے خلاف چارج شیٹ داخل کیا تھا اور 161 لوگوں کی فہرست بطور گواہ کے پیش کیا۔ سپتمبر 2002 میں متاثرین کے خاندان کے عرضی پر یہ کیس دہلی کورٹ منتقل کردیا گیاتھا۔ جولائی 2006 میں دہلی کورٹ نے17 لوگو ں کے خلاف انڈین پینل کوڈ کے تحت قتل ،قتل کرنے کی کوشش اور سازش رچنے کا چارج لگایا۔ پھر نو سال کے طویل وقفہ کے بعد کور ٹ نے 15 فروری 2015کو فیصلہ سنانے کا اعلان کیا ۔ لیکن 15 فروری تک تک رپورٹ تیار نہ ہونے کی وجہ سے 15 مارچ   2015کو سنانے کا دوبارہ اعلان کیا اور جب فیصلہ سامنے آیا تو سارا انتظار دھرا کا دھرا رہ گیا ۔ خشک آنکھیں پھر سے بہہ پڑی  اور سوکھے زخم پھر سے ہرے ہوکے رسنے لگے کیوں کہ کورٹ نے پورے ملزمین کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے باعزت بری کردیا ۔

ہاشم پورہ فساد کے اسباب کے مطالعہ کے دوران جو حقائق سامنے آئے اس میں مسلم قیادت بھی کٹہرے میں کھڑی نظر آتی ہے۔ سلیم احمد انصاری عرف بھنڈرا نے والے، سابق شاہی امام عبداللہ بخاری ، سید شہاب الدین کا کردار آزادی سے قبل مسلم لیگ کے رہنمائو جیسا تھا ۔ بابری مسجد مسئلہ کے سامنے آتے ہی جاوید حبیب نے میرٹھ شہر میں مسلم یوتھ کانفرنس قائم کردی۔ جس کے بینر تلے سلیم احمد انصاری عرف بھنڈرا نے والے نے اپنی سیاسی دکان چمکانی شروع کردی تھی ۔ جلسے کراکے’’  لڑنا ہے مرنا ہے‘‘  اور ’’ ایک کروڑ سردار ہیں یہ تو سنبھلتے نہیں راجیو گاندھی سے ۔ ہم بیس کروڑ ہیں ہم کو کیسے سنبھالے گا ‘‘ جیسے نعرے لگانے لگے تھے ۔ انہی دنوں انصاری نے اسد الدین اویسی کے باپ اور اس وقت کے حیدر آباد کے ایم پی صلاح الدین کو ایک جلسے میں بلایا تھا جہاں دوران تقریر انہوں نے کہا تھا کہ ’’ طاقت پیدا کرو ! طاقت ماں کے قاتلوں سے بھی سمجھوتہ کرادیتی ہے۔‘‘

میرٹھ دہلی سے قریب ہونے کی وجہ سے میرٹھ کے مسلمان شاہی امام عبداللہ بخاری کے جذباتی تقاریر سے بھی متاثر ہو رہے تھے ۔ اور ہزارو ں کی تعداد میں میرٹھ کے مسلمان اس کے ریلی میں شریک ہونے دہلی جایا کرتے تھے۔ لیکن سب سے زیادہ خطرناک لب و لہجہ سید شہاب الدین کا تھا وہ حکومت ہند کو مسلمانوں کے غصہ کے انجام سے ڈرارہے تھے ۔ کل ملا کے مسلم قیادت آزادی سے قبل کی مسلم لیگ قیادت کی گونج بن کے رہ گئی تھی۔ ان لوگوں کی بیان با زی انتظامیہ تک پہنچ رہی تھی اور ہندو ذہنیت افسران مسلمانوں کو سبق سیکھا نے کے بارے میں میں سوچنے لگے تھے۔ اور جب فساد ہوا تو یہ سچ بن کے سامنے بھی آگیا۔ دوران فساد سلیم انصاری دہلی میں بیٹھا رہا، شاہی امام نے انتظامیہ کی جانب سے اجازت نہ ملنے کا عذر پیش کردیا اور شہاب الدین فساد کے بعد اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ میرٹھ کا دورہ کرکے فو ٹو کھینچوا کے واپس دہلی چلے گئے۔

شہاب الدین کی جو فوٹو اخبارات میں شائع ہوئی تھی اس میں وہ مسکرا رہے تھے ۔ مسلمانوں کی نسل کشی پر مسکرانے کا سبب کیا تھا یہ وہی بتا سکتے ہیں ۔ہم نے محسوس کیا ہے کہ جب جب کسی عبداللہ بخاری نے مسلمانوں کے حفاظت اور حق کے لیے ’’آدم سینا‘‘ بنانے کی بات کی ہے تب ان سے تو کچھ نہیں بن سکا لیکن اس کے مقابلے رنویر سینا، شیو سینا اور بجرنگ دل بنتے چلے گئے ہیں ۔ ہندوستان کا مستقبل مزید فرقہ وارانہ ہونے والا ہے ایسے میں مسلمانوں کو جذباتی نہیں بلکہ ہوش مند قیادت پر بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے۔مسلمانوں کو جناح اور ابوالکلام میں فرق محسوس کرنا ہوگا ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔