یوپی میں بھاجپا کی فرقہ پرستی اور مسلمانوں کا انتشار

عبدالعزیز

اتر پردیش میں بھاجپا یا مودی-شاہ کی غیر معمولی جیت مسلمانوں کیلئے ایک بڑی چتاؤنی ہے۔ الیکشن رزلٹ نے یہ ثابت کیا ہے کہ مسلمانوں کا انتشار ان کیلئے سیاسی موت ہے اور بھاجپا کیلئے سود مند ہے۔ بھاجپا نے ایک بھی مسلم کو اپنا امیدوار نہ بناکر مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ انھیں مسلمانوں کے ووٹوں کی قطعاً ضرورت نہیں ہے اور ہندوؤں کو یہ پیغام دیا کہ مسلمانوں کو نیچا دکھائے بغیر اور ان کو الگ تھلگ کئے بغیر ہندوؤں کی ترقی اور فلاح نہیں ہوسکتی کیونکہ مسلمانوں کو سوچنے اور رہنے سہنے کا ڈھنگ ہندوؤں سے مختلف ہے۔ وہ ہندوؤں کے سالہا سال سے دشمن  ہیں ۔ بھاجپا نے ہندوؤں کو اچھی طرح سے سمجھا لیا کہ وہ مسلمانوں کے مخالف ہیں اور کانگریس، سپا اور بَسپا یہ مسلمان نواز پارٹیاں ہیں ، یہ ہندوؤں کی بھلائی نہیں چاہتی ہیں ۔ یہ سب گئو ماتا کی دشمن پارٹیاں ہیں ۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ اور آر ایس ایس کی خواتین ونگ کے ذریعہ آر ایس ایس نے گھر گھر یہ پیغام پہنچانے کی کوشش کی کہ مسلم لڑکوں کی وجہ سے ہماری بہو بیٹیاں بھی محفوظ نہیں ہیں ۔ لو جہاد کی وجہ سے مسلمان لڑکے ہندو لڑکیوں کو آسانی سے جھانسے میں لے لیتے ہیں ۔ ہندوؤں کی اونچی ذاتوں کو سمجھایا کہ منڈل اور دلت سیاست سے بھاجپا کے علاوہ تمام پارٹیوں نے مفاہمت اور مصالحت کرلی ہے۔ اس طرح بھاجپا نے ووٹوں کو مذہبی بنیاد پر پولرائز کیا۔

  بھاجپا نے جارحانہ قوم پرستی کا کھیل کھیلا اور پاکستان دشمنی کا مظاہرہ بھرپور طریقہ سے کیا اور فرضی مسلم جہادیوں کے خلاف کچھ اس طرح کی مہم شروع کی کہ عام مسلمانوں کو ہندوؤں سے الگ تھلگ کر دیا۔ ہندوتو کارڈ کھیلا تاکہ امیر، متوسط درجے کے لوگ اور نچلے درجے کے ہندو سب اس کے چھتر چھایا میں آجائیں ۔ اس طرح اکثریت کے ووٹروں کو اپنے فرقہ وارانہ فلسفہ سے قائل کرنے میں بی جے پی یا مودی شاہ پورے طور پر کامیاب ہوگئے۔ ہندوؤں کی ایک بڑی اکثریت نے ہندوتو کے فلسفہ میں اپنی شناخت بنانے کی کوشش کی اور مودی کو اپنا عالمی لیڈر تسلیم کرنے میں ہندوؤں اور دیش کا بھلاسمجھا۔ مسلم دشمنی اور ہندوتو کی شناخت نے انھیں اپنے مذہب پر فخر کا احساس دلایا۔ تاریخی حوالے سے بھی ہندوؤں کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ مسلم راج میں ہندوؤں کا بھلا نہیں ہوا بلکہ مسلم حکمرانوں نے زور زبردستی ہندوؤں کو مسلمان بنایا اور ہندو عورتوں سے شادی کیا جس سے ہندو آبادی میں کمی واقع ہوئی۔ اگر ہندو غفلت میں پڑے رہے تو مسلم راج پھر آسکتا ہے کیونکہ ہندستان، پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے مسلم راجوں سے گھرا ہوا ہے۔ ہندو حکمرانی اور ہندو جارحانہ کلچر کی ضرورت ہے،۔ یہ چیزیں ہندو حکمرانی کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتی ہے۔

ہندوؤں کو بھاجپا اور آر ایس ایس نے یہ بھی باور کرایا کہ مسلمان چار چار شادیاں کرتے ہیں اور ان کی اولادین بیس پچیس سے زیادہ ہوتی ہیں ۔ چالیس پچاس سال اگر ان کو اور چھوٹ دی گئی تو پھر ان کی آبادی یا تو ہندوؤں کے برابر ہوجائے گی یا بڑھ جائے گی پھر مغل راج آجائے گا جس سے مسلمانوں کا ظلم بڑھے گا۔ بہو بیٹی بچاؤ اندولن کئی سال سے آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں کی طرف سے چل رہا تھا۔ الیکشن سے پہلے الیکشن کے اندر اندولن کو گھر گھر چلانے کی کوشش کی گئی اور اسے میڈیا نے جان بوجھ کر دبایا یا میڈیا کی آنکھ سے بچاکر کیا گیا۔ مسلمانوں کو غنڈے، لفنگے اور لوٹ مار کرنے والے کی پہچان دی گئی اور اس کا خوب پرچار کیرانہ سے کیا گیا کہ مسلمان غنڈوں اور بدمعاشوں کے ذریعہ سے ہندو بھائیوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا۔ مختار انصاری اور اعظم خان کے مجرمانہ کردار کو خوب اچھالا گیا۔ مظفر نگر کے فساد کو بتایا کہ یہ مسلم فرقہ پرستوں کی وجہ سے ہوا۔ اس طرح یوپی میں بھاجپا اکثریت (majoritarian) کی حکمرانی قائم کرنے میں کامیاب ہوئی۔ مسلم اقلیت اپنے انتشار اور تفرقہ کی وجہ سے پہلے کے مقابلہ میں زیادہ لاچار اور بے مصرف ہوکر رہ گئی۔ بھاجپا میں جو انتہا پسند ہیں اب انھیں کی بات غالب ہے اور جو تھوڑی بہت سوجھ بوجھ سے کام لینا چاہتے ہیں ۔ وہ حاشیہ پر آگئے ہیں ، اس طرح فرقہ پرستی کا زہر اتر پردیش کے معاشرہ میں سیاست پر مکمل غلبہ حاصل کرنے کیلئے کیا گیا ہے۔ افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ اتر پردیش میں جو سیاست کی دنیا میں جانے پہچانے جاتے ہیں وہ اعظم خان اور مختار انصاری یا عتیق انصاری کی طرح ہیں ۔ ان سب کا کردار جارحانہ قسم کا ہے جس کی وجہ سے ہندوؤں میں مسلمانوں کی تصویر اچھی نہیں ہے۔ ابھی الیکشن کے بعد اعظم خان نے جس طرح ایم ایل اے کے سرٹیفیکٹ حاصل کرنے کے دن مجسٹریٹ کو ڈرایا دھمکایا جسے میڈیا نے بار بار اپنے اسکرین پر دکھایا اس سے میڈیا نے اثر ڈالنا چاہا کہا کہ رسی جل گئی مگر اینٹھن نہیں گئی۔ اقتدار ختم ہوگیا مگر اقتدار کا نشہ باقی ہے۔

اتر پردیش میں اگر معتدل اور متوازن قسم کی سیاسی قیادت نہیں ابھرتی ہے تو مسلمانوں کیلئے مزید مصیبتیں کھڑی ہوسکتی ہیں ۔ جو لوگ مذہبی یا دینی قیادت میں زندگی گزار رہے ہیں وہ جب الیکشن کے موقع پر اپنی رائے پیش کرتے ہیں تو اپنی سیاسی بصیرت کا ثبوت نہیں دیتے ہیں ۔ زیادہ تر لوگ ذاتی قربت یا ذاتی مفاد کیلئے طرفداری والی بات کرتے ہیں ۔ بیانات میں زبردست انتشار پایا گیا جس سے مسلم عوام الناس کنفیوژن کے شکار تھے اور ان کا ووٹ نہ صرف دو خیموں میں بٹا بلکہ کئی خیموں میں بٹ کر بے معنی اور بے مصرف (useless) ہوگیا۔ جن جماعتوں کا ہیڈ کوارٹر دہلی ہے وہ دہلی سے ہی نظارہ کرتے رہے انھوں نے بھی کوئی محنت و مشقت اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ مسلمانوں کا اگر یہی حال رہا تو حالات بدلیں گے نہیں بلکہ بد سے بدتر ہوسکتے ہیں ۔ جو لوگ غور و فکر کرتے ہیں وہ اکٹھا ہوکر خدا واسطے مسلمانوں کا Longterm (طویل المیعاد) اور Shortterm (قلیل المیعاد) منصوبہ ضرور بنائیں اور غیر سیاسی انداز سے اس کی تشہیر کریں ۔ جب ہی حالات میں کچھ سدھار ہوسکتا ہے۔ غیر مسلموں کو بھی جوڑنے کی ضرورت ہے جو صاف ذہن کے ہیں تاکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ماحول پیدا ہوا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔