مودی جی! تعصب اور نفرت کے عینک کو بدلئے
ایک ہندستانی شہری کا وزیر اعظم کے نام ایک خط
کیرالہ کے کوزی کوڈ میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کئی دنوں پہلے اپنی پارٹی کی قومی کونسل کو خطاب کرتے ہوئے جہاں بہت اچھی اچھی باتوں کا اظہار کیا وہیں مسلمانوں کے متعلق اپنے گرو پنڈت دین دیال اپادھیائے کے خیالات کو جس انداز اور لب و لہجہ میں پیش کیا ہے اس سے وزیر اعظم کی تعصب پسندی کی ذہنیت اور گراوٹ پورے طور پرعیاں ہوجاتی ہے اور پتہ چلتا ہے کہ آر ایس ایس کے ماحول میں پلنے اور بڑھنے والا بلندی پر جانے کے باوجود اپنی فاسدانہ اور زہر آلود ذہنیت کو چھوڑنے سے قاصر ہوتا ہے۔ اسے یہ بھی تمیز نہیں ہوتی ہے کہ اس وقت اسے ہندستانیوں نے جمہوریت کی بدولت کتنا بڑا مقام و مرتبہ بخشا ہے اور اس کا حق کیسے اور کیونکر ادا ہوسکتا ہے؟ انگریزی روزنامہ ’دی ٹیلیگراف‘ نے ان کی اس نفرت انگیز تقریر پر بڑا پرمغز اور معنی خیز تبصرہ کرتے ہوئے بڑی سچی بات لکھی ہے کہ ’’پنڈت اپادھیائے یا مودی دونوں ہی کے خیال اور نظریہ سے عیاں ہوتا ہے کہ مسلم فرقہ کے خلاف ان کے تعصب اور نفرت کی جڑیں کتنی گہری ہیں اور ان کا دل و دماغ کس قدر fix ہے ۔ ٹیلیگراف نے گرو اور چیلا کے منتر کو تعجب خیز یا حیرت انگیز نہیں کہا ہے بلکہ کہا ہے کہ یہ آر ایس ایس کی پرورش و پرداخت اور تعلیم و تربیت کا نتیجہ ہے کیونکہ جس ماحول میں مودی جیسے لوگ برسوں اور مدتوں پلے اور بڑھے ہوں ان سے ان کی ذہنیت کو الگ کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ غیر ممکن ہے۔
راقم نے سنگھ پریوار کے مکھیا کی تقریر پر مضمون لکھنے کے بجائے بہتر سمجھا کہ نریندر مودی کو اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جو غلط فہمی ہے اس کے ازالہ کیلئے چند سطری خط لکھا جائے جس میں انھیں اسلام کے مطالعہ کی دعوت دی جائے اور ٹیلیگراف کے اداریہ کی ایک کاپی بھیجی جائے جس سے انھیں اپنے بارے میں حقیقت کا علم ہو اور اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں از سر نو غور کرنے کی وہ ضرورت محسوس کرسکیں۔
وزیر اعظم مسٹر نریندر مودی!
آپ نے کوزی کوڈ میں اپنی پارٹی کی قومی کونسل کے اراکین کو خطاب کرتے ہوئے جہاں اچھی اور دل لگتی باتیں کہیں ہیں وہیں مسلمان اور اسلام کے متعلق جن باتوں کا اظہار اپنے گرو پنڈت دین دیال اپادھیائے کے خیالات و نظریات کے حوالے سے جس پسندیدگی اور تعریفی کلمات کے ساتھ کیا اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ آپ کا اور پورے سنگھ پریوار کا ذہن اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہے۔
سب سے پہلے میں آپ سے استدعا کروں گا کہ آپ کچھ موقع نکال کر قرآن و حدیث جو اسلام کا سر چشمہ ہے اسے پڑھنے کی کوشش کریں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کرنے کی زحمت فرمائیں۔ ممکن ہو تو اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اپنے ملک کے بڑے بزرگوں اور دانشوروں مثلاً سوامی ویویکا نند، مہاتما گاندھی، رابندر ناتھ ٹیگور، نیتا جی سبھاش چندر بوس، سروجنی نائیڈو وغیرہ کی رائے بھی کم وقتوں میں ملاحظہ فرمائیں۔ آپ ایسے بزرگ ہندستانیوں کے بارے میں اپنی اچھی رایوں کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ شاید ان کی باتوں سے آپ کو بہت کچھ جاننے اور سمجھنے کی باتیں ملیں جس سے آپ کی وسعت نظری کو جلا ملے۔
شاید آپ اس حقیقت سے انکار نہ کرسکیںکہ اسلام صرف چند کروڑ ہندستانیوں کا مذہب نہیں ہے بلکہ دنیا بھر کے لاکھوں،کروڑوں بلکہ اربوں انسانوں کا مذہب ہے اور اس کے ماننے والوں کی تعداد عیسائیوں کے بعد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ اس حقیقت سے بھی آپ کیلئے انکار کرنا ممکن نہیں ہوگا کہ امریکہ، فرانس اور یورپی ممالک میں جہاں تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبردست چمک دمک ہے وہاں بغیر کسی لالچ اور حرص کے ہر سال ہزاروں انسان حلقہ بگوش اسلام ہوتے ہیں اور جو لوگ اسلام کے دامن امن اور سلامتی میں پناہ لے لیتے ہیں ان کو بہت کچھ غیروں کی طرف سے دینے کی بات کہی جاتی ہے جب بھی وہ دین اسلام سے منحرف نہیں ہوتے۔ کیا یہ دلیل کم ہے اسلام کی سچائی اور حقانیت کی؟
مذکورہ بالا ملکوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہر سال ہزاروں فلمیں بنتی ہیں اور لاکھوں کتابیں شائع ہوتی ہیں اور میڈیا کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زبردست پروپیگنڈہ ہوتا ہے جب بھی عیسائی مرد اور عورت کی اسلام میں داخل ہونے کی رفتار کم نہیں ہوتی بلکہ ہر سال بڑھتی رہتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ میں اگر 5 افراد مسلمان ہوتے ہیں تو اس میں 3عورتیں ہوتی ہیں۔ جن ملکوں میں عورتوں کی آزادی اور بے حیائی اور بے لباسی کا راگ الاپا جاتا ہے وہاں عورتوں کا اسلام میں داخل ہونے کا یہ حال ہے۔ میں آپ سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا یہ لوگ پڑھ لکھ کر پاکیزگی قبول کرتے ہیں یا ناپاکی اور گندگی کو قبول کرنا پسند کرتے ہیں۔ کیا یہ روشنی کو چھوڑ کر اندھیرے میں سفر کرنا پسند کرتے ہیں یا اندھیرے کو چھوڑ کر روشنی میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔
دنیا بھر کے یہودی اور عیسائی دانشوروں مثلاً جولیس میزرمین (Jules Maesserman)، میکائیل ایچ ہرٹ (Micheal H.Hart)، ٹامس کار لائل، جارج برناڈشا، جرنیل نپولین نے اسلام کی حقانیت اور صداقت کا دل سے اظہار و اعتراف کیا ہے۔ ان جیسے ہزاروں لوگوں نے کیا ہے جن کی ہر بات کو آسانی سے آج انٹرنیٹ پر دیکھا اور پڑھا جاسکتا ہے۔
آخر میں میں چاہوں گا کہ قرآن مجید جو اسلام کے علم کا سرچشمہ ہے، اس کے چھ ساتھ بول جو چند جملوں پر مشتمل ہیں جنھیں ہر روز مسلمان پانچ وقت کم سے کم 36بار پڑھتا اور سنتا ہے جسے قرآن کی تمہید، اساس ، خلاصہ اور نچوڑ کہا جاتا ہے جو پورے قرآن میں تعلیم دی گئی ہے وہی اختصار کے ساتھ چند جملوں میں دی گئی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
’’تعریف اللہ ہی کیلئے ہے جو تمام کائنات کا پروردگار ہے، رحمن اور رحیم ہے۔ روز جزا کا مالک ہے۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے انعام فرمایا جو معتوب نہیں ہوئے جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں‘‘ (سورہ الفاتحہ)۔
اگر طوالت کا ڈر نہیں ہوتا تو میں آزادی ہند کے ایک بڑے مجاہد اور سپہ سالار مولانا ابوالکلام آزاد کا سورہ فاتحہ کی تعلیمی روح پر تبصرہ اس خط میں شامل کرتا۔ مولانا موصوف اپنے تبصرہ کے آخر میں غور و فکر کی دعوت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’غور کرو مذہبی تصور کی یہ نوعیت انسان کے ذہن و عواطف کیلئے کس طرح سانچا مہیا کرتی ہے جس انسان کا دل و دماغ ایسے سانچے میں ڈھل کر نکلے گا وہ کس قسم کا انسان ہوگا؟ کم از کم دو باتوں سے تم انکار نہیں کرسکتے، ایک یہ کہ اس کی خداپرستی، خدا کی عالمگیر رحمت و جمال کے تصور کی خدا پرستی ہوگی۔ دوسری یہ کہ کسی معنی میں بھی وہ نسل و قوم یا گروہ بندیوں کا انسان نہیں ہوگا عالمگیر انسانیت کا انسان ہوگا اور دعوت قرآنی کی اصلی روح یہی ہے‘‘ (ترجمان القرآن)۔
’دی ٹیلیگراف‘ کے اداریہ (28 ستمبر 2016ء) کی کٹنگ بھی پیش خدمت ہے جس میں مدیر اخبار نے آپ کی تقریر پر تبصرہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف آپ اور سنگھ پریوار کی نفرت اور تعصب کس قدر deep-rooted ہے۔ پھر موصوف نے آپ کے مقام و مرتبہ کے پیش نظر آپ کی توجہ مبذول کرائی ہے کہ آپ کو پورے ملک کے باشندوں کی نمائندگی کرنی چاہئے نہ کہ ایک خاص گروہ یا ایک خاص خاندان کی۔ امید ہے ٹیلیگراف کے اداریہ پر بھی نظر ڈالنے کی زحمت گوارا کریں گے ع
زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو
مخلص
عبدالعزیز

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔