ایک جانور کی قربانی ایک گھرانے کی طرف سے کافی ہے!

مقبول احمد سلفی

قربانی سنت مؤکدہ ہے اور اس کی بڑی تاکید آئی ہے، جسے قربانی کی وسعت ہو اسے قربانی کرنا چاہئے ۔ بہت سے لوگ قربانی کے مسائل نہیں جانتے اس وجہ سے پریشانی بھی ہوتی ہے اور قربانی میں غفلت وسستی بھی ۔ یہاں میں بتلانے جارہاہوں کہ ایک بکرا یا بکری گھر کے تمام افراد کی طرف سے کافی ہے ۔ ہمارے یہاں رواج یہ ہے کہ ایک جانور ایک آدمی کے طرف سے ہی دیا جاتا ہے اور گھروں میں ایک سال باپ کی طرف سے، دوسرے سال ماں کی طرف سے، تیسرے سال بیٹے کی طرف سے، چوتھے سال بیٹی کی طرف سے ۔ اس طرح قربانی کا رواج چلتا ہے جبکہ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ایک بکرے کی قربانی میں گھر کا سرپرست یعنی باپ کے ساتھ، اس کی بیوی اور بچے سب  شامل ہوسکتے ہیں ۔ یہ عمل  رسول اللہ ﷺ، صحابہ کرام اور تابعین وتبع تابعین سے ثابت ہے ۔ گویایہ بات متحقق ہے کہ ایک قربانی پورے ایک فیملی ممبرس کے لئے کافی ہے، اس کے لئے  سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ایک گھرانہ کسے کہتے ہیں ؟ ۔

اس بارے میں علمائے کرام کے چار اقوال ہیں جسے شیخ محمد صالح منجد نے ذکر کیا ہے:

(1)جن میں تین شرائط پائی جائیں : (الف)قربانی کرنے والا شخص انکے خرچہ کا ذمہ دار ہو (ب) وہ تمام افراد اسکے رشتہ دار بھی ہو (ج) قربانی کرنے والا شخص انکے ساتھ رہائش پذیر ہو، یہ موقف مالکی فقہائے کرام کا ہے۔

(2)جن پر ایک ہی شخص خرچ کرتا ہو، یہی موقف کچھ متأخر شافعی فقہاء کا ہے۔

(3)قربانی کرنے والے کے تمام عزیز و اقارب، چاہے ان پر یہ خرچ بھی نہ کرتا ہو۔

(4)قربانی کرنے والے کیساتھ رہنے والے تمام افراد چاہے اسکے رشتہ دار نہ ہوں ، اس موقف کے قائلین میں خطیب شربینی، شہاب رملی، اور متأخر شافعی فقہاء میں سے طبلاوی رحمہم اللہ جمیعا شامل ہیں ، لیکن ابن حجر ہیثمی رحمہ اللہ نے اسے بعید قرار دیا ہے۔

ان باتوں کا خلاصہ یہ ہوا کہ تین اساب کی بنیاد پہ فیملی /گھرانہ قرار پائے گا وہ ہیں : قرابت، سکونت اور انقاق یعنی ایک چولہے پہ جمع ایک آدمی کی سرپرستی میں اس کے سارے رشتہ دارجن پہ وہ خرچ کررہاہےایک گھرانہ ہے ۔ اس میں آدمی کی بیوی، اس کے لڑکے، اس کی لڑکیا ں اور وہ قریبی رشتہ دارشامل ہیں  جو ساتھ میں رہتے ہوں مثلا بہو۔ان سب لوگوں کی طرف سے ایک جانور کی قربانی کافی ہے ۔ اس کے بہت سارے دلائل ہیں جیساکہ عطاء بن يسار بيان كرتے ہيں كہ ميں نے ابو ايوب انصارى رضى اللہ تعالى عنہ سے دريافت كيا کہ:

كيفَ كانتِ الضَّحايا علَى عَهدِ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ فقالَ كانَ الرَّجلُ يُضحِّي بالشَّاةِ عنهُ وعن أهلِ بيتِه فيأكلونَ ويَطعمونَ حتَّى تَباهى النَّاسُ فصارت كما تَرى(صحيح الترمذي:1505)

ترجمہ: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں قربانى كا كيا حساب تھا ؟تو انہوں نے جواب ديا:آدمى اپنى اور اپنے گھروالوں كى جانب سے ايك بكرى قربانى كرتا تو وہ بھى كھاتے اور دوسروں كو بھى كھلاتے۔

اس حدیث کے تحت صاحب تحفۃ الاحوذی لکھتے ہیں :

وهو نص صريح في أن الشاة الواحدة تجزئ عن الرجل وعن أهل بيته وإن كانوا كثيرين وهو الحق .

ترجمہ:يہ حديث اس  بات كى صريح دليل ہے كہ ايك بكرى آدمى اور اس كے گھروالوں كى جانب سے كافى ہے چاہے ان كى تعداد زيادہ ہى کیوں نہ ہو، اور حق بھى يہى ہے۔

ابن ماجہ میں بھی یہ روایت ہے جسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے ۔

عَنْ عَطَاءِ بْنِ یَسَارٍ قَالَ سَأَلْتُ اَبَا اَیُّوْبَ الْاَنْصَارِیَّ کَیْفَ کَانَتِ الضَّحَایَا فِیْکُمْ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اﷲِ قَالَ کَانَ الرَّجُلُ فِیْ عَھْدِ النَّبِیِّ یُضَحِّیْ بِالشَّاۃِ عَنْہُ وَ عَنْ اَھْلِ بَیْتِہٖ فَیَاْکُلُوْنَ وَ یُطْعِمُوْنَ حَتّٰی تَبَاھَی النَّاسُ فَصَارَکَمَا تَرَی .(صحيح ابن ماجه:2563)

ترجمہ:حضرت عطاء نے ابوایوب سے پوچھا کہ نبی ﷺ کے عہد میں قربانیوں کا کیا حال تھا؟ انھوں نے جواب دیا کہ عہد نبوی میں ایک آدمی ایک بکری اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربانی دیتا تھا۔۔۔ کبھی کھاتے اور کبھی اوروں کو کھلاتے۔ یہاں تک کہ فخرو مباہات شروع ہو گیاجیسے تم دیکھ رہے ہو۔

اوپر والی حدیث میں عہد رسول کا ذکر ہے کہ ایک بکری ایک گھروالوں کی طرف سے قربانی دی جاتی تھی، اب ایک حدیث بیان کررہاہوں جس میں نبی ﷺ خود ہی ایک مینڈا  اپنی طرف سے اوراپنےپورے گھر والے کی طرف سے قربانی کرتے بلکہ ایک مینڈا میں پوری امت کو شامل کرتے تھے ۔

حضرت عائشہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:

كانَ إذا أرادَ أن يضحِّيَ، اشتَرى كبشينِ عظيمينِ، سَمينينِ، أقرَنَيْنِ، أملَحينِ موجوءَينِ، فذبحَ أحدَهُما عن أمَّتِهِ، لمن شَهِدَ للَّهِ، بالتَّوحيدِ، وشَهِدَ لَهُ بالبلاغِ، وذبحَ الآخرَ عن محمَّدٍ، وعن آلِ محمَّدٍ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ (صحيح ابن ماجه: 2548)

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے جب قربانی کرنا چاہتے تو دو بڑے بڑے، موٹے تازے، سینگوں والے چتکبرے او رخصی مینڈھے خریدتے ۔ ایک اپنی امت کی طرف سے ذبح فرماتے، یعنی امت کے ہر اس فرد کی طرف سے جو اللہ کی گواہی دیتا ہو اور نبی ﷺ کے پیغام پہچانے (اور رسول ہونے ) کی گواہی دیتا ہو ۔اور دوسرا محمد ﷺ کی طرف سے، اور محمد ﷺ کی آل کی طرف سے ذبح کرتے ۔

ایک اور حدیث میں ایک مینڈھے کا ذکر ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مینڈھا اپنی جانب سے اور اپنی امت کی جانب سے قربان کیا۔

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :

شَهِدْتُ معَ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ الأَضحى بالمصلَّى، فلمَّا قَضى خطبتَهُ نزلَ من منبرِهِ، وأُتِيَ بِكَبشٍ فذبحَهُ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ بيدِهِ، وقالَ: بسمِ اللَّهِ واللَّهُ أَكْبرُ، هذا عنِّي، وعمَّن لَم يضحِّ من أمَّتي(صحيح أبي داود:2810)

ترجمہ: میں ایک عید الاضحی کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید گاہ میں حاضر تھا ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خطبہ مکمل کر لیا اور منبر سے اترے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مینڈھا پیش کیا گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور یہ دعا پڑھی «بسم الله والله أكبر هذا عني وعمن لم يضح من أمتي»اللہ کے نام سے اور اللہ سب سے بڑا ہے، یہ میری طرف سے اور میری امت کے ان لوگوں کی طرف سے ہے جو قربانی نہیں کر سکے ۔

ابوداؤد کی اس حدیث کے تحت حافظ شمس الحق عظیم آبادی عون المعبود میں لکھتے ہیں :

قلت : المذهب الحق هو أن الشاة تجزئ عن أهل البيت ؛ لأن الصحابة كانوا يفعلون ذلك في عهد رسول الله .

ترجمہ: میں نے کہا کہ حق یہی ہے کہ ایک بکری پوری گھر والے کی طرف سے کفایت کرجاتی ہے اس لئے کہ صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایسا ہی کرتے تھے ۔

اس کے بعد انہوں نےدلیل کے طور پراوپر گزری ساری احادیث کا ذکر کیا ہے اور بعض صحابہ کا عمل بھی بیان کیاہے  ۔ تفصیل کے لئے دیکھیئے عون المعبود شرح سنن ابی داؤد، کتاب الضحایا، باب فی الشاۃ یضحی بھا عن جماعۃ ۔ اس باب سے بھی حدیث کا مفہوم عیاں ہے کہ ایک بکری ایک جماعت یعنی ایک گھر کی طرف سے کافی ہے ۔ اسی طرح امام ابوداؤد کے علاوہ امام ترمذی نے بھی ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ والی روایت پہ باب باندھا ہے "باب ماجاء ان الشاۃ الواحد تجزی عن اھل البیت ” یعنی باب ہے اس بارے میں کہ ایک بکری پورے گھر والوں کی طرف سے کفایت کرجائے گی۔ ساتھ ہی امام ترمذی نے یہ بھی کہا ہے کہ اس پہ بعض اہل علم کا عمل بھی ہے ۔

احادیث رسول کے علاوہ سلف وخلف سے بہت آثار واقوال ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سلف بھی رسول اللہ ﷺ کی اس سنت پہ عمل کرتے آرہے ہیں ۔

(1)صحابہ کے عمل کے متعلق اوپر ترمذی اور ابن ماجہ کی صحیح حدیث گزرگئی ہے جس میں ابو ایوب رضی اللہ عنہ کا قول ہےکہ ” ایک آدمی اپنی طرف سے اور اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرتا تھا "یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ تمام صحابہ کا یہی موقف اور عمل تھا،اس کا ذکر اور بھی متعدد احادیث میں ہے۔

(2) بخاری شریف میں سیدنا عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ کا پورے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کرنا مذکور ہے جبکہ ساتھ میں ان کی ماں بھی رہا کرتی تھیں ۔

وَكَانَ يُضَحِّي بِالشَّاةِ الْوَاحِدَةِ عَنْ جَمِيعِ أَهْلِهِ(صحیح البخاری: 7210)

ترجمہ: اوروہ اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے ایک ہی بکری قربانی کیا کرتے تھے ۔

(3) حضرت ابو سریحہ حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا:

حملني أَهلي على الجفاءِ بعدَ ما علِمتُ منَ السُّنَّةِ كانَ أَهلُ البيتِ يضحُّونَ بالشَّاةِ والشَّاتينِ والآنَ يبخِّلُنا جيرانُنا(صحيح ابن ماجه:2564)

ترجمہ: میرے گھر والوں نے مجھے غلط کام پر مجبور کردیا جبکہ مجھے سنت طریقہ معلوم ہے ایک گھر والے ایک بکر ی یا دو بکریاں ذبح کیا کرتے تھے ۔ اب تو (اگر ہم ایک کی قربانی دیں تو )ہمارے ہمسائے ہمیں بخیل کہنے لگتے ہیں ۔

(4) حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی آیا ہے کہ وہ ایک بکری پورے گھروالوں کی طرف سے قربانی کرتے تھے ۔ (ابن ابی الدنیا)

(5)حافظ ابن قيم رحمہ اللہ ” زاد المعاد ” ميں كہتے ہيں : "وكان من هديه صلى الله عليه وسلم أن الشاة تجزئ عن الرجل وعن أهل بيته ولو كثر عددهم”.

ترجمہ: اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ اور سنت ميں يہ بھى شامل ہے كہ ايك بكرى آدمى اور اس كے گھر والوں كى جانب سے كافى ہے چاہے ان كى تعداد كتنى بھى زيادہ ہو.(بحوالہ تحفۃ الاحوذی)

(4)امام شوكانى ” السیل الجرار ” ميں لكھتے ہيں :

والحق أنها تجزئ عن أهل البيت وإن كانوا مائة نفس۔

ترجمہ: حق بات یہ ہے کہ ایک بکری پورے گھر والے کی طرف سے کفایت کرے گی اگرچہ ان کی تعداد سو کی کیوں نہ ہو۔ (بحوالہ عون المعبود)

(5) امام نووی نے شرح مسلم میں لکھا ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے دلیل لی جاتی ہے کہ آدمی کی قربانی، اس کی جانب سے اور اس کے گھروالوں کی جانب سے جائز ہے اور یہ گھروالے اس آدمی کے ساتھ ثواب میں شریک ہوں گے، یہی موقف ہمارا اور جمہور کا ہے اور ثوریؒ، امام ابوحنیفہ ؒ اور ان کے اصحاب نے ناپسند کیا ہے ۔ (بحوالہ غنیۃ الالمعی از حافظ شمس الحق عظیم آبادی)

(6) حافظ خطابی نے معالم میں ذکر کیا ہے کہ نبی ﷺ کا قول "من محمد وآل محمد ومن امۃ محمد” اس بات کی دلیل ہے کہ ایک بکری آدمی اور اس کے گھروالوں کی طرف سے کافی ہے اگر چہ ان کی تعداد بہت ہو۔ ابوبکروعمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ ایسا ہی کرتے تھے اور اسے مالک ؒ، اوزاعیؒ، شافعیؒ، احمد بن حنبلؒ اور اسحاق بن راہویہ ؒ نے جائز کہا ہے اور ابوحنیفہ ؒ اور ثوری ؒ نے اسے ناپسند کیا ہے ۔ (بحوالہ عون المعبود)

(7) حافظ ابن حجر ؒ نے کہا کہ جمہور اس سے دلیل پکڑتے ہیں کہ آدمی کی قربانی اس کی طرف سے اور اس کے گھروالوں کی طرف سے کفایت کرجائے گی اورحنفیہ نے اس کی مخالفت کی ہے اور طحاوی نے مخصوص اور منسوخ ہونے کا دعوی کیا ہے مگر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے ۔ (بحوالہ عون المعبود)

(8) شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ دوسگے بھائی، اپنی اولاد کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے ہیں ، ان کا کھانا پینا ایک ساتھ ہوتا ہے تو کیا ان سب کی طرف سے ایک قربانی جائز ہے ؟ تو شیخ نے جواب دیا کہ ہاں  جائز ہے کہ ایک اہل خانہ ایک قربانی پہ اکتفا کرے، اگر چہ اہل خانہ میں دوفیملی کیوں نہ ہواور اس سے قربانی کی فضیلت حاصل ہوتی ہے۔ (فتاوی نور علی الدرب) الشرح الممتع میں شیخ نےکہا کہ ثواب میں شرکت کی کوئی قید نہیں ہے کیونکہ نبی ﷺ نے ساری امت کی جانب سے قربانی کی ہے اور ایک شخص ایک آدمی کی جانب سے ایک قربانی کرتا ہے خواہ ان کی تعدادسو ہی کیوں  نہ ہو۔

شیخ محترم کا ایک فتوی یہ بھی ہے کہ ایک گھر میں والے لوگوں کی طرف سے ایک ہی قربانی کفایت کرجائے گی خواہ تعداد زیادہ کیوں نہ ہو، اس کی مثال یوں سمجھ لیں کہ سب بھائی ایک جگہ ہیں اور سبھی کا کھانا اکٹھے تیار ہوتا ہے اور وہ سب ایک ہی مکان میں رہتے ہیں اور ان کی بیویاں بھی ہوں ، اسی کے مثل والد کا اپنے بیٹوں کے ساتھ حکم ہے، خواہ اس کے کچھ بیٹے شادی شدہ ہوں تو ان کی طرف سے ایک ہی قربانی کافی ہوگی۔(مجموع فتاوى ورسائل ابن عثيمين)

(9) شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ میں شادی شدہ ہوں اور پنے بچوں کے ساتھ گھروالوں سے الگ دوسرے شہر میں رہتا ہوں ، عید الاضحی کی مناسبت سے چند روز قبل گھروالوں کے پاس بچوں کے ساتھ آتا ہوں اور قدرت رکھنے کے باوجود قربانی نہیں کرتااس کا حکم بتائیں تو شیخ نے جواب دیا کہ ایک قربانی آدمی اور اس کے گھر والوں کی طرف سے کفایت کرجاتی ہے جیساکہ رسول اللہ ﷺ نے ایک قربانی اپنی جانب سے اور اپنے گھروالوں کی جانب سے ہرسال کی ہے لیکن اے سائل آپ مستقل گھر میں رہتے ہیں اس لئے آپ کےلئے مشروع ہے کہ آپ اپنی جانب سے اور اپنے اہل کی جانب سے الگ قربانی کریں ، آپ کے والد کی قربانی آپ کے لئے کفایت نہیں کرے گی کیونکہ آپ ان کے ساتھ نہیں ہیں بلکہ الگ طور پر مستقل گھر میں ہیں ۔ (باختصارمجموع فتاو ی شیخ ابن باز 18/37)

(10) دائمی فتوی کمیٹی سے سوال کیا گیا کہ اگر میرے والدین کے ساتھ میری اہلیہ بھی اسی گھر میں رہتی ہوتو کیا میرے اور میرے والدین کی طرف سے ایک قربانی کفایت کرے گی ؟ تو کمیٹی نے جواب دیا کہ اگر صورت ایسی ہی ہے کہ والد اور اس کے بیٹے ایک ہی گھر میں رہتے ہوں تو ایک ہی قربانی آپ کی، آپ کے والدکی،آپ کی  والدہ کی اور آپ کی بیوی کی کافی ہے ۔ (فتاوی اللجنۃ الدائمۃ: 11/404)

ایک بکری کی قربانی سے متعلق چند امور

٭ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اوپر بیان کردہ صحیح  احادیث، آثار، اقوال اور فتاوے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک جانور کی قربانی پورے ایک گھر کے افراد کے لئے کافی ہے چاہے ان کی تعداد جتنی ہو۔

٭  اگر گھر کے افراد کی طرف سے الگ الگ جانور دینے کی وسعت ہو اور ان کی طرف سے الگ الگ قربانی دینے کی خواہش ہوتو دی جاسکتی ہے، اس کی ممانعت نہیں ہے۔

٭ ایک بکرے میں چند متعدد گھرانے کے افراد کی شرکت جائز نہیں بلکہ ایک ہی  گھر کے افراد کی طرف سے یہ کفایت کرے گا۔

٭ ایک گھر کے وہ سارے رشتہ دار جو ایک سرپرست پہ جمع ہوں ، گوکہ کمانے والے متعدد افراد ہوں مگر ان سب کی طرف سے ایک جانور کی قربانی  کافی ہے ۔

٭ نبی ﷺ کی متعدد بیویاں تھیں اور قربانی کی اس قدر تاکید کے باوجود آپ نے ان سب کو الگ الگ قربانی کرنے کا کبھی حکم نہیں دیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ گھر کے سرپرست کی قربانی میں گھروالے شامل ہوتے ہیں یعنی ذمہ دار کی قربانی گھر کے سارے افراد کی طرف سے کفایت کرجاتی ہے ۔

٭  گھر والوں میں شادی شدہ بیٹا ہو تو وہ بھی باپ کی طرف سے ایک قربانی میں شامل ہوگاحتی کہ  اس کی بیوی بھی۔

٭ شادی کے بعد اگر بیٹا اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ الگ رہائش پذیر ہوجائے تو انہیں اپنی اور اپنے اہل وعیال کی جانب سے ایک الگ بکری قربانی کرنی ہوگی، انہیں باپ کی قربانی کفایت نہیں کرے گی ۔

٭ جن لوگوں نے کہا کہ اسلام میں جوائنٹ فیملی کا تصور نہیں ہے، شادی کے بعد بیٹا آزاد ہے وہ اپنی قربانی خود کرے گا خواہ باپ کے ساتھ ہی کیوں نہ رہتا ہو۔ یہ ساتھ رہنا ہی بتلاتا ہے کہ فیملی جوائنٹ ہے، ہاں یہ بات درست ہے کہ شادی کے بعد بیٹا خود کفیل ہوجاتا ہے مگر برصغیر میں پائی جانے والی غربت اور ماحول  کی وجہ سے اکثر فیملی جوائنٹ ہی رہتی ہیں ، عام طور سےمسئلہ معاش کا ہوتا ہے، اگرآداب وقوانین کے ساتھ فیملی جوائنٹ رہنا چاہے تو ناجائز نہیں ہے ۔ایک صحابی کے والد وفات پاگئے جنہوں نے نو بیٹیاں چھوڑی تھیں تو اس صحابی نے اپنی بہنوں کو ساتھ میں رکھا ۔ یہ حدیث بخاری میں 5367 نمبر کی ہے ۔

٭ جن لوگوں نے نبی ﷺ کے عمل کو مخصوص یا منسوخ کہا ہے ان کے پاس اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے، حق یہی ہے کہ نبی ﷺ کا عمل عام ہے اسی وجہ سے صحابہ کرام نے آپ کی سنت پر عمل کیالہذا حنفیہ کااس سلسلے میں انکار سنت کی خلاف ورزی ہے جیساکہ اوپر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا قول گزرا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔