بعض احادیث پر سائنسی اعتراضات اور ان کا جواب

ڈاکٹر احید حسن

وعن عائشة ورافع بن خديج عن النبي صلى الله عليه وسلم قال الحمى من فيح جهنم فأبردوها بالماء .

اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بخار جہنم کی بھاپ ہے لہٰذا تم اس کو پانی سے ٹھنڈا کرو۔ ” (بخاری ومسلم، مشکوۃ شریف۔ جلد چہارم۔ طب کا بیان۔ حدیث 455

بخار کا علاج اور پانی

بعض حضرات جیسا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی اور المناوی نے کہا ہے کہ ارشاد گرامی کا مقصد بخار کی حرارت کو دوزخ کی آگ سے مشابہت دینا ہے یعنی بخار دوزخ کی آگ کی تپش کا نمونہ ہے، اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ حدیث کے الفاظ حقیقی معنی پر محمول ہیں جیسا کہ باب مواقیت میں یہ روایت گزری ہے کہ موسم گرما کی تپش و حرارت اصل میں دوزخ کی بھاپ کا اثر ہے، لہٰذا ہو سکتا ہے کہ بخار کی حرارت و جلن بھی دوزخ کی بھاپ کا اثر ہو۔  علمائے کرام نے اس حدیث پاک کی مختلف تشریحات کی ہیں بعض علماء نے اس کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے کہ یعنی جہنم میں جو گرمی برداشت کرنی پڑتی ہے اس کے بدلے میں اﷲ نے یہ گرمی دے دی تاکہ اس بخار کی وجہ سے وہ گناہ دنیا ہی کے اندر دھل جائے اور معاف ہو جائے۔ﷲ کے نبی ﷺ جب مریض کی عیادت فرماتے تو فرماتے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ:  ایک اعرابى [بدّو، دیہاتی] آيا، تو نبي صلى الله عليه وسلم نے اس سے کہا: کیا آپ کو کبھی "ام ملدم” [بخار] آئی ہے، تو اس نے کہا یہ "ام ملدم” کیا ہے، تو آپ نے فرمایا: یہ گوشت اور چمڑی کے درمیان پیدا ہونے والی حرارت ہے۔ پھر آپ نے اس سے کہا: کیا کبھی آپ کے سر میں درد ہوا ہے؟ تو اس نے کہا: سر کا درد کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: یہ سرميں گھس جانے والی گیس ہے جو رگوں میں چوٹ کرتی ہے، تو اس نے کہا: نہیں ۔ جب یہ اعرابی اٹھ کر چلاگیا، تو آپ نے فرمایا: كوئی شخص اگرکسی جہنمی کو دیکھنا چا ہے ( تو اس آدمی کو دیکھ لے)۔ اس حدیث کوامام بخاری نے ادب مفرد میں حدیث نمبر381 میں ذکرکیا ہے، اورشیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح بتایا ہے، فؤادعبد الباقی کا اس حدیث کے بارے میں قول ہے کہ: یہ حدیث صحاح ستہ میں کہیں نہیں ہے، اس حدیث کوالادب المفرد میں امام بخاری کے علاوہ امام احمد نے مسند میں 2/332، 366،نمبر پر، امام نسائی نے السنن کبری میں 4/ 353، 7492 نمبرپر، ابن حبان نے صحیح میں 7/ 178 (2916)نمبرپر، ابویعلی نے مسند ميں 11/ 432 (6556) نمبرپر، امام حاکم نے مستدرک میں 1/ 347، اوربزار نے کشف الاستارمیں 3691/369، نمبر پر، اورہناد بن السری نے (الزہد) میں 1/ 246، 426 نمبرپرذکر کیا ہے، اس حدیث کو ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے، اورحاکم کا قول ہے: یہ حدیث امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے لیکن دونوں نے اسکی تخریج نہیں کی، اورالہیثمی نے مجمع الزوائد 2/ 294 میں کہا ہے: اسکی اسناد حسن ہے۔حافظ ابن رجب اس حدیث یعنی بخار جہنم کی ایک گرمی (لوہاركى دهونكنى) ہے، اور جب یہ ایک مسلمان کولاحق ہوتی ہے، تو یہ جہنم کا نصيب ہوتی ہے۔ کی شرح کے وقت لکھتے ہیں : لہذا جب بخارجہنم کا حصہ ہے توسابقہ احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ یہ قیامت کے دن جہنم کی آگ کا مومن کا حصہ ہے، اور مفہوم اسکا یہ ہوا (واللہ اعلم): کہ دنیا میں بخار مومن کے گناہوں کا کفارہ اور پاکی کا ذریعہ ہے، یہاں تک کہ مومن اللہ تعالی سے گناہوں سے پاک وصاف اور طاہر جا ملے، تاکہ اس کے معزز گھر دارالسلام میں رہنے کے قابل ہوجائے، اور مزید طہارت کی ضرورت نہيں ہے، یہ اس مومن کے حق میں ہے جس نے ایمان پر ثابت قدم رہا، اوراس نے صرف وہی گناہ کیا جوبخار وغیرہ سے ختم ہوجاتا ہے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ بکثرت احادیث پائی جاتی ہیں کہ امراض ومصائب لاحق ہونے سے گناہ مٹ جاتے ہیں ، آگے کہتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کوجہنم کا مستحق بتایا جسے بخار یا سردرد نہیں ہوتا، اسے جہنمی ہونے کی علامت بتائی۔ اور اس کے برعکس مومن کی علامتیں ہیں ، جیساکہ مسند اور نسائی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعرابی سے فرمایا: کیا تمہیں ام ملدم بخارآیا ہے۔۔۔ الخ، گذشتہ وضاحت سے ظاہر حدیث کا اشکال ختم ہوجاتا ہے، اور اس شخص پر جہنم میں دخول کا حکم اس لئے لگایا جارہا ہے، کیونکہ وہ ایسے گناہوں کا ارتکاب کررہا ہے جو جہنم کو واجب کرنے والے ہیں ، اور دنیا میں اسکا کفارہ نہیں ہوتا ہے، اور یہ خبر اللہ تعالی نے علم غیب کے ذریعے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی، واللہ اعلم۔

حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ الصَّوَّافُ حَدَّثَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَی أُمِّ السَّائِبِ أَوْ أُمِّ الْمُسَيَّبِ فَقَالَ مَا لَکِ يَا أُمَّ السَّائِبِ أَوْ يَا أُمَّ الْمُسَيَّبِ تُزَفْزِفِينَ قَالَتْ الْحُمَّی لَا بَارَکَ اللَّهُ فِيهَا فَقَالَ لَا تَسُبِّي الْحُمَّی فَإِنَّهَا تُذْهِبُ خَطَايَا بَنِي آدَمَ کَمَا يُذْهِبُ الْکِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ

عبیداللہ بن عمر قواریری یزید بن زریع حجاج صواف ابوزبیر، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام سائب یا ام مسیب کے ہاں تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ام سائب یا اے ام مسیب تجھے کیا ہوا تم کانپ رہی ہو اس نے عرض کیا بخار ہے اللہ اس میں برکت نہ کرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بخار کو برا نہ کہو کیونکہ بخار بنی آدم کے گناہوں کو اس طرح دور کرتا ہے کہ جس طرح بھٹی لوہے کی میل کچیل کو دور کر دیتی ہے۔(صحیح مسلم۔ جلد سوم۔ صلہ رحمی کا بیان۔ حدیث 2069)

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ إِسْحَاقُ : أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ : حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ : دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُوعَكُ فَمَسِسْتُهُ بِيَدِي، فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ لَتُوعَكُ وَعْكًا شَدِيدًا ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَجَلْ، إِنِّي أُوعَكُ كَمَا يُوعَكُ رَجُلَانِ مِنْكُمْ، قَالَ : فَقُلْتُ : ذَلِكَ أَنَّ لَكَ أَجْرَيْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَجَلْ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُصِيبُهُ أَذًى مِنْ مَرَضٍ فَمَا سِوَاهُ، إِلَّا حَطَّ اللَّهُ بِهِ سَيِّئَاتِهِ كَمَا تَحُطُّ الشَّجَرَةُ وَرَقَهَا "، وَلَيْسَ فِي حَدِيثِ زُهَيْرٍ : فَمَسِسْتُهُ بِيَدِي .

 ‏سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بخار آیا تھا۔ میں نے ہاتھ لگایا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کو سخت بخار آتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں مجھ کو اتنا بخار آتا ہے جتنا تم میں سے دو کو آئے۔“ میں نے کہا: آپ کو دو اجر ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں ۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کو ئی ایسا مسلمان نہیں جس کو تکلیف پہنچی بیماری کی یا اور کچھ مگر اللہ تعالیٰ اس کے گناہ گرا دیتا ہے جیسے درخت اپنے پتے گرا دیتا ہے۔“

دوسری قسم کے طور پر، یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان  ‏‏لا تستقبلوا القبلة بغائط، ولا بول، ولا تستدبروها، ولكن شرقوا، أو غربوا کے مطابق ہے:    پیشاب پاخانہ کرتے وقت  کے  قبیلہ کی طرف  منہ یا پشت  مت کرو،  بلکہ مشرق یا مغرب کا کی طرف منہ کرو۔   ,یہ بیان (مشرق یا مغرب کا سامنا) ان لوگوں کے لئے نہیں ہے جو مشرق وسطی، مغرب یا عراق میں رہتے ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ یہی معاملہ ہے:  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بخار کے بیان کے بارے میں ہے

اس حقیقت کو سمجھنے کے، ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بخار کے بارے میں خاص طور پر یہ بات  حجاز (مغربی عرب) کے لوگوں کے لئے کی ہے، کیونکہ اس علاقے کے لوگوں کو بخار گرمی میں شدید گرم موسم یعنی Sun stroke کے نتیجے میں ہوتا ہے.  ,بخار کی اس قسم کے علاج کے لیے  سرد پانی کی ضرورت ہوتی ہے، یا پھر اسے پینے یا غسل لے کر.  ,

ان حقائق کے مطابق، یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حدیث حادثاتی بخار یعنی Accidental fever   بارے میں بات کر رہی ہے جو ٹھنڈے پانی یا غسل سے ٹھیک ہوتا ہے نہ کہ متعدی ب بیماری والے بخار کی جو دوائی سے ٹھیک ہوتا ہے لیکن ٹھنڈے پانی سے غسل اس بخار کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور یہ طریقہ جدید میڈیکل سائنس میں آج بھی استعمال کیا جاتا ہے.  ,اس صورت میں ، بیمار شخص کسی دوسرے دوا کی ضرورت نہیں ہے،

ابو نعیم نے کہا، انوس نے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم میں سے کسی کو بخار ہو تو اس کے سر پہ دن شروع ہونے سے پہلے  تین مسلسل راتوں کے لئے  پانی کا چھڑکاؤ کریں ۔ اس کا فایدہ یہ ہے کہ اس وقت سورج کی روشنی نہیں ہوتی اور پانی بخار کے خلاف زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے۔

اس حدیث کے اصل مخاطب اہل حجاز ہیں کیونکہ مکہ اور مدینہ کے رہنے والے کو عام طور پر سورج کی شدید تمازت، گرم آب و ہوا اور دھوپ میں ان کی محنت مشقت کرنے اور ان کے مزاج کی تیزی و گرمی کی وجہ سے بخار ہو جایا کرتا تھا، چنانچہ جو بخار آفتاب کی حرارت و تمازت، کوئی گرم دوا وغیرہ کھانے دھوپ و تپش میں زیادہ چلنے پھرنے اور حرکت کرنے اور آب و ہوا کے دباؤ کی وجہ سے ہو اس کا بہترین علاج پانی ہے کہ ٹھنڈے پانی میں غوطہ لگایا جائے یا یہ ٹھنڈا پانی اپنے بدن پر بہایا جائے، یا بخار کو پانی سے ٹھنڈا کیا جائے کہ مراد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس طرح کے بخار میں ٹھنڈی دوائیں پانی میں مخلوط کر کے استعمال کی جائیں اور بعض حضرات کے مطابق اس سے یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ جس شخص کو بخار ہو وہ پیاسوں کو اللہ واسطے ٹھنڈا پانی پلائے، اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ اس کے بخار کو دور کر دے گا۔

زیادہ گرمی سے ہیٹ اسٹروک عام ہے گرم ممالک میں اور اس کی وجہ سے بہت تیز بخار ہوتا ہے جو کہ بعض اوقات 105 تک چلا جاتا ہے اور اس کی وجہ سے ہم نے اپنے سامنے ہسپتال میں مریض مرتے بھی دیکھے ہیں ۔
حدثنا علي بن عبد الله، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حدثنا سفيان، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حفظناه من الزهري، ‏‏‏‏‏‏عن سعيد بن المسيب، ‏‏‏‏‏‏عن ابي هريرة، ‏‏‏‏‏‏عن النبي صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏

"إذا اشتد الحر فابردوا بالصلاة، ‏‏‏‏‏‏فإن شدة الحر من فيح جهنم.

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا اس حدیث کو ہم نے زہری سے سن کر یاد کیا، وہ سعید بن مسیب کے واسطہ سے بیان کرتے ہیں ، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ جب گرمی تیز ہو جائے تو نماز کو ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو، کیونکہ گرمی کی تیزی دوزخ کی آگ کی بھاپ کی وجہ سے ہوتی ہے۔(كتاب مواقيت الصلاة حدیث نمبر: 536)

اس کی وجہ یہی ہے کہ کم گرمی کے وقت پڑھی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ شریک ہوسکیں ۔
اور اگلی حدیث، حدیث نمبر 537میں وارد ہے:

"‏ واشتكت النار إلى ربها فقالت يا رب أكل بعضي بعضا‏.‏ فأذن لها بنفسين نفس في الشتاء، ‏‏‏‏ونفس في الصيف، ‏‏‏‏فهو أشد ما تجدون من الحر، ‏‏‏‏وأشد ما تجدون من الزمهرير ‏”‏‏.‏

دوزخ نے اپنے رب سے شکایت کی کہ اے میرے رب! (آگ کی شدت کی وجہ سے) میرے بعض حصہ نے بعض حصہ کو کھا لیا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دی، ایک سانس جاڑے میں اور ایک سانس گرمی میں ۔ اب انتہائی سخت گرمی اور سخت سردی جو تم لوگ محسوس کرتے ہو وہ اسی سے پیدا ہوتی ہے۔

اس کی اردو تشریح یہ ہوسکتی ہے کہ دوزخ نے حقیقت میں شکوہ کیا، وہ بات کرسکتی ہے جب کہ آیت شریفہ ویوم نقول لجہنم ( ق: 30) میں وارد ہے کہ ہم قیامت کے دن دوزخ سے پوچھیں گے کہ کیا تیرا پیٹ بھر گیا، وہ جواب دے گی کہ ابھی تک توبہت گنجائش باقی ہے۔ وقال عیاض انہ الاظہر واللہ قادر علی خلق الحیاۃ بجزءمنہا حتی تکلم اویخلق لہا کلا مایسمعہ من شاءمن خلقہ وقال القرطبی لا احالۃ فی حمل اللفظ علی حقیقتہ واذا اخبر الصادق بامرجائز لم یحتج الی تاویلہ فحملہ علی حقیقتہ اولیٰ۔ ( مرعاۃ المفاتیح،ج 1، ص: 392 ) یعنی عیاض نے کہا کہ یہی امر ظاہر ہے اللہ پاک قادر ہے کہ دوزخ کو کلام کرنے کی طاقت بخشے اوراپنی مخلوق میں سے جسے چاہے اس کی بات سنادے۔ قرطبی کہتے ہیں کہ اس امر کو حقیقت پر محمول کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ اور جب صادق ومصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک امرجائز کی خبردی ہے تو اس کی تاویل کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ اس کو حقیقت ہی پر محمول کیا جانا مناسب ہے۔

علامہ شوکانی فرماتے ہیں : اختلف العلماءفی معناہ فقال بعضہم ہو علی ظاہرہ وقیل بل ہو علی وجہ التشبیہ والاستعارۃ وتقدیرہ ان شدۃ الحر تشبہ نارجہنم فاحذروہ واجتنبوا ضررہ قال والاول اظہر و قال النووی ہو الصواب لانہ ظاہر الحدیث ولامانع من حملہ علی حقیقتہ فوجب الحکم بانہ علی ظاہرہ انتہیٰ۔ ( نیل ) یعنی اس کے معنے میں بعض اہل علم اس کو اپنے ظاہر پر رکھتے ہیں ، بعض کہتے ہیں کہ اس حرارت کو دوزخ کی آگ سے تشبیہ دی گئی ہے اورکہا گیاہے کہ اس کے ضررسے بچو اور اوّل مطلب ہی ظاہر ہے۔ امام نووی کہتے ہیں کہ یہی صواب ہے، اس لیے کہ حدیث ظاہرہے اور اسے حقیقت پر محمول کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے۔

حضرت مولانا وحیدالزماں صاحب مرحوم فرماتے ہیں کہ دوزخ گرمی میں سانس نکالتی ہے، یعنی دوزخ کی بھاپ اوپر کو نکلتی ہے اور زمین کے رہنے والوں کو لگتی ہے، اس کو سخت گرمی معلوم ہوتی ہے اورجاڑے میں اندر کو سانس لیتی ہے تواوپر گرمی نہیں محسوس ہوتی، بلکہ زمین کی ذاتی سردی غالب آکر رہنے والوں کو سردی محسوس ہوتی ہے۔ اس میں کوئی بات عقل سلیم کے خلاف نہیں ۔ اور حدیث میں شبہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ زمین کے اندر دوزخ موجود ہے۔ جیالوجی والے کہتے ہیں کہ تھوڑے فاصلہ پر زمین کے اندر ایسی گرمی ہے کہ وہاں کے تمام عنصرپانی کی طرح پگھلے رہتے ہیں ۔ اگرلوہا وہاں پہنچ جائے تواسی دم گل کر پانی ہوجائے۔

سفیان ثوری کی روایت جوحدیث ہذا کے آخر میں درج ہے اسے خود امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب بدءالخلق میں اوریحییٰ کی روایت کو امام احمد رحمہ اللہ نے وصل کیاہے۔ لیکن ابوعوانہ کی روایت نہیں ملی۔

حدثنا عاصم بن علي حدثنا ابن ابي ذئب عن سعيد المقبري عن ابيه عن ابي هريرة، ‏‏‏‏‏‏عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:‏‏‏‏ إن الله يحب العطاس، ‏‏‏‏‏‏ويكره التثاؤب،‏‏‏‏ فإذا عطس احدكم وحمد الله كان حقا على كل مسلم سمعه ان يقول له:‏‏‏‏ يرحمك الله، ‏‏‏‏‏‏واما التثاؤب فإنما هو من الشيطان،‏‏‏‏ فإذا تثاؤب احدكم فليرده ما استطاع، ‏‏‏‏‏‏فإن احدكم إذا تثاءب ضحك منه الشيطان.

ہم سے عاصم بن علی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سعید مقبری نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند کرتا ہے کیونکہ وہ بعض دفعہ صحت کی علامت ہے اور جمائی کو ناپسند کرتا ہے۔ اس لیے جب تم میں سے کوئی شخص چھینکے تو وہ الحمدللہ کہے لیکن جمائی لینا شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس لیے جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو وہ اپنی قوت و طاقت کے مطابق اسے روکے۔ اس لیے کہ جب تم میں سے کوئی جمائی لیتا ہے تو شیطان ہنستا ہے۔
آگے ہے وہ تو بنی آدم کا دشمن ہے۔ آدمی کی سستی و کاہلی دیکھ کر خوش ہوتا ہے(صحيح بخاري كتاب الأدب بَابُ إِذَا تَثَاوَبَ فَلْيَضَعْ يَدَهُ عَلَى فِيهِ(بَابُ إِذَا تَثَاوَبَ فَلْيَضَعْ يَدَهُ عَلَى فِيه  ِحدیث نمبر: 6226)

مسلم کی ایک روایت میں ہے:

”جب کوئی جمائی لیتا ہوا معا کی آواز نکالتا ہے تو شیطان اس سے ہنستا ہے”۔
یعنی شیطان کے اثر سے جمائی آتی ہے وہ اس سے خوش ہوتا ہے ہاہ کرنے پر وہ ہنستا ہے اسی لیے حضرت انبیاءکرام کو جمائی کبھی نہیں آئی جیسے کہ انہیں احتلام نہیں ہوتا کہ یہ شیطانی چیزیں ہیں ۔(مرقات)

,اس کے معنی کے بارے میں یہ کہا گیا تھا کہ شیطان ایک شخص کو جمائی لیتا  دیکھنا چاہتا ہے کیونکہ اسے اس سے انسان  مختلف نظر آتا ہے اور اس سے وہ ہنستا ہے.  ,اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شیطان ہی وہ ہے جو اس جمائی کا سبب بنتا ہے.  ,اور یہ کہا گیا ہے کہ جمائی کو شیطان سے  منسوب کیا جاتا ہے کیونکہ یہ  پیٹ کے بھرے ہونے اور تھکاوٹ   سے آتی ہے، جس سے سستی پیدا ہوتی ہے اور عبادات میں مشکل پیش آتی ہے،المناوی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جمائی کو شیطان سے منسوب کیا جاتا ہے کیونکہ اس نے خواہشات کو فروغ دیا ہے، جس سے بسیار خوری اور سستی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور عبادات کی ادائیگی مشکل ہوتی ہے۔

عن أبِيْ هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قال : قال رسُوْلُ الله صلى الله عليه وسلم :اشْتَكَت النار إلى رَبِها فقالَتْ : ياربِ أكَلَ بَعْضِيْ بَعْضًا , فَأذِنَ لَهَا نَفْسَيْن :نَفْس فِيْ الشِتَاء وَنَفْس فِيْ الصَيْفِ فهو أشَد مَا تَجِدُوْن مِن الحَر وأشَد مَا تَجِدُوْنَ مِن الزَمْهَريْر۔
{صحیح البخاری :537المواقیت، صحیح مسلم :617المساجد}​

سیدنا ابوہریر ۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا جہنم نے اپنے رب سے شکایت کرتے ہوئے کہا : اے میرے رب ؛ میرے ایک حصے نے دوسرے حصے کو کھا لیا تو اللہ تعالی نے {سال میں }اس کے لئے دو سانس لینے کی اجازت دے دی، ایک سانس سردی کے موسم میں اور دوسری سانس گرمی کے موسم میں ، چنانچہ یہی وجہ ہے جو تم شدید گرمی محسوس کرتے ہو اور یہی وجہ ہے جس کی وجہ سے تم شدید سردی محسوس کرتے ہو۔

آج چند ہفتوں سے پوری دنیا گرمی ( اب اس کا اُلٹ کر لیں ) کی جس شدت سے دوچار ہے اسکی مثال ماضی قریب کی تاریخوں میں نہیں ملتی، شدید گرمی سے انسان وحیوان سبھی پریشان ہیں ، اللہ کی مخلوق متعدد بیماریوں میں مبتلا ہے، بلکہ متعدد ملکوں سے وفیات کی خبریں بھی آرہی ہیں ۔ لیکن گرمی میں شدت کیوں ہوتی ہے اسے دیکھ کر ایک مسلمان کا موقف کیا ہونا چاہئے اور اسمیں ایک مسلمان کیلئے کیا سامان عبرت ہے، یہ وہ حقائق ہیں جو عام لوگوں پر واضح نہیں ہیں ، زیر بحث حدیث میں انہیں بعض امور کا بیان ہے اور ان میں سے بعض کی طرف اشارہ ہے چنانچہ:

اولا اس حدیث میں دنیا میں گرمی وسردی کا ایک ایسا غیبی سبب بیان ہوا ہے جو دنیا والوں کی نظروں سے اوجھل ہے، یعنی جب اللہ تعالی نے جہنم کو پیدا فرمایا اور اسمیں اس قدر تپش رکھی کہ اس کی شدت خود اس کیلئے نا قابل برداشت ٹھہری تو جہنم نے اس کا گلہ اللہ تعالی سے کیا، چنانچہ اللہ تعالی نے اسے یہ اجازت دی کہ سال میں دوبار سانس لیکر اس شدت میں قدرے تخفیف کرلیا کرے، تو گویا جب جہنم اپنا سانس باہر کی طرف لیتی ہے تو اہل زمین گرمی اور اس میں شدت محسوس کرتے ہیں اور جب جہنم اپناسانس اندر کی طرف لیتی ہے تو اہل زمین سردی کی شدت محسوس کرتے ہیں ، بہت ممکن ہے کہ جہنم کے یہی سانس سورج کے شمال و جنوب کے طرف مائل ہونے کا سبب ہو ں ، اگر چہ اسکے ظاہری اور سائنسی اسباب کچہ اور ہیں ۔

ثانیا دنیا کی گرمی اور سردی کو دیکھ کر ایک مسلمان کو آخرت کی گرمی یاد کرنا چاہئے آج یہ سورج جو ہم سے اربوں کلو میٹر کی دوری پر ہے اور اسکی گرمی ناقابل برداشت ہو رہی ہے تو جس وقت سورج صرف ایک میل کی انچائی پر ہوگا اس وقت اسکی گرمی کس طرح قابل برداشت ہو گی ؟ آج ہمارے جسم پر مناسب کپڑے ہیں ، سایہ کیلئے گھنے درخت ہیں ، دھوپ کی گرمی کی شدت کو کم کرنے کیلئے وافر مقدار میں پانی موجود ہے پھر بھی اس سورج کی گرمی ناقابل برداشت بن گئ ہے اور اسکے سبب مختلف امراض رونما ہو رہے ہیں حتی کہ بہت سے جاندار اس گرمی کی تاب نہ لاکر مرجارہے ہیں تو قیامت کے دن جب ایک میل کی مسافت پر موجود سورج کی گرمی سے بچنے کیلئے نہ جسم پر کوئی کپڑا ہو گا، نہ کسی درخت ومکان کا سایہ ہو گا اور نہ ہی اسکی شدت کو کم کرنے کیلئے پانی کا ایک قطرہ ہوگا تو وہ گرمی کسطرح برداشت کی جائے گی،

آج اس دنیا میں سورج صرف چند کھنٹے طلوع ہوتا ہے اور اسکی گرمی کی شدت بھی صرف چار چھ کھنٹے رہتی ہے اور صبح وشام لوگوں کو ٹھنڈی سانس لینے کا موقعہ مل جاتا ہے، سوچنے کی بات ہے کہ سورج کی یہی تپش اگر چوبیس کھنٹے رہتی تو اسے کس طرح برداشت کرتے پھر اہل دنیا ذا غور کریں کہ قیامت کا وہ دن جو چندکھنٹوں کا نہ ہو گا بلکہ وہ ایک دن کم ازکم پچاس ہزار سال کا ہو گا اور اس میں نہ صبح ہو گی اورنہ شام ہو گی اور نہ ہی رات آئے گی، اس وقت کی گرمی اور سورج کی تپش کس طرح قابل برداشت ہو گی ؟

اسی چیز کی طرف ہماری توجہ دلاتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب پچاس ہزار سال تک اللہ تعالی تمہیں اس طرح جمع کئے رکھے گا جس طرح ترکش میں تیروں کو ٹھونس دیا جاتا ہے پھر تمہاری طرف کوئی توجہ بھی نہ فرمائے گا
{ مستدرک الحاکم }​

​حوالہ جات:

http://www.hadithurdu.com/09/9-4-455/
http://alifta.net/Fatawa/Fatwaprint.aspx?languagename=ur&id=11155&BookID=3&sectionid=
http://www.hadithurdu.com/09/9-4-455/
http://alifta.net/Fatawa/Fatwaprint.aspx?languagename=ur&id=11155&BookID=3&sectionid=
http://hadith.ihyas.com/bukhari537/
http://forum.mohaddis.com/threads/%DA%AF%D8%B1%D9%85%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B3%D8%B1%D8%AF%DB%8C.22650/

تبصرے بند ہیں۔