قرآن مجید کے حقوق اور ہماری ذمہ داریاں!

مفتی محمد صاد ق حسین قاسمی 

    قرآن کریم عظیم الشان ،حیرت انگیز ،انقلاب آفریں اور تاریخ ساز کلام ہے ،جس کی عظمت کی کوئی انتہانہیں اور جس کے مقام ومرتبہ کا کوئی اندازہ نہیں لگاسکتا ،اللہ تعالی نے اپنے اس آخری اور عظیم کلام کو اور کلاموں کے سردار ،کتابوں کے تاجدار کو اپنے آخری نبی سید الانبیاء سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل فرمایا۔مقدس ترین کلام کو، عظیم ترین ،افضل ترین ہستی پر ،مبارک ترین مہینہ میں ،عظمتوں والی رات میں ،برکتوں والی سرزمین پر،نہایت امانت دار اور ملائکہ کے سردار فرشتہ جبرئیل ؑکے ذریعہ نازل فرمایا۔

 قرآن ِ مجید کتاب ِ ہدایت ہے ،جسے اللہ تعالی کے نزول کے لئے ماہِ رمضان المبارک کا انتخاب فرمایا ۔ارشادِ خداوندی ہے :شہر رمضان الذی انزل فیہ القراٰن ھدی للناس وبینات من الھدی والفرقان۔( البقرۃ :185)’’رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے سراپا ہدایت اور ایسی روشن نشانیوں کا حامل ہے جو صحیح راستہ دکھاتی اور حق و باطل کے درمیان دوٹوک فیصلہ کردیتی ہیں ۔‘‘ مہینہ رمضان المبارک کا منتخب کیا گیا تو رات کے لئے شب قدر کی تعیین فرمائی جو انتہائی بابرکت رات اور عظیم الشان شب ہے۔ارشاد ہے :اناانزلنا ہ فی لیلۃ القدر الخ ۔’’بیشک ہم نے اس ( قرآن ) کو شب ِ قدر میں نازل کیا ۔اور تمہیں کیا معلوم کہ شب ِ قدر کیا چیز ہے ؟شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔اس میں فرشتے اور اور روح اپنے پروردگار کی اجازت سے ہر کام کے لئے اترتے ہیں ،وہ رات سراپا سلامتی ہے فجر کے طلوع ہونے تک ۔‘‘شب قدر کی عظمت یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالی نے اپنے مبارک کلام کو نازل فرماکر انسانوں کو ہدایت کا گراں قدر نسخہ عطا کیا ۔

 یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن مجیدعظیم ایک بے مثال کتاب ہے ، ہدایت اور اصلاح ،انقلاب اور تبدیلی، ظاہر و باطن کی درستگی اور دنیا و اخرت کی تما م تر بھلائیوں اور کامیابیوں کو اللہ تعالی نے اس میں جمع کر رکھا ہے ،علوم ومعارف ،اسرار وحکم کی تمام باتیں اس میں موجود ہے۔قرآن کریم ہی نے دنیا میں انقلاب برپا کیا اور جنہوں نے قرآن کو تھاما اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوئے وہی لوگ دنیا میں انسانوں کے امام اور قائد ،رہبر و رہنما بنے ۔ اس عظیم کلام اور کتاب کے حقو ق جو عائد ہوتے ہیں ان کو اداکیا جائے تبھی جاکرمذکورہ تمام خوبیوں سے انسان سے متصف ہوسکتا ہے اور قرآن ہر انسان کے اندر انقلابی کیفیت پیدا کرسکتا ہے اس لئے قرآن کریم کے جو حقوق نبی کریم ﷺ نے بیان فرمائے ہیں ان کی رعایت کرنا اس کے مطابق قرآن کریم سے استفادہ کرنا ضرور ی ہے ،چناں چہ ذیل میں ان حقو ق میں سے چندکا مختصراً تذکرہ کیا جاتا ہے ۔

قرآن مجید پر ایمان لانا:

 قرآن کریم پر ایمان لانا ،جیسا کہ اس کا حق ہے ،اس کو خدا کا آخری کلام ہونے کی دل سے تصدیق کرنا اور عمل سے اس کا ثبوت دینا کیوں کہ اللہ تعالی نے باضابطہ قرآن کریم پر ایمان لانے اور اس کے حلال کو حلال جاننے اور حرام کو حرام سمجھنے کا حکم دیا ۔اللہ تعالی فرمایا:یایہا الذین امنوا امنواباللہ ورسولہ والکتب الذی نزل علی رسولہ والکتب الذی انزل من قبل ومن یکفر باللہ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الاخر فقد ضل ضللابعیدا۔( النساء:136)’’اے ایمان والو!اللہ پر ایمان رکھو،اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر اتاری ہے اور ہر اس کتاب پر جو اس نے پہلے اتاری تھی ۔اور جو شخص اللہ کا،اس کے فرشتوں کا،اس کی کتابوں کا ،اس کے رسولوں کا اور یوم ِ آخرت کا انکار کرے وہ بھٹک کر گمراہی میں بہت دور جاپڑاہے۔‘‘

قرآن مجید کو پڑھنااور سیکھنا:

 قرآن کریم کو سیکھنے اور سکھانے کا اہتما م کرنا ،اس کو سیکھ کر ہی ہم قرآن سے مستفید ہوسکتے ہیں اور اس کی تلاوت کا حق ادا کرسکتے ہیں ،نبی کریم ﷺ کے مقاصد ِبعثت جو قرآن میں مختلف مقامات پر بیان کئے ہیں اس میں ایک اہم مقصد تلاوتِ قرآن بھی ہے ۔ارشاد ہے :لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ  وِاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُبِیْن۔( اٰل عمران:164)’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مؤمنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ تعالی کی آیتوں کی تلاوت کرے،انہیں پاک وصاف بنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے ،جبکہ یہ لوگ اس سے پہلے یقینا کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا تھے۔‘‘رسول اللہﷺ نے امت میں تلاوتِ قرآن کی عظمت واہمیت کو عام فرمایا،اور اس کے فوائد وبرکات سے آگاہ کیا،اورانسانوں کے ہاتھ میں خدا کا یہ عظیم کلام سونپا، جس کی وجہ سے انسانیت قعر ِ مذمت سے نکلی اور تلاوت ِ قرآن کا ایسا ذوق ان کو عطا کیا کہ اس سے کسی لمحہ صحابہ کرام ؓ کو سیر حاصل نہیں ہوتی تھی ،اور خود آپﷺ جب قرآن کریم کی تلاوت فرماتے کتنے ہی پتھر دل موم ہوجاتے اور کیسے کیسے سخت مزاج انسان نرم پڑجاتے اور قرآن کی حقانیت و عظمت کا اقرار کئے بغیر نہیں رہتے اور بہت سے لوگ اسی قرآن کی سماعت سے دائرہ ٔ اسلام میں داخل ہوئے۔دنیا میں جو کچھ انقلاب نظر آرہا ہے بلاشبہ یہ اس عظیم کتاب کی بدولت ہے جو صاحب ِکتاب سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے بطور امانت انسانوں تک پہنچایا اور اس کے تقاضوں کو عملی طور پر پورا کرکے دکھایا۔قرآن کا نزول عرب کی سرزمین پر پوا لیکن وہ پوری دنیا کے لئے اور ہمیشہ ہمیشہ کے واسطے معجزہ ٔ نبوی بن کر آیا اور اس کی کرنیں سارے عالم میں پھیل گئیں اور جہاں قرآن کا نور پہنچا وہاں اندھیریوں کا خاتمہ ہوا اور کفر و شرک نے دم توڑدیا ۔حضرات صحابہ کرامؓ ؓکی زندگیوں میں انقلابی اثرات اسی کلام نے پیدا کئے ،اور وہ انسانوں کو رہبر اور رہنما بنیں بھی تو اسی قرآن کی تعلیمات پر عمل کرکے بنیں ۔قرآن نے ہر شعبۂ زندگی میں مثالی انقلاب بر پا کیا ۔تلاوت ِ قرآن کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا:جو قرآن کریم پڑھنے میں اس قدر مستغرق ہو کہ اس سے دعا مانگنے کا موقع ملے تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ مانگنے والوں سے زیادہ ایسے بندے کو عطاکروں گا۔(ترمذی:2869) اورنبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ: خیر کم من تعلم القراٰن وعلمہ ۔( بخاری:4664)تم میں بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔بڑے ،چھوٹے ،مرد و عورت تمام کو اس قرآن کو اُسی انداز اور اصول کے مطابق سیکھنا ضروری ہے جوکہ صحیح ہو ۔

قرآن مجیدکو سمجھنا:

 قرآن مجید کو تلاوۃ ًپڑھنے کے ساتھ اس کے معانی اور مضامین میں تدبر کرنا ،اس کے مفہوم میں غور و فکر کرنا ،تفاسیر ِقرآن کی روشنی میں ،نبی کریم ﷺ کی تشریحات اور صحابہ کرامؓ کے عمل سے قرآن مجید کے مقصود تک رسائی حاصل کرنے کوشش کرنا بھی ضروری ہے ،کیوں کہ جب تک مطلوب ِقرآن کو نہیں سمجھا جائے گا تو یقینی طور پر عمل آوری کا جذبہ بھی نہیں ابھرے گا ،اور اللہ تعالی کیا فرمارہاہے اس سے آگہی بھی حاصل نہیں ہوگی ۔اللہ تعالی نے نہایت چونکادینے والے انداز میں کیا کہ:افلایتدبرون القراٰن أم علی قلوب أقفالہا۔(محمد :24)یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پرقفل پڑے ہوئے ہیں ۔اس لئے قرآن کریم کو سمجھا اس کا حق ہے۔قرآن کریم کو سمجھنے اور اس کی معلومات کو حاصل کرنے کا شوق صحابہ کرام ؓ میں اس درجہ تھا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں :اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ کتاب اللہ کی کوئی آیت ایسی نازل نہیں ہوئی جس کے بارے میں مجھے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کس بارے میں اور کہاں نازل ہوئی ؟اور اگر مجھے کسی ایسے شخص کا پتہ چلے جو کتاب اللہ کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتا ہو اور سواریاں اس کے پاس پہنچاسکتی ہوں تو مین اس کے پاس ضرور جاؤں گا۔( تفسیر ابن کثیر:1/8)

قرآن مجید پر عمل کرنا:

  قرآن مجید کا ایک حق اور اہم حق یہ بھی ہے کہ اس کی تعلیمات کے مطابق عمل کیا جائے ۔قرآن صرف پڑھ کر یا سمجھ کر رکھ دینے کی کتاب نہیں ہے بلکہ اس کے مطابق زندگیوں کو بنانے اور سنوارنے کی ضرور ت ہے ۔قرآن نے حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے لئے اصول بتائے ،اور اس کی تشریخ نبی کریم ﷺ نے فرمائی ۔قرآن کریم میں حکم دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ :وھذا کتاب أنزلنا ہ مبارک فاتبعوہ ۔( الانعام :155)یعنی یہ (قرآن )مبارک کتاب جو ہم نے نازل کی اس کی اتباع کرو۔اور ایک جگہ فرمایا کہ :اتبعوا ماأانزل الیکم من ربکم۔( الاعراف:3)یعنی جو کچھ تمہارے رب کی جانب سے تمہاری طرف نازل کیا گیا اس کی اتباع کرو۔قرآن کریم کی تعلیمات سے روگردانی اختیار کرنادنیا وآخرت میں انتہائی خطرناک ہوگا ۔قرآن کریم میں خود اللہ تعالی نے فرمایا:ومن اعرض ذکری فان لہ معیشۃ ضنکا ونحشرہ یوم القیامۃ اعمی  قال رب لم حشرتنی اعمی وقد کنت بصیرا قال ذلک اتتک اٰیتنا فنسیتھا وکذلک الیوم تنسی ۔(طہ:124۔126)اور جو میری نصیحت سے منہ موڑے گاتو اس کو بڑی تنگ زندگی ملے گی ،اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے۔وہ کہے گا کہ :یارب! تونے مجھے اندھا کرکے کیوں اٹھایا ،حالاں کہ میں آنکھوں والا تھا؟اللہ کہے گا: اسی طرح ہماری آیتیں تیرے پاس آئی تھیں مگر تونے انہیں بھلادیا۔اور آج اسی طرح تجھے بھلادیا جائے گا۔‘‘امام قرطبی ؒ نے ’’ذکری‘‘ کی تشریح میں لکھا ہے :أی دینی ،وتلاوۃ کتابی والعمل بما فیہ۔( الجامع للقرطبی:14/157)یعنی جس نے اعراض کیا میرے دین سے ،میری کتاب کی تلاوت اور اس میں موجود احکام واعمال سے ۔صحابہ کرام ؓ کی حالت یہ تھی کہ قرآن کریم کا جتنا حصہ بھی پڑھتے تھے اس پر فورا عمل شروع کردیتے۔امام ابوعبد الرحمن سلمی تابعی فرماتے ہیں :صحابہ کرام میں جو حضرات قرآن کریم کی تعلیم دیا کرتے تھے ،مثلا حضرت عثمان اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ وغیرہ ،انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ جب آپ ﷺ سے دس آیتیں سیکھتے تو ان سے اس وقت تک آگے نہیں بڑھتے تھے ،جب تک کہ ان آیتوں کی تمام علمی وعملی باتوں کا علم حاصل نہ کرلیں ،ہم نے قرآن اور عمل دونوں ایک ساتھ سیکھا۔( علوم القرآن:338)

قرآن سے محبت واحترام کرنا:

 قرآن مجید کا ایک حق یہ ہے کہ اس سے کلام ِالہی ہونے کی بنیاد پر محبت کی جائے۔عربی کا ایک محاور ہ ہے کہ : ’’کَلاَمُ الْمُلُوْکِ مُلُوْکُ الْکَلَامِ‘‘کہ بادشاہو ں کا کلام ، کلاموں کا بادشاہ ہو تا ہے ۔قرآن کریم تو احکم ُالحاکمین اور ربُ العالمین کا کلام ہے تو اس کا کتنا پاس و لحا ظ رکھنا چاہئے ؟اور اس کی کتنی محبت دلوں میں ہونی چاہیے؟ شیخ عبد اللہ بن جار اللہ ؒ نے حکیم ترمذی ؒ کے حوالہ سے قرآن کریم کے آداب واحترام کے تحت لکھا ہے :قرآن کا احترام یہ ہے کہ باوضو ہوکر ہی اسے ہاتھ لگائے،مسواک کرکے اپنے منہ کو پاک وصاف بنالے ،کیوں کہ یہی آپ ﷺطریقہ تھا،قرأت کے وقت قبلہ رخ بیٹھے اور شیطان مردود سے پناہ طلب کرے اور قرأت شروع کرنے سے پہلے اعوذباللہ من الشیطان الرجیم پڑھے اور جب قرأت شروع کرے تو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھے،بلاضرورت لوگوں کی باتوں کی طرف متوجہ ہوکر تلاوت قطع نہ کریں ۔قرأت محبت سے اور ٹھہر ٹھہر کرکرے ۔اپنے ذہن اور فہم کو اس میں مصروف رکھے تاکہ جو خطاب ہورہا ہے اس کو سمجھ سکے ۔وعدے کی ہر آیت پر ٹھہر جائے ۔اللہ تعالی کی طرف رغبت کرے اور اس سے اس کا فضل طلب کرے اور جب کوئی وعید کی آیت آئے تو اس سے اللہ تعالی کی پناہ مانگے۔اس کی امثال پر ٹھہرے تو عبرت حاصل کرے ۔ہر حرف کا پورا حق ادا کرے تاکہ الفاظ پوری طرح واضح ہوجائیں ،کیوں کہ اس کے لئے ہر حرف کے بدلے دس نیکیاں ہیں ۔(فضائل ِقرآن: 86دارالسلام)

 ٹھیک اسی طرح جس درجہ قرآن ِکریم کا ادب اور تعظیم ہو گی اور دل میں عظمت و محبت ہو گی تو پھراعضاء و جوارح سے ادب ِ قرآن کا ظہور ہو گا،اور محبت ِقرآن میں انسان اس سے رشتے کو مضبوط رکھے گا،اور اس کے مطالبات پر عمل پیر اہوگا۔صحابہؓ اور تابعین اور اسلاف ِامت کے بے شمار واقعات ہیں کہ جس سے قرآن سے محبت اور تعلق کا اندازہ ہوتا ہے اس لئے قرآن سے محبت کرنا اس کا اہم حق ہے جو دیگر تمام تقاضوں اور حقو ق کے ادا کرنے میں معاون ہوگا۔

پیغامِ قرآن کو عام کیا جائے:

 قرآن مجید کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اس کے پیغام کو سارے انسانوں تک پہنچا یا جائے ،ہمارے نبی آخری ہیں اور نبی ﷺ کو عطاکیاجانے والا معجزہ قرآن بھی آخری کلام ہے اور قرآن تو’’ ھُدًی ِللنَّاسِ‘‘ ہے سارے انسانوں کو راہِ مستقیم دکھانے کے لئے اور بھٹکے ہوؤں کو منزل ِمقصود تک پہنچانے کے لئے قرآن کریم کو نازل کیا گیا اس پرخود عمل کرتے ہوئے اس کی تعلیمات ساری دنیا کے سامنے پیش کرنا ،اور ہدایت کے اس نسخہ سے بہرہ ور ہونے کی ترغیب دینا بھی اس حقوق میں داخل ہے۔

زوال ِ امت کی بنیادی وجہ:

 مسلمانوں کے زوال کی ایک اہم وجہ اور انحطاط کا اہم سبب قرآن کریم سے دوری ہے ۔مسلمانوں نے آج قرآن کریم کو پس ِ پشت ڈال دیا ،اس کو پڑھنا،سمجھنا اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنا ختم کردیا جس کی وجہ سے ذلت وادبار چھائی ہوئی ہے ۔نبی کریم ﷺ نے امت کے عروج وزوال کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:ان اللہ یرفع بھذا لکتاب اقواما و یضع بہ اخرین۔( مسلم :1359)یقینا اللہ تعالی اس کتاب کے ذریعہ کسی قوم کو سر بلندی عطا فرماتے ہیں ، اور اسی کتاب کے ذریعہ دوسرے لوگوں کو ذلت و رسوائی سے نیچے گرادیتے ہیں ۔شیخ الہند مولانا محمود حسن ؒ نے مالٹا کی جیل سے رہائی کے بعد دارالعلوم دیوبند میں علماء ،طلباء کے ایک مجمع کثیر میں امت کے زوال کی بہت بڑی اور اہم وجہ جوانہوں نے اسارت کے دور میں غور کی تھی اس کو بیان کرتے ہوئے فرمایاتھا:’’میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہورہے ہیں تو اس کے دوسبب معلوم ہوئے ۔ایک ان کا قرآن کو چھوڑدینا ،دوسرے ان کے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی ۔اس لئے میں وہیں سے یہ عزم کے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کا م میں صرف کروں کہ قرآن کو لفظاً اور معنًا عام کیاجائے ،بچوں کے لئے لفظی تعلیم کے مکاتب ہر بستی بستی میں قائم کئے جائیں ،بڑوں کو عوامی در س ِ قرآن کی صورت میں اس کے معانی سے روشناس کرایا جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لئے آمادہ کیا جائے ۔۔۔‘‘مفتی محمد شفیع  ؒ اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :آج بھی مسلمان جن بلاؤں میں مبتلا اور جن حوادث وآفات سے دوچار ہیں ،اگر بصیرت سے کام لیا جائے تو ان کے سب سے بڑے سبب یہی دو ثابت ہوں گے ،قرآن کو چھوڑنا اور آپس میں لڑنا،غور کیا جائے تو یہ آپس کی لڑائی بھی قرآن کو چھوڑنے ہی کا لازمی نتیجہ ہے ۔قرآن پر کسی درجے میں عمل ہوتا تو خانہ جنگی یہاں تک نہ پہنچتی ۔( وحدتِ امت:40)قرآن کریم سے وابستگی کی صورت میں مسلمانوں کی قیادت و سیادت ،کامیابی وکامرانی ،عزت وعروج کا تذکرہ کرنے کے بعد مولانا سعید احمد اکبر آبادی ؒ لکھتے ہیں :لیکن جب سے دنیا کے جھمیلوں میں پڑکر ان کو قرآن حکیم سے بُعد ہونا شروع ہوا ان کی روح ِقومیت بھی درماندہ ہونے لگی اور آج اس کے جو نتائج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ان کے ماتم میں دیدہ ودل سے جتنا بھی دجلۂ خون بہے کم ہے اور جس قدر بھی آہ وفغاں کے شرارے لب ودہن سے بلند ہوں تھوڑے ہیں ۔( فہم ِ قرآن :11)

آخری بات:

    یقینا مسلمانوں کی شان وشوکت ،عظمت ورفعت ،فتح وکامیابی ،عزت وہیبت ،ترقی وسربلندی ،قیادت وسیادت قرآن کریم سے وابستگی ہی میں ہے ۔ہمارے نبی رحمت ِ دوعالم ﷺ نے اپنی امت کو قرآن سے جوڑا اور قرآنی تعلیمات ونبوی ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی تلقین فرمائی ۔اس لئے ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن کریم سے اپنے رشتہ کو مضبوط کریں ،اس کے حقوق اداکرنے کی فکر کریں ،اس کی تعظیم وتکریم بجالانے کی کوشش کریں ،اور قرآن کو صرف جزدانوں کی زینت اور طاقچوں کی رونق بنائے نہ رکھیں بلکہ تلاوت وتعلیم کے ذریعہ اپنی زندگی میں انقلاب لانے کا عزم وارادہ کریں اور سارے جہاں میں قرآنی پیغام اور اس کی عظیم فکر ودعوت کو عام کرنے کا آغاز کریں ۔اور کسی بھی قیمت پر تعلیم ِ قرآن کے مدارس ومکاتب کو ہلکا نہ سمجھیں اور دروس قرآن کی محافل ومجالس سے بے اعتنائی نہ برتیں۔

تبصرے بند ہیں۔