مساجد میں خواتین کے لیے پروجیکٹر کا استعمال

مولانا محمد رضی الاسلام ندوی

 سوال:

ہماری مسجد میں خواتین کے لیے دوسری منزل پر انتظام کیا گیا ہے۔ وہ جمعہ کی نماز میں خاصی تعداد میں شریک ہوتی ہیں۔ خطین سامنے نہ ہونے کی وجہ سے وہ خطبہ توجہ سے نہیں سنتیں۔ اگر ان کے لیے پروجیکٹر یاL.C.D کا انتظام کر دیا جائے، جس سے وہ خطبہ سنتے وقت خطیب کو دیکھ بھی سکیں تو کیا ایسا کرنا جائز ہوگا؟

 جواب:

دینی احکام اور تعلیمات کے مخاطب، جس طرح مرد ہیں اسی طرح خواتین بھی ہیں۔ اس لیے ان کی دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنا اور اس کے لیے مختلف تدابیر اختیار کرنا پسندیدہ اور مطلوب ہے۔عہد ِ نبوی میں خواتین بھی حدود و آداب کی رعایت کے ساتھ اللہ کے رسول ﷺ کی مجلسوں میں شریک ہوتی تھیں، آپؐ سے مختلف مسائل دریافت کرتی تھیں اور آپؐ ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام فرماتے تھے۔ بعض مخصوص ایام میں آپؐ صرف خواتین کے اجتماعات کو خطاب کرتے تھے۔ حضرت ابو سعید خدریؒ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول! آپ کے وعظ و ارشاد سے صرف مرد ہی فیض اٹھاتے ہیں، اس لیے ایک دن ہمارے لیے خاص کردیجیے، جس میں ہم عورتیں اکٹھا ہوکر آپ سے تعلیم حاصل کیا کریں۔ آپؐ نے فرمایا: تم سب فلاں دن فلاں جگہ اکٹھی ہوجانا۔ چناں چہ عورتیں مقررہ وقت پر بتائی ہوئی جگہ اکٹھا ہوئیں۔ آپؐ وہاں تشریف لے گئے اور انھیں دینی باتیں بتائیں۔ (صحیح بخاری: ۷۳۱۰)

                ایک مرتبہ آں حضرت ﷺ نے عید الفطر (یا عید الاضحی) کا خطبہ دیا۔ پھر آپ کو احساس ہوا کہ آپ کی آواز عورتوں تک نہیں پہنچ سکی ہے۔ چناں چہ آپؐ اس جگہ تشریف لے گئے جہاں عورتیں اکٹھی تھیں اور انھیں وعظ و تلقین کی۔ (صحیح بخاری:۹۸)

                دینی اجتماعات کا ایک اہم مقام مساجد ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں ان میں خواتین کی حاضری کی روایت نہیں ہے۔ وہ اپنے مختلف کاموں اور ضروریات کی انجام دہی کے لیے ہرجگہ پہنچ جاتی ہیں، لیکن مساجد کے دروازے ان کے لیے بند ہیں۔ وہاں کے خطبوں، وعظ و ارشاد کی مجلسوں اور دینی اجتماعات سے ان کے استفادے کی صورت نہیں ہے۔ عہد نبوی میں عورتیں مسجد جایا کرتی تھیں اور آں حضرت ؐ نے مردوں اور عورتوں کے درمیان کم سے کم اختلاط ہونے کی خصوصی تدابیر اختیار فرمائی تھیں۔ چناں چہ ان کی صفیں علیٰحدہ کردی تھیں اور ان کے لیے مسجد کا ایک دروازہ خاص کردیا تھا، جس سے مردوں کو آنے جانے کی ممانعت تھی۔

                مساجد یا دوسرے مقامات پر منعقد ہونے والے دینی اجتماعات میں خواتین کو بھی شریک کرنا چاہیے اور اس کے لیے خصوصی انتظامات کرنے چاہئیں، مثلاً ان کی نشستیں الگ ہوں اور پردے کا بھی مناسب انتظام ہو۔اگر مسجد کئی منزلہ ہو تو یہ صورت اختیار کی جا سکتی ہے کہ مسجد کہ اس کی کسی ایک منزل کو ان کے لیے خاص کر دیا جائے۔

                خطیب سامنے نہ ہونے کی وجہ سے سامعین کی توجہ ہٹتی ہے۔ اس لیے اوپر کی کسی منزل پر رہنے والے لوگوں کے لیے، خواہ وہ مرد ہوں یا خواتین، پروجیکٹر یا L.C.Dلگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تصویر کی حرمت کے سلسلے میں جو احادیث ِ نبوی ہیں، محقق علماء کا خیال ہے کہ ان کا اطلاق اس صورت پر نہیں ہوتا۔

تبصرے بند ہیں۔