مکالمہ بین المذاہب سے مرتب ہونے والے اثرات

موجودہ دور میں جہاں قیام امن ،بین المذاہب ہم آہنگی اور ملکی استحکام کے خواب کو شرمندہ تعبیر بنانے کیلئے تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لایا جا رہاہے لیکن مذہبی رواداری کا فروغ اور بین المذاہب ہم آہنگی کا عملی طور پر قیام نا ممکن ہوتا جارہا ہے جبکہ وطن عزیز کے عالمی تشخص کو بحال کرنے اور برقرار رکھنے کیلئے تمام مذاہب کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرکے ملک کو امن کا گہوارہ بنانے کی اشد ضرورت ہے تمام مذاہب اورتمام مسالک کو ملکی استحکام کیلئے ایک پلیٹ فارم پر متحد و متفق اور محب وطن عناصرکو ساتھ لیکر وطن عزیز کی ترقی و خوشحالی کی عملی جدوجہد کرنیوالی شخصیات بلاشبہ ہمارے ملک وقوم کا قیمتی سرمایہ ہیںجو تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صر ف و صرف اللہ رب العزت اور اس کے پیارے حبیب کے احکامات کی روشنی میں انسانیت کی بے لوث خدمت اور تمام مذاہب و مسالک سے حسن سلوک اور معاشرے میں امن و محبت اور بھائی چارے کے فروغ سمیت ملکی ترقی و خوشحالی کیلئے اپنا کلیدی کردار ادا کررہے ہیں ۔انسانی تاریخ میں لاتعداد مذاہب گزر چکے ہیں اور ہر دور میں انسان کسی نہ کسی مذہب کا پیروکار رہا ہے۔ اس لئے ضرور ہے کہ عالمی مذاہب بلخصوص ہندوستانی مذاہب کے مابین مذاکرات کرنا ایک مثبت اور سنجیدگی سے غور کیا جانے والا عمل ہے      ’’ بین المذاہب مذاکرات‘‘ کے اہداف اور مضمرات سے متعلق سوالات اور خدشات وتحفظات سے قبل بین المذاہب تعلقات کی بابت چند اسلامی اصول ودفعات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے:
۱-     لامذہبیت اور دھریت کے علاوہ دنیا میں پائے جانے والے تقریباً تمام مذاہب من جانب اللہ ہونے کے مدعی ہیں اور دینِ اسلام‘ ٹھوس شہادتوں کے ذریعہ بعض ادیانِ سابقہ کے فی الجملہ صحیح اور من جانب اللہ ہونے کی جہاں تصدیق کرتا ہے اور اس تصدیق کو تسلیم بھی کیا جاتا ہے‘ وہاں اسلام یہ حقیقت بھی بیان کرتا ہے کہ گذشتہ ادیان بھیجنے والے رب کا اعلان ہے کہ اب قیامت تک بحیثیتِ دینِ الٰہی اگر کوئی دین ہے تو صرف ’’اسلام‘‘ ہی ہے‘ سابقہ ادیان منسوخ ہیں‘ اس لئے پوری انسانیت کو چاہئے کہ وہ اپنے خالق کے اس اعلان ِ حق کے مطابق دینِ حق (دین اسلام) کی پیروکار بن جائے‘ اگر کوئی انسان یا طبقہ اس حقیقت وحقانیت سے بے بہرہ رہنا چاہتا ہے تو اسلام جیسی نعمتِ عظمی اس پر زبردستی مسلط نہیں کی جائے گی‘ بلکہ اسلام اپنے مخالف ومعاند کو فکری وعملی آزادی دینے کا روا دار ہے قولہ تعالیٰ:
’’لاا کراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغیّ فمن یکفر بالطاغوت ویؤمن بااللہ فقد استمسک بالعروۃ الوثقیٰ لاانفصام لہا واللہ سمیع علیم‘‘۔(بقرہ:۶۵۲)
اور ارشاد ہے:
’’الحق من ربک فلاتکونن من الممترین‘‘
یعنی حق وہی ہے جو تمہارے رب کی طرف سے ہے‘ اس معاملہ میں آپ کو ہرگز کسی قسم کے شک وشبہ کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔
۲-     بیان ِ حق کے بعد اسلام کا اپنے مخالفین کے اختلاف ِ رائے کو تسلیم اور برداشت کرنا اور انہیں حق کے لئے جبر واکراہ سے مشتثنی قرار دینا‘ اسلامی رواداری اور تحمل وبرداشت کا عنوان ہے‘ اس لئے ’’مکالمہ بین المذاہب‘‘ اگر باہمی روا داری‘ معاملہ اور اخوت انسانی کے قیام واحترام یا اظہار حق کے لئے ہو تو اس کے قابل شتائش ہونے میں بظاہر کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے‘ بلکہ اس نوعیت کے معاملہ کا ثبوت سیرت طیبہ میں موجود ہے۔ حضور ا کے پاس نجران کا وفد آیا جس میں عیسائیت کے جلیل القدر مذہبی پیشوا نمائندگی کررہے تھے‘ اس وفد کے ساتھ حضور ا کی گفتگو تقابلِ ادیان ہی کے موضوع پر تھی‘ ان ہی لوگوں کے بارے میں ارشاد ربانی ہے:
’’قل یا اہل الکتاب تعالوا الی کلمۃ سواء   بیننا وبینکم الآیۃ
یعنی پْر امن بقاء  باہمی اور حق وحقانیت کے قریب رہنے کے لئے تمام مذاہب کے مسلمات کو مکالمہ کی بنیاد بناتے ہوئے فکر وعمل کے دائرے کی وضاحت ہونی چاہئے‘ اس مکالمہ کی افادیت اسی صورت میں ممکن ہے جب ’’حق‘‘ واضح ہوجائے تو اسے قبول کرنے کا حوصلہ بھی ہو‘ اگر مکالمہ بین المذاہب تلاش حق کے طریق پر گامزن ہو اور ان کاوشوں میں مکالمہ کی افادیت مضمر ہو تو ایسا مکالمہ بین المذاہب نہ صرف یہ کہ جائز بلکہ نہایت مستحسن اقدام ہوگا۔
۳-     غیر مسلموں کے ساتھ رواداری کا ’’مداہنت فی الدین‘‘ اور مذاہب کے دمج وخلط سے پاک ہونا ضروری ہے‘ ایسی رواداری جو کلمۂ حق کہنے اور عام کرنے میں رکاوٹ بنتی ہو‘ یابیانِ حق سے شخصیات یا دنیوی مفادات ومراعات‘ باز رہنے پر مجبور کرتی ہوں تو یہ رواداری نہیں بلکہ مداہنت فی الدین کہلائے گا جو کہ بنص قطعی حرام ہے‘ ’’لوتدہن فیدہنون‘‘ اگر رواداری دینیات میں دمج وخلط کی فکر کی حامل ہو‘ یا ایسے نتائج پر منتج ہو تو یہ بھی بنص قطعی حرام ہے۔
یعنی حق وہی ہے جو تمہارے رب کی طرف سے ہے‘ اس معاملہ میں آپ کو ہرگز کسی قسم کے شک وشبہ کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔
۲-     بیان ِ حق کے بعد اسلام کا اپنے مخالفین کے اختلاف ِ رائے کو تسلیم اور برداشت کرنا اور انہیں حق کے لئے جبر واکراہ سے مشتثنی قرار دینا‘ اسلامی رواداری اور تحمل وبرداشت کا عنوان ہے‘ اس لئے ’’مکالمہ بین المذاہب‘‘ اگر باہمی روا داری‘ معاملہ اور اخوت انسانی کے قیام واحترام یا اظہار حق کے لئے ہو تو اس کے قابل شتائش ہونے میں بظاہر کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے‘ بلکہ اس نوعیت کے معاملہ کا ثبوت سیرت طیبہ میں موجود ہے۔ حضور ا کے پاس نجران کا وفد آیا جس میں عیسائیت کے جلیل القدر مذہبی پیشوا نمائندگی کررہے تھے‘ اس وفد کے ساتھ حضور ا کی گفتگو تقابلِ ادیان ہی کے موضوع پر تھی‘ ان ہی لوگوں کے بارے میں ارشاد ربانی ہے:
’’قل یا اہل الکتاب تعالوا الی کلمۃ سواء   بیننا وبینکم الآیۃ
یعنی پْر امن بقاء  باہمی اور حق وحقانیت کے قریب رہنے کے لئے تمام مذاہب کے مسلمات کو مکالمہ کی بنیاد بناتے ہوئے فکر وعمل کے دائرے کی وضاحت ہونی چاہئے‘ اس مکالمہ کی افادیت اسی صورت میں ممکن ہے جب ’’حق‘‘ واضح ہوجائے تو اسے قبول کرنے کا حوصلہ بھی ہو‘ اگر مکالمہ بین المذاہب تلاش حق کے طریق پر گامزن ہو اور ان کاوشوں میں مکالمہ کی افادیت مضمر ہو تو ایسا مکالمہ بین المذاہب نہ صرف یہ کہ جائز بلکہ نہایت مستحسن اقدام ہوگا۔
۳-     غیر مسلموں کے ساتھ رواداری کا ’’مداہنت فی الدین‘‘ اور مذاہب کے دمج وخلط سے پاک ہونا ضروری ہے‘ ایسی رواداری جو کلمۂ حق کہنے اور عام کرنے میں رکاوٹ بنتی ہو‘ یابیانِ حق سے شخصیات یا دنیوی مفادات ومراعات‘ باز رہنے پر مجبور کرتی ہوں تو یہ رواداری نہیں بلکہ مداہنت فی الدین کہلائے گا جو کہ بنص قطعی حرام ہے‘ ’’لوتدہن فیدہنون‘‘ اگر رواداری دینیات میں دمج وخلط کی فکر کی حامل ہو‘ یا ایسے نتائج پر منتج ہو تو یہ بھی بنص قطعی حرام ہے۔
’’نعبد اللہ یوماً وتعبد اٰلہتنا یوماً‘‘
کا نظریہ خالصۃً مشرکین مکہ کا ہے جسے ’’سورۃ الکافرون‘‘ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے نہایت واضح انداز میں رد فرمایا:
’’قل یا ایہا الکافرون‘ لااعبد ما تعبدون‘ ولاانتم عابدون ما اعبد‘ ولاانا عابد ما عبدتم‘ ولاانتم عابدون ما اعبد‘ لکم دینکم ولی دین‘‘۔
اس سورۃ مبارکہ سے بین المذاہب تعلقات کے حوالہ سے یہ اصول مترشح ہوتا ہے کہ اسلام کے ساتھ کسی اور مذہب کو متوازی مذہب کی حیثیت سے تسلیم کرنا‘ اسلامی نقطۂ نظر سے غلط اور باطل ہے‘ تعلقات بین المذاہب کے میدان ومجال میں مصروف کار مسلمانوں پر فرض ہے کہ اسلام کے اس واضح اصول کو لازماً ملحوظ خاطر رکھیں۔
۴-    مکالمات اور مؤتمرات کے پس منظر اور حقائق ومضمرات کی تنقیح وتشخیص کے نتیجہ میں دو رائے قائم ہوسکتی ہیں‘ اگر ان مؤتمرات کے محرکات اور مضمرات دیانت پر مبنی ہوں اور اختتام وانجام تک دیانت وامانت کے تقاضے پورے ہوتے رہیں تو اس قسم کی مؤتمرات سے مختلف سماوی ادیان کے پیروکاروں کی فکری معاشرت پر مثبت ومفید اثرات پڑیں گے‘ اپنے اپنے مذہب پر کار بند رہتے ہوئے پوری دیانت کے ساتھ مذہبی رواداری کا مظاہرہ کریں تو اس سے باہمی مذہبی منافرت کم ہوگی اور وحدت انسانی کے عملی مظہر سے انسانی اقدار کو فروغ ملے گا‘ جس کے نتیجہ میں پْر امن بقائے باہمی کا معاشرتی نظام وجود پذیر ہوگا۔اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو‘ یاان مؤتمرات کے انعقاد میں دیانتدارانہ اسلامی فکر معدوم یا مغلوب ہو‘ یاغیر اسلامی بالادست قوتوں کے اہداف وعزائم ہی در پردہ اصل محرک ہوں تو انسانی معاشرے پر اس کے مضر اثرات کی حقیقت کا انکار نہیں کیا جاسکتا‘ اس لئے کہ بالا دست طاغوتی قوتیں اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں دین اسلام سے متعلق مسلمانوں کے جذباتی ووالہانہ لگاؤ کو سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں‘ اس رکاوٹ کو راستہ سے ہٹانے کے لئے وہ روزِ اول سے کوشاں ہیں‘ مختلف قسم کے حربے استعمال کرتے آرہے ہیں‘ جس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کا اپنے دین سے اتنا ہی تعلق ہونا چاہئے جتنا دیگر مسخ شدہ یا بے بنیاد ادیان کے پیرو کاروں کا اپنے دین سے ہوتا ہے‘ اس مقصد کی تکمیل کے لئے فتنہ استشراق‘ فتنہ قادیانیت‘ فتنہ انکار حدیث جیسے حربے آزمائے گئے‘ مگر اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اغیار کو خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی اور تمام فتنے اپنے بلوں میں محصور ہونے پر مجبور ہوتے رہے‘ اب نیا حربہ یہ استعمال کیا جارہا ہے کہ کسی اسٹیج پر اہل حق اور اہل باطل کے چند منتخب لوگوں کو بٹھا کر مکالمہ کروایا جاتا ہے‘ اس مکالمہ میں حق وباطل کی تمیز اور حق کے اظہار کا موقع فراہم نہیں کیا جاتا‘ بلکہ اس مکالمہ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ حق کے بارے میں اہل باطل کے شکوک وشبہات اور اعتراضات عام مسلمانوں تک پہنچ جائیں۔ چنانچہ ہم اپنے مشاہدہ کی روشنی میں عرض کرتے ہیں کہ جب سے مختلف ذرائع ابلاغ پر مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کے مکالموں اور مباحثوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے‘ ہمارے دار الافتاؤں میں ان موضوعات پر باہمی الجھاؤ والے مختلف سوالات آنے لگے ہیں‘ اور عوام میں تشویش ناک حد تک بے چینی پائی جارہی ہے‘ اور ایسے ایسے دینی ومذہبی موضوعات جو خالصۃً علمی نوعیت کے ہیں اور ہرمکتب فکر کے علماء   سے متعلق تھے‘ ایسے مسائل اب عوام کے زیر بحث آرہے ہیں جس کے نتیجہ میں گالم گلوچ اور پھر جنگ وجدال کا طوفان بپا ہوجاتا ہے‘ ایسے کئی مسائل ومظاہر ہمارے سامنے آچکے ہیں۔ ہمارا یہ مشاہدہ ایک ملک کے بعض شہروں کی حد تک ہے‘ اگر اس نوعیت کے مسائل کو عالمی سطح پر موضوع بحث بنایا گیا تو سماجی ومعاشرتی امن وسکون بری طرح متاثر ہوگا اور ہرگھر میں تہذیبی جنگ کا سلسلہ شروع ہوجائے گا‘ تہذیبی جنگ اور فرقہ وارانہ فسادات جو اس وقت دنیا کے بعض خطوں تک محدود ہیں‘ رفتہ رفتہ پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آجائے گی اور اس کی خطورت ونزاکت کسی پر مخفی نہیں۔
اب یہ سوال رہ جاتا ہے مکالمہ بین المذاہب کی مساعی کے اصل محرکات کیا ہوسکتے ہیں؟ تو اس حوالہ سے ہم یہ عرض کریں گے کہ ہرکوشش کے محرکات ‘ اس کوشش کے دائرے ہی میں تلاش ہونے چاہئیں‘ اگر یہ کوشش مقامی سطح پر ہورہی ہو تو اس کے محرکات بھی مقامی سطح کے ہوں گے‘ اور اگر یہ کوشش بین الاقوامی سطح پر ہو رہی ہو تو اس کے محرکات بھی اسی دائرے اور نوعیت کے ہوں گے۔ ہرخاص وعام جانتا ہے کہ اس وقت اقوام عالم کا مذاہب کے بارے میں کیا نظریہ ہے‘ بالخصوص دینِ اسلام کے بارے میں اقوام عالم کی ہر بولنے والی زبان اور سوچنے والا دماغ کیا سوچ رکھتا ہے؟ ان کے مدمقابل ہمارے اسلامی سربراہوں کے معذرت خواہانہ رویئے اسلام کی خیر خواہی اور اسلام سے وابستگی کا کیسا اظہار کرتے ہیں؟ یہ سب عوامل ہمارے سامنے ہوں تو ہمیں اس نوعیت کی مؤتمرات کے عوامل داخلی کی بجائے خارجی‘ اور اسکے پشتیبان اپنی صفوں کے بجائے غیروں میں محسوس ہوتے ہیں‘ اس بناء  پر مذکورہ نوعیت کی کانفرنسوں کے حوالہ سے حد درجہ تشویش ہے کہ ان کانفرنسوں کے محرکات میں تقریب ادیان اور وحدت ادیان جیسے اسلام سے متصادم افکار کار فرما نہ ہوں‘ اس لئے کہ جو ادیان اپنی اصلی شناخت سے بالکلیہ محروم ہوچکے ہیں‘ جو اپنے مذہب کے نام کے علاوہ کسی مذہبی روایت کے اصل ہونے پر کسی قسم کی کوئی سند نہیں رکھتے وہ دین اسلام کے ساتھ مقابلہ اور مقارنہ کیسے کر سکتے ہیں‘ اس لئے دیگر ادیان کی مجبوری ہے کہ وہ اپنے آپ کو مذہب اور دین کی حیثیت سے تسلیم کروانے کے لئے دین اسلام کے ساتھ اپنا قد کاٹھ برابر دکھائیں‘ اس کے انہیں دو فائدے ہوں گے:
۱:     پہلا فائدہ یہ کہ دیگر مذاہب کی لامذہبیت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے دین اسلام کا رخ کرنے والی انسانیت کا سلسلہ تھم جائے گا‘ کیونکہ یہ کہا جا سکے گا کہ اسلامی دنیا بھی دیگر مذاہب کو قابل قبول مذہب کا درجہ دیتی ہے۔
۲:    دوسرا فائدہ یہ ہوگا اسلام اور لامذہبیت کے درمیان جو فاصلے ہیں وہ کم ہوجائیں گے اور تقریب ادیان کی عالمی ضرورت اقوام عالم کی خواہشات کے مطابق پوری ہوجائے گی‘ اور اس تقریب کا اگلا اسٹیج (لاسمح اللہ) وحدت ادیان کا ملغوبہ ہوگا‘ جو دھریت کی اجتماعی تصویر ہوگی۔
اس لئے اہل اسلام کو یہ سمجھنا اور سوچنا چاہئے کہ جن حضرات پر اسلام کی نگہبانی اور ترجمانی کی ذمہ داری اول وہلہ میں عائد ہوتی ہو وہ یقینا اپنے فرض منصبی سے باخبر اور دین اسلام کے مخالف منفی رویوں سے خبر دار رہیں۔ اور درج ذیل باتوں کو ملوظ رکھنا ضروری ہے۔
۱:     ایک یہ کہ ان مکالمات میں دینِ اسلام کی حقیقی تصویر پیش ہو‘ بین المذاہب رواداری‘ مداہنت فی الدین کے زمرے میں نہ آئے اور اسلام کی ایسی تصویر‘ تعبیر اور تشریح ہرگز پیش نہ کی جائے جس سے اسلام اور دیگر مذاہب کے درمیان نمایاں امتیاز مدہم پڑجائے‘ اور مذاہب کے درمیان خلط ودمج کی حقیقت مرکبہ عیاں ہونے لگے۔ اگر خدانخواستہ ایسا رخ سامنے آنے لگا تو اس کا دیگر مذاہب پر تو کوئی اثر نہیں پڑے گا‘ البتہ اسے اسلام کا حلیہ بدلنے کی کوشش اور دین اسلام کے ہدم ومسخ پر مبنی اقدام کہا جائے گا۔
۲:    دوسرے یہ کہ نجرانی وفد کے بین المذاہب مکالمہ کے دوران حضور ا کا جو اسوۂ حسنہ حدیث وسیرت میں ملتا ہے‘ ان مکالمات کے دوران وہ اسوہ حسنہ ہمارے سامنے ہونا چاہئے‘ بالخصوص اس مکالمہ کی دو نمایاں خصوصیات ملحوظ ہونی چاہیں:
پہلی خصوصیت جس کی طرف اوپر بھی اشارہ ہوا کہ احقاقِ حق اور ابطالِ باطل میں ذرہ بھر کسر نہ چھوڑی جائے۔
دوسری خصوصیت یہ کہ حق عیاں ہونے کے بعد اظہار حق کی ذمہ داری بھی نبھائیں اور ظہور حق کے بعد تمام شرکاء  مجالس کو دین اسلام کی کھلے عام دعوت دیں اور اس دعوت کے لئے اور احقاق حق کے لئے ہرمناسب طریقہ اختیار کریں‘ تاکہ اہل باطل پر اتمام حجت ہوجائے‘ جیسے وفد نجران کے ساتھ حضور ا کا مکالمہ مباہلہ کے چیلنج پرختم ہوا تھا‘ مباہلہ ظاہر ہے کہ جان سے گزرنے اور گزارنے کا راستہ ہے۔ اگر امت مسلمہ کو یہ یقین دہانی کراتے ہیں اور ضمانت دیتے ہیں کہ وہ ’’ بین المذاہب مکالمات‘‘ کے محرک ومنتظم ہوتے ہوئے اپنی ان اضافی ذمہ داریوں کو بھی فرض منصبی کی حیثیت سے پورا کریں گے تو امت مسلمہ کو چاہئے کہ وہ ان کی کوششوں کو سراہے اور کسی قسم کے شکوک وشبہات میں مبتلا نہ ہو‘ بصورت دیگر ہرآزاد انسان اپنی رائے کے اظہار میں آزاد ہے اور یہ آزادی اس کا شرعی وقانونی حق ہے۔اس طرح
غیر اسلامی ممالک کی مسلم اقلیتوں پر ان مذاکرات کے جو اثرات پڑیں گے‘ اس کے بھی دو پہلو ہوسکتے ہیں۔اگر یہ مذاکرات اسلامی تقاضوں کی رعایت کے ساتھ کوئی جامع انسانی ضابطہ اخلاق وعمل طے کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس کے نتائج واثرات ہرملک کی اقلیتوں کے حق میں انتہائی مفید ہوسکتے ہیں اور اگر خدا نخواستہ معاملہ اس کے برعکس رہا تو اس کے مضر اثرات سے نہ مسلم اقلتیں محفوظ رہیں گی نہ مسلم اکثر یتیں‘ بلکہ ہرجگہ انارکی پھیلے گی‘ لوگ پہلے مذاہب کو موضوع بحث بناتے ہوئے اسے لہو ولعب کا ذریعہ بنائیں گے‘ پھر شرانگیزیاں عام ہوں گی‘ قانون کا تعطل اورلاقانونیت کا دور دورہ ہوگا۔اور ایسی جنگ وجدال کا اندیشہ ہے جس سے معاشرے کا کوئی بھی طبقہ محفوظ نہیں رہ سکے گا۔خر میں یہ بھی عرض کرتا چلوں۔ مذاکرات کا مقصد اتحاد بین المذاہب، انسانی حقوق کا تحفظ اور ملک وملت کی سلامتی، ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کرے۔مکالمے بلا امتیاز مذاہب مسالک عوام الناس کی آواز کو حکومت کیایوانوں تک پہنچایا جاتا ہے ،فرقہ واریت کے خاتمے،اسلام کی اصل روح کے مطابق عوام الناس میں قرآن وسنت کی تبلیغ، زہریلے لٹریچر کے خاتمے، فرقہ وارانہ آڈیو، ویڈیو تقاریراور کتابچوں کی وجہ سے پھیلنے والی مذہبی منافرت کے بھیانک اثرات کے خاتمے، توہین رسالت آرڈیننس کے موثر استعمال ،اور حدود آرڈیننس کے جائز استعمال کیلئے اپنی صلاحتیں بروئے کار لارہے ہیں آج پوری دنیا میں اسلام کے اصل امیج کو اچھے طریقے سے پیش کرنا ہے اور پوری دنیا کو یہ بتانا مقصود ہے کہ اسلام ہی دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جس کی تعلیمات نہ صرف سائنس اور ٹیکنالوجی کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں بلکہ بلا امتیاز تمام انسانیت مزید ترقی کی منازل طے کر کے خوشحال اور روشن مستقبل کے خواب کرسکتا ہے۔

ڈاکٹرظفر دارک قاسمی
شعبہ دینیات (سنی)
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
zafardarik85@gmail.com

تبصرے بند ہیں۔