کیا تصورِ خدا فقط انسانی ذہن کا کرشمہ ہے؟

ادریس آزاد

یہ ایک ایسا پُرانا سوال ہے جو ہمیشہ تروتازہ رہا۔’’کیا خدا ہے؟‘‘۔

اِس موضوع کو لے کر صدیوں پر محیط سوالات اور ان کے جوابات کے سلاسل سے کتابوں کی الماریاں بھری پڑی ہیں۔ لیکن عموماً دیکھا گیاہے کہ خدا کو ماننے اور نہ ماننے کا تعلق کتابوں اور عقلی دلائل سے نہیں ہے بلکہ جذبات سے ہے۔ ہم اگر ایک ’’کوانٹی ٹیٹِو‘‘ (Quantitative) ریسرچ کریں اور چھ ارب انسانوں میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کے تصورِ خدا کا مطالعہ کرنے کی کوشش کریں تو ایک بات پورے ثبوت کے ساتھ سامنے آسکتی ہے کہ اِس تصور کا تعلق انسانی کی عقلی زندگی کے ساتھ نہیں بلکہ جذباتی زندگی کے ساتھ ہے۔

اس بات کو ہم ایک فرضی مثال سے سمجھتے ہیں،  فرض کریں ایک شخص خدا کو مانتاہے۔ وہ اہل ِ علم اور عقل والا ہے۔ وہ صبح شام، خدا کے ہونے کے حق میں دلائل دے سکتاہے اور دیتارہتاہے لیکن اگر زندگی میں کسی موڑ پر اس کے ساتھ پے درپے ایسی زیادتیاں ہونا شروع ہوجائیں جن کا سبب بظاہر پوشیدہ ہو۔ وہ دیکھے کہ، ’آج پھر بچے بھوکے سوگئے‘۔ وہ دیکھے کہ اُس کی بیوی نے اِس بار بھی گرمیوں کے کپڑے نہیں بنائے۔ وہ دیکھے کہ دنیاکی زندگی کو بہتر کرنے کی ہر کوشش رائیگاں جارہی ہے۔ وہ اِن مسائل کو عقل کے زور پر متصوفانہ رنگ میں بیان کرنے کی ہزار کوشش کرے۔

وہ خدا کے اور زیادہ قریب ہوجانے کی نام نہاد خوشی کو باقاعدہ نفسیاتی طور پر محسوس بھی کرنے لگے، لیکن سچ یہ ہے کہ اُسے ’’خدا‘‘ سے ایک گِلہ، ایک شکوہ سا ہمیشہ رہے گا۔ وہ دل ہی دل میں اُسی خدا سے خفا ہوگا جس کے نام کا وہ کلمہ پڑھتاہے۔

یہ سب جذباتی چیزیں ہیں۔ غصے سے خدا کو چھوڑدینا۔ خوشی سے خدا کو پیارکرنے لگنا۔ ضرورت پڑنے پر خدا سے مانگنا۔ ڈرکے عالم میں خدا کو ایسے پکارنا جیسے بچہ ماں کو پکارتاہے۔ شدتِ غم میں اُس سے ناراض ہوجانا۔ یہ سب جذباتی کیفیات ہیں عقلی نہیں۔ تمام تر جذباتی کیفیات جسم میں موجود رطوبتوں کے نظام کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ خوشی، غم، غصہ، خوف، یہ سب کیمیائی تعاملات ہیں۔ کیمیائی ہیں تو لازمی بات ہے کہ ہم انہیں لیبارٹری میں بھی پیدا کرسکتے ہیں۔

خوشی، غم، افسوس، پریشانی، غصے اور نفرت کو ایک انجکشن کے ذریعے بھی جسم میں منتقل کیا جاسکتاہے کیونکہ یہ جذباتی کیفیات جسم میں موجود مختلف محلولوں کے اُتھل پتھل ہوجانے سے پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ جبکہ ’’خدا‘‘ کو عقل کے ذریعے ثابت کرنے کی کوشش یکسر فلسفیانہ عمل ہے جس کی فی الاصل کچھ خاص اہمیت نہیں کیونکہ لوگوں کا خدا کو ماننا یا نہ ماننا عقلی نہیں بلکہ جذباتی فیصلہ ہوتاہے۔

چنانچہ یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا ایسی ہستی کا وجود ممکن ہے جس کے ساتھ انسانوں کا عقلی نہیں بلکہ جذباتی تعلق ہے، ہمیں انسان کو پہلے اس کی جذباتی سطح پر دیکھنا ہوگا نہ کہ عقلی۔ تاکہ ہم اُس کے جذبات میں صداقت کی کسی گنجائش پر سائنٹفک طریقے سے غور کرسکیں۔ بظاہر تو انسان جذباتی سطح پر محض ایک جانور ہے۔ لیکن کیا ’’سرشاری‘‘، ’’استغنأ‘‘، ’’اُنس‘‘، ’’بے نیازی‘‘ اور’’دے جاوُو‘‘ بھی کیمیائی تعامل کے ذریعے پیدا ہونے والی کیفیات ہیں ؟ کیا دیانتداری سے کام کرنے کے بعد جو سکون ملتاہے وہ بھی خون میں پیداہونے والا کیمیکل ری ایکشن ہے؟ یقیناً نہیں۔ یقیناً ہم انسانی کیفیتات کی بعض منفرد شکلوں کو فقط مادے کا ارتقأ کہہ کر جان نہیں چھڑا سکتے۔ اور ایسی کیفیات بھی قطعاً غیر سائنسی نہیں۔ فطرت پر رُوحانیت کا راج ہے۔ کائنات کا ذرّہ ذرّہ ’’مست قلندر درویش‘‘ ہے۔

دو بھیڑیں بھی ایک دوسرے کو کسی رُوحانی رشتے کی بنا پر پہچان لیتی ہیں چاہے انہیں مدت بعد ایک دوسرے سے ملوایا جائے۔ یوگا کے ماہرین بتاتے ہیں کہ سرشار کردینے والی کیفیات کا ایک جہان ہے جس کا کچھ تعلق خون میں ہونے والے کیمیائی تعامل کے ساتھ نہیں۔

اس پر مستزاد انسان اپنی نفسیاتی زندگی میں توھّمات کا مرقع ہے۔ یہ توھّمات اُس میں ’’بِلٹ اِن‘‘ (Built in) ہیں۔ دماغ کا ایک حصہ جس کا نام ’’ایمِگڈالا‘‘ (Amygdala) ہے مامور ہی اِسی کام پر ہے کہ ذرا سی تبدیلی کو چونک کر دیکھے اور روز کے معمول سے کچھ ہٹ کر پیش آئے تو توھّم کو بیدارکردے۔ بس، پھر توھّم کا کام ہے کہ وہ اس واقعہ کو معانی پہناتا چلا جائے۔ کوئی سائنسفک دماغ ہوگا تو وہ کئی جہات پر غورکریگا لیکن واقعہ میں ’’تکرار‘‘ کی صورت وہ بھی بالآخر توھّمات زدہ تخیلات قائم کیے بغیر نہ رہ سکے گا۔ کیونکہ ذہن میں پیدا ہونے والے خودکار خیالات کو روکنے کا ابھی کوئی طریقہ ایجاد نہیں ہوا۔ کوئی بڑے سے بڑا سائنس پسند ملحد اپنی جبلت میں سے توھّمات پسندی کو نہیں نکال سکتا۔ جن معاشروں سے ’’مذہب‘‘ بطور مذہب کے مفقود ہوتاجارہاہے، اُن معاشروں میں توھّمات بدستور موجود ہیں اور پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ توھّم پرستی انسان کو فطرت سے بطور تحفہ ملی ہے۔

’’وہ اپنے ساتھ پیش آنے والے کسی بھی عمل (یعنی اپنے ذاتی، نفسیاتی تجربے) کے تکرارکوفطرت کے ساتھ اپنی کمیونکیشن سمجھتاہے‘‘۔

وہ چونک جاتاہے۔ بار بار ایسا کیوں ہورہاہے؟ وہ سوچتاہے فطرت اسے کچھ سمجھانا چاہتی ہے۔ وہ ہمیشہ اُس تکرار کو کوئی نہ کوئی پیغام سمجھتاہے اور اسے ڈی کوڈ کرنے کی کوشش کرتارہتاہے۔ اِس کیفیت سے وقت کا بڑے سے بڑا ملحد بھی نہیں بچ سکتا۔آپ روز گھر سے نکلیں اور روز ایک بادل آپ کو دُور سے نظر آئے جو ہرروز ایک گھوڑے کی شکل میں ہو اور آپ کے دیکھتے ہی دیکھتے ایک جہاز کی شکل بنالے تو کب تک آپ اِس بات سے انکار کرینگے کہ وہ کوئی میسج نہیں ہے؟ دس بار کہ بیس بار؟ توھم میں ’’تکرار‘‘ کا ہونا ضروری ہے۔ حالانکہ وہ بادل ہر روز، اوروں کو بھی تو ویسے ہی نظر آنے چاہییں جیسے آپ کو دکھائی دیتےہیں۔

کسی انسان کے اعصاب جس قدر کمزور ہوتے ہیں اتنے ہی کم ’’تکرار‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے اور کسی انسان کے اعصاب جتنے زیادہ مضبوط ہوتےہیں واقعہ میں اتنے ہی زیادہ تکرار کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یہی ’’تکرار‘‘ ہی تو ہے جسے ہم نام نہاد’’سائنسی طریقِ کار‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ سائنس کیا ہے؟ کسی بھی تجربے کو دہرایا جاسکے۔ اگر آپ نے آکسیجن کے ایک ایٹم کے ساتھ ہائیڈروجن کے دو ایٹم ملائے اور پانی بن گیا اور یہ عمل، آپ نے بار بار دہرایا اور ہر بار پانی بنا، تو ہم کہیں گے کہ آپ نے ’’سائنس سرانجام دی ہے‘‘۔ یہی تکرار توھّم کا بھی خاصہ ہے۔ اس سائنسدان کو کمزور اور نالائق سمجھا جاتاہے جس کا تجربہ ’’تکرار‘‘ کے کرائی ٹیریا سے کامیابی کے ساتھ نہ گزرسکے۔ بالکل ویسے جیسے کمزور اعصاب کا مالک شخص اپنے توھّم میں کم سے کم تکرار دیکھ کر بھی معنی تلاش کرنے بیٹھ جاتاہے۔ سائنسی تجربے اورتوھّم کے شخصی تجربے میں فرق یہ ہے کہ اوّل الذّکر کو دوسرے انسانوں کی موجودگی میں بھی سرانجام دیا جاسکتاہے۔ ثانی الذکر کو دوسرے انسانوں کی موجودگی میں اس لیے سرانجام نہیں دیا جاسکتا کیونکہ وہ فرد کا ذاتی، نفسیاتی تجربہ ہے۔

انسان کے ذاتی، نفسیاتی تجربے میں توھّم ایک لازمی عنصر کے طور پر موجود رہتا ہے۔ اُسے نکالنا ممکن نہیں۔ ایک موٹرمکینک کام کے دوران، ایک ڈرائیور، ڈرائیونگ کے دوران، ایک ٹیچر کلاس میں، ایک سائنسدان لیبارٹری میں، غرض کوئی بھی اپنی ذاتی، نفسیاتی واردات کو نظر انداز نہیں کرسکتا اگر اس میں ’’تکرار‘‘ کا عنصر ہو۔ آپ کو لوہا راس آتاہے۔ آپ کو کوئی ہندسہ راس آسکتاہے، کوئی لَکی نمبر۔ آپ کو کسی شخص کا چہرہ دیکھ کر دن خراب ہوجانے کا ڈر ہوسکتاہے۔ آپ کو نظر لگ سکتی ہے۔ آپ کو اپنے اندرونی نفسیاتی حوادث کی بدولت ہزارہا ایسی کیفیات کا سامنا ہوسکتاہے جو کسی اورکو نہ ہوتی ہوں۔ ہم اپنے ساتھ تو بہت ذاتی زندگی گزاررہے ہوتے ہیں۔ ہم سجدے کی حالت میں، ویران اور خاموش سڑک پر آوارگی سے چلتے ہوئے، بند کمرے میں یا واش روم میں اپنے ساتھ کتنے’’ قریبی‘‘ ہوتے ہیں ؟ ہم آئینے کے سامنے اپنے ساتھ کتنے قریبی ہوتے ہیں۔ کتنی ہی تکراروں سے ہم واقف ہیں جو بچپن سے ہمارے ساتھ پیش آئیں۔ ہم کیوں نہ اپنے ہاتھ میں ہونے والی کھجلی کو کوئی میسج سمجھیں گے؟

اچھا! مان لیا کہ معروف قسم کے توھّمات سے آپ چھٹکارا پاسکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ آپ کو کٹر قسم کا وہابی ہونا پڑیگا۔ لیکن کیا وہ توھّمات جوفقط آپ اپنے ساتھ کرتےہیں، ان سے بھی چھٹکارامل جائے گا؟

’’سلیم کا فون جب بھی صبح صبح آتاہے، میرے ساتھ دن میں کوئی نہ کوئی مسئلہ ضرور پیش آتاہے‘‘

کیا اِس قسم کے ذاتی توھّمات سے آپ ’’کٹر وہابی‘‘ ہوکر بھی بچ پائینگے؟ ایسے تمام واقعات کو ہم فقط ایک خاص قسم کی ’’تکرار‘‘ کی وجہ سے ہی فطرت کی طرف سے اپنے لیے خاص پیغامات سمجھتے ہیں۔ ایسا ہرکوئی سمجھتاہے۔ کیا یہ واقعی فطرت کی طرف سے پیغامات ہوتے ہیں ؟

غالباً اقبال نے سچی وحی کی تین نشانیاں بتائی ہیں،

۱۔ اُس کی صداقت پر خود کو فوری یقین آجائے۔

۲۔ وہ کسی کے سامنے بیان کی جائے تو اس کی صداقت پر سننے والے کو فوری یقین آجائے۔

۳۔ اس کےنازل ہوتے ہی سابقہ عقیدہ فوراً ختم ہوجائے چاہے کتناہی پرانا اور مقدس کیوں نہ ہو۔
سوال یہ ہے کہ کیا فطرت کی طرف سے سچ مچ پیغامات نہیں آسکتے؟ اس بات کی تصدیق کا کوئی معلوم طریقہ نہیں۔ کیونکہ،

’’ یہ سائنس یعنی توھّمات، روحانی واردات، صوفیانہ تجربہ وغیرہ ‘‘

’’اور دوسری سائنس یعنی فزکس، کیمسٹری، بیالوجی وغیرہ‘‘

فقط اِسی بنا پر جُدا ہیں۔ ایک میں ’’تکرار‘‘ گواہوں کی موجودگی میں اور دوسری میں ’’تکرار‘‘ ذاتی، نفسیاتی تجربہ کے طور پر ممکن ہے۔ کسی کی ذاتی واردات پر گواہ نہیں لائے جاسکتے۔ ہاں ! کسی کی ذاتی واردات کے عملی اطلاق پر گواہ لائے جاسکتے ہیں۔ اس قضیہ کی رُو سے فزکس، کیمسٹری، بیالوجی بھی نصف روحانی اور نصف جسمانی سائنس ہے۔ کیونکہ آئن سٹائن کی ذاتی، نفسیاتی واردات کے عملی اطلاق پر گواہ لانا ممکن ہوگیا تھا سو وہ تسلیم شدہ سائنس بن گئی تھی۔

اگر ذاتی واردات کے عملی اطلاق پر گواہ لائے جاسکیں تو ذاتی واردات سائنس بن جاتی ہے۔ اس اصول کے تحت، جب کسی نبی کی ذاتی واردات کے عملی اطلاق پر گواہ جمع ہوجائیں گے تو ہم اسے بھی سائنس کہہ سکتےہیں۔ جیسے اسلام کو ہم ایک سائنس کہہ سکتے ہیں کیونکہ اسلام کا وجود رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی واردات کے عملی اطلاق پر بہت سے گواہوں کی شہادت کے بعد ممکن ہوا۔اب چونکہ نیچرل سائنسز اور سوشل سائنسز میں ایک خاص قسم کا فرق ہے سو وہی فرق اس معاملے کی پیچیدگی کا باعث بنتااور دونوں سائنسز کو ایک دوسرے سے دُور رکھتاہے۔

کیا تصورِ خدا فقط انسانی ذہن کا کرشمہ ہے؟

چونکہ توھّمات انسانی جبلّت کا حصہ ہیں اور ان کے بغیر انسانی وجود کا تصور ممکن نہیں اس لیے انسانوں کو ہمیشہ مذہب کی ضرورت رہتی ہے۔ کیونکہ اعصاب کی کمزوری کے ساتھ ساتھ توھّمات میں اضافہ ہوتاہے۔ بچے، عورتیں اور بوڑھے لوگ زیادہ توھّم پرست ہوتےہیں۔ وجہ یہی ہے کہ اُنکے اعصاب زیادہ کمزور ہوتے ہیں اور اُن کے لیے واقعہ میں زیادہ تکرار کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بہت زیادہ کمزور اعصاب کا مالک شخص ایک بار کی ’’ہونی‘‘ کو بھی فطرت کی طرف سے پیغام سمجھ سکتاہے۔

اس لیے مذہب کا وجود ضروری ہوجاتاہے۔ مذہب کی مددسے ہی ایسے لوگوں کو ان کے مفروضہ پیغامات کے معنی ملتے ہیں۔ کوئی مذہب لوگوں کی ذاتی وارداتوں پر کسی سائنسدان کی طرح جِرح کرے اور اُن سے بالکل کسی سائنسدان کی طرح زیادہ سے زیادہ ’’تکرار‘‘ کا مطالبہ کرے تو وہ مذہب توحید کی طرف مائل ہوتاہے۔ کیونکہ تکرار کا اصرار، گویا وارداتِ ذاتی کے وجود سے انکار اور اُسے توھّم ِ محض سمجھنا ہے جیسا کہ ایک سائنسی ذہن سمجھتاہے۔

کوئی مذہب جتنے کم لوگوں کی وارداتوں کو الوہی پیغام سمجھتاہے وہ اتنا ہی توحید پرست ہوتا ہے۔ توحید پرستی کا تعلق نفسیاتی طور پر ایک خدا کو ماننے سے نہیں ہے، توحید پرستی کا تعلق اپنے توھّمات کے تکرار پر اصرار کو بڑھا دینے اور بایں ہمہ اپنے توھّمات کو کم سے کم کردینے کے ساتھ ہے۔یہ البتہ الگ بات ہے کہ جن معاشروں میں توحید پرست مذاہب پہلے سے رائج ہیں وہاں قدرے کم توھّمات پائے جاتے ہیں، لیکن یہ ضروری بھی نہیں ہے۔ تاہم، ہم اس بات کی تصدیق کے لیے ہندُو اور مسلمان عوام کو ہندوستان اور پاکستان میں دیکھ سکتے ہیں۔

خیر! یہ ثابت ہوجانے سے کہ مذہب معاشروں کے لیے ضروری ہے، یہ ہرگز ثابت نہیں ہوجاتا کہ ’’خداوجود رکھتاہے‘‘۔ فقط یہ ثابت ہوتاہےکہ مذہب، اور تشکیل ِ جدید (اجتہاد) کے عمل سے گزرتاہوا مذہب کسی بھی معاشرے کے تمام افرادی کی نفسیاتی، جذباتی اور بایں ہمہ روحانی زندگی کی رہنمائی کے لیے ایک ضروری عنصر ہے، جو اُصولاً کلچر کا ایک بڑا حصہ ہونے کے ناطے اپنے وجود کا نہ صرف خود ذمہ دار ہے بلکہ انسانوں کے توھّم پرست ہونے کی وجہ سے اپنی حفاظت پر بھی خود ہی مامور رہتاہے۔غرض ہم نے جو بات شروع کی تھی کہ جذباتی سطح پر انسان کا مطالعہ ضروری ہے کیونکہ خدا انسان کا جذباتی معاملہ ہے، وہ بات یہی ہے کہ انسان اپنی نفسیاتی زندگی میں مکمل طور پر توھّم پسند اور توھّم پرست ہے، بایں ہمہ اسے خدا کی ضرورت ہے اور رہے گی۔

اچھا! یہ تو معلوم ہوگیا کہ ’’خدا انسان کی ضرورت ہے‘‘ لیکن کیا خدا فی الواقعہ وجود بھی رکھتاہے؟

اگرچہ اس سوال کا جواب عقل سے طلب کرنا منطقی اعتبار سے درست نہیں لیکن چونکہ ہم جانتے ہیں کہ مکان کی بہت سی تہیں اور جہات (ڈائمینشنز) ہیں اور ہرتہہ میں زمانہ الگ الگ، صرف بطور ’’حال‘‘ موجود رہتاہے سو ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب ہونگے کہ خدا دراصل’’ابدی حال‘‘ ہے جو طبق در طبق بصورتِ ’’زمانہ‘‘ موجود رہتاہے، اور یوں موجود رہتاہے جیسے میں اِس وقت اپنے ساتھ موجود ہوں یا آپ میرے ساتھ۔ جو زمانہ ہونے کی وجہ سے فعّال بھی ہے اور خلّاق بھی، ذہین بھی اور محیط بھی۔ میں تھوڑا آگے چل کر اِس تصور کو مزید وضاحت سے پیش کرنے کی کوشش کرونگا۔ سردست تو میں یہ کہنے والا تھا کہ اگرچہ اس سوال کا، کہ خدا ہے یا نہیں ہے؟ جواب عقل سے طلب کرنا منطقی اعتبار سے درست نہیں لیکن سوال ذرا تبدیل کرکے کیا جائے تو پھر عقل سے استفسار غیر درست نہ ہوگا۔

اگر سچ مُچ خدا ہو تو کیسا ہوگا؟‘‘

یہ سوال ضرور عقل سے پوچھا جاسکتاہے کیونکہ عقل کا کام ہے اپنے مؤقف کے حق میں دلائل ڈھونڈ کر لانا اور اپنی صداقت کا جواز پیش کرنا سو اگر مؤقف ہی یہ ہو کہ ’’خدا ہے‘‘ تو ظاہر ہے دوسری بات فقط یہی ہوسکتی ہے کہ وہ کیسا ہے؟ اور یہ دیکھنے اور جاننے کی کوشش کہ ’’خدا کیسا ہے؟‘‘ خود بخود اُس سوال کو حل کردیتی ہے کہ خدا ہے یا نہیں ہے۔ کیونکہ اس کے لیے تصورِ خدا کی تخلیص کرنا پڑتی ہے جو ہمیشہ نفی، انکار اور ’’لا‘‘ کے طریقہ سے ہی ممکن ہوپاتی ہے۔ مسلسل انکار کرتے ہوئے خود بخود ’’خدا ہے یا نہیں ہے‘‘ کے مراحل بھی بالآخر آہی جاتے ہیں۔

چنانچہ خدا کے وجود پر فلسفیانہ نکتۂ نگاہ سے بات کرنا اسی لیے مفید ہے کہ اِس طرح انسان کے تصورِ خدا کی تخلیص (Purification) ہوتی رہتی ہے۔ عقل کے ذریعے تصورِ خدا کی تخلیص کرتے رہنا بے حد ضروری ہے کیونکہ ایسا وقت کوئی نہیں ہوتا جب ہم کسی بھی خدا کو نہ پُوج رہے ہوں۔ کرسی، عہدہ، دولت، بیٹے، گاڑیاں، بنگلے یہ سب بھی خدا ہی کی شکلیں ہیں جن کی، اگر ہم ایتھسٹ ہیں تو ضرور پوجا کرتے ہیں۔ دنیا سے بے پرواہ اور بے نیاز ایتھسٹ کا وجود زمین پر ممکن نہیں۔ ایسا کوئی بھی شخص جو خدا کے وجود سے انکار کرتاہے اور دنیا سے بے پرواہ اور بے نیاز بھی رہتا ہے، صوفیا کے نزدیک ملحد نہیں ہوتا بلکہ تصوف میں اسے مقام ِ فنا پر فائز سمجھا جاتاہے۔

خیر! تو میں عرض کررہا تھا کہ فلسفیانہ طرز ِ فکر کے مسلسل استعمال سے تصور ِ خدا کی تخلیص ہوتے رہنا ضروری ہے ورنہ معاشرے میں بُری رسمیں رواج پاجاتی ہیں۔ اور دلچسپ امر یہ ہے کہ تصورِ خدا کی تخلیص کا کام یاتو صوفیأ اور فلسفی انجام دیتےہیں اور یا یہ کام بہت بڑے پیمانے پر ملحدین سرانجام دیتے ہیں۔ وہ خدا کے مختلف منفی ’’کرداروں ‘‘ اور ’’عادات‘‘ پر انگلی اُٹھاتے رہتے ہیں۔

ان کے سامنے مذہبی شرمندہ ہوتے ہیں اور اپنے تصورِ خدا کی فوری تخلیص کا سامان کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھاجائے تو’’خدا کاانکار‘‘ بھی نہایت ضروری ہے اور ہرعہد میں الحاد اور دہریت کا وجود بھی ’’وجود ِ خدا میں رُوح‘‘ جیسی اہمیت رکھتاہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو خداؤں کا انکار کوئی نہ کرے۔ اور دنیا، لات و منات و عزیٰ و ہبل سے بھر جائے۔ ہرعہد میں ہمیشہ ایک وقت آتاہے جب ’’انکار کے فرمان‘‘ کا اُترنا لازم ہوجاتاہے۔

جیسا کہ فیض نے کہا، پھر دل کو مصفا کرو، اس لوح پہ شاید مابینِ من و تُو، نیا پیماں کوئی اُترے اب رسمِ ستم حکمتِ خاصانِ زمیں ہے تائیدِ ستم مصلحتِ مفتیِ دیں ہے اب صدیوں کے اقرارِ اطاعت کو بدلنے لازم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی اُترے  صدیوں کے اقرارِ اطاعت کو بدلنا ضروری ہوتاہے ورنہ معاشرے جمود کا شکار ہوکر مرجاتے ہیں۔

یہ وہ الحاد ہوتاہے جو تصورِ خدا کی تخلیص کے لیے ازبس ضروری ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو خدا، عادات میں انسان سے بھی چھوٹا اور حقیر ہوجاتاہے۔ اور کم تر ہوتے ہوتے جانوروں اور پھر بے جان پتھروں کی سطح پر گرجاتاہے۔ایک زندہ و جاوید، حیّ و قیوم اور جیتا جاگتا خدا آہستہ آہستہ مرنے لگتاہے اور پھر مرکر فقط اپنی ہی قبر کی لوحِ مزار بن کر رہ جاتاہے جس پر سب آ کر پھول چڑھاتے اور اس کا عُرس مناتے ہیں۔ چنانچہ خدا کی زندگی کے لیے باخدا لوگوں سے زیادہ ہمیشہ ملحدین کی ضرورت رہتی ہے جو تصورِ خدا پر کاری ضربیں لگاتے اور ’’لالا‘‘ کی تکرار کرتے ہوئے اپنے وقت میں موجود خدا کے تمام تصورات کو جھٹلاتے چلے جاتے ہیں۔ وہ چونکہ عقل سے جھٹلاتے ہیں اس لیے تصور ِ خدا کی  تخلیص ہوتی چلی جاتی ہے۔

اگر کسی معاشرے میں ملحدین کی تعداد کم سے کم ہوتی چلی جائے تو اس معاشرے میں بُری رسموں کا رواج زیادہ سے زیادہ ہوتا چلا جاتاہے۔میں اکثر کہا کرتاہوں کہ، ’’اجتہاد کے دروازے جتنے زور سے بند کیے جائیں افترا ٔ کے دروازے اُتنے زور سے کھل جاتے ہیں ‘‘

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اجتہاد صرف سمجھدار لوگ انجام دیتے ہیں۔ افترأ ہرکوئی بلکہ پورا معاشرہ مل کر انجام دیتاہے۔اجتہاد کو نوجوان نسل سے زیادہ اور پرانی نسل سے کم تائید اور قبولیت ملتی ہے۔ افترأ کو پرانی اور نئی ہردوطرح کی نسلوں کی تائید اور حمایت حاصل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اجتہاد کی نسبت افترأ کسی آکاس بیل کی طرح پھیلتا اور معاشرے کے، بوجہ اعلیٰ اقداروروایات، پھل دار درخت کا خون چُوستا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ درخت سُوکھ جاتاہے۔ افترأ کی شدت سے جب کسی معاشرے میں بُری رسمیں بڑھ جاتی ہیں تو اس معاشرے کی زندگی کے لیے لازمی ہوجاتاہے کہ کوئی ریفارمر آئے۔ ریفارمیشن کا عمل ہی کسی معاشرے کو دوبارہ زندہ کرسکتاہے۔ ورنہ تو تہذیبوں کی تہذیبیں زمین بُرد ہوجاتی ہیں اور زمین ڈکار بھی نہیں مارتی۔

کوئی ریفارمر کب اور کیسے آتاہے؟

جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ جب کسی معاشرے میں اجتہاد کا عمل رُک جائے تو افترأ کا عمل تیز ترہوجاتاہے۔افترأ کے بڑھ جانے سے بُری رسمیں بڑھ جاتی ہیں۔ بُری رسموں کے بڑھ جانے سےپست طبقات زیادہ مظلوم اور غالب طبقات زیادہ ظالم ہوجاتے ہیں۔ اگر اِسی حال میں تین نسلیں اوپر تلے گزر جائیں تو ایک وقت ایسا آتاہے جب تیسری نسل پہلی کی جگہ لے لیتی ہے۔ گویا اب وہ بُری عادات جو افترأ کی وجہ سے رائج ہوئی تھیں بزرگوں کی اقدار کے طور پر نافذ ہوکرمذہبی تقدس حاصل کرلیتی ہیں۔ جیسا رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عرب کا حال تھا۔ ابنِ خلدون کے نزدیک کسی بھی معاشرے میں تیسری نسل کے بچے (بڑے ہوکر) ہمیشہ پہلی نسل کے بزرگوں کی اقدار کے پاسدار بنتے ہیں۔

کیا تصورِ خدا فقط انسانی ذہن کا کرشمہ ہے؟

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ نئی نسل ہمیشہ پرانی نسل کے مقابلے میں تھوڑی سی باغی ہوتی ہے۔ اور ہمیشہ نئی نسل کی بغاوت میں پائی جانے والی قوت اور بزرگوں کی نافذ کردہ اقدار میں پائی جانے والی قوت کا تناسب اُس تصادم کے نتائج مرتب کرتاہے جو دونوں نسلوں کے درمیان پایا جاتاہے۔

نئی نسل کے پاس صرف ’’جذبہ‘‘ جبکہ پرانی نسل کے پاس، عقل، علم اور تجربہ کی طاقت ہوتی ہے اس لیے یہ تصادم زیادہ تر بزرگوں کی فتح کی صورت میں انجام پاتاہے۔ پرانی نسل کے پاس جذبے کی شدید کمی ہوتی ہے اس لیے وہ ویمپائرز کی طرح تازہ خُون کی تلاش میں رہتے اور اِس طرح اپنے خوفناک قدامت پسندانہ نظام اور اقدار کو زندہ رکھتے ہیں۔ جب بُری رسمیں تیسری نسل کے بزرگوں کو منتقل ہوجائیں تو ان میں شدت اور سختی بڑھ جاتی ہے، افترأ کی رفتار مزید تیز ہوجاتی ہےا ور معاشرہ اپنی زندگی کے آخری دن گننے لگتاہے۔

ایسے میں اگر کوئی ریفارمر پیدا ہوجائے تو مرتاہوا معاشرہ پھر سے انگڑائی لیتاہے۔ کبھی دوبارہ زندہ ہوجاتاہے تو کبھی نہیں ہوپاتا۔ اس کا تعلق ریفارمر کی اپنی شخصیت اور کردار کی قوت،اور اس کے ساتھ شامل ہوجانے والی نئی نسل کے تازہ لہُو کی مقدار کے ساتھ ہے۔ کوئی ریفارمر جتنی پُراثر شخصیت اور اعلیٰ کردار کا مالک ہوتاہے، نئی نسل اتنی زیادہ شدت کے ساتھ اس کے پیچھے چلتی ہے۔ اگر وہ نئی نسل کےدلوں میں اپنے لیے محبت پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائے تو نئی نسل اس کے لیے جانوں کے نذرانے بصد شوق پیش کرنے کو تیار ہوجاتی ہے۔ کیونکہ نئی نسل ہمیشہ، ہرحال میں اپنے بزرگوں کی متشدد اقدار سے دل ہی دل میں نفرت کرتی اور ان سے چھٹکارا پانا چاہتی ہے۔

ریفامر کون ہوتاہے؟

ریفارمر وہ شخص ہوسکتاہے جس پر ’’انکار کا فرمان‘‘ نازل ہوتاہے۔

اپنے وقت کے لات و منات و عزی و ہبل سے انکارکا فرمان۔ اپنے وقت کے بزرگوں کی اقدار سے انکار کا فرمان۔ مدتوں سے رُکے اجتہاد کی وجہ سے بڑھ جانے والے افترأ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہوجانے والی بُری رسموں سے انکار کا فرمان۔ ویسے تو ہرنئی نسل میں ’’انکار کی وحی‘‘ موجود ہوتی ہے لیکن ان میں سے کوئی ریفارمر، جلد اس لیے پیدا نہیں ہوپاتا کہ تنہا جذبات ریفارمیشن کا عمل انجام نہیں دے سکتے۔ جذبات کو کسی عقل کے اتباع کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور ہرکس و ناکس، عاقل کی عقل نوجوانوں کو تحریکوں کے لیے آمادہ نہیں کرسکتی۔ کسی بھی ریفارمر کے لیے پرکشش شخصیت، اعلیٰ کردار اور دلنواز سخن کا مالک ہونا ضروری ہے۔

کسی معاشرے میں استحکام پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ نئی نسل کی ’’قوتِ انکار‘‘، پرانی نسل کی ’’قوتِ اصرار‘‘ کے برابر ہو۔ تناسب یہ ہے کہ اگر کوئی معاشرہ زیادہ قدیم اقدار کا مارا ہوا ہوگا تو نئی نسل کو زیادہ قوتِ انکار کی ضرورت ہوگی۔ اگرکوئی معاشرہ زیادہ قدیم اور دقیانوسی نہ ہوگا تو نئی نسلوں کو کم ’’قوتِ انکار‘‘ کی ضرورت ہوگی۔ غرض یہ الحاد اور انکار کی روش ہی ہے جو کسی بھی معاشرے میں اجتہاد کے دروازے کھلے رکھ سکتی ہے۔

جب ہم کسی معاشرے میں بری رسموں کی بات کرتے ہیں تو دراصل ہم اس معاشرے کی ثقافت یعنی کلچر کی بات کرتے ہیں۔ اب چونکہ کسی بھی کلچر کا سب سے بڑا حصہ اُس کا مذہب ہوتاہے سو بُری رسمیں سب سے زیادہ مذہب کے راستے سے داخل ہوتی ہیں۔ گزشتہ بارہ ربیع الاول پرپاکستان کے کئی شہروں میں لوگوں نے رسول ِ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کی سالگرہ کے کیک کاٹے۔ ان میں سے بعض کیک کئی کئی من وزنی اور کئی فُٹ لمبے چوڑے تیار کیے گئے تھے۔ تب مجھے نہ جانے کیوں وہ یونانی بُت یاد آگیا جو سَتُو کا بنا ہوا تھا۔ اور جب اُس قوم پر قحط آیا تو وہ اپنے خدا کو ہی کھاگئے۔مدنی چینل پر نت نئی ’’اضافہ ہوتی ہوئی‘‘ رسمیں ہم روز دیکھتےہیں۔ دیگر ٹی وی چینلز پر باہر سے درآمد شدہ رسموں کا سُونامی ہمہ وقت ہمارے معاشرے کے ’’ بَند‘‘ ڈھاتا رہتاہے۔

زندہ انسانوں کو بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ ارتقأ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اجتہاد رُکا رہیگا تو افترأ تو ہوگا۔ تبدیلی کو کوئی نہیں روک سکتا۔

اجتہاد نہ سہی تو افترأ سہی۔ کیونکہ معاشرہ سانس لیتے ہوئے، جیتے جاگتے، زندہ جسموں کا مجموعہ ہوتاہے۔اب چونکہ اجتہاد صرف سمجھدار لوگوں کا کام ہے اس لیے ضروری ہوجاتاہے کہ معاشرے میں سمجھدار لوگ موجود ہوں۔ جیسا کہ ہم نے اوپر دیکھا کہ تمام تر سمجھدار لوگ تیسری نسل سے پہلی نسل میں منتقل ہوچکے ہیں اور ان کے سامنے اقدار کے تحفظ کے سوا کوئی مقصد موجود نہیں اس لیے وہ نئی نسل کی طرف سے سامنے آنے والی تبدیلیوں کو ناپسندیدگی سے دیکھتے ہیں۔

وہ تبدیلیاں چونکہ کسی دانا اور سمجھدار کی طرف سے نہیں ہیں اس لیے ان پر عقلی اعتراضات بھی جلد وارد ہوسکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ نئی نسل کی ہر کھیپ جلد دوسری اور پھر پہلی نسل میں تبدیل ہوکر خود اسی کام پر مامور ہوجاتی ہے جس کے، خلاف ہوا کرتی تھی۔اور اِس لیے نئی نسل کی طرف سے وارد ہونے والی تبدیلیوں کو کم قبولیت مل پاتی ہے بنسبت مذہب کے راستے سے داخل ہونے والی بُری رسموں کے۔ کیونکہ مذہب کے راستے سے داخل ہونے والی اکثر بری رسموں میں بزرگوں کا کردار ہوتاہے، اس لیے ان کے خلاف صدائے احتجاج کم کم سنائی دیتی ہے۔

چنانچہ مذہب کے راستے سےکسی معاشرے میں داخل ہونے والی بُری رسموں کا مقابلہ صرف کوئی ایسا شخص ہی کرسکتاہے جو خود نئی نسل کا نمائندہ ہو۔ اس کے پاس اجتہاد کی طاقت ہو۔ وہ بری اور اچھی رسموں کا فرق پہنچانتاہو اور وہ پرانی نسل کی رسوم بالخصوص مذہبی رسوم (اور خداؤں ) کا انکار کرسکے۔ایسا کوئی شخص اگر کامیاب ہوجائے تو ایک بار پوری سوسائٹی بدل جاتی ہے۔بہت سارے بُت ٹوٹ جاتے ہیں۔ فضول چیزوں میں سے سے تقدس کا عنصر ختم ہوجاتاہے۔

غالباً جوش ملیح آبادی نے کہا تھا، اوہام کا رباب، قدامت کا ارغنوں فرسودگی کا سحر، روایات کا فسُوں اقوال کا مراق، حکایات کا جنُوں رسم و رواج و صحبت و میراث و نسل و خُوں افسوس یہ وہ حلقۂ دام ِ خیال ہے جس سے بڑے بڑوں کا نکلنا محال ہے۔ تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ قوموں میں ریفارمرز دو طرح کے وارد ہوتے رہے ہیں،

۱۔ وہ لوگ جوکسی معاشرے میں ریفارمیشن کے لیے اُٹھے اور انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایک بڑی عقل (وحی) ہے جو اُن کی رہنمائی کررہی ہے۔

۲۔ وہ لوگ، جو کسی معاشرے میں ریفارمیشن کے لیے خود اُٹھے اور انہوں نے کسی بھی قسم کی

’’خدائی نصیحت‘‘ یعنی ’’وحی‘‘ کا دعویٰ نہ کیا۔

پہلی قسم کے لوگ ماضی میں زیادہ پائے جاتے تھےجبکہ دوسری قسم کے لوگ ابھی بھی کبھی کبھار نظر آجاتے ہیں۔ پہلی قسم کے لوگوں میں آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا ریفارمر نظر نہیں آتا جس نے ’’ڈیوائن گائیڈینس ‘‘ کا دعویٰ بھی کیاہو اور کسی معاشرے کو فی الواقعہ ریفارم بھی کیا ہو۔

ایران کی بعض تحریکیں مثلاً اسماعیلیہ یا بہائی تحریک یا ہندوستان میں گُرونانک وغیرہ کی تحریک کو ہم ریفارمیشنز کی تحریکیں تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ان تحریکوں کے بانیوں نے ’’ڈیوائن گائیڈینس‘‘ کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ پہلے سے موجود ’’ڈیوائن گائیڈینس‘‘ میں تبدیلی کو ترجیح دی۔ یعنی وہ کام کیا جو کسی مجتہد یا مجدد کو کرنا ہوتاہے، یہ الگ بات ہے کہ کوئی مجتہد یا مجدد ریفارمیشن کا کام ہی اس طرح انجام دے کہ بجائے معاشرے کو زندہ کرنے کے اسے ایک نئے معاشرے میں بدل دے، جیسا گرُونانک نے کیا۔

البتہ مرزا غلام احمد صاحب نے ’’ڈیوائن گائیڈینس‘‘ کا دعویٰ تو کیا لیکن اُن کے دعوے کے عملی اطلاق پر گواہ موجود نہیں تھے یعنی وہ جس کمیونٹی کی ریفارمیشن کے لیے ڈیوائن گائیڈینس کا دعویٰ کررہےتھے وہ کمیونٹی ہی دستیاب نہ تھی۔ اس لیے ان کا دعویٰ ’’وحی‘‘ کے تجربہ سے اُس طرح نہ گزرسکا جس طرح ایک سائنسی مواد کےلیے گزرنا لازمی امر ہے۔ ہم اِس اُصول کا اُوپر تفصیلی جائزہ لے چکے ہیں، جسے میں ’’توھّم میں تکرار‘‘ کا اصول کہتاہوں۔ غرض مرزا صاحب کچھ ریفارم نہ کرپائے۔چونکہ کسی بھی ریفارمر کا اصل مقصد معاشرے سے بری رسوم کا خاتمہ ہوتاہے چاہے وہ ریفارمر کارل مارکس ہو یا کوئی نبی، فلہذا اِس اصول کے تحت مرزا صاحب ایک ریفارمر کے کرائیٹیریا پر پورے اُترنے سے قاصر ہیں کیونکہ وہ اپنے معاشرے کی بُری رسموں کو ختم نہیں کرسکے اس کے برعکس ایک اور فرقے کا اضافہ ہوجانے سے اُمت ِ مسلمہ مزید تقسیم ہوگئی اور یوں گویا الٹا تفرقہ بازی کی رسم کو بڑھاوا ملا۔

یہ تو تھا پہلی قسم کے ریفارمزز کا ذکر یعنی اُن لوگوں کا ذکر جو یہ دعویٰ کرتےہیں کہ ان کے پاس ڈیوائن گائیڈینش ہے اور دوسری یہ شرط کہ وہ کسی معاشرے میں موجود بُری رسموں کو ختم کرکے نئی اور شفاف روایات کا آغاز کرتے ہیں۔

دوسری قسم کے ریفارمرز جو ’’ڈیوائن گائیڈینس‘‘ کا دعویٰ نہیں کرتے ان میں کئی نام ہیں لیکن سب سے بڑانام بلاشبہ ’’کارل مارکس‘‘ کا ہے۔ کیونکہ بڑے پیمانے پر ریفارمیشن کا عمل مارکس کی کوششوں کے بعد ہی ممکن ہوا جبکہ مارکس کسی قسم کی ’’وحی‘‘ کا دعوے دار نہیں تھا۔

مارکس کی اِسی خصوصیت کی وجہ سے اقبال نے یہ شعر کہا تھا،

وہ کلیم ِ بے تجلّی، وہ مسیح ِ بے صلیب
نیست پیغبر ولیکن دربغل دارد کتاب

یعنی اقبال کے بقول مارکس کی دعوت میں بھی پیغمبرانہ رمق پائی جاتی ہے۔ وہ پیغمبر نہیں ہے لیکن اس کے پاس کتاب ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ’’مارکس‘‘ ملحد تھا۔ مارکس خدا کو نہیں مانتا تھا۔ وہ مذہب کو ’’عوام کے لیے افیون‘‘ کہتاتھا۔ خیر! بات لمبی ہوگئی۔ اس ساری گفتگوسے میری مراد فقط اتنا ثابت کرناہے کہ انکار کی روایت یعنی ملحدانہ نظریات، تصورِ خدا کی تلخیص کے لیے نہایت ضروری ہوتے ہیں جو سب سے پہلے کسی نہ کسی ریفارمر کی بدولت معاشرے میں داخل ہوتے ہیں اور ضرور معاشرے میں پہلے سے موجود خداؤں کے انکار پر منتج ہوتے ہیں۔

پھر چاہے وہ خدا لات و منات و عزی و ہبل ہوں یا بدترین مادیت پسندی۔ یہ ان خداؤں کے انکاری یعنی ملحدین ہی ہوتے ہیں جو بزرگوں کے خلاف علم ِ بغاوت بلند کرتے اور بزرگوں کے خداؤں کا انکار کرتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔