اجتماعیت کے بغیر ایمان و اسلام کا وجود ناممکن

 قرآن و حدیث میں  اجتماعیت کی جو اہمیت اور ضرورت بیان کی گئی ہے بدقسمتی سے نہ صرف ان پڑھ مسلمان اس کی اہمیت اور ضرورت سے ناواقف اور بے نیاز ہیں  بلکہ پڑھے لکھے مسلمان اور عالم بھی ناواقف اور بے نیاز معلوم ہوتے ہیں ۔ حسب ذیل دینی ہدایات کو پڑھنے اور مسلمانوں  کے آج کے حالات پر غور کرنے سے یہ حقیقت پورے طور پر عیاں  ہوجاتی ہے۔

1۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایسے تین آدمیوں  کیلئے جو کسی بیابان میں  ہوں،  جائز صرف یہ بات ہے کہ وہ اپنے میں  سے ایک کو اپنا امیر بنا کر رہیں ‘‘ (منتفی،  ص330)۔ یہ ارشاد نبویؐ کہتا ہے کہ اگر تین مسلمان بھی کسی جگہ ہوں  حتیٰ کہ اگر وہ کسی الگ تھلگ مقام پر اور سنسان وبیابان ہی میں  کیوں  نہ آباد ہوں،  تو بھی ضروری ہے کہ ان میں  سے ایک ان کا امیر ہو اور باقی دو اس کے مامور و ماتحت ہوں ۔ اس اجتماعیت اور تنظیم کے بلکہ یوں  کہئے کہ اس ننھے سے ’’ریاستی نظم‘‘ کے بغیر ان کی زندگی اسلامی زندگی نہ ہوگی۔

2۔ حضرت ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں  کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’جب تم میں  سے تین آدمی (بھی) سفر کیلئے نکلیں  تو چاہئے کہ ایک کو اپنا امیر بنالیں ‘‘ (ابو داؤد، جلد 1، ص 351)۔  یعنی مسلمان کیلئے ہدایت ہے کہ مدتِ سفر جیسا عارضی وقت بھی نظم و امر کے بغیر نہ گزارے۔ اگر تین اشخاص بھی ایک ساتھ سفر کر رہے ہوں  تو مزاج اسلامی کے سراسر اخلاف ہوگا اگر انھوں  نے اپنے میں  سے ایک کو اپنا امیر سفر نہ بنا لیا ہو اور اس کی سرکردگی میں  وہ یہ سفر نہ کر رہے ہوں ۔

3۔ حضرت ابو ثعلبہ خشنیؓ کہتے ہیں  کہ لوگوں  کی عادت تھی کہ سفر کے دوران جب کہیں  پڑاؤ ڈالتے تو ادھر ادھر پھیل جاتے اور اپنی اپنی پسند کی مختلف جگہیں  ٹھہرنے کیلئے منتخب کرلیتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار یہ صورتِ حال دیکھی تو سرزنش کرتے ہوئے فرمایا: ’’تمہارا اس طرح مختلف گھاٹیوں  اور میدانوں  میں  منتشر ہو رہنا صرف شیطان کی وجہ سے ہے‘‘ (ابو داؤد، جلد اول، ص354)۔اس تنبیہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ ’’لوگ پھر کبھی اس طرح منتشر نہ ہوئے اور جب کسی جگہ پڑاؤ ڈالتے تو ایک دوسرے سے بالکل لگ کر ٹھہرتے، حتیٰ کہ خیال ہوتا اگر انھیں  ڈھکا جائے تو ایک ہی کپڑے کے نیچے سب آجائیں  گے۔

 معلوم ہوا کہ بغیر کسی جماعتی نظم کے پورا سفر کر ڈالنا تو درکنار،  اس کے دوران چند گھنٹوں  کا کوئی پڑاؤ بھی اگر اپنے اپنے طور پر کرلیا جائے اور اتنی سی دیر کی بھی زندگی شانِ اجتماعیت سے آراستہ دکھائی نہ دے سکے تو یہ بات بھی اسلام کو قطعی گوارا نہیں  اور اسے وہ شیطان کی پیروی قرار دیتا ہے۔

4۔  ایک صحابیؓ کسی گھاٹی سے گزر رہے تھے، وہاں  انھیں  میٹھے پانی کا ایک چشمہ نظر آیا جس نے انھیں  اپنا گرویدہ بنالیا۔ دل نے کہا کاش میں  آبادی چھوڑ کر یہیں  آبستا۔ اس خواہش کو لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضورپہنچے اور اجازت طلب کی تو آپؐ نے فرمایا ’’نہیں  ایسا نہ کرو، کیونکہ اللہ کی راہ میں  تمہارا کھڑا رہنا گھر کے اندر پڑھی جانے والی تمہاری ستر برس کی نمازوں  سے بھی افضل ہے‘‘(ترمذی، جلد اول)۔

یہ حدیث اس حقیقت کی عکاس ہے کہ اجتماعی زندگی کو چھوڑ کر تنہائی کی زندگی گزارنے میں  چاہے جو بھی دینی اور دنیوی فوائد نظر آتے ہوں  لیکن اسلام اپنے پیروؤں  کو ادھر جانے اور اجتماع سے کٹ کر رہنے کی اجازت نہیں  دیتا، کیونکہ یہ دینی اور دنیوی فوائد خواہ کتنے ہی عظیم کیوں  نہ ہوں  مگر ان فائدوں  کے مقابلے میں  بالکل ہیچ ہیں  جو ایک منظم اسلامی معاشرے کے اندر ایک مسلمان کو حاصل ہوسکتے ہیں ۔

غور کیجئے ؛ سفر اور حضر سے متعلق یہ مختلف دینی ہدایتیں  اسلامی نظام فکر و عمل میں  اجتماعیت کی ضرورت و اہمیت کو کہاں  سے کہاں  پہنچا دیتی ہیں ! یہ یقینا ایک ایسی حقیقت کا انکشاف کرتی ہیں  جس کو صرف اسلام ہی کے اندر موجود پایا جاسکتا ہے اور جس سے دنیا کا ہر دوسرا معاشرہ اور نظام نا آشنا ہے۔ یہ اس بات کا کھلا ہوا ثبوت ہیں  کہ اسلامی زندگی کے اجتماعی تقاضے صرف احکام خلافت کی بجا آوری پر جاکر ختم نہیں  ہوجاتے، بلکہ اس دائرے سے باہر کی عام زندگی کو بھی اپنی گرفت میں  لئے ہوئے ہیں ۔ اس کے معنی یہ ہیں  کہ اسلام کے نزدیک اجتماعیت کی اہمیت انتہائی بلند ہی نہیں ۔ انتہائی وسیع اور ہمہ گیر بھی ہے، حتیٰ کہ انسان کے عام رہن سہن کا کوئی گوشہ بھی اس کی حدودِ اثر سے آزاد نہیں ۔ علامہ شوکانیؒ ان حدیثوں  کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’یہ حدیثیں  اس بات کی دلیل ہیں  کہ جہاں  کہیں  بھی تین یا تین سے زائد مسلمان ہوں  ان کیلئے حکم شریعت یہ ہے کہ وہ اپنے میں  سے ایک شخص کو اپنا امیر منتخب کرلیں،  کیونکہ اسی طرح باہمی اختلاف سے محفوظ رہا جاسکتا ہے… اور اگر ان تین افراد کیلئے بھی جو کسی جنگل میں  ہوں  یا ایک ساتھ سفر کر رہے ہوں،   حکم شریعت یہ ہے تو اس بڑی تعداد کے مسلمانوں  کیلئے جو کسی گاؤں  یا شہر میں  ایک ساتھ رہتے ہوں  یہ بدرجۂ اولیٰ مشروع ہوگا‘‘ (نیل الاوطار، جلد 9، ص157)۔

 فرد اور جماعت: اس میں  کوئی شک نہیں  کہ اسلام نے فرد کو بڑی اور بنیادی اہمیت دی ہے۔ فرد ہی اس کا ابتدائی اور حقیقی مخاطب ہے، جس طرح وہ تنہا پیدا ہوا ہے اسی طرح اللہ کے احکام و مرضیات پر چل کر اپنی زندگی کو کامیاب بنانا بھی اسی کی اپنی انفرادی ذمہ داری ہے اور کل اس کے حضور اپنے عمل کی جواب دہی کیلئے اسے اکیلے ہی حاضر ہونا بھی ہے… لیکن اسی کے ساتھ اس کا کہنا یہ بھی ہے کہ وہ راستہ جو انسان کو کامیابی کی منزل مقصود تک پہنچاتا ہے، اجتماع سے کتراکر نہیں  جاتا بلکہ ایک منظم اجتماعی زندگی کے ٹھیک منجدھار سے ہوکر گزرتا ہے؛ چنانچہ قرآن مجید اس ’راستے‘ کی تعیین کرتے ہوئے اس کے ضروری مراحل کے سلسلے میں  فرماتا ہے کہ ’’اے یمان والو! اور تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلو اور الگ الگ نہ رہو‘‘ (آل عمران)۔

’’الگ الگ نہ رہو‘‘ یعنی باہم جڑے ہوئے رہو۔ یہ ’الگ الگ نہ رہنا‘‘ اور باہم جڑا رہنا،  کس طرح کا اور کس معیار کا ہونا چاہئے، اس کی وضاحت کیلئے صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی طرف رجوع کیجئے۔ آپ فرماتے ہیں  کہ ’’جماعت کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رہو اور انتشار سے پوری طرح الگ رہو‘‘ (ترمذی، ج 2، ص41)۔ میں  تمہیں  پانچ باتوں  کا حکم دیتا ہوں : جماعتی زندگی کا، سمع (یعنی احکام امیر کے سننے) و اطاعت (یعنی احکام کے ماننے) کا، ہجرت اور جہاد فی سبیئل اللہ کا‘‘ (احمد و ترمذی، بحوالہ مشکوٰۃ، ص321)۔

 ان حدیثوں  سے معلوم ہو اکہ جس جماعتی زندگی کا حکم اسلام نے دیا ہے وہ کوئی ڈھیلی ڈھالی جماعتی زندگی نہیں  ہے جس کی شیرازہ بندی صرف اخلاقی رشتوں  سے ہوئی ہو بلکہ ایسی متحد و منظم اور منضبط جماعتی زندگی ہے جس کو سمع اور طاعت کے آہنی تاروں  سے بھی پوری طرح کس دیا گیا ہو۔ پھر یہی نہیں  کہ ’جماعت‘ کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رہنے اور جماعتی زندگی بسر کرنے کا یہ ایک لازمی حکم ہے بلکہ یہ ایسا لازمی حکم ہے جس کی خلاف ورزی میں  نہ ایمان کی خیر ہے نہ اسلام سے رشتہ برقرار رہ سکتاہے۔ چنانچہ مزید ارشاد ہوتا ہے کہ

 ’’جو شخص ’الجماعۃ‘ سے بالشت بھر بھی الگ ہورہا ہو، کوئی شک نہیں  کہ اس نے اسلام کا حلقہ اپنی گردن سے نکال پھینکا‘‘۔

’’جو کوئی امام المسلمین کی اطاعت سے کنارہ کشی اختیار کرلے گا اور جماعت المسلمین سے الگ ہورہے گا اور اسی حال میں  مرجائے گا، اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی‘‘(مسلم، ج2، ص127)۔ جس طرح مسلمانوں  کی ’الجماعۃ‘ سے اپنا جڑا ہوا رشتہ کاٹ لینا ایمان کے منافی ہے اسی طرح اس نظم اجتماعی سے وابستہ نہ ہونا بھی دینی حیثیت سے انتہائی خطرناک حالت ہے: ’’جو شخص اس حال میں  مرجائے کہ اس کی گردن میں  (امام المسلمین کی) بیعت (کا قلاوہ) نہ ہو، اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی‘‘ (مسلم ج2، ص128)۔

 جس ’الجماعۃ‘ کی حیثیت یہ ہو اور یہ جس نظم اجتماعی سے علاحدگی یا بے تعلقی ایک مسلمان کو جاہلیت کی حالت میں  پہنچا دیتی ہو، کوئی وجہ نہیں  کہ اس کے اندر رخنہ ڈالنے کی کسی جسارت کو ایک لمحہ کیلئے بھی برداشت کرلیا جائے، چنانچہ اس بارے میں  آپؐ کی ہدایت یہ ہے کہ

’’جو شخص اس جماعت کو جبکہ وہ متحد ہو، پراگندہ کرنا چاہئے، اسے (بدرجۂ آخر) تلوار پر رکھ لو، خواہ وہ کوئی بھی ہو‘‘ (مسلم، ج 2، ص128)۔

دوسری طرف قدرتی طور پر، ان لوگوں  کا اجر اور مرتبہ قابل رشک حد تک عظیم قرار دیا گیا ہے جو اس نظم اجتماعی کی عملی شکل … اسلامی مملکت… کی حفاظت اور سا  لمیت کیلئے جاں  بازیاں  دکھائیں ۔ فرمایا ہے گیا کہ ’’ایک شب و روز کی سرحدوں  کی حفاظت ایک مہینہ کے مسلسل روزوں  اور نمازوں  سے بھی افضل ہے۔ اور اگر اسی دوران کسی کی وفات ہوجاے تو اس کا وہ عمل نیک، جسے وہ اپنی زندگی میں  انجام دیا کرتا تھا، برابر انجام پاتا ہوا شمار کیا جائے گا اور اسے اس کا رزق ملتا رہے گا، نیز وہ فتنے میں  ڈالنے والوں  سے مامون رہے گا‘‘ (مسلم، جلد دوم، ص142)۔

 ’’دو آنکھوں  کو دوزخ کی آگ کونہ چھو سکے گی: ایک وہ جو خوفِ خدا سے روپڑی ہو، دوسری وہ جس نے رضائے الٰہی کی خاطر سرحدوں  کی نگرانی کرتے ہوئے رات گزاردی ہو‘‘ (ترمذی، جلد، ص210)۔ اسی طرح اس نظم کی اطاعت کو ایمان کی ایک ضروری علامت بتایا گیا ہے اور اصحاب امر کی فرماں  برداری کو اللہ و رسولؐ کی فرماں  برداری قرار دیا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں  کہ ’’جس نے امیر کی فرماں  برداری کی اس نے میری فرماں  برداری کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی‘‘ (مسلم، جلد 2، ص124)۔

 ’اطاعت امیر‘ کے اس فریضے کو امکان کی آخری حد تک انجام دینے کی تاکید کی گئی ہے، یہاں  تک کہ ان امراء کی بھی بیعت اور اطاعت سے کنارہ کشی کی اجازت نہیں  ہے جو برائیوں  میں  لت پت ہورہے ہوں  اور جن کے ہاتھوں  رعایا کی بیٹھیں  زخموں  سے چور چور ہوجاتی ہوں ؛ حالانہ یہ وہ حرکتیں  ہیں  جو اسلام کی نگاہ میں  انتہائی حد تک مبغوض ہیں،  لیکن اس کے باوجود وہ اپنے پیروؤں  سے کہتا ہے کہ صبر ان مظالم کو برداشت کئے جاؤ اور ان کی امارت کو چیلنج نہ کرو بلکہ معروف میں  ان کی برابر اطاعت کرتے رہو۔ اس معاملے میں  ایسی غیر معمولی چشم پوشی کی پالیسی اس نے کیوں  اختیار کی ہے؟ اور ظالم و فاسق امراء کے بارے میں  ایسے انتہائی صبر و انقیاد کا اس نے مسلمانوں  کو حکم کیوں  دیا ہے؟ محض اس لئے تاکہ ملت کی اجتماعیت محفوظ رہے اور مسلمانوں  کا اتحاد، انتشار کی نذر نہ ہونے پائے۔ امام نوویؒ اس طرح کی حدیثوں  پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں  کہ

’’یہ حدیثیں  اس امر کی تاکید کے بارے میں  وارد ہوئی ہیں  کہ اولوالامر کے احکام ہر حال میں  سنے اور مانے جائیں  اور ان کا مقصد ہے کہ مسلمانوں  کا اتحاد برقرار رہے کیونکہ اختلاف ان کیلئے دینی اور دنیوی دونوں  قسم کی خرابی احوال کا موجب ہے۔ (شرح مسلم، ج 2، ص124)۔

 یہ ان احکام کا ایک مجمل خلاصہ ہے جو اجتماعی نظم اور ملی اتحاد کے بارے میں  اسلام نے اپنے پیروؤں  کو دے رکھے ہیں ۔ اگر صرف انہی چند ارشادات کے غور سے دیکھ لیا جائے تو اجتماعیت کی وہ قدر و اہمیت جو اسے اسلام میں  حاصل ہے، بڑی حد تک بے حجاب نظر آجائے گی۔ کتاب و سنت کی رو سے اگر تمام اہل ایمان کا ایک خاص شیزازے (حبل اللہ) میں  بندھا رہنا اور ’تفرق‘ سے دور رہنا ضروری ہے‘۔ اگر مسلمانوں  پر نظام خلافت کا قائم کرنا واجب ہے، اگر امام المسلمین کی اطاعت اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہے۔ اگر جماعۃ المسلمین سے بالشت بھر کی علاحدگی بھی مومن کی گردن کو اسلام کے حلقے سے محروم کر دیتی ہے، اگر امام کی بیعت سے بے نیاز مرجانا جاہلیت کی موت مرنا ہے، اگر الجماعۃ کے اتحاد میں  رخنے ڈالنے والے کے خون کی کوئی قیمت نہیں  اور اگر ملت کے اجتماعی نظام (اسلامی مملکت) کی حفاظت سے بڑی کوئی عبادت نہیں  … تو سوچئے وہ کون سا مقام ہے جو اجتماعیت کو ملنا چاہئے تھا، لیکن اسلام میں  اسے ملا نہیں  ہے۔

تحریر: مولانا صدرالدین اصلاحیؒ… ترتیب:  عبدالعزیز

تبصرے بند ہیں۔