آخری نبی کا آخری پیغام آخری امت کے نام

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

جناب سرور کائنات، فخر موجودات، سیدالمرسلین، خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا ہر ارشاد، ہر جملہ اور ہر لفظ نہایت  اہمیت کا حامل، تعمیل کے قابل  اور ہدایت و رہنمائی کاسرچشمہ ہے؛ لیکن جناب نبی کریمؐ کے ہزاروں ارشادات عالیہ میں جن چند ارشادات کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے ان میں حجۃ الوداع کا خطبہ بھی شامل ہے۔

"وداع” واؤ کے زبر کے ساتھ کے معنی ہیں ‘‘رخصت کرنا ’’  اور حجۃ الوداع اس حج کو کہتے ہیں جو آنحضرت ﷺ نے حج کی فرضیت نازل ہونے کے بعد ١٠ھ میں کیا! اس حج کا یہ نام اس لئے رکھا گیا کہ آنحضرت ﷺ نے اس حج میں احکام شریعت کی تعلیم دی، صحابہ کو رخصت کیا، اس دنیا سے اپنے رخصت ہونے کی انہیں خبر دی اور منصب رسالت کی ذمہ داریوں کی ادائیگی و انجام دہی اور دینی و تشریعی احکام کو دنیا کے سامنے پہنچا دینے اور نافذ کر دینے پر ان کو اپنا گواہ بنایا۔

نبی کریمؐ نے ہجرت کے بعد ایک ہی حج کیا اور وہ حج یہی تھا،جب حضورؐ کا ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں قیام تھا، ۵۳ سال کی عمر تک آپؐ حج کرتے رہے۔ آپؐ نے کتنے حج ادا کیے ان کی متعین تعدادمنقول نہیں ہے؛البتہ محدثین فرماتے ہیں کہ جب سے حضورؐ نے ہوش سنبھالا اور مکہ میں رہے تو ظاہر ہے کہ ہر سال حج میں شریک ہوتے رہے ہوں گے۔ روایات میں یہ ذکر آتا ہے کہ حج کے موقع پر جو اجتماع ہوتا تھا، منٰی میں ، عرفات میں ، لوگ دنیا کے مختلف حصوں سے حج کے لیے آتے تھے، تو نبی کریمؐ تبلیغ دین کے لیے اس اجتماع سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ آپؐ مختلف خیموں میں جاتے تھے، لوگوں سے ملتے تھے اور دعوت دیتے تھے۔ چنانچہ انصارِ مدینہ کے دونوں گروہوں اوس اور خزرج کے ساتھ رسول اللہؐ کا جو رابطہ ہوا، وہ حج ہی کے موقع پر ہوا ،ان دونوں قبائل کے لوگ حج کے لیے آئے ہوئے تھے، حضورؐ مختلف خیموں میں جا کر دعوت دی تو انہوں نے آپؐ کی بات توجہ سے سنی اور قبولیت کا اظہار کیا۔

حجۃ الوداع کی پیشگی تیاری:

رمضان المبارک ۸ھ میں مکہ فتح ہوا۔ ۹ھ میں مسلمانوں نے اجتماعی طور حضرت ابوبکر صدیقؓ کی امارت میں پہلا حج ادا کیا۔ حضورؐ اس حج میں خود تشریف نہیں لے گئے بلکہ حضرت ابوبکر صدیق کو مدینہ سے امیرِ حج بنا کر بھیجا اور ان کے ذریعے حج کے موقع پر کچھ اعلانات کروائے۔ ان کے بعد حضرت علیؓ کو بھیجا، کچھ اعلانات ان کے ذریعے کروائے اور آئندہ سال اپنے حج کے لیے تیاری کی (بخاری، رقم ۳۵۶)۔ اس تیاری میں دو تین باتیں اہم تھیں ۔ پہلی یہ کہ مختلف عرب قبائل کے ساتھ جو معاہدات تھے، ان میں سے کچھ کو باقی رکھنے کا فیصلہ کرنا تھا اور کچھ کو ختم کرنے کااور دوسری بات یہ تھی کہ آئندہ سال اپنے حج سے پہلے حضورؐ مکہ کے ماحول میں کچھ صفائی چاہتے تھے۔ مثلاً پہلے ہر قسم کے لوگ حج کے لیے آجاتے تھے، آپؐ نے اعلان کروا دیا کہ آج کے بعد کوئی غیر مسلم یہاں نہیں آئے گا، یہ بیت اللہ صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص ہے، یہ بیت اللہ ابراہیمی ہے اور ابراہیم علیہ السلام کی ملت کے لیے مخصوص ہے۔ اسی طرح پہلے بہت سے لوگ حج کے لیے آتے تو ننگے طواف کرتے، مرد بھی اور عورتیں بھی۔

نبی کریمؐ نے یہ اعلان بھی کروا دیا کہ آج کے بعد کوئی شخص ننگا طواف نہیں کرے گا، عورتیں تو مکمل لباس میں ہوں گی اور با حیا و با وقار طریقہ سے آ کر طواف کریں گی اور مرد بھی اپنا جسم مکمل طور پرڈھانپیں گے لیکن دو چادروں سے۔

یہ دو اعلان حضورؐ نے اگلے سال کے لیے کروا دیے کہ اگلے سال کوئی غیر مسلم حج کے لیے نہیں آئے گا اور کوئی ننگا طواف نہیں کرے گا۔ اس کے علاوہ اور بھی متفرق اعلانات کروائے کہ آج کے بعد حج میں فلاں عمل ہوگا اور فلاں نہیں ہوگا۔ پھر اس اہتمام کے ساتھ نبی کریمؐ نے پورا سال مختلف قبائل میں پیغامات بھیجے کہ آئندہ سال رسول اللہؐ حج کے لیے تشریف لے جا رہے ہیں اس لیے جو مسلمان بھی اس موقع پر پہنچ سکتا ہے، پہنچے۔ چنانچہ پورا سال یہ اعلانات ہوتے رہے، لوگوں تک یہ پیغام پہنچتا رہا کہ جس مسلمان نے حضورؐ کی رفاقت حاصل کرنی ہے، معیت حاصل کرنی ہے، جس نے آپؐ سے کوئی بات پوچھنی ہے تو وہ حج پر پہنچے۔ اس طرح ۱۰ھ کے حج کے لیے پورے اہتمام کے ساتھ جزیرۃ العرب کے مختلف علاقوں سے لوگ آئے۔ ایک روایت کے مطابق ایک لاکھ چالیس ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حجۃ الوداع کے موقع پر جمع ہوئے۔ یہ جناب نبی کریمؐ کی حیات مبارکہ میں صحابہؓ کا سب سے بڑا اجتماع تھا، حضورؐ کی حیات میں اس سے بڑا صحابہؓ کا اجتماع نہیں ہوا۔ صحابہ کرامؓ مختلف علاقوں سے آئے اور انہوں نے نبی کریمؐ کے ساتھ حج ادا کیا۔

آپ نے مناسک اور ارکانِ حج ادا  فرمائے اور میدان ِ عرفات میں ایک طویل خطبہ پڑھا۔

خطبۂ  حجۃ الوداع :

اوَّل خدا تعالٰی کی حمد و ثنا ٔ کی بعد ازاں یہ ارشاد فرمایا:

  اے لوگو! جو میں کہتا ہوں وہ سنو، غالباً سال آئندہ تم سے ملنا  نہ ہوگا۔اے لوگو! تمہاری جانیں آبرو اور اموال آپس میں ایک دوسرے پر حرام ہیں جیسا کہ یہ دن یہ مہینہ اور یہ شہر حرام ہے۔جاہلیت کے تمام امور میرے قدموں کے نیچے پامال ہیں اور جاہلیت کے تمام خون معاف اور ساقط ہیں ،سب سے پہلے میں ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب کا خون جو بنی ہذیل پر ہے معاف کرتا ہوں ،جاہلیت کے تمام سود ساقط اور لغو ہیں ،تمہارے لئے صرف  رأس المال ہے،سب سے پہلے میں عباس بن عبدالمطلب کا ربا ساقط اور باطل کرتا ہوں ۔

بعد ازاں زوجین کے باہمی حقوق بیان فرمائے۔پھر فرمایا:تم میں ایسی محکم چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم اس کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے  رہے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ،قیامت کے دن تم سے میرے بارے میں سوال ہوگا،بتلاؤ کیا جواب دوگے؟صحابہ نے عرض کیا:ہم یہ گواہی دیں گے کہ آپ نے ہم تک اللہ کا پیام پہنچا دیا اور خدا کی امانت ادا کردی اور امت کی خیر خواہی کی ، آنحضرت ﷺ نے تین بار انگشت شہادت سے آسمان کی طرف اشارہ کر کے یہ فرمایا: اللّٰہم اشہد(اے اللہ تو گواہ  رہ)۔

آپ خطبہ سے فارغ ہوئے اور حضرت بلال ؓ نے ظہر کی اذان دی ، ظہر اور عصر دونوں نمازیں ایک ہی وقت میں ادا کی گئیں ،بعد ازاں آپ خدا و ند ذوالجلال کی حمد و ثنأ ،ذکر اور شکر، استغفار اور دعا میں مشغول ہوگئے،اسی اثنأ میں یہ آیت نازل ہوئی:

 الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا         آج  میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری  کردی اور ہمیشہ کے لئے دینِ اسلام کو تمہارے لئے پسند کیا!

۱۰ذی الحجہ الحرام کو منیٰ میں پہنچ کر آنحضرت ﷺ نے ۶۳ اونٹ بقدر عمر شریف کے خود اپنے دستِ مبارک سے نحر فرمائے اور ۳۷اونٹ حضرت علی ؓ نے آپ کی طرف سے قربان کئے۔

آنحضرت ﷺ نے منیٰ میں تقریباً اسی مضمون کا خطبہ دیا جو عرفات میں دیا تھا،اخیر میں طواف الوداع کر کے اخیر ذی الحجہ میں عازم ِ مدینہ ہوئے اور منیٰ میں سر مبارک منڈانے کے بعد موئے مبارک کو صحابہ میں تقسیم فرمایا کہ حضرات صحابہ کرامؓ بطور تبرک ان کو اپنے پاس رکھیں ،چونکہ آپ کو اس حج کے بعد حج کی نوبت نہیں آئی اور منیٰ اور عرفات کے خطبوں میں اس طرف اشارہ فرمادیا کہ غالباً سال آئندہ تم سے ملنا نہ ہوگا اس وجہ سے اس حج کو حجۃ الوداع کہتے ہیں کہ آپ اپنی امت سے رخصت ہوئے اور اس حج کو حجۃ الاسلام بھی کہتے ہیں اس لئے کہ حج فرض ہونے کے بعد اسلام میں یہ پہلا حج تھا۔

ذیل میں اسی خطبہ کے کچھ اہم نکات پیش کیے جارہے ہیں :

دورِ جاہلیت کا خاتمہ:

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر بہت اہم اعلانات فرمائے۔ مثلاً آپؐ نے ایک بڑی اہم اور تاریخی بات یہ فرمائی کہ یاد رکھو! جاہلیت کا دور ختم ہوگیا ہے اور اسلام کا دور شروع ہو گیا ہے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ

’’آگاہ رہو! جاہلیت کا ہر کام میں اپنے ان دونوں قدموں کے نیچے دفن کر رہا ہوں ۔‘‘۔(مسلم، ۲۱۳۷)

نسلی اور لسانی تفاخر کا خاتمہ:

جاہلیت کے دور میں عرب معاشرہ نسل، زبان اور رنگ کی بنیاد پرفخر کرتاتھا۔ قریشی غیر قریشیوں کو برابر نہیں سمجھتے تھے، عرب غیر عربوں کو برابر نہیں سمجھتے تھے۔ یہ سلسلہ آج بھی ہے، بے شک اس پر جتنی چاہے لیپا پوتی کی جائے لیکن رنگ اور نسل کی بنیاد پر تفاخر اور برتری کا یہ جذبہ آج بھی دنیا میں صاف نظر آتا ہے۔ علاقائی سطح پر بھی اور عالمی سطح پر بھی۔ یہ بات اس زمانے میں عروج پر تھی۔

 نبی کریمؐ نے فتح مکہ پر اس رسم کو توڑ کر سب کو برابر کھڑا کر دیا اور پھر حجۃ الوداع کے موقع پر اس کی تاکید فرمائی کہ

’’اے لوگو! بے شک تمھارا رب بھی ایک ہے اور تمھارا باپ بھی ایک۔ آگاہ رہو! کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سفید فام کو کسی سیاہ فام پر اور کسی سیاہ فام کو کسی سفید فام پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ۔ فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ تم میں سے اللہ کے نزدیک زیادہ عزت کا مستحق وہ ہے جو زیادہ حدود کا پابند ہے۔ ‘‘(مسند احمد، ۲۲۳۹۱)

یعنی حضورؐ نے فرمایا کہ میں آج تمام قسم کے نسلی و لسانی تفاخرات کا خاتمہ کرنے کا اعلان کر رہا ہوں ، تم میں سے کسی عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں ہے، اور کسی سرخ کو کالے پر فضیلت نہیں ہے۔ آپؐ نے صرف یہ اعلان نہیں فرمایا بلکہ ایک ایسی سوسائٹی قائم کی کہ واقعتا لوگوں نے دیکھا کہ یہ سارے امتیازات ختم ہوگئے تھے۔

انتقام در انتقام کی رسم کا خاتمہ:

پھر جناب نبی کریمؐ نے جہاں جاہلیت کے دور کے خاتمے کا اعلان فرمایا کہ جاہلیت کی رسمیں میں نے ختم کر دی ہیں ۔ ایک عمومی اعلان تھا کہ جاہلیت کی ساری قدریں آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں ۔ لیکن دو کا آپؐ نے بطور خاص ذکر فرمایا:

’’آگاہ رہو! جاہلیت کے زمانے کا ہر خون معاف کیا جاتا ہے، اور زمانہ جاہلیت کے خونوں میں سے پہلا خون جس کو معاف کیا جاتا ہے، وہ حارث بن عبد المطلب کا خون ہے۔ (راوی بتاتے ہیں کہ) حارث کو دودھ پلانے کے لیے بنو لیث کے ہاں بھیجا گیا تھا جہاں اسے بنو ہذیل نے قتل کر دیا۔‘‘(ترمذی، ۳۰۱۲)

آپؐ نے اعلان فرمایا کہ جاہلیت کے دور میں جو بدلے اور خون کا رواج تھا، وہ میں نے ختم کر دیا ہے۔ قبائل میں بدلہ در بدلہ کا رواج تھا۔ قبائل میں یوں ہوتا ہے کہ ایک قبیلہ کا آدمی قتل ہوا تو بدلے میں قاتل قبیلہ کا آدمی قتل ہوگا۔ اور ضروری نہیں کہ قاتل ہی قتل ہو، بس اس قبیلہ کا کوئی آدمی مارا جائے گا۔ جب وہ مرا ہے تو اب پھر اس پہلے قبیلہ کا آدمی مرے گا اور پھر یہ سلسلہ چلتا رہتا تھا۔ ’’حرب بعاث‘‘ دو قبیلوں کی ایک مشہور جنگ تھی جو ایک سو بیس سال چلتی رہی۔ بات شروع کہاں سے ہوئی تھی؟ کہتے ہیں کہ بات یہاں سے شروع ہوئی کہ ایک آدمی کا درخت تھا جس پر کبوتری نے گھونسلا بنا رکھا تھا اور انڈے دے رکھے تھے۔ کسی نے اسے پتھر مار کر گھونسلہ اور انڈے توڑ دیے۔ پہلے آدمی نے کہا کہ اچھا! میری زمین پر اور میرے درخت پر اس نے یہ کر دیا، یہ تو میری توہین ہوئی ہے۔ کبوتری کا انڈا نہیں ٹوٹا یہ تو میری تو ناک کٹ گئی ہے۔ اس نے پتھر مارنے والے کو قتل کر دیا۔ بس پھر دونوں کے قبائل کے درمیان ایک سو بیس سال تک جنگ رہی۔

سود کا خاتمہ:

ایک جاہلی قدر جس کا حضورؐ نے بطور خاص ذکر کیا وہ سود ہے۔ فرمایا کہ

’’آگاہ رہو! زمانہ جاہلیت کا ہر سود کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ تم صرف اپنے اصل مال کے حق دار ہو۔ نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ ہاں عباس بن عبد المطلب کا لوگوں کے ذمے جو سودی قرض ہے، وہ سارے کا سارا معاف کیا جاتا ہے۔‘‘(ترمذی، ۳۰۱۲)

آپؐ نے فرمایا کہ جاہلیت میں تم سود کا لین دین کرتے تھے، میں اس کے خاتمے کا اعلان کر رہا ہوں ۔ جس کے ذمے کسی کی کوئی رقم ہے، اس کو اصل رقم ملے گی، سود نہیں ملے گا۔ قرآن نے بھی اس کی حرمت کا اعلان فرما دیا کہ

’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ باقی سود رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو‘‘۔ (بقرہ ۲ ۔ آیت ۲۷۸)

آج بھی دنیا میں یہ ایک بڑی بحث ہے کہ سود تو کاروبار ہے۔ قرآن کریم نے جب اس کی حرمت کا اعلان کیا تو اس وقت بھی اس پر بڑا مباحثہ ہوا۔ کہا گیا کہ سود میں اور تجارت میں کیا فرق ہے؟ یہ بھی کاروبار کی ایک شکل ہے کہ چیزیں نہ بیچیں ، پیسہ بیچا۔

’’انہوں نے کہا کہ تجارت بھی تو ایسی ہی ہے جیسے سود لینا۔ حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے‘‘۔(بقرہ ۲ ۔ آیت ۲۷۵)

اس وقت بھی یہی دلیل پیش ہوئی تھی لیکن یہ دلیل ذکر کر کے قرآن کریم نے پھر دو ٹوک کہا کہ نہیں بھئی یہ بزنس نہیں ہے ، یہ بزنس سے الگ چیز ہے۔

عورت ویتیم کا حق :

جناب نبی کریمؐ نےاس خطبہ میں یہ بھی فرمایا کہ میں تمہیں دو کمزوروں کے بارے میں خاص وصیت کرتا ہوں کہ وہ خود تو اپنا حق وصول کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے، اس لیے تم ان کا ضرور خیال رکھنا۔ ایک یتیم اور دوسرا عورت۔

 حضورؐ کا یہ ارشاد جیسے اس سوسائٹی کے لیے بہت اہمیت رکھتا تھا ، ہماری آج کی سوسائٹی کے لیے بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یتیم اور عورت آج بھی مظلوم اور بے بس ہیں ۔

ماتحتوں اور غلاموں کا حق:

حضورؐ نے غلاموں کے بارے میں بطور خاص یہ وصیت کی کہ تمہارے اور ان کے معیار زندگی میں فرق نہیں ہونا چاہیے۔حجۃ الوداع کے خطبے میں آپ نے فرمایا کہ

’’اپنے غلام لونڈیوں کا خیال رکھو۔ اپنے غلام لونڈیوں کا خیال رکھو۔ اپنے غلام لونڈیوں کا خیال رکھو۔ جو تم خود کھاتے ہو، انھیں بھی کھلاؤ۔ جو تم خود پہنتے ہو، انھیں بھی پہناؤ۔ اگر ان سے کوئی ایسی غلطی سرزد ہو جائے جسے تم معاف نہیں کرنا چاہتے تو اللہ کے ان بندوں کو بیچ دو لیکن انھیں عذاب نہ دو۔‘‘(مسند احمد، ۱۵۸۱۳۔ مصنف عبد الرزاق، ۱۷۹۳۵)

ایک صحابی حضرت ابو مسعود انصاریؓ کہتے ہیں کہ میں اپنے ایک غلام کی پٹائی کر رہا تھا کہ مجھے پیچھے سے آواز آئی، ابو مسعود ! جتنی قدرت تم اس پر رکھتے ہو، اس سے کہیں زیادہ قدرت والا تمہارے اوپر بھی موجود ہے۔ تم نے اپنے آپ کو مالک سمجھ کے مارا ہے، تو تمہارا بھی کوئی مالک ہے۔ کہتے ہیں کہ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو جناب نبی کریمؐ تھے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ ! میں نے اللہ کی خاطر اسے کو آزاد کر دیا۔ فرمایا اگر تم اسے آزاد نہ کرتے تو جہنم کی آگ تمہیں لپیٹ میں لے لیتی۔ (مسلم، رقم ۳۱۳۵، ۳۱۳۶)

جان و مال کی حرمت:

بخاری کی روایت ہے کہ رسول اللہؐ منٰی میں کھڑے تھے، قربانی کا دن تھا، یوم النحر تھا۔ آپؐ نے پوچھا ایّ شھر ھذا کہ یہ کون سا مہینہ ہے؟ جریر ابن عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ ہم نے کہا اللّٰہ ورسولہ اعلم۔ معلوم تو ان کو تھا کہ مہینہ کون سا ہے۔ صحابہؓ کا معمول تھا کہ حضورؐ کوئی سوال کرتے تو پہلے مرحلے پر جواب یہی ہوتا تھا کہ اللہ بہتر جانتا ہے اور اللہ کے رسول بہتر جانتے ہیں ۔ آپؐ نے پوچھا کیا یہ حج کا مہینہ نہیں ہے؟ کہا یا رسول اللہ ! ہاں حج کا مہینہ ہے۔ آپؐ نے پوچھا ای یوم ھٰذا آج کا دن کون سا ہے؟ کہا اللّٰہ ورسولہ اعلم۔ پوچھا کیا یہ قربانی کا دن نہیں ہے؟ کہا، یا رسول اللہ ! ہاں قربانی کا دن ہے۔ آپؐ نے پوچھا ای بلد ھذا یہ شہر کون سا ہے؟ کہا اللّٰہ ورسولہ اعلم۔ فرمایا کیا یہ بلدۃ الحرام نہیں ہے؟ کہا، یا رسول اللہ ! بلدۃ الحرام ہی ہے۔ تو آپؐ نے تین حرمتوں کا حوالہ دیا۔ بسا اوقات بات کی اہمیت بیان کرنے کے لیے آدمی پہلے ذہنی طور پر تیار کرتا ہے۔ آپؐ نے بات کی اہمیت بتانے کے لیے ذکر کیا کہ یہ شہر محترم ہے، مہینہ حرمت والا ہے اور دن حرمت والا ہے۔ پھر فرمایا کہ

’’بے شک تمہاری جانیں ، تمہارے مال، تمہاری آبروئیں (اور تمہارے چمڑے) تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے اس شہر اور اس مہینے میں تمہارے اس دن کی حرمت ہے۔‘‘(بخاری، ۴۰۵۴، ۶۵۵۱)

یہ بخاری کی روایت میں ہے کہ جس طرح تم اس دن کی، اس شہر کی اور اس مہینہ کی حرمت کا لحاظ کرتے ہو اسی طرح ایک دوسرے کی جان کی حفاظت کرو۔ تمہارے اموال بھی ایک دوسرے پر محترم ہیں کہ تم کسی کے مال پر ہاتھ نہیں ڈالو گے۔ کسی کی عزت پر حملہ نہیں کرو گے، کسی کو بے عزت نہیں کرو گے، کسی کا مذاق نہیں اڑاؤ گے، کسی کو گالی نہیں دو گے، کسی کی توہین نہیں کرو گے، یہ ساری باتیں اس میں شامل ہیں ۔ تو فرمایا جس طرح مکہ ، حج کے دن اور حج کے مہینہ کا احترام کرتے ہو، اسی طرح ایک دوسرے کی عزت کا احترام کرو۔ اور ایک دوسری روایت میں وابشارکم بھی ہے کہ تمہارے چمڑے بھی ایک دوسرے پر حرام ہیں ۔ جس طرح کسی کی جان لینا جائز نہیں ، اس طرح کسی کو تھپڑ مارنا بھی جائز نہیں ، بلا جواز کسی کو چھڑی مارنا بھی جائز نہیں ، بلا جواز کسی پر ہاتھ اٹھانا بھی جائز نہیں ۔ فرمایا یہ چاروں چیزیں تم پر حرام ہیں ۔

ایک حدیث میں ذکر ہے کہ جناب نبی کریمؐ نے بیت اللہ سے خطاب کیا۔ فرمایا، اے اللہ کے گھر! تو اللہ کے ہاں بہت محترم ہے لیکن ایک مسلمان کے خون کی حرمت تجھ سے بھی زیادہ ہے (طبرانی، المعجم الکبیر، ۱۰۹۶۶۔ المعجم الاوسط، ۵۷۱۹)

اسلام کا رشتہ:

پھر نبی کریمؐ نے ایک اور بات کا اعلان فرمایا۔ اخوت کے جاہلی رشتوں کی نفی کی اور فرمایا کہ اخوت کا رشتہ تمہارے درمیان اسلام کا رشتہ ہے۔ اس پر آپؐ نے کچھ ہدایات دیں ۔ قرآن کریم نے ذکر کیا کہ

’بے شک مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔‘‘ (الحجرات ۴۹ ۔ آیت ۱۰)

آپؐ نے ایک حدیث میں فرمایا کہ

’’ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس کے ساتھ دھوکا نہیں کرتا اور اس کے ساتھ خیانت نہیں کرتا اور اس کی غیبت نہیں کرتا‘‘۔

’غش‘ کہتے ہیں ملاوٹ کرنے کو۔ اس کا مطلب چیزوں میں ملاوٹ بھی ہے اور معاملات و تعلقات میں ملاوٹ بھی ہے۔ یعنی ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کو کسی معاملے میں دھوکہ نہیں دیتا۔ اور ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے مال میں خیانت نہیں کرتا۔ یہ خیانت کا دائرہ بھی بڑا وسیع ہے کہ خیانت صرف مال کی نہیں ہوتی۔ خیانت کا بڑا پہلو یہی ہے کہ مال میں ، لین دین میں ، یا امانت میں خیانت کی جائے۔

جناب نبی کریمؐ نے جب فرمایا کہ غیبت کبیرہ گناہ ہے تو ایک صحابیؓ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! کسی میں اگر وہ عیب ہو تب بھی غیبت ہے؟ ان کے ذہن میں یہ تھا کہ اس شخص میں یہ عیب نہیں ہے اور ہم ذکر کر رہے ہیں ۔ فرمایا کہ اسی کا نام تو غیبت ہے۔ اگر اس میں وہ خرابی نہیں ہے اور آپ کسی جگہ اس کا تذکرہ کر رہے ہیں تو وہ بہتان ہے فقد بہتہ پھر تو تم نے بہتان باندھا ہے (مسلم، رقم ۴۶۹۰)۔

شیطانی مکر و فریب سے بچاؤ:

نبی کریمؐ نے اس موقع پر ایک اعلان یہ بھی فرمایا کہ

’’آگاہ رہو! شیطان اس سے تو مایوس ہو چکا ہے کہ تمھارے اس علاقے میں اس کی دوبارہ کبھی عبادت کی جائے۔ ہاں ان اعمال میں ضرور اس کی اطاعت کی جائے گی جنھیں تم حقیر خیال کرتے ہو، اور وہ اسی پر خوش رہے گا۔‘‘(ترمذی، ۲۰۸۵)

جزیرۃ العرب ہمیشہ توحید کے دائرہ میں رہے گا۔ مکہ کے گرد اور بیت اللہ میں یہ بتوں کی موجودگی اور یہ ساری جاہلی قدریں شیطان ہی کا کاروبار تھا اور اس نے ہی یہ سارا کھیل رچا رکھا تھا۔ لیکن فرمایا کہ یہ جزیرۃ العرب توحید پر قائم رہے گا لیکن شیطان بالکل بے دخل نہیں ہوگا۔ یعنی شیطان اپنی باتیں منوائے گا بظاہر چھوٹے چھوٹے کاموں میں جن کو تم بہت حقیر سمجھو گے، اور شیطان تم سے وہ کام کروا کر خوش ہوگا۔ توحید اور عقیدے کی بات میں تم اس کے پیچھے نہیں چلو گے لیکن چھوٹے چھوٹے کاموں میں شیطان تم سے اپنی بات منوائے گا۔ یہ تو ترمذی کی روایت میں ہے، جبکہ مسند احمد کی روایت میں ہے کہ شیطان ایک بات میں ضرور کامیاب ہوگا کہ

’’سنو! شیطان اس سے تو مایوس ہو چکا ہے کہ عبادت گزار اس کی عبادت کریں ، لیکن وہ اہل ایمان کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانے کی پوری کوشش کرے گا۔‘‘(مسند احمد، ۱۹۷۷۴)

شیطان تمہارا عقیدہ نہیں بگاڑ سکے گا لیکن ایک کو دوسرے پر ابھارے گا، بر انگیختہ کرے گا، ایک دوسرے کے ساتھ لڑائے گا، خانہ جنگی ہوگی اور خون بہایا جائے گا۔ یہ شیطان کے میدان ہوں گے۔ گویا آپؐ نے خبردار کیا کہ شیطان شکست کھا چکا ہے لیکن آرام سے نہیں بیٹھے گا اس لیے اس سے بچ کر رہنا۔

مستقبل کے فتنوں سے آگاہی:

رسول اللہؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر جہاں ہدایات دیں ، نصائح فرمائے، تلقین فرمائی، قواعد و ضوابط بیان فرمائے، وہاں امت کو آنے والے فتنوں سے بھی آگاہ کیا۔ یہ بھی دین کا ایک مستقل شعبہ ہے۔ سینکڑوں روایات میں جناب نبی کریمؐ نے امت کو آنے والے دور کے فتنوں سے آگاہ کیا۔ بخاری کی ایک روایت میں حضرت اسامہ ابن زیدؓ کہتے ہیں کہ ایک دن حضورؐ مدینہ میں ایک بڑی حویلی کی دیوار پر کھڑے تھے۔ مدینہ میں بڑی حویلیاں یا چھوٹے قلعے ہوتے تھے۔ ہم دیوار کے اس طرف کھڑے تھے۔ فرمایا، کیا میں تمہیں بتاؤں مجھے دیوار کے اس طرف کیا نظر آرہا ہے؟ عرض کیا، یا رسول اللہ ! فرمائیں ۔ آپ نے فرمایا

 ’’میں فتنوں کو تمہارے درمیان برستا ہوا دیکھ رہا ہوں ، ایسے جیسے بارش برستی ہے‘‘۔ (بخاری، رقم ۱۷۴۵)

یعنی فتنے تمہارے درمیان اتنی کثرت سے آئیں گے جیسے بارش کے قطرے آتے ہیں ۔ ایک روایت میں یوں فرمایا کہ جب فتنوں کا زمانہ آئے گا تو فتنے یوں گریں گے جیسے تسبیح کا دھاگا ٹوٹ جائے اور اس میں سے دانے گرنے لگیں ۔ یعنی ایک فتنہ کھڑا ہوا، اسے ابھی سمجھنے کی کوشش کر رہے ہو گے کہ دوسرا فتنہ سامنے آجائے گا۔ اس سے ابھی نمٹنے کی بات ہو رہی ہوگی کہ تیسرا آجائے گا۔ تو فرمایا کہ بارش کے قطروں اور تسبیح کے دانوں کی طرح فتنے تم پر برسیں گے۔ ایک حدیث میں یہ بھی فرمایا کہ فتنوں میں یہ کیفیت بھی آئے گی کہ وہاں دین اور حق کی بات کرنا، اپنے آپ کو مسلمان کہنا اتنا مشکل ہو جائے گا کہ جیسے انگارے ہاتھ میں لینا ہو۔ (ترمذی، رقم ۲۱۸۶) حضورؐ نے فتنوں کی سینکڑوں نوعیتیں بیان فرمائیں ۔

دین کی بات دوسروں تک پہنچانا:

جناب نبی کریمؐ نے ہمیں ہدایات دی ہیں ، ہمیں اپنی معاشرتی، انفرادی، اجتماعی زندگیاں گزارنے کے اصول بتائے ہیں ، طریقے سمجھائے ہیں ، سلیقے سکھائے ہیں ۔ چنانچہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپؐ نے ایک بات یہ بتائی کہ میں جو کچھ تم سے کہہ رہا ہوں ، یہ تم تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ انہیں ان لوگوں تک پہنچاؤ جو یہاں نہیں ہیں ۔

’’سنو، جو موجود ہیں ، وہ یہ باتیں ان تک پہنچا دیں جو موجود نہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ جن کو یہ باتیں پہنچیں ، ان میں سے کچھ ان کی بہ نسبت ان کو زیادہ سمجھنے اور محفوظ رکھنے والوں ہوں جنہوں نے براہ راست مجھ سے سنی ہیں ۔‘‘(بخاری، ۴۰۵۴)

اور حجۃ الوداع ہی کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

’’اے لوگو! بخدا مجھے معلوم نہیں کہ آج کے بعد میں ا س جگہ تم سے مل سکوں گا یا نہیں ۔ پس اللہ اس شخص پر رحمت کرے جس نے آج کے دن میری باتیں سنیں اور انہیں یاد کیا، کیونکہ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں سمجھ داری کی باتیں یاد ہوتی ہیں لیکن انہیں ان کی سمجھ حاصل نہیں ہوتی۔ اور بہت سے لوگ سمجھ داری کی باتوں کو یاد کر کے ایسے لوگوں تک پہنچا دیتے ہیں جو ان سے زیادہ سمجھ دار ہوتے ہیں ۔‘‘(دارمی، ۲۲۹۔ مسند ابی یعلیٰ، ۷۴۱۳۔ مستدرک حاکم، ۲۹۴)

چنانچہ اسلام دعوت اور اجتماعیت کا دین ہے، اسے دوسروں تک پہنچانا ہر مسلمان کے ذمے ہے۔ دین کی کوئی بات علم اور سمجھ میں آئے اسے آگے پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔

تبصرے بند ہیں۔