آخر باران رحمت کا نزول کیوں نہیں ہوتا ؟ 

عبدالباری شفیق السلفی

الحمد للہ رمضان المبارک کا یہ بابرکت مہینہ ہمارے سروں پرسایہ فگن ہے جسکی ایک ایک گھڑی  ہمارے لئے باعث خیر اور کامیابی وکامرانی کا ضامن ہیں یقینا خوش نصیب ہیں وہ افراد جو ان بابرکت ایام کی عظمت کو سمجھتے ہوئے کثرت سے اعمال صالحہ کرلیں اور نامراد ہیں ایسے اشخاص جو اس نیکیوں کے موسم بہار کو یوں ہی لہو لعب اور کھیل تماشے میں ضائع وبرباد کردیں ۔

 حضرات ! جہاں ایک طرف اس ماہ مبارک کے اندر خصوصی طور پر اللہ کی طرف سے رحمتوں اور نیکیوں کی بارش ہورہی ہے وہیں دوسری طرف بارش اور پانی جیسی عظیم نعمت سے ہم محروم کیوں ہیں ؟ کیا ہم نےکبھی اس سنگین مسئلے اور رب العالمین کے اس عظیم نعمت کی کمی کے بارے میں سوچااور غور کیا ؟ نہیں بالکل نہیں ؟ اس لئے کہ آج ہم مادہ پرستی اور دنیا دار ی کے چکر میں اتنا محو ہو چکے ہیں کہ ہمیں اپنے پاس پڑوس کی خیریت معلوم کرنے اور ان کے احوال جاننے کی فکر ہی نہیں ہوتی اور نہ ہی اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے کی فرصت ملتی ہے۔اورنہ ہی اللہ سے توبہ واستغفار کرنے کا موقع ملتا ہے۔جب کہ آج پانی جیسی عظیم نعمت کی قلت سے ہرکس وناکس بخوبی واقف ہے ۔اشرف المخلوقات تو کجا چرند پرند اور بے زبان وبے عقل جانور بھی پانی کے ایک ایک بوند کے لئے ترس رہے ہیں ،تالاب ،کنوئیں اورندی ونالے سب خشک ہوچکے ہیں ۔کھیت کھلیان اور باغات پانی کی کمی کی وجہ سے سوکھ رہے ہیں جوہمیں قحط سالی وبھوک مری کا پیغام دے رہے ہیں ۔

میرے بھائیو!یقینا قحط سالی لوگوں کی اطاعتِ الہٰی سے دوری کی علامت اور اس کے حرمات کی پامالی کا واضح اشارہ ہے۔ اس لئےکہ اللہ کی معصیت ونافرمانی شر لاتی ہےاور خیر وبرکت کو مٹانے کا ایک اہم سبب اورذریعہ ہوتی ہے۔ اسی وجہ سےحضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئےاللہ کے اس پیغام کو ان تک پہنچایا تھا کہ :﴿ فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا ، يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا ،وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا ﴾(نوح: 10،12)’’اپنے رب سے اپنے گناہ بخشواؤ (اور معافی مانگو) وہ یقیناً بڑا بخشنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان کو خوب برستا ہوا چھوڑ دےگا۔ اور تمہیں خوب پےدرپے مال اور اولاد میں ترقی دےگا اور تمہیں باغات دےگا، اور تمہارے لیے نہریں نکال دےگا‘‘۔اسی طرح امام حسن بصری رحمہ اللہ کے متعلق مروی ہے کہ ان کے مجلس درس میں کسی نے آکر قحط سالی کی شکایت کی تو انہوں نے اسے استغفار کی تلقین کی، کسی دوسرے نے فقروفاقہ کی شکایت کی ،اسے بھی آپ نے یہی نسخہ بتلایا،ایک اور شخص نے اپنے باغ کے خشک ہونے کا شکوہ کیا ،اسے بھی فرمایا کہ استغفار کرو۔ ایک شخص نے کہا کہ میرے گھر اولاد نہیں ہوتی،اسے بھی امام بصری ؒ نے استغفار کرنے کی تلقین کی،مجلس میں سے ایک شخص نے کہا کہ آپ نے سب کو استغفارہی کی تلقین کیوں کی ؟ تو آپ نے یہی(سورہ نوح کی) آیا ت مبارکہ تلاوت کرکے فرمایا:کہ میں نے اپنے پاس سے یہ بات نہیں کہی بلکہ یہ وہ نسخہ ہے جو ان سب باتوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے بتلایاہے‘‘(ایسرالتفاسیر)۔

لیکن افسوس کہ ان واضح دلائل وبراہین کے باوجودبھی ان کی قوم رب کے اس پیغام کو بالائے طاق رکھ کر اپنی معصیت اور دنیا وی خرافات و لہو لعب میں ملوث رہی جس کی وجہ سے رب کا عذاب ان پر مسلط ہو ااو راہل ایمان کے علاوہ پوری قوم تباہ وبرباد کردی گئی ۔اسی طرح اگر آج ہم بھی انہیں معصیات ومنکرات اور بداعمالیوں کے دلدل میں پھنسے رہے تو یقینا رب کا عذاب چاہےپانی کی قلت کی شکل میں یا قحط سالی وبھوک مری یا دشمن کے رعب ودبدبہ کی شکل میں آکر کے رہے گا۔اس لئے کہ ہم پر جو آفتیں اورمصیبتیں آتی ہیں ، وہ ہماری ہی کرتوتوں اور بداعمالیوں کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔جیسا کہ ارشادربانی ہے:﴿ وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ﴾’’کہ تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہیں اور وہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے ‘‘اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا کہ :’’ اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا۔‘‘(الاعراف :96)

 آسمان سےبارش کارک جانا،کنویں ،تالاب اوردریاکاخشک ہوجانا،جانورچوپائوں کا بھوک اور پیاس سے مرنے لگنا، یہ اس وجہ سے نہیں کہ اللہ کے خزانے میں کمی واقع ہو گئی ہے۔ اس کے خزانے میں کبھی کوئی کمی نہیں ہوتی۔کیونکہ اس کا ہاتھ ہمیشہ بھرا ہوتا ہے۔ وہ دن ورات خرچ کرتا ہے۔ قسم ہے اللہ کی! اس کی وجہ اور اس کاسبب صرف ہماری بدعملی، کوتاہی اور اللہ کے احکام کی نافرمانی ہے۔اس لیےآج ہمیں خلوص وللہیت کے ساتھ اپنےاعمال کا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارےاعمال کتنے خراب ہوچکے ہیں ۔آج ہم میں بہت سے لوگ شرک وبدعات کے دلدل میں گرفتار ہیں ،پنچوقتہ نمازوں سے دور ہیں صدقات وخیرات اور زکوٰۃ کی ادائیگی سے پہلو تہی برتے ہوئےہیں ،روزہ اور حج جیسی اہم عبادت سے کنارہ کشی اختیا رکئےہوئے ہیں ، ہمارےاپنے معاملات اپنے بھائیوں اور اہل وعیال کے تئیں درست نہیں ،ہم سود خوری اور سودی کاروبار میں لت پت ہیں بے حیائی وفحاشی، ریڈیو و ٹیلی ویژن اور فلم بینی کےدلدادہ ہیں ۔زناکاری وشراب خوری ہمارا وطیرہ بن چکاہے۔

لوگویاد رکھو!کتاب وسنت کےان پیغامات کو جب کسی قوم میں برائی عام ہو جاتی ہے، تو وہ قوم ہلاک وبربادکردی جاتی ہے۔برا ئیوں کی کثرت اور زیادتی رزق سے محرومی اور رحمتوں اور برکتوں کے چھن جانے کا سبب بنتی ہے۔ اس سے فساد عام ہوتا ہے۔ طرح طرح کی بیماریاں پھیلتی اور جنم لیتی ہیں ۔ دشمنوں کا خوف دلوں پر چھا جاتا ہے۔سماج ومعاشرہ اضطراب وبےچینی اور انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔ سنن ابن ماجہ کی وہ حدیث جسکو شیخ البانی ؒنے حسن قرار دیاہےکہ :’’ایک دن اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے فرمایاکہ: اے مہا جرین کی جماعت! پانچ باتیں ایسی ہیں کہ جب تم ان میں مبتلا ہوجاؤ گے،اور میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کہ تم ان میں مبتلا ہو: پہلی یہ کہ جب کسی قوم میں اعلانیہ فسق وفجور اور زناکاری عام ہوجائے، تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں ، جو ان سے پہلے کے لوگوں میں نہ تھیں ۔ دوسری یہ کہ جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جاتے ہیں تو وہ قوم قحط سالی ، معاشی تنگی اور ظلم وجور کے شکار ہو جاتی ہے، تیسری یہ کہ جب لوگ اپنے مالوں کی زکاۃ نہیں دیتے تو اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش کو روک لیتا ہے اور اگر زمین پر چوپائے نہ ہوتے تو آسمان سے بارش کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا، چوتھی یہ کہ جب لوگ اللہ اور اس کے رسول کے عہد وپیمان کو توڑ دیتے ہیں ، تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے علاوہ لوگوں میں سے کسی دشمن کو مسلط کردیتا ہے، وہ جو کچھ ان کے پاس ہو تا ہے ان سے چھین لیتا ہے، پانچویں یہ کہ جب ان کے حکمراں اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلے نہیں کرتے اور جواللہ نے نازل کیا ہے، اسے اختیار نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ ان میں پھوٹ اور اختلاف ڈال دیتاہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ:4019)

 یہ واضح دلائل اس بات پر غماز ہیں کہ یقیناگناہوں اور معصیات ومنکرات سے نعمتیں چھن جاتی ہیں ، اور آفات ومصائب، اور بلیات نازل ہوتی ہیں ،  لوگ فتنوں اور آزمائشوں میں مبتلا کردئیے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿ إِنَّ اللہَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ ﴾(الرعد: 11)’’اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدل لیں ‘‘۔

میرے بھائیو! اللہ کی حکمت اور اس کی مشیت اس بات کی متقاضی ہوتی ہے کہ نعمتوں کی کثرت سے بھی اور مال واولاد میں قلت سے بھی بندوں کو آزمائے۔اوریہ آزمائش فطرت کے عین مطابق ہے کیونکہ رب کا فرمان ہے :﴿وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً ﴾( الأنبیاء:۳۵)۔اور یہ آزمائش بھی درحقیقت اس کی مہربانیاں اور اس کے الطاف ہیں ۔ اس کا شعور اور ادراک وہی لوگ کر پاتے ہیں جو سچے اور مخلص مومن ہوتے ہیں ۔ ان آزمائشوں سے ان کے ایمان ویقین میں اضافہ ہوتا ہے، جب آزمائشیں انتہا کو پہنچ جاتی ہیں اور پریشانیاں اور مصائب وآرام سخت ہوجاتے ہیں ، تو اللہ کی نصرت ومدد کا وقت بھی آ جاتا ہے۔ارشاد باری ہے :﴿ حَتَّى إِذَا اسْتَيْئَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا جَاءَهُمْ نَصْرُنَا ﴾ (يوسف:110)۔

ہلاکتیں اور مصیبتیں مومن کی توجہ مخلوقات سے ہٹا کر اس کے خالق کی طرف پھیر دیتی ہیں ، اور وہ صدق دل سے اللہ کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے، اور اللہ سے عاجزی وگریہ وزاری میں لگ جاتا ہے۔ اللہ نے اپنی کتاب میں ان لوگوں کی مذمت فرمائی ہے، جو بلاؤں ، آفتوں اور آزمائشوں میں اپنی عجز وبےبسی اور بےچارگی کا اظہار نہیں کرتے، اور اپنے رب کی طرف رجوع نہیں ہوتے۔ارشاد باری ہے:﴿ وَلَقَدْ أَخَذْنَاهُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُونَ﴾(المؤمنون:76)’’اور ہم نے انہیں عذاب میں بھی پکڑا تاہم یہ لوگ نہ تو اپنے پروردگار کے سامنے جھکے اور نہ ہی عاجزی اختیار کی۔

 اللہ تعالیٰ کے سامنے سربسجود اور دامن کو پھیلاکر دعاکرتے ہیں کہ ہمیں ایسے بد بخت لوگوں میں سے نہ بنائے۔نیزرمضان المبارک بابرکت وعظمت والے مہینہ میں ہمارے لئے لازم وضروری ہے کہ ہم خصوصی طورپر اورصدق دل سے اللہ کی طرف رجوع ہوں اور اس سے توبہ واستغفار کریں ۔نیز اپنی بشری لغزشوں و خطاؤں اور کوتاہیوں کو یاد کرکے معافی طلب کریں ، اس کے سامنے رو رو کر، گڑگڑا کراس بات کا عہد کریں کہ ہم سے پھر یہ گناہ سرزد نہ ہوں گے۔اس لئے کہ رب کی بارگاہ میں دل کی آہ وزاری اورآنکھوں کے آنسوؤں سے بڑھ کر کوئی شفیع نہیں ۔ ہم سے جس طرح بھی ہو سکے، ہم اپنے پیدا کرنے والے کو راضی کریں اور اسے منائیں ۔ رمضان کاآخری عشرہ  مزید خیر وبرکت اور اجروثواب والا ہے۔

اس میں ایک رات ایسی ہے جس کی عبادت ہزا ر مہینوں کی عبادتوں سے بہتر اور افضل ہے اس لئے ابھی بھی موقع ہے ان قیمتی اوقات کو یونہی لہو لعب اور کھیل تماشے میں ضائع وبرباد مت کردو،بلکہ اللہ کی طرف رجوع ہواوراس سے خالص توبہ کرو یقینا وہ گناہوں کو معاف کرنے والا،دعائوں کو سننےاور قبول کرنے والا ہے۔اےہمارے رب ہم تیرے گنہگار اورخطار کار بندے ہیں توہماری اصلاح فرما،ہمیں گناہوں سے پاک وصاف کردے ،ہماری ٹوٹی پھوٹی عبادتوں کو قبول فرما،اور باران رحمت جیسی عظیم نعمت سے مالامال فرما ۔آمین!

تبصرے بند ہیں۔