جھاڑ پھونک وغیرہ میں جنّوں کا سہارا لینا شرک ہے!

حاصل کلام یہ ہے کہ قرآن وسنت کے رو سے مصیبت کے وقت فریاد طلب کرنا عبادت ہے۔ اور جب استعاذہ عبادت ہے تو غیر اللہ سے طلب کرنا شرک اکبر قرار پائے گا جو ملت سے خارج کردینے والا عمل ہے۔ لہذا جو جن اور شیطانوں سے مدد طلب کرے وہ کفر اکبر کا مرتکب ہونے کی وجہ سے کافر ہے۔ اور وہ مشرک باللہ ہے جو تعویذ وگنڈے بناکر شیطانوں اور سرکش جِنّوں کی مدد حاصل کرتا ہے، اس کے لئے اپنے تعویذوں اور طلاسم میں شیطانی نام لکھتا ہے۔ اور ایسے ہی مصیبت اور خوف کے وقت جِنّوں کو مدد کے لئے پکارنا یہ سب شرک اکبر کی قسم سے ہے۔کیونکہ اس میں اللہ سبحانہ وتعالی کے علاوہ سے مدد طلب کرنے کا عمل ہے۔ شرک کے قبیل سے یہ بھی ہے کہ کوئی لڑائی جھڑے کے وقت جن کو مدد کے لئے پکارے اور کہے:

اے جِنّ! اسے پکڑ لے، اور اسے فلاں فلاں سزا دے۔ اگر ان سے فریاد طلب کی گئی ہو تو یہ شرک باللہ ہے۔ ایسے ہی جو جنوں کی مدد سے علاج کرتے ہیں ان سے مریض کے مرض کو پوچھتے ہیں، یا کس نے اس پر جادو کیا ہے؟ وغیرہ سب شرک اکبر ہے۔ اللہ کا فرمان ہے:[ARB](وَیَوْمَ یَحْشُرُھُمْ جَمِیْعاً یَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدْ أَکْثَرْتُمْ مِنَ اْلاِنْسِ وَقَالَ أَوْلِیَاءھُمْ مِنَ اْلاِنْسِ رَبَّنَا اِسْتَمْتِعْ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ) الأنعام: 921[[/ARB] اور جس روز اللہ تعالیٰ تمام خلائق کو جمع کرے گا، (اورکہے گا) اے جنات کی جماعت! تم نے انسانوں میں بہتوں کو (گمراہ کرکے)اپنا پیروکار بنا لیا، جو انسان ان کے ساتھ تعلق رکھنے والے تھے وہ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہم میں سے ہر ایک نے دوسرے سے فائدحاصل کیا تھا۔

علماء نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ یہ: ”اِسْتِمْتَاعُ الْانِْسِ بِالْجِنِّ“ہے۔ اس کی نوعیت یہ تھی کہ: انسان جِنّوں سے ناپسندیدہ چیزوں کی پناہ مانگتے تھے، اور ان سے جو چاہتے طلب فرماتے، اور جِنّ بھی ان کی خدمت کرتے، ان کے لئے دور اور غائب کی چیزیں پیش کردیتے، ان کے بعض حاجات پوری کردیتے، کیونکہ کچھ ایسی چیزیں ہیں جسے انسان پورا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا، سو وہ جِنّوں کی مدد حاصل کرتے، اور اُن سے فائدہ اٹھاتے۔یوں کہئے کہ: انسان اپنے بعض امور میں جِنّوں کی خدمت حاصل کرتے تھے، اسے ”اِسْتِمْتَاعُ الْانِْسِ بِالْجِنِّ“ کہتے ہیں (یعنی انسانوں کاجِنّوں سے خدمت لینا)۔ ایسے ہی ا نسان کا معاملہ تھا کہ وہ جِنّوں کی تعظیم کرتے اور ان کے لئے خشوع و خضوع اختیار کرتے، اس صورت میں جِنّ انسانوں سے فائدہ اٹھاتے، گویا دونوں فریق ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتا، انسان اپنی حاجتیں پوری کراتا تو جن اپنی تعظیم کراتے،اس طرح انسان کو ایمان کے بدلے کفر میں ملوث کر دیا جاتا۔
معلوم ہوا کہ جنوں سے فریاد طلب کرنا شرک اکبر ہے، اگر چہ شرک کے علاوہ کوئی اور نام دیا جارہا ہو، جیسے استخدام، زار یا اس کے مشابہ کوئی اور نام۔ (زار: رقص و سرور کی ایک عجیب قسم کو کہتے ہیں، یہ عمل انسان کے جسم سے جِن کو بھگانے کے لئے بطور علاج کرایا جاتا ہے، اس شرکیہ عمل سے جب شیطان خوش ہوجاتا ہے تو اسے چھوڑ دیتا ہے)

 انسانوں پر واجب ہے کہ اپنے اس غلیظ عمل سے توبہ کریں! اور جنوں پر بھی واجب ہے کہ انسانون کو گمراہ کرنے کے عمل سے تائب ہوں، کیونکہ سب کے سب اللہ کے بندے ہیں، ان پر واجب ہے کہ اللہ سے ڈریں نیز اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کی طرف راغب ہوں، حرام کردہ امور چھوڑ دیں، بعض شریر قسم کے انسان لوگوں کے عقائد سے کھلواڑ کرتے ہیں، ان کے مال کھا جاتے ہیں، ان کے ساتھ جعل سازی کرتے ہیں، دینی مجلسوں سے دور گاؤں اور دیہات میں رہنے والوں کے ساتھ خاص طور پر کھلواڑ کیا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ دینی ماحول سے محروم ہونے کی وجہ سے جہالت کی مصیبت سے دوچار ہوتے ہیں ، در حقیقت شعبدہ بازی کے ذریعہ بدوؤں کی زندگی سے کھلواڑ کرنے والے: جِنّوں کے چمچے ہیں، مشرک باللہ ہیں، ان کی یہ خباثت یہیں تک محدود نہیں رہتی بلکہ وہ لوگوں کو گمراہ بھی کرتے ہیں، ان کے عقیدے کو برباد کرتے ہیں، اور جب لوگ ان کے پاس آکر اپنے مسائل کا حل پوچھتے ہیں تو انہیں غیب کے نام پر جھوٹی خبریں سنا تے ہیں، انہیں غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنے کا حکم دیتے ہیں، یا اس کے علاوہ دوسرے شرکیہ امور کرنے کو کہتے ہیں۔

 ہر چند یہ بڑا خطیر مسئلہ ہے، اہل علم اور دعاۃ پر واجب ہے اس مسئلہ کو لوگوں میں پوری وضاحت کے ساتھ بیان کریں، گاؤں اور دیہاتوں میں گھوم پھر کر لوگوں تک اس کی حقیقت واضح کریں، اللہ کی قسم! طالب علم اور دعاۃ کی ذمہ داری ہے (امانت ہے)کہ ایسے لوگوں کی اصلاح کریں۔ یہی مطلوب ِ (زندگی) ہے۔

معاملہ یہ ہے کہ تم لوگوں کے سامنے سیاسی مسئلہ پر گفتگو کرنا باعث ِشرف سمجھتے ہو۔ ذرا بتاؤ! اس سے لوگوں کا کیا فائدہ ہونے والا؟ اس سے گاؤں اور دیہات کے لوگوں کا کیا فائدہ؟ جب کہ وہ شرک میں ملوث ہوں، یا سورہ فاتحہ سے نابلد ہوں جو نماز کے بنیادی ارکان میں سے ہے، ہم پر واجب ہے کہ اللہ سے ڈریں، اور رسول اکرم ﷺ کے دعوتی، تعلیمی، ارشادی اور توجیہی منہج سے واقف ہوں، لوگوں کے مسائل کا حل پیش کریں!، لیکن تم ہو کہ ان کے سامنے دور کی مشکلیں پیش کرتے ہو، ان سے امریکہ، جزائر اور سودان کے مسائل کا حل طلب کرتے ہو، جبکہ وہ بچارے مسکین ہیں، ان کے ہاتھوں میں کچھ نہیں،اس پر مستزاد یہ کہ وہ جہالت اور عقیدے کی بگاڑ کے شکار ہیں، اس معاملہ کو حل کیوں نہیں کرتے؟

واللہ!! میرے اس کلام کا مقصد کسی کی تنقیص کرنا نہیں ہے، میں سوچا دعوت کا صحیح طریقہ بیان کردوں، اور لوگوں کو نفع پہونچانے کا صحیح طریقہ واضح کردوں۔۔۔۔۔۔

[ARB]((اعانۃ المستفید بشرح کتاب التوحید: ج:1ص: 190 ـ 191))[/ARB]

تحریر: شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ
ترجمہ: الطاف الرحمن ابوالکلام سلفی

تبصرے بند ہیں۔