دینی مدارس:ملت ِ اسلامیہ کے لئے عظیم نعمت!

مفتی محمد صادق حسین قاسمی

 شوال کا مہینہ دینی مدارس کے آغازکا ہوتا ہے۔قریب دومہینوں کی سالانہ تعطیلات کے بعددوبارہ مدارس کھلتے ہیں ،اورقدیم داخلوں کی تجدیداور جدید داخلوں کی کاروائی کے بعد تعلیمی سلسلہ کی شروعات ہوتی ہے۔طلباء ملک میں پھیلے ہوئے چھوٹے بڑے مختلف اداروں کا رخ کرتے ہیں اور علمی پیاس بجھانے اور تعلیمی سفر کو جاری رکھنے کے لئے اپنے ذوق وشو ق کے ساتھ مدارس میں شریک ہوتے ہیں ،مادی منفعت اور دنیاوی لالچ،آسائش وسہولیات سے بے پروا ہوکر دل میں خدمت ِدین کے ارمانوں کو لئے اور آنکھوں میں حسین خوابوں کو سجائے مدارس میں داخل ہوتے ہیں ۔اور ان کے والدین وسرپرست بھی بڑی تمناؤں اور آرزوؤں کے ساتھ لاکر اپنے جگر کے ٹکڑوں اور مستقبل کے سہاروں کو مدرسہ کے حوالہ کرجاتے ہیں ۔

 اس موقع کی مناسبت سے کچھ باتیں ہم دینی مدارس کی اہمیت وعظمت پر بہت اختصار کے ساتھ پیش کریں گے کہ یہ ہمارے لئے کتنی عظیم نعمت ہے اور اللہ تعالی نے ان مدارس کے ذریعہ ہمارے ایمان ودین کی حفاظت کا کیسا عجیب انتظام کررکھا ہے۔آج دنیا میں اور بالخصوص ہمارے ملک میں ایسے ذہن ودماغ کے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جنہیں مدارس کا وجود ایک بوجھ اور بارِ گراں نظر آتا او ر جویہاں زیورِ علم سے آراستہ ہونے والے نونہالان ِ ملت کو قدر وعظمت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے ۔جب کہ حقیقت اور سچائی یہ ہے کہ یہ دینی مدارس ملت ِ اسلامیہ کے لئے ایک عظیم نعمت ِ پروردگار ہے۔دینی مدارس کی بر صغیر میں خاص کر اور عالم اسلام میں بالعموم بے مثال قربانیاں ہیں ،دینی مدارس کی کوششو ں ،اور خاموش خدمت گذاران ِ دین کی فکروں سے مسلمان الحاد و بے دینی کے فتنوں سے محفوظ رہے ،اور اپنے تشخصا ت کے ساتھ آج بھی موجود ہیں ،ورنہ ایمان سوز فتنے کبھی کی مسلمانوں کا عظیم سرمایہ ٔ دین چھین لئے ہوتے،اور دینی امتیازات اور شعائر کو مٹا دکر دم لیتے ،لیکن اسی دریا سے اٹھنے والی موجوں نے نہنگوں کے نشیمن کو تہ و بالا کیا،اور اسی خاک سے پروان چڑ ھنے والے ذروں نے ہر طوفان کا مقابلہ کیا اور ہر باد ِ مخالف کے آگے سینہ سپر رہے،اور حفاظت ِ دین اور تعلیمات ِاسلام کی بقا ء کے لئے اپنی زندگیوں کو نچھاور کردیا ۔دنیا کے ہنگاموں سے دور رہ کر خاموش لیکن ٹھوس انداز میں یہ مدارس خدمت ِ دین میں نہایت یکسوئی کے ساتھ مصروف رہتے ہیں ،معاشر ہ کی بنیادی دینی ضرورتوں کی تکمیل اور صالح معاشرہ کی تشکیل میں شب و روز لگے ہوتے ہیں ۔سرد وگرم حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے،شیریں وتلخ مرحلوں سے گزرتے ہوئے ،موج ِ بلاخیز کے تیز وتند تھپیڑوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے انسانیت کی تعمیر ،افراد کی تیاری اور تحفظ ِ دین کے لئے ہمہ وقت مشغول رہتے ہیں ۔

دینی مدارس کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے اور مختلف متنوع خدمات کو اپنے دامن میں لئے ہو ئے ہے، ان مدارس کا رشتہ صفہ ٔ نبویﷺ سے ملتا ہے ،جہاں پر معلم ِانسانیت ،محسن ِکائنات سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے تعلیم دے کر ہیروں کو تراشا تھا اور دنیا کے سامنے امن ومحبت کے خوگر اور الفت و وفا کے شیدائیوں کو پیش کیا تھا ،جن کی تمام تر تعلیمات انسانیت کی بھلائی اور خیرخواہی پر مشتمل ہیں اور جو ساری انسانیت کے ہمدرد و غم خوار بن کر تشریف لائے اور قدم قدم پر محبتوں کی تعلیمات عطافرمائی ،ایثار و ہمدردی کا سبق پڑھااور دلوں سے نفرتوں کو نکال کر محبتوں کو پیوست کیا۔دنیا میں آباد تمام مدارس کا رابطہ اسی صفہ ٔ نبوی ﷺ سے ہے ،لہذا اس کے اثرات اور برکات بھی مدارس میں برابر ظاہر ہیں ۔بوریا نشینوں کی خاموش لیکن انقلاب آفریں خدمات کے اثرات و ثمرات کا حقیقی ادارک کرنے والے باریک بیں ،دوراندیش ،عظیم مفکر وفلسفی علامہ اقبالؒ نے پوری دردمندی سے کہا تھاکہ:’’ان مکتبوں کو اسی حالت میں رہنے دو ،غریب مسلمانوں کے بچوں کوانہیں مدارس میں پڑھنے دو،اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟جوکچھ ہوگامیں انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں ،اگر ہندوستانی مسلمان ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح ہوگاجس طرح اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود ہوا آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمرا ء کے نشانات کے سوا اسلام کے پیروؤں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا ،ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج اور دلی کے لال قلعے کے سوا مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ حکومت اوران کی تہذیب کا کوئی نشا ن نہیں ملے گا‘‘۔( دینی مدارس ،ماضی، حال، مستقبل:۶۹)

بلا شبہ دینی مدارس کی خدمات اور مخلصانہ کاوشوں کا تذکرہ بجا طور پر علامہ اقبال ؒ نے فرمایا،اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کردیا کہ ان مدارس کا وجود ہمارے تشخص اور ہماری اسلامی روایات کا امین ہے ،اور ان مدارس کی چہار دیواری میں تربیت پانے والے معاشرہ کی تعمیر و تشکیل میں غیر معمولی کرداراداکرتے ہیں ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان کے دینی مدارس نے ہر محاظ پر مسلمانان ِ ہند کی خاص کر رہبری کی ہے ،اورپر خطر حالات میں اپنے فریضہ کو انجام دیا ہے ،اور ایسے جیالوں اور جواں مردوں اور بے لوث خادموں کو فراہم کیا جنہوں نے ہر موڑپر قوم وملت کی بہتر رہنمائی کی ،اور مسلمانوں کی نگاہیں ہمیشہ ہی ان مدارس پر امیدوں اور آرزوؤں کے ساتھ جمی ر ہیں ، اور دینی مدارس کی اب تک کی تاریخ بھی یہی بتلاتی ہے کہ ارباب ِ مدارس نے ہمیشہ قوم کی امیدوں کو سچ ثابت کیا ،اور ان کے خوابوں کی حسین تعبیر بہم پہونچائی ،اور ان ہیروں کو تراشا کہ جن کی ضیا ء پاشیوں سے آج بھی ایک عالم خیرہ ہے اور فیض پارہا ہے۔

 دینی مدارس کی عظیم تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ فرماتے ہیں :’’جب ہندوستان میں حکومت ِ مغلیہ کا چراغ گل ہو گیا،اور مسلمانوں کا سیاسی قلعہ ان کے ہاتھوں سے نکل گیا تو بالغ نظر اور صاحب ِ فراست علماء نے جابجا اسلام کی شریعت وتہذیب کے قلعے تعمیر کردئیے ،انھیں قلعوں کا نام ’’عربی مدارس ‘‘ ہے اور آج اسلامی شریعت و تہذیب انھیں قلعوں میں پناہ گزیں ہے ،اور اس کی ساری قوت و استحکام انھیں قلعوں پر موقوف ہیں ۔‘‘( اسلام کے قلعے :17)ایک جگہ فرماتے ہیں :’’میں مدرسہ کو نائبین رسول وخلافت ِ الہی کافرض انجام دینے والے اور انسانیت کو ہدایت کا پیغام دینے والے اور انسانیت کو اپنا تحفظ و بقا کا راستہ دکھانے والے افراد تیار کرنے والوں کا ایک مرکز سمجھتا ہوں ،میں مدرسہ کو آدم گری اور مردم سازی کا ایک کارخانہ سمجھتا ہوں ۔۔۔جب دنیا میں ہر حقیقت کا انکا رکیا جارہا ہو اور یہ کہا جارہا ہوکہ سوائے طاقت کے کوئی حقیقت ہے ہی نہیں، جب دنیا میں ڈنکے کی چوٹ پر کہا جارہا ہو کہ دنیا میں صر ف ایک حقیقت زندہ ہے اور سب حقیقتیں مرچکیں، اخلاقیات مرچکے، صداقت مرچکی ،عزت مرچکی ،غیرت مرچکی ،شرافت مرچکی ،خودداری مرچکی ،انسانیت مرچکی ،صرف ایک حقیقت باقی ہے اور وہ نفع اٹھاناہے اور اپنا کام نکالنا ہے۔ وہ ہر قیمت پر عزت بیچ کر، شرافت بیچ کر ،ضمیر بیچ کر، اصول بیچ کر، خودداری بیچ کر صرف چڑھتے سورج کا پجاری بننا ہے ،اس وقت مدرسہ اٹھتا ہے اور اعلان کرتا ہے انسانیت مری نہیں ہے ،اس وقت مدرسہ اعلان کرتا ہے کہ نقصان میں نفع ہے ،ہارجانے میں جیت ہے،بھوک میں وہ لذت ہے جو کھانے میں نہیں ،اس وقت مدرسہ یہ اعلان کرتا ہے کہ ذلت بعض مرتبہ وہ عزت ہے جو بڑی سے بڑی عزت میں نہیں ، اس وقت مدرسہ اعلان کرتا ہے کہ سب سے بڑی طاقت خدا کی طاقت ہے ،سب سے بڑی صداقت حق کی صداقت ہے ۔‘‘( مدرسہ کیا ہے؟18)

ہندوستا ن میں اگر دینی مدارس کی بے لوث خدمات اور وطن کے لئے پیار ومحبت دیکھنا ہوتو پھر اس کے لئے کم از کم ایک مرتبہ تحریک ِ آزادی پر نظر ڈالنا پڑے گا ،وطن ِ عزیز کی آزادی کی تاریخ اس وقت تک مکمل نہیں ہوگی جب تک کہ اہل ِ مدارس کے جیالوں کے کارناموں کو نہ پڑھا جائے ،ان کی قربانیوں کو نہ دیکھا جائے ،اور ملک وطن کے لئے ان کے جذبہ ٔ ووفا وخلوص کا مطالعہ نہ کیا جائے ۔ہندوستان سے محبت کرنے کا سلیقہ ان مدرسے والوں نے سکھایا ہے ،ہندوستان کو امن کا گہواہ بنائے رکھنے میں ان مدرسے والوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔

 دینی مدارس کی اہمیت پر ہم نے دنیا کے دو عظیم مفکرین کے اقتباسات پیش کئے ،باقی مدارس دینیہ کی عظمت واہمیت بہت زیادہ ہے۔اور ان مدارس کا وجود ہمارے لئے نہایت ضروری ہے۔معمولی چھپروں سے لے کر بلند وبالا عمارتوں میں نظر آنے والے یہ مدارس دراصل اسلام کے مضبوط قلعے ہیں ،اور یہ چھوٹے چھوٹے بچے جو اپنی عمروں کے قیمتی لمحات کو اور اپنی زندگی کی حسین بہاروں کو مدارس کی چہار دیواری میں لگادیتے ہیں وہ ہمارے محسن اور ہمارے ایمان وعقیدہ کے محافظ ہیں ۔

 مدارس کے ساتھ ہمارے تعلقات مضبوط ہونا چاہیے ،اور ہمیں ان مدارس اور اہل ِ مدارس کی قدر کرناچاہیے ،یہ بات بھی نہایت قابل ِ غور ہے کہ اگر کہیں کسی جگہ نظام ِ مدارس میں خرابی آئے ،یا اہل ِ مدارس اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح ادانہیں کرپارہے ہوں تو صرف چند کو بہانہ بناکر پورے مدارس کے خلاف ذہن سازی کرنا اور تمام مدارس کو بے سود سمجھنا یہ بالکل بھی انصاف اورحق کے خلاف ہے۔کوتاہیاں اور کمیاں انسانوں کے بنائے ہوئے نظام میں آجاتی ہیں ،اس کو دورکرنے کی فکر کرنا اور صحیح نہج اور اصول پر چلانے کی کوشش کرنا اور اس کے فیض کو عام کرنے اور اس کی افادیت کو مزیداجاگر کرنے کی جدوجہد کرنا بھی ہمار ی ایک ملی اور دینی ذمہ داری ہے۔

تبصرے بند ہیں۔