شبِ براءت؛خصوصی رحمت و جہنم سے چھٹکارے کی رات

مومن کے لیے اس وقت سے بہتر کوئی وقت نہیں ہوتا جس میں اسے خداوندِ کریم کی رضا کا پروانہ مل جائے، ایسا نفس جو کہ رضاے الٰہی کا خوگر ہو ہر دم اس تگ و دو میں رہتا ہے کہ اسے وہ لمحات میسر ہوں جن میں وہ خدا تعالیٰ کا خصوصی قرب حاصل کر سکے، بنا بریں اللہ تعالیٰ نے بعض دنوں کے مقابلے میں بعض دنوں کو اور بعض راتوں کے مقابلے میں بعض راتوں کو خصوصیت کا حامل بنایا ہے، جس میں طالبِ حق پر خدا تعالیٰ کی خصوصی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور گنہگاروں کو جہنم سے بری ہونے کا پروانہ دیا جاتا ہے۔ من جملہ ان کے ایک محمود و مسعود موقع ’شبِ برأت‘ ہے۔ حدیث کے مطابق چوں کہ اس رات میں بے شمار گنہگار وں کی مغفرت اور مجرموں کی بخشش ہوتی ہے اور عذابِ جہنم سے چھٹکارا اور نجات ملتی ہے، اس لیے عُرف میں اس کا نام’ شبِ برأت‘ مشہور ہوگیاالبتہ حدیث شریف میں اس رات کا کوئی مخصوص نام نہیںآیابلکہ لیلۃالنصف من شعبان یعنی شعبان کی درمیانی شب کہہ کر اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
شبِ برأ ت اور قرآن مجید
اللہ سبحانہ وتقدس کا ارشاد ہے:( حٰمٓ، وَالْکِتَاب الْمُبِیْنِ، إنَّا أنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُبَارَکَۃٍ إنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ، فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ أمْرٍحَکِیْمٍ، أمْراًمِنْ عِنْدِنَا إنَّاکُنَّا مُرْسَلِیْنَ۔ (الدخان:۵۔۱))قسم ہے اس کتابِ واضح کی ۔ہم نے اس کو اتارا،ایک برکت والی رات میں ، ہم ہیں کہہ سنانے والے۔ اسی میں جداہوتاہے ، ہرکام جانچاہوا، حکم ہو کر ہمارے پاس سے ۔ ہم ہیں بھیجنے والے۔
حٰآ؛اس کے معنی اللہ ہی کومعلوم ہیں، قسم ہے اس کتابِ واضح یعنی قرآن کی کہ ہم نے اس کو لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر ایک برکت والی رات یعنی شبِ قدر میں اتارا ہے، کیوں کہ ہم بوجہ شفقت کے اپنے ارادے میں بندوں کو آگاہ کرنے والے تھے۔ یعنی ہم کو یہ منظور ہوا کہ ان کو مضرتوں سے بچانے کے لیے خیروشر پر مطلع کردیں، یہ قرآن کو نازل کرنے کا مقصد تھا۔ آگے اس شب کے برکات ومنا فع کابیان ہے کہ اس رات میں ہر حکمت والا معاملہ ہماری پیشی سے حکم (صادر) ہو کر طے کیا جاتا ہے یعنی سال بھر کے معاملات جو سارے کے سارے ہی حکمت پر مبنی ہوتے ہیں، جس طرح انجام دینے اللہ کو منظور ہوتے ہیں، اس طریقے کو متعین کرکے ان کی اطلاع متعلقہ فرشتوں کو کرکے ان کے سپر د کردیے جاتے ہیں،چوں کہ وہ رات ایسی ہے اور نزولِ قرآن سب سے زیادہ حکمت والاکام تھا، اس کے لیے بھی یہی رات منتخب کی گئی۔ (معارف القرآن)
یہاں ’لیلۃ مبارکۃ‘سے مراد جمہور مفسرین کے نزدیک شبِ قدر ہے، جو رمضان المبارک میں ہے اور سورۂ قدر میں اس کی تصریح ہے۔(گلدستہ تفاسیر)یعنی جمہور مفسرین کے نزدیک اس رات جس کا مذکورہ آیتوں میں بیان ہوا شبِ قدر ہی ہے البتہ عکرمہ ؒ اور مفسرین کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ لیلۃ مبارکۃسے مراد، شب برأ ت ، ہے ، جیسا کہ فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْم سے معلوم ہوتاہے، چناں چہ اس تفسیر پر اس آیت سے ماہِ شعبان کی پندرھویں رات کی خصوصیت سے بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
ان اقوال کی تطبیق اس طرح ممکن ہے کہ یہاں نزولِ قرآنی سے مراد حقیقۃً نزولِ قرآنی نہیں بلکہ نزول کا فیصلہ مرادہے کہ ا س مبارک رات میں ہم نے قرآن کو نازل کرنے کا فیصلہ کردیا تھا، پھر نزولِ حقیقی شبِ قدر میں ہوا۔شبِ برأ ت میں امورِ محکمہ کے فیصلے ہوا کرتے ہیں ، اس لیے ظاہرہے کہ شبِ برأت میں اس کا بھی فیصلہ کیاگیا ہوگا، کیوں کہ قرآن شریف کے نازل کرنے سے بڑا امرِ محکم اور کون سا ہو سکتاہے ؟ یعنی شبِ برأت میں حکم ہواکہ اس دفعہ رمضان میں جو شبِ قدر آئے گی اس میں قرآن نازل کیا جائے گا، پھر شبِ قدر میں اس کا وقوع ہوگیا، کیوں کہ عادۃً ہر فیصلے کے دو مرتبے ہوتے ہیں ، ایک تجویز دوسرا انفاذ۔یہاں بھی دومرتبے ہو سکتے ہیں کہ تجویز تو شبِ برأت میں ہوئی اور نفاذ لیلۃ القدر میں ہوا۔ (بیان القرآن،اشرف التفاسیر)
شبِ برأت میں کیا کیا ہوتا ہے؟
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ حضر ت نبی کریم انے( مجھ سے) فرمایا؛ کیا تم جانتی ہو کہ اس رات یعنی شعبان کی پندرھویں شب میں کیا کیا ہوتاہے؟حضرت عائشہ نے عرض کیا: کیاکیاہوتاہے اس رات میں اے اللہ کے رسول؟آپ ا نے ارشاد فرمایا: اولادِ آدم میں سے جو لوگ اس سال میں پیدا ہونے والے ہیں وہ سب اس رات میں لکھے جاتے ہیں اور اولادِ آدم میں سے جولوگ اس سال میں مرنے والے ہیں وہ سب اس رات میں لکھے جاتے ہیں اور اس رات میں لوگوں کے اعمال اٹھا ئے جاتے ہیں اور اسی رات میں ان کے رزق اتارے جاتے ہیں۔ (حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ یہ سن کر)میں نے عر ض کیا: اے اللہ کے رسول ا!کیا اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر کوئی بھی جنت میں نہیں جائے گا؟ آپ افرمایا :نہیں، اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر کوئی بھی جنت میں نہیں جائے گااور آپ ا نے یہ الفاظ تین مرتبہ ارشاد فرمائے الخ۔ (مشکوٰۃ)
شیخ عبد القادر جیلانیؒ فرماتے ہیں: جب شبِ شبِ برأت آتی ہے تو بہت سے لوگ تو بازار میں اپنے کاروبار میں لگے ہوتے ہیں اور اللہ کے یہاں ان کے کفن تیار ہورہے ہوتے ہیں، بعض کی قبریں کھودی جارہی ہوتی ہیں اوروہ دنیا میں خوشی میں لگے ہوتے ہیں، بہت سے لوگ مغرور اور ہنسی کھیل میں مصروف ہوتے ہیں حالاں کہ وہ عنقریب ہلاک ہونے والے ہوتے ہیں،بہت سے شان دار محل اپنی تکمیل کو پہنچتے ہیں،حالاں کہ ان کے مالک جلد ہی فنا ہوکر خاک میں مل جانے والے ہوتے ہیں، بہت سے لوگ ثواب کے امید وار ہوتے ہیں مگر ان کے لیے عذاب نازل کیا جاتاہے ، بہت سے لوگ خوش خبری کی توقع لگائے ہوتے ہیں، حالاں کہ انھیں نقصان پہنچتاہے، بہت سے لو گ بہشت کے امیدوار ہوتے ہیں حالاں کہ انھیں دوزخ نصیب ہوتی ہے، بہت سے لوگ وصل کی امید کر رہے ہوتے ہیں، حالاں کہ ان کے لیے جدائی مقرر ہوتی ہے،بہت سے لوگ بخشش کی امید وار ہوتے ہیں، حالاں کہ آخرکار ان پر بلا نازل ہوتی ہے،بہت سے لوگ بادشاہت حاصل کرنے پر یقین رکھتے ہیں حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے نصیب میں ہلاکت لکھی ہوتی ہے۔(غنیۃ الطالبین)
شبِ برأت کی برتری کی ایک وجہ
اللہ سبحانہ تعالیٰ ہر شب آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور یہ رات کے آخری تیسرے حصّے میں ہوتاہے، لیکن پندرھویں شعبان کی شب میں اللہ تعالیٰ کا یہ نزول رات کے آخری تیسرے حصے میں منحصر نہیں بلکہ سرِشام مغرب ہی کے وقت سے صبح صادق تک آسمانِ دنیاپر نزولِ اجلال فرماتے ہیں اور اسی وجہ سے پندرھویں شعبان کی یہ فضیلت وبرتری ہے۔ ابن ماجہ میں ابی موسی کی زبانی مرقوم ہے کہ کوئی رات، شبِ قدر کے بعد پندرھویں شعبان کی شب سے زیادہ افضل نہیں ہے۔(ما ثبت بالسنہ)
فرشتوں کی عیدیں
جس طرح زمین پر مسلمانوں کی دو عیدیں ہیں، اسی طرح آسمان پر فرشوں کی بھی دو عیدیں ہوتی ہیں۔ مسلمانوں کی زمین پر عیدیں؛عید الفطر اورعیدالاضحی ہوتی ہیں اور فرشتوں کی عیدیں؛شبِ برأت اور شبِ قدر ہوتی ہیں۔ فرشتوں کی عید یں رات میں ا س لیے ہوتی ہیں کہ وہ سوتے نہیں، انسان چوں کہ سوتے ہیں ، اس لیے ان کی عیدیں دن میں ہوتی ہیں۔ (غنیۃالطالبین)
خیر القرون اور علماء
امتِ مسلمہ کے جو خیر القرون ہیں یعنی صحابۂ کرام کا دور، تابعین کا دور، تبعِ تابعین کا دور، اس میں بھی شبِ برأت کی فضیلت سے فایدہ اٹھانے کا اہتمام کیا جاتا رہاہے۔ (اصلاحی خطبات)شام کے تابعی مثلاًخالدبن سعدان ،مکحول اورلقمان بن عامر وغیرہ اس رات کی بہت تعظیم کرتے تھے اور اس رات میں عبادت کی بہت کوششیں کرتے تھے۔ (مجالس الابرار)علامہ ابن تیمیہ بھی اس رات کی فضیلت کے قائل ہیں۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ )
قیام وصیام
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضرت نبی کریم انے فرمایا : جب شعبان کی پندرھویں رات ہوتواس میں قیام کرواور اس کے دن میں روزہ رکھو ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اس رات میں غروبِ آفتاب ہی سے آسمانِ دنیا پر( اپنی شان کے موافق )نزول فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ’ہے کوئی مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اس کی مغفرت کردوں ؟ ہے کوئی رزق طلب کرنے والا کہ میں اس کو روزی دوں؟ ہے کوئی مصیبت میں مبتلاکہ میں اس کو عافیت دوں ؟‘ اسی طرح اور بھی ندائیں جاری رہتی ہیں، یہاں تک کہ صبح صادق ہو۔(ابن ماجہ )
شبِ برأت کی خاص دعا
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ا کو شبِ برأت میں یہ دعا کرتے ہوئے سنا ہے اس لیے ہمیں بھی یہ دعا کرنی چاہیے :
اَللّٰھْمَّ أعْوذُ بِعَفوِکَ مِنْ عِقَابِکَ، وَأعْوذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ، وَ أعُوذُ بِکَ مِنْکَ اِلَیْکَ، لاأْحْصِی ثَنَاءً عَلَیْکَ کَمَا أثْنَیْتَ عَلیٰ نَفْسِکَ۔
اے اللہ! میں آپ کی پکڑ سے آپ کی درگزر کی پناہ مانگتا ہوں اور آپ کی ناراضگی سے آپ کی رضامندی کی پناہ مانگتا ہوں اور آپ سے آپ ہی کی پناہ مانگتا ہوں۔میں آپ کی مکمل حمد وثنا نہیں کرسکتا، آپ کی شان تو وہی ہے جو خود آپ نے بیان فرمائی ہے۔(شعب الایمان)
شبِ برأت کے محرومین
خیال رہنا چاہیے کہ شبِ برأت سے متعلق جو احادیث وارد ہوئی ہیں ان میں یہ بھی صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ اس رات میں اپنی تمام مخلوق (بندوں)پر خصوصی فضل فرماکر بہت سوں کو معاف فردیتے ہیں اور جہنم کی آگ سے انھیں نجات دے دیتے ہیں لیکن ان احادیث میں بعض محرومین کا بھی ذکر ہے کہ جو اپنی بد اعمالیوں کے سبب اس رات میں بھی بخشے نہیں جاتے اور ان گناہوں سے توبہ کرنے تک لیے چھوڑ دیے جاتے ہیں، جو مندرجۂ ذیل ہیں:
*شرک کرنے والا۔ (ابن حبان)
*کسی شخص کو ناحق قتل کرنے والا۔ (مسنداحمد )
*بلا شرعی وجہ کہ کسی سے تعلق ختم کرنے والا۔ (شعب الایمان)
*اپنے کپڑوں کو ٹخنو ں سے نیچے لٹکانے والا۔(شعب الایمان)
*والدین کی نافرمانی کرنے والا۔(شعب الایمان)
*شراب کی عادت رکھنے والا۔ (شعب الایمان)
*کسی کے لیے دل میں کینہ رکھنے والا۔(ابن حبان)
اللہ سبحانہ تعالیٰ تمام گناہوں سے تمام مسلمانوں کی حفاظت فرمائے اور گناہوں میں مبتلا لوگوں کو سچی توبہ کی تو فیق نصیب فرمائے اور اس رات کو ہم سب کے لیے نجات و جہنم سے چھٹکارے کا ذریعہ بنائے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔