پانی اللہ کی عظیم نعمت ہے، پانی بچاؤ زندگی بچاؤ

سب خوبیاں اللہ کے لیے جو مالک و پالنہار ہے سارے جہاں والوں کا۔ اللہ رب العزت نے انسانوں بلکہ کائنات کی تمام مخلوق کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے جس کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔وان تعدو نعمت اللہ لاتحصو ھا۔ترجمہ: اور اگر اللہ کی نعمتیں گنو تو انہیں شمار نہ کر سکو گے۔ (سورۃ ابراہیم، آیت 33، سورۃ نحل، آیت 17)نعمتوں کا احسا س و لذت اس کی ضرورت کے مطابق ہوتا ہے۔ پانی اور ہوا انسانی زندگی ہی نہیں بلکہ کائنات کے وجود و بقا کے لئے خالقِ کائنات کی پیدا کردہ نعمتوں میں سے عظیم نعمت ہے۔ انسان کی تخلیق سے لے کر کائنات کی تخلیق تک سبھی چیزوں میں پانی اور ہوا کی جلوہ گری نظر آتی ہے۔ قرآن کریم میں ہے۔ وجعلنا من الماءِ کل شیءٍ حی افلا یو منون۔ترجمہ: اور ہم نے ہر جاندار چیز پانی سے بنائی تو کیا وہ ایمان نہ لائیں گے(سورۃ انبیاء ، آیت 30) دوسری جگہ قرآن مجید اعلان کرتا ہے۔ ترجمہ:اور اللہ نے زمین پر ہرچلنے والا پانی سے بنایا تو ان میں کوئی اپنے پیٹ پر چلتاہے اور ان میں کوئی دو پاؤں پر چلتا ہے اور ان ہی میں کوئی چار پاؤں پر چلتاہے۔ اللہ بناتا ہے جو چاہے،بے شک اللہ سب کچھ کر سکتاہے۔(سورۃ نور، آیت 45،کنز الایمان)اسی کرہِ ارض (زمین) پر جتنے بھی جاندار ہیں خواہ انسان ہوں یا دوسری مخلوق ان سب کی زندگی کی بقا پانی پر ہی منحصر (Depend)ہے ۔زمین جب مردہ ہوجاتی ہے تو آسمان سے آبِ حیات بن کر بارش ہوتی ہے اور اس طرح تمام مخلوق کے لئے زندگی کا سامان مہیا کرتی ہے۔
اللہ نے بارش آسمان سے اتارا:اعلانِ خداوندی ہے:وانزلنا من الماء ماءً بقدر فاسکنہ فی الارض وانا علی ذھابٍ بہ لقدرون۔ترجمہ: اور ہم نے اتاراآسمان سے پانی اندازہ کے مطابق پھر اسے زمین میں ٹھہرایااور بے شک ہم اس کے لے جانے پر پوری طرح سے قادر ہیں۔(سورۃ مومنون، آیت ۱۸،کنز الایمان)یہاں ربِ کریم اپنی انمول نعمت پانی کا ذکر فرمارہا ہے کہ ہم ضروریات کے مطابق پانی برساتے ہیں ۔پانی کا اصل ذخیرہ(Stock) آسمان میں ہے۔ رب فرماتا ہے ۔ وفی السمآء رزقکم وماتو عدون۔ترجمہ:آسمان میں تمہارا رزق ہے جو تمہیں وعدہ دیا جاتاہے۔(سورۃ الذاریات، آیت22) سمندر تو پانی کا خزانہ ہے جیسے خزانہ میں روپیہ رہتاہے ،بنتانہیں۔بنتا ٹکسال میں ہے۔ رب تبارک و تعالیٰ ہر ملک میں ہر علاقہ میں اس کی ضرورت کے مطابق بارش بھیجتا ہے جتنی وہاں کی ضرورت کے لئے کافی ہو۔ جیسے بنگال میں پنجاب سے زیادہ بارش ہوتی ہے۔ایسے ہی ہرزمانے میں ہر جگہ ضرورت کے مطابق بارش آتی ہے اور ضرورت کو رب ہی جانتاہے۔ اپنے مخفی ذخیروں ندی ،سمندر اورزمین میں جمع کر دیتاہے اور تم اس سے فائدہ لیتے ہو۔ کنواں کھود کر، ٹیوب ویل لگا کر ،دریاؤں ،پہاڑوں پر چشمے ہیں جن سے تم پانی لیتے ہو۔ اگر ہم پانی زمین میں جمع نہ کریں تو تم کنواں کھود کر Tube Wellلگا کر نہریں کھود کر زمین کے پیٹ سے پانی نہیں نکال سکتے۔ ہاں یہ نہ سوچو کہ ہم نے جو پیداکر دیا ہے اب اس پر میرا قبضہ نہیں رہ گیا ۔ ہم چاہیں تو پانی کو ناپید کردیں کہ تم بوند بوند پانی کو ترس جاؤ تمہاری ساری اسکیمیں دھری کی دھری رہ جائیں۔(تفسیر نورا لعرفان، تفسیر ضیاء القرآن،جلد ۳،صفحہ 249)
پانی کا انتظام:اللہ نے انسانوں کے لئے پانی کا انتظام مختلف طریقوں سے کر رکھا ہے۔ دنیا بھر کا استعمال شدہ گندہ اور آلودہ پانی دریاؤں ،نہروں اور ندیوں کے ذریعہ اپنی تمام غلاظتوں کے ساتھ سمندر تک پہنچتا ہے۔ سمندر کا نمکین پانی اس آلودگی کو جذب کر لیتاہے۔اللہ نے سمندر کے پانی کو کھارا بنایا ۔اگر اس پانی کو میٹھا بناتا تو کچھ ہی دنوں کے بعد یہ پانی سڑ کر خراب ہوجاتا ۔ اس لئے اللہ نے اس پانی کے اندر ایسے نمکیات رکھے ہیں کہ روزانہ لاکھوں جانور اس میں مرجاتے ہیں اس کے باوجود اس میں کوئی خرابی اور کوئی تغیر پیدا نہیں ہوتا اس کا ذائقہ نہیں بدلتا نہ اس کے اندر سڑن پیدا ہوتی ہے ۔ پھر اگر انسانوں سے یہ کہا جاتا ہے جب پانی کی ضرورت ہو تو سمندر سے حاصل کر لو اور اس کو پی لو تو انسان کے لئے کتنا مشکل ہوجاتا اس لئے کہ اول تو ہر شخص کا سمندر تک پہنچنامشکل ہوتا دوسری طرف وہ پانی اتنا کھارا ہے کہ ایک گھونٹ بھی حلق سے اتارنا مشکل ہوجاتا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام فرمایا کہ اس سمندر سے Monsoonکے بادل اٹھائے اور قدرت کا کرشمہ دیکھئے کہ اس بادل سے جو بارش فرماتاہے تو سمندر کی نمکیات نیچے رہ جاتی ہے اور صرف میٹھا پانی اوپر اٹھ کر چلا جاتا ہے اور رحمت بن کر برستاہے جس کا ذکر قرآن میں صراحت کے ساتھ موجود ہے۔
پانی نعمت الٰھی ہے بارش رحمتِ الٰہی ہے:اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا پاک کرنے والا تاکہ ہم اس سے زندہ کریں مردہ شہر کو اور اسے پلائیں اپنے بنائے ہوئے بہت سے چوپائے اور آدمیوں کو اور بے شک ہم نے ان میں پانی کے پھیرے رکھے ہیں تاکہ وہ دھیان کریں مگر بہت لوگوں نے نہ مانا ناشکری کی(سورۃ الفرقان، آیت 47 سے 49)۔زمین جب مردہ ہوجاتی ہے تو آسمان سے اللہ کی نعمت پانی رحمت بن کر برستاہے اور اس طرح انسانی زندگی کا سامان کرشمہ قدرت مہیا کرتی ہے۔ ہر دور میں اور آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی پانی کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ آج پوری دنیا پانی کی قلت اور بڑھتی ہوئی حرارت سے پریشان ہے۔ آج دنیا کے بہت ممالک پانی کے بچاؤ اور حفاظت کے لئے نئی نئی تکنیک اپنا رہے ہیں اور پانی پر اپنا قبضہ جما رہے ہیں۔ ہمارا ملک ہندوستان بھی اس مسئلہ سے دو چار ہے۔ پانی کے لئے ہریانہ اور پنجاب کا جھگڑا سپریم کورٹ تک جا پہنچا ہے ۔ ابھی حال ہی میں جاٹ آندولن میں دہلی کا پانی ہریانہ نے بند کر دیا اور آندولن کاریوں نے نہر کو جگہ جگہ سے کاٹ دیا تو سنٹرل حکومت نے نہرکی حفاظت کے لئے فوج کو اتارا۔ کاویری ندی کے پانی کا جھگڑا تین دہائیوں سے بھی زیادہ کرناٹک اور تامل ناڈو صوبے کی جنگ میں تبدیل ہوچکا ہے۔ کئی بار تشدد بھرے آندولن ہوئے کئی لوگوں کی جانیں گئیں اور کروڑوں روپئے کی مالیت کا نقصان ہوا۔مرکزی حکومت کو مداخلت کرنا پڑا اور تین کمیٹیاں کرناٹک،تامل ناڈو اور سنٹرل کی دہلی حکومت کا Tribunalبنایا گیا اور اب یہ معاملہ بھی کورٹ کے چکرویو میں سپریم کورٹ میں چل رہا ہے۔تیستا ندی کے پانی کے لئے بنگال گورنمنٹ اور ہمارے پڑوسی ملک بنگلہ دیش سے جھگڑا چل رہا ہے۔کوسی ندی اور بوڑھی گنڈک ندی کے پانی کا تنازعہ انڈیا گورنمنٹ اور نیپال گورنمنٹ کے لئے درد سر بنا ہوا ہے۔ برہم پتر ندی کے پانی کا جھگڑا آسام گورنمنٹ, سنٹرل گورنمنٹ آف انڈیا اور پڑوسی ملک چین سے چل رہا ہے۔اور بھی کئی مثالیں ہیں کسی کے حل کی امیدنظر نہیں آرہی ہے۔اور اب تو صورتحال یہ ہے کہ برملا یہ کہا جا نے لگا ہے کہ آئندہ جو بڑی جنگ ہوگی وہ پانی ہی کے لئے ہوگی۔
اصل وجہ اور ذمہ داری:اصل وجہ کی طرف نہ ہی حکومتیں توجہ دے رہی ہیں اور نہ ہی لوگ۔ پورے ملک میں جہاں دھڑلے سے جنگلات کاٹے جارہے ہیں لکڑی مافیا پولس اور جنگلات کا محکمہ Forestکے آفیسران کی بلے بلے ہے۔ بڑے بڑے جنگل ریگستان میں بدل کر ویران ہورہے ہیں زرخیز مٹی برباد ہورہی ہے فیکٹریوں کا گندہ پانی ندیوں کے پینے کے صاف پانی کو برباد کر رہا ہے۔ کیمیکل اور طرح طرح کی زہریلی کثافت سے آلودہ پانی بھی انسانی زندگی کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ ملک کی 68%آبادی جو دیہات میں رہتی ہے اور جہاں صاف پانی کی فراہمی حکومتوں کے لئے درد سر بنی ہوئی ہے اور اسی وجہ کر انسانوں ،چوپایوں کی بڑی تعداد آلودہ (گندہ) پانی پینے اور استعمال کرنے پر مجبور ہے جو آئے دن اخبارات اور نیوز چینلوں میں دیکھا جارہاہے جو کہ عام بات ہوگئی ہے۔ لڑائی جھگڑا بھی ہورہا ہے۔ NDTV INDIAکے رپورٹر رویش کمار کی رپورٹ کے مطابق پانی کے جھگڑے میں روز کم از کم تین موت اور بیس سے پچیس آدمیوں کو گمبھیر چوٹیں جس میں ہاتھ پیر ٹوٹناشامل ہے ہورہا ہے۔ لہٰذا پانی کی اہمیت و ضرورت کو دیکھتے ہوئے ہر شخص اپنی ذمہ داری سے پانی جیسی انمول چیز کی قدر کرے ورنہ اس سے بد تر حالات کا سامنا کرنے کو تیار رہے۔ ان حالات میں خاص کر امت مسلمہ کا فرض بنتاہے کہ وہ پانی کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر اس کی قدر کرے بلکہ بوند بوند کی حفاظت کرے کیونکہ دنیا میں بسنے والی ہر قوم سے زیادہ امت مسلمہ کو پانی کی ضرورت ہے۔ نمازجیسی اہم عبادت کوبغیر پانی کے نہیں کیا جا سکتا۔(تیمم کو چھوڑ کر جو کسی مجبوری کی حالت میں ہی جائز ہے) پاکی بغیر پانی کے حاصل نہیں کی جاسکتی ۔ دن میں پانچ مرتبہ وضو کرنا ہے ناپاکی کی حالت میں غسل کرکے طہارت و صفائی کے حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کو پانی ہی کی ضرورت ہے۔ قرآن مجید اورنبی کریم ﷺ کے بے شمار فرمودات و ارشادات کے ہوتے ہوئے بھی امت مسلمہ پانی آج جس طرح ضائع کر رہی ہے شاید ہی دنیا کی کوئی قوم کرتی ہو۔ آج امت مسلمہ پانی کی حفاظت اور بقا کے لئے کوشش کرتی ہوئی نظر نہیںآتی۔ اس دنیا میں کیا چل رہا ہے ، انسانی زندگی کو کن کن حالات کا سامنا ہے اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ وہ تو بس توکل علی اللہ کے اعلیٰ منصب پر فائز ہے۔بس ایک ہی بات ان کے ذہنوں میں بیٹھ گئی ہے کہ اللہ نے رزق کا ذمہ لیا ہے، بس اللہ ہی دے گا بقول ڈاکٹر اقبال۔ پتا نہیں کیا نام ہے اس کا خدا فریبی کہ خود فریبی * عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ
بے شک تقدیر کی بات صحیح ہے پر اللہ تبارک تعالیٰ نے کچھ ذمہ داریاں بھی عائد کی ہیں لیکن اس ذمہ داری سے مسلمان کوسوں دور ہیں۔آپ نے فقیروں کو محلّوں میں آواز لگاتے ہوئے سنا ہوگاکہ وہ ساری دعائیں دوسروں کو دیتاہے خود کے لئے کچھ نہیں کرنا چاہتا۔ ساری دعائیں دوسروں کو دیتاہے اور ساری ذمہ داری بھی دوسروں پر ڈال دیتاہے۔ خود کچھ کریں اللہ و رسول کے احکام کو مانیں حالات کا مقابلہ سوچ سمجھ کر کریں یہ ممکن نہیں۔ آج ملک کے بڑے بڑے شہروں میں ماحولیاتی آلودگی ، پانی کی آلودگی، شجر کاری کی جو مہم چلائی جاتی ہیں ان میں امت مسلمہ کا کتنا حصہ ہوتاہے یا مسلمانوں کی ملی ،سماجی ،فلاحی و دینی تنظیمیں اور ادارے کیا کر دار ادا کرتی ہیں ؟ سچے اور ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچئے اور ضرور کچھ کیجئے۔ آج مسلم محلوں کو دیکھئے، صفائی کو ہی دیکھ لیجئے کہ مسلم محلے کتنے صاف ستھرے ہیں جبکہ انہیں بچپن سے ہی اللہ کے رسول کا پیغام بتایا جارہا ہے بلکہ Polio Dropکی طرح پلایا جا رہاہے کہ ’’پاکی نصف ایمان ہے‘‘(الحدیث)، صفائی نصف ایمان ہے ۔بہت سی احادیث موجود ہیں ۔ایک ملاحظہ فرمائیں۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جو مسلمان پاکی حاصل کرے اور پوری طہارت حاصل کرے پھر پانچوں نمازیں ادا کرتارہے تو یہ نمازیں اسے درمیان میں ہونے والے گناہوں کا کفارہ ہوجاتی ہیں۔(مسلم حدیث نمبر451) پاک و صاف رہو کیونکہ اسلام پاک و صاف مذہب ہے۔ اللہ رب العزت کی ذات بابرکت پاک ہے اور وہ پاکی کو پسند کرتاہے۔ واللہ یحب المطہرین۔ترجمہ: اور ستھرے لوگ اللہ کو پیارے ہیں (سورۃ توبہ، آیت 108) پاک و صاف لوگوں کو اللہ پسند فرماتا ہے۔
آج مسلمانوں نے دین صرف اس بات کو سمجھ لیا ہے کہ پانچ وقت کی نماز ادا کی جائے ، رمضان کے روزے رکھے جائیں، زکوٰۃ ادا کی جائے مال آجائے تو حج بھی ادا کر لینا چاہئے۔ پیارے اللہ کے بندو! اسلام کا صرف یہی تقاضہ نہیں ہے۔ جماعتوں، تنظیموں کے نام پر خوب سمجھایا جاتا ہے مگر انسانی زندگی سے جومسائل جڑے ہیں ان کی جانب توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ ہوا اور پانی بھی انسانی زندگی سے وابستہ ہیں اس کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ۔ اس کی اہمیت کو صراحت کے ساتھ قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ قرآن کریم میں رب العزت نے 58مرتبہ پانی کا ذکر مختلف طرح سے فرمایا ۔ کہیں انسان کی تخلیق کو پانی سے بتایا ، کہیں پانی سے پاکی حاصل کرنے کا ذریعہ بتایا کہیں پیاس بجھانے کے لئے پانی اتارنے کا ذکر فرمایا کہیں مردہ شہر کو سیراب کرنے کا ذکر فرمایا کہیں چوپایوں کی پیاس بجھانے کے لئے پانی کا ذکر فرمایا کہیں پھولوں اور پھلوں کی شادابی وسیرابی کے لئے پانی نازل کرنے کا ذکر فرمایا وغیرہ وغیرہ ۔ حتیٰ کہ جنت کی اعلیٰ نعمتوں کے ذکر کے ساتھ اپنی عظیم نعمت پانی کا یوں ذکر فرماتاہے۔ فیھماعینن تجرین، فبا آلاءِ ربکما تکذبان۔ جنت میں دو چشمے (پانی کے)بہتے ہیں ۔ تو اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤگے۔ (سورۃ الرحمٰن ، آیت.۴۹) جنت میں پانی کا ذکر فرماکر اس کی اہمیت کو بتایا ۔جنت میں پانی کی دو نہریں ہیں۔ پہلی کا نام تسنیم جو ایک مشک کے پہاڑ سے نکلتی ہے اور دوسری کا نام سلسبیل ہے ۔(روح البیان ، نور العرفان ،صفحہ850)
احادیثِ مبارکہ اور پانی:مسلمانوں کو پوری دنیا میں پانی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے کیونکہ ہمارے دین کا اہم رکن ام العبادات نماز پانی کے بغیر ممکن نہیں وضو، غسل، طہارت و پاکیزگی کا دارو مدار صرف پانی ہی پر ہے۔آپ ﷺ سے دریافت کیا گیا ایسی کون سی شے ہے کہ جس سے انسانوں کو منع نہیں کیا جا سکتا ؟تو آپ ﷺ نے فرمایا : وہ چیز پانی ہے۔(بخاری، حدیث نمبر3477)ایک مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تین چیزیں ایسی ہیں جو سب کے لئے عام ہیں ۔ ایک پانی دوسری گھاس تیسری ہوا۔(ابو داؤد، حدیث نمبر 3477)پانی گندہ کرنا ،خراب کرنا اور ناپاک کرنے کے بارے میں ہمیں آپ ﷺ نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ تم میں سے کوئی شخص بہتے ہوئے پانی میں پیشاب و پاخانہ نہ کرے،پانی ضرورت سے زیادہ فروخت کرنے کی آپ ﷺ نے ممانعت فرمائی کہ دولت مند ہے وہ زیادہ خرید لے اور غریب نہ خرید سکے۔ سخت ضرورت کے تحت ہی بیچا جائے۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں: ضرورت سے زیادہ پانی فروخت مت کرو(ابو داؤد، حدیث نمبر 3478) حضور نبی کریم ﷺ خود پانی کا استعمال نہایت کفایت شعاری سے کیا کرتے تھے۔ آپ ایک مرتبہ نہر کے کنارے وضو فر ما رہے ہیں،آپ برتن میں الگ پانی لیتے ہیں اس سے وضو کرتے ہیں او رجو پانی بچ جاتا ہے اس کو دوبارہ نہر میں ڈال دیتے ہیں۔ پانی سے گناہ دھل جاتے ہیں ۔ایک صحابی بارگاہِ رسول میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرے گناہ بہت زیادہ ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ پیاسوں کو پانی پلاؤ تمہارے گناہ ایسے جھڑ جائیں گے جیسے درختوں سے پتّے۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک صحرا میں ایک عابد اور ایک گنہگار شخص کا گزر ہوا، قریب تھا کہ عابد پیاس کی وجہ کر دم توڑ دے مگر گنہگار شخص نے اسے اپناپانی پلادیا اور خود پیاسا رہ گیا ۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ صرف ایک شخص کو پانی پلانے کے عوض میں میدان محشر میں رب کریم گناہ گار شخص کی مغفرت فرما کر اس کو جنت عطا فرمائے گا۔
بیماری کا علاج: آج لوگ طرح طرح کی بیماری میں مبتلا ہیں بڑے بڑے ڈاکٹروں سے علاج میں روپئے پانی کی طرح بہا رہے ہیں اورشفا و صحت پانے کے ہزاروں جتن کررہے ہیں۔ایک اہم طریقہ علاج کی جانب توجہ دیں پانی صدقہ کریں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پانی کا صدقہ کرو، پانی سب سے بہترین صدقہ ہے اور بیماری سے شفا بھی ہے ۔ دوسری حدیث حضرت عبد اللہ ابن مبارک کے پاس ایک شخص آیا اور کہا کہ گزشتہ سات برسوں سے گھٹنے کے مرض میں مبتلا ہوں۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایسی جگہ تلاش کرو جہاں لوگ پانی کے محتاج ہوں۔ وہاں جاکر لوگوں کی سہولت کے لئے کنواں کھدواؤ،کنواں کھدوانے کے بعد اللہ پاک نے اس شخص کو شفا عطا فرمائی۔ معلوم ہوا رب العزت کو یہ عمل کس قدر محبوب ہے کہ اس پر عمل کرنے کے سبب اللہ بیماریوں سے شفا عطا فرماتاہے اور پیاسوں کو پانی پلانے سے جنت عطا فرماتا ہے۔سوچنا اور فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔مسلمان عشق رسول کا دم بھرتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے نام پر مرنے مارنے پر تیار ہوجاتے ہیں ان کے لئے یہ عمل نہ صرف اسوۂ رسول ہے بلکہ زندگی میں اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔(مجمع الزوائد) بقول ڈاکٹر اقبال ۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی * یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری
قرآن و احادیث میں بہت سے احکام موجود ہیں۔ صحابہ کرام و تابعین ، بزرگان دین و ائمہ مجتہدین کے یہاں پانی کے استعمال اور احتیاط کے بارے میں جو اقوال پائے جاتے ہیں اور جو تدبیریں و طریقے بتائے گئے ہیں اس پر عمل کی ضرورت ہے۔ جو چیز قیمتی ہوتی ہے اس کی عزت و توقیر بھی کرنی ہوتی ہے ۔ نعمتوں کی عزت نہ کرنا نعمتوں کے زوال کا سبب بنتا ہے۔ اللہ ہم سب کوپانی کی اہمیت سمجھنے اور اس کی بوند بوند کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین، ثم آمین!

تبصرے بند ہیں۔