ہماری انفرادی بداعمالیوں کی شامت رسول اللہ ﷺ کی امت پر (آخری قسط)

اللہ بخش فریدی

 ہمارا چوتھا طبقہ امراء ،جاگیرداروں اور دولت مندوں کا ہے سو وہ دنیا دار ہیں اور لادین حکمرانوں کے خوشامدی، بے دین خاندانی جمہوری نظام ، خاندانی آمریت کے سہولت کار۔ یہ صرف دنیا داری اور کاروبار کی ترقی چاہتے ہیں ، انہیں ملت کی ترقی سے سروکار ہی نہیں ۔دین کی ترقی کیلئے ان کی دولت پہ زہریلا سانپ بیٹھا ہے جو دین کے نام پر اٹھانے سے ان کو ڈس لے گا اور یہ دنیا سے بھی جائیں گے۔ عیش و عشرت اور حکمرانوں کی خوشامد پر جتنا اڑا ئیں کوئی پروا نہیں مگر دین پر ایک سو لگانا بھی کروڑ نظر آتاہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ جب کوئی جمہوری مداری کسی شہر میں آتا ہے تو شہر بھر کی گلیاں ، محلے، بازار اس کے پتلوں کے فلیکس و بینرز سے بھر دی جاتی ہیں اور شہر کا اس سے منسلک ہر صاحب ثروت اس کار خیر میں حصہ دار ہوتا ہے۔ کیا کبھی کسی نے یہ سوچا کہ ایک لادین جمہوری مداری کو خوش کرنے کیلئے کتنا فضول خرچ ہو رہا ہے؟ اگر یہ سارا خرچ جمع کیا جائے جس کی مدت ہی دو چار روز ہے ، اس سے سال بھر کیلئے پورے شہر کے غربا کو لباس مہیا کیا جا سکتا ہے مگر وہ انہیں گوارا نہیں ۔ شہر بھر کے غربا کو خوش دیکھنے سے زیادہ ان کو ایک جمہوری مداری کی خوشی عزیز ہے۔

امت کے دولت مند عرب ہیں سو ان کی سوچ و فکر بس یہاں تک رہ گئی ہے۔ انا ابغی امارہ جدید، سیارہ جدید، حرمہ احسن و جدید۔یعنی نت نئی امارت ہو، نت نئی گاڑی ہو، نت نئی اورحسین و جمیل عورت ہو۔ یہ وہ عرب نہیں رہے جو خالی ہاتھ اونٹوں کی ننگی پشتوں پر بیٹھ کر جہاد کے ترانے پڑھا کرتے تھے اور ملت کے کسی ایک مظلوم کی پکار پر ظالم کی اینٹ سے اینٹ سے بجا دیا کرتے تھے۔ آج ان کے پاس سب کچھ ہے مگر ان کے ترانے بدل گئے ہیں ۔ان کی سوچ، ان کے جذبے زر کے غلام بن گئے ہیں ، دولت ان کا دین بن گیا ہے۔ آج عرب دولت کے پجاری ہیں دین کے نہیں بشمول ہمارے سب عجموں کے۔ آج سب کا دین دولت ہے ، آج سب ایک دوسرے سے بڑھ کر دولت سمیٹنے اور جائیدادیں بڑھانے کے چکر میں ہیں ، دین اور اس کے فروغ کی طرف کسی کی توجہ ہی نہیں ، اور خدا و رسول ﷺ سے بے یقینی کی سی کیفیت پورے عالم میں ۔ آج ملت پر چار سو بے یقینی کی کیفیت طاری ہے کسی میں خدا کی مدد پر یقین اور کامل بھروسہ نظر نہیں آتا۔میں یہاں بات زیادہ لمبی نہیں حکیم الامت حضرت اقبالؒ کے ایک مصرعہ میں

ملت کو پیغام دینا چاہوں گا کہ

سن اے تہذیب حاضر کے غلام

غلامی سے بد تر ہے بے یقینی

یہی وہ چار طبقات تھے علماء، پیر و مشائخ، اور حکمران و سیاستدان اور ملت کا مخیر طبقہ، جو معاشرہ پر اثرانداز ہو سکتے تھے اور امت کی ڈوبتی نیہا کنارے لگا سکتے تھے سو چاروں غفلت اور بے یقینی کی تاریکیوں میں ڈوبے بہت گہری نیند سو رہے ہیں ۔اگر انہیں کچھ یقین ہوتا، ان کا ضمیر اگر زندہ ہوتا، اگر انہیں کوئی احساس اور فکر ہوتی رسول اللہ ﷺ کی امت کی تو کچھ تو ہوتا نظر آتا دنیا میں دین و ملت کی سر بلندی و سرفرازی کا، عزت و وقار کی بحالی کا، دنیا میں عزت سے سر اٹھا کر جینے کا ۔کوئی رہروِ منزل ہی نہیں رہا۔ ہم کمزور لوگ دین کا درد لے کر جائیں تو کہاں جائیں ؟

پانچواں ! ہمارے پاس کچھ ایسے ذرائع اور مشینری تھی جن کو اگر اعلیٰ فلاحی مقاصد کے حصول کیلئے کام میں لایا جاتا توبڑی حد تک معاشرہ کی اصلاح ممکن تھی جیسے میڈیا، الیکٹرونک و پرنٹ ذرائع ابلاغ و نشر اشاعت۔ یہ ادارے اگر اصلاح امت ، بیداری امت ، امت میں اتحاد و یگانگت، مساوات، رواداری اور امہ میں غیرت و شعور اجاگر کرنے کا بیڑہ اٹھاتے تو پل بھر لاکھوں کروڑوں لوگوں کی ہدایت و راہنمائی کا ذریعہ بن سکتے تھے اور امت کو سیدھی راہ نجات پر ڈالنے میں ان کا کردار سب سے نمایاں رہتا۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے یہ ادارے شیطان کے زر خرید غلام بن چکے ہیں اور شب و روز شیطانیت کو پھیلانے اور دجالیت کو ہوا دینے میں مصرو ف عمل ہیں ۔ ہمارے میڈیا میں دین کی اتنی فوقیت و اہمیت نہیں جتنی سیاست اور کھیل تماشا کو ہے۔ ہمارے میڈیا میں دین سے زیادہ اہمیت کھیل ، شوبز، ناچ راگ اور فیشن کو دی جاتی ہے۔ ہمارا میڈیا کھیل کے میدان کی تو لائیو کوریج دیتا ہے ، موسیقی کی دھنوں ، ڈرامہ و فلم سازی ، شوبز کی دنیا، فحاشی و عریانی اور فیشن کے شوز کو تو باقاعدہ ہر گھنٹہ بعد کی نیوز ہیڈ لائنز بنا کے پیش کرتا ہے مگردین کی باتوں ، دینی محافل سے روگردانی کرتا، منہ پھیرتا، جی چراتا اور کنارہ کشی اختیار کرتا ہے کہ کہیں کوئی دین کی بات ، اصلاح امت کا درس سن ہدایت نہ پا لے اور سیدھی راہ اختیار نہ کر لے۔ ملک بھر میں ہزاروں بڑی بڑی دینی محافل، اصلاح امت اور بیداری امت کانفرنسزکا انعقاد ہوتا ہے ، میڈیا اور نیوز چینلز اپنی پوری تاریخ میں ثابت کریں کہ انہوں نے کسی دینی محفل اور اصلاح امت ، بیداری امت کانفرنس کو اپنی نیوز ہیڈ لائن میں جگہ دی ہو اور لوگوں کوکثرت سے شرکت پر آمادہ کیا ہو ، اور قوم کو لائیو دیکھا کر امت کی اصلاح کا ذریعہ بنے ہوں ، اور علماء کے اصلاح و ہدایت کے بیان پر تبصرے ہوئے ہوں ۔ کھیل اور سیاست پر تبصرے تو ان کا شب و روز کا معمول ہیں ۔

اگر کسی ٹی وی چینل یا اخبارو رسالہ پر کسی اصلاح امت کانفرنس کا اشتہار دینا ہو تو لاکھوں روپے طلب کیے جاتے ہیں ۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ تمہیں شوبز اور کھیل تماشا والے شیطان کے چیلے کتنے پیسے دے جاتے ہیں کہ تم شب و روز دنیا بھر سے ان کی فحاش و عریاں شکلیں اکٹھی کر کے پوری قوم کو دکھاتے ہو، اور اخبارات میں بھی ان کے پورے کے پورے صفحات پرنٹ ہوتے ہیں ان سے تمہیں کتنا معاوضہ ملتا ہے؟ خبرناک، مذاق رات اور ایسے کئی پروگرام کیا اخلاقی و اصلاحی درس دے رہے ہیں قوم کو؟یہ ادارے شب و روز فضولیات اور لغو پروگرام پیش کر کے قوم کو خداو رسول ﷺ سے غافل و بے نیاز کر رہے ہیں ۔ہر وقت گمراہی و ضلالت کا درس دیا جارہا ہے، اسے فحاشی و عریانی ، بد اخلاقی ، غنڈہ گردی ، ناچ راگ اور موسیقی وغیرہ کو فروغ دینے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ قوم کو اخلاقی طور پر تباہ کرنا آج باقاعدہ کاروبار بن چکا ہے اور اسے باقاعدہ صنعت و تجارت کا درجہ حاصل ہے۔ آج ملت میں حیا باختگی اور بے غیرتی پھیلانے اور قوم کو فضول لغویات میں مبتلا کرنے کو انڈسٹری کہا جاتا ہے ، فلم انڈسٹری، کیبل انڈسٹری ملت کی اصلاح کیلئے کیا پروڈکشن کر رہی ہیں ؟ یہ کونسا رشد و ہدایت کا درس دے رہی ہیں ؟کیا کوئی بتا سکتا ہے؟

میں پورے وثوق سے کہتا ہو ں کہ یہ ادارے شیطان کے ٹولے ہیں ، دجالیت پھیلانے کے مہرے اور یہودی لابی کے غلام و زر خرید ایجنٹ ہیں ۔اگر کسی نے اس کی دلیل دیکھنی ہو تو وہ یہود کے بڑوں کی خفیہ دستاویزات، یہودی لابی، یہود کی خفیہ صہیونی تنظیموں ’’ فری میسن ‘‘اور’’ ایلیومیٹینس ILLUMINATIS‘‘کے خطرناک منصوبوں کی کاپیاں اٹھا کر دیکھیں کہ وہ بین الاقوامی میڈیا بارے کیا کہتے ہیں ؟ صیہونیت کے بڑوں کی بڑی عرق ریزی سے مرتب کیے گئے پروٹوکولز اٹھائیں اور دیکھیں کہ ’’ The Protocols of the Learned Elders of Zion‘‘ کے پروٹوکول نمبر 12 میں کیا لکھا ہے۔

’’ہم دنیا بھرکے پریس میڈیا کو مکمل طور پر اپنے قابو میں لیں گے۔ ہماری اجازت کے بغیر کوئی خبر عوام تک نہیں پہنچ پائے گی۔ آج کل بھی یہ مقصد اسی طرح حاصل ہو رہا ہے۔ چونکہ تمام خبریں چند خبر رساں اداروں کے ذریعہ سے ہی ملتی ہیں جن کے دفتروں میں یہ ساری دنیا سے آکر جمع ہوتی ہیں ۔ اس وقت یہ سارے خبر رساں ادارے ہماری ملکیت ہوں گے اور صرف وہ خبر شائع کریں گے جن کے شائع کرنے کا ہم حکم دیں گے۔۔۔۔۔ کچھ اخبار اور رسائل ہم بذات خود اپنی مخالفت یا تنقید کرنے کے لئے جاری کریں گے جو بظاہر کلی طور پر ہماری حکمت عملی کی شدید مخالفت کریں گے۔لیکن اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ ہمارے ازلی دشمن اس مصنوعی مخالفت کو اپنی آواز سمجھ کر اپنا باطن ہمارے سامنے کھولتے رہیں گے۔ ( Protocols # 12۔ پریس کو قابو میں لانا۔ ذرائع نشر و اشاعت پر قبضہ کیا آج بشمول ہمارے پوری دنیا کا میڈیا یہ منظر پیش نہیں کر رہا؟ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ہمارا میڈیا کیوں اور کس کے ڈر سے دین اور دین کی نشر و اشاعت سے روگردانی کرتا ہے؟ اصلاح و ہدایت کی باتیں کیوں ملت کے سامنے پیش کرنے سے جی چراتا ہے؟ اس لیے کہ اس کی مہار خفیہ یہودی لابی، شطرنج کی بساعت پر بیٹھے کھیل کے مہروں کے ہاتھوں میں ہے اور ان کے ضمیر بکے ہوئے ہیں ، یہ دجالیت کو فروغ دیں گے دین کو نہیں ، شیطانیت کی خبریں دیں گے دین کی نہیں ، یہ قوم کو اخلاقی زوال، حیاء سوزی اور کردار باختگی کا درس دیں گے اصلاح و ہدایت اور بیداری امت کا نہیں ۔ اگر یہ سب غلط اور اس کی کوئی حقیقت نہیں تو میڈیا ملت کے اس سوال کا جواب دے کہ وہ دین سے بیزار کیوں ہے؟ وہ خدا و رسول ﷺ سے غافل و بے نیاز کیوں ہے اور ملت کو بھی کر رہا ہے؟ وہ کیوں ملت کو فضول اور لغو پروگرام دیکھا کر گمراہی و ضلالت ، فسق و فجور کے راستے پر ڈال رہا ہے؟

آج ملت کے ہر طبقہ نے دین کو بے یار مددگار چھوڑ دیا ہے۔ہمارے تمام سرکاری ادارے دجالیت پھیلانے کی فیور میں ہیں دین کی نہیں ، وہ کھیل تماشا، ناچ راگ، شوبز اور فیشن و عریانت کو سپورٹ کرتے ہیں دین کو نہیں ۔ مسجدوں کے لاؤڈ سپیکروں پر پابندی عائد کر دی گئی کہ مسجد سے باہر کے لوگ دین کی باتیں نہ سن سکیں اس کے برعکس اگر ناچ راگ، مجرے، ڈانس و بھنگڑے، ڈرامہ ، موسیقی و فلم سازی پر پابندی لگتی تو معاشرہ بے حیائی و عریانیت کا خاتمہ نہ ہوجاتا؟ یہ رب کو تو ناراض کر سکتے ہیں مگر شیطان کی ناراضگی مول نہیں لے سکتے۔کھیل کے میچ ، کسی ٹرافی، پی ایس ایل یا ورلڈ کپ کے فائنل ہوں تو ہمارے وزیر اعظم بھی بول اٹھتے ہیں کہ میچ کے دوران پورے ملک میں بجلی بند نہ کی جائے تاکہ پوری قوم خدا و رسول ﷺ سے غافل و بے نیاز ہو کرخوب انجوائے کرے اور شیطان کی خوشی میں بھی کوئی خلل نہ آئے۔ہماری فوج کے سپہ سالار بھی بول اٹھتے ہیں کہ فائنل میچ و فیشن شوز کے دفاع کیلئے کتنی سکیورٹی چاہیے ہمیں بتاؤ ہم حاضر ہیں ۔کیا کبھی کسی نے ہمارے وزرائے اعظم اور سرکاری افسروں کی زبان سے یہ بھی سناکہ گرمیوں میں نماز کے اوقات میں بجلی بند نہ کی جائے لوگ وضو کیلئے پانی اور ٹھنڈی ہوا سے محروم ہوتے ہیں ؟ کیا کبھی کسی نے ہمارے فوج کے سپہ سالاروں کی زبان سے یہ بھی سنا کہ ملک میں انعقاد ہونے والی اسلامی آگاہی، اصلاح و بیداری امت کانفرنسز کی سکیورٹی کیلئے کیا درکار ہے ہمیں بتاؤ ہم مہیا کریں گے؟کھیل تماشا، ناچ راگ، فیشن کو فروغ دینا اور مقابلے کروانا ہوں ، قوم کو خدا و رسول ﷺ سے غافل کر کے شیطان کو خوش کرنا ہو تو سرکاری سطح پر اس کا کس قدر اہتمام اور معاونت کی جاتی ہے ۔

PSL ہوئی ، سرکاری سطح پر کس قدر اہتمام ، شاہ خرچ اور معاونت کی گئی ، گراؤنڈ کی سیکورٹی کیلئے آپس پاس کی مساجد تین روز کیلئے بند کر دی گئیں ۔ نماز کیلئے طواف کعبہ بند ہو سکتا ہے مگر ہمارے ہاں نماز کیلئے کھیل بند نہیں ہو سکتا۔ کھیل کیلئے اللہ کی مسجدیں بند ہو سکتی ہیں مگر مسجدوں کیلئے کھیل بند نہیں ہو سکتا۔ کھیل کیلئے نماز روکی جا سکتی ہے مگر نماز کیلئے کھیل نہیں رک سکتا۔ کھیل کیلئے مسجدیں ویران کی جا سکتی ہیں مگر مسجد کیلئے کھیل کے میدان ویران نہیں ہو سکتے۔ ہماری فوج ، ہماری سپاہ گراؤنڈ کو تو سکیورٹی دے سکتے ہیں مگر مسجدوں کو نہیں ۔گراؤنڈ پر سکیورٹی لگ سکتی تھی تو آس پاس کی مساجد پر کیوں نہیں ۔ آس پاس کی مساجد ایک دفعہ کلیئر کر کے اس پر سکیورٹی لگا دیتے بند کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ انہیں ڈر صرف اللہ کی مسجدوں سے ہی تھا، آس پاس شیطان کے گھر میوزک سنٹر، سینما ، فیشن سنٹر سب کھلے رہے۔شیطان کی طرف جانے والے تمام راستے کھلے تھے اور اللہ کی طرف جانے کے راستے بند کر دئیے گئے کہ اگر کسی کو یہاں کی یاد آئے اور وہ نماز کیلئے مسجد جانا چاہیے تو نہ جا سکے۔ یہ معاملہ حشر میں رب کی عدالت میں پیش ہوگا،یہ مردود قہار کے قہر سے بچ نہیں پائیں گے۔

یہ دین کو پھیلانے ، فروغ دینے اور اس کے نفاذ میں کتنے معاون اور سہولت کار ہیں ؟ عوام میں اس کا جس قدر جوش و جذبہ تھا ، بیداری امت کیلئے بھی ایسا جوش و خروش اور جذبہ کسی میں دیکھنے کو ملتا ہے؟کھیل تماشا کے اربوں کے ٹکٹ اس قدر فروخت ہوئے جیسے رب کی جنت میں پیشگی گھر خرید جا رہے ہوں مگر دینی آگاہی، بیداری کانفرنس کے ٹکٹ کوئی مفت میں لینے کو تیار نہیں ۔ہر گلی بازار، محلہ، دفتر، سکول و کالج میں اس پر بحث اور تبصرے گویا پوری قوم کا رجحان کھیل تماشا کی طرف ہے خدا کے دین کی طرف نہیں ، سب شیطان کو خوش دیکھنا اور رکھنا چاہتے ہیں خدا کو نہیں ۔پوری قوم مجموعی طور پر لعو و لعب، کھیل کود میں کامیابی کیلئے تو رب کی بارگاہ میں گڑ گڑا کر آہ و زاری، دعائیں و التجائیں تو پیش کرتی ہے مگر قوموں کی صفوں میں کامیابی کیلئے رب سے کوئی آہ و زاری اور فریاد نہیں کرتی اور نہ کوئی ایسی لگن ہے نہ کوئی احساس۔ جب مجموعی طور پر قوم میں کوئی لگن نہیں قوموں کی صفوں میں سربلندی ، عزت و وقار پانے کیلئے تو رب کو کیا پڑی کہ وہ امت کے حالات بدل دے، وہ اسی قوم کے حالات بدلنے میں مدد فرماتا ہے جس میں اس کی لگن دیکھے۔ خدا کا قانون ہے کہ جیسی عوام ہو ویسے ہی ان پر حکمران مسلط کر دیتا ہے۔اگر عوام کارجحان دجالیت کی طرف ہو تو حکمران بھی دجالی ان پر مسلط ہوں گے۔اگر عوام مکار و دغا باز، عیار و سرکش اور عیش پرست ہو ں گے تو حکمران ان سے بڑھ کر نکلیں گے۔جب عوام مغرب زدہ ہوں گے تو حکمران مغرب کو خدا ماننے والے آئیں گے۔جب عوام کی لگن شیطانیت کے ساتھ ہوگی تو حکمران اس کے فروغ اور دفاع کرنے والے نکلیں گے۔ جب عوام کا رجحان، عوام کی لگن دین کی طرف ہو گی تو حکمران بھی دیندار آنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔

آج ہمارے حکمران، ہمارے سپہ سالار شیطانیت پھیلانے کے سہولت کار اور اس کے دفاع کے محافظ ہیں دین کے نہیں ۔ ہمارے ملک میں سزا و جزاء کے قانون میں بھی کوئی دین کو نہیں پوچھتا، کوئی عدالت قرآن و سنت کو نہیں دیکھتی کہ ان میں کیا حکم ہے۔ہمارے ہاں سرکاری اور عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر سزا ہے، ہمارے ملک کے آئین و دستور کی خلاف ورزی پر سزاہے،ہمارے خود ساختہ بنائے گئے ، خود غرض سیاستدانوں کے کم فہم ذہنوں سے گھڑے گئے قوانین کی خلاف ورزی پر سزا ہے مگر اللہ کریم اور اس کے پیارے رسول ﷺ کے بنائے گئے قوانین کی خلاف ورزی پر کوئی سزا نہیں ۔ قرآن و حدیث کے احکامات کی خلاف ورزی پر کوئی سزا نہیں ۔لوگ اعلانیہ نماز نہ پڑھیں ، روزے نہ رکھیں ، زکوٰۃ نہ دیں ، حق العباد کا لحاظ نہ رکھیں کوئی سزا نہیں ، لوگ قرآن و حدیث کے احکامات کے خلاف چلیں ، ان کا مذاق اڑائیں ، دین کی پرکھیاں بکھیریں تو وہ مجرم نہیں ملک کے معزز شہری ہیں مگر جب کسی حکمران، عدالتی حکم یا آئین و دستور کو رد کریں تو مجرم ہیں گویا ہمارے ملکی قوانین اور دستور قرآن سے بالا ہوئے نا؟ خود ساختہ قوانین اور دستور کو جھٹلانے پر بڑے بڑے ادارے حرکت میں آ جاتے ہیں مگر قرآن کو جھٹلانے پر کسی کے کان میں جوں تک نہیں رینگتی۔ سرکاری اداروں میں منتخب ہونے کے لئے پبلک سروس کمیشن، این ٹی ایس ٹیسٹ اور کیا کچھ نہیں ہوتا، مگر اللہ کے دین کے ستونوں ، محور و مرکز مساجد میں اندھے بہرے لولے لنگڑے بھی چل رہے ہیں ، جنہیں احکامات دینیہ سے کوئی فہم وادارک ہی نہیں وہ بھی مصلہ امامت پر براجمند ہیں ۔ یہ عزت ہے دین کی ہمارے معاشرہ میں ، یہ قدر ہے قرآن کی ہمارے سماج میں ۔ ہم اللہ کے دین کی اتنی بے قدری کرکے اس سے کیا امید رکھتے ہیں کہ وہ ہماری قدر کرے گا؟ قوموں کی صفوں میں ہماری شان بڑھائے گا اور دنیا میں سربلندی و وقار عطا کرے گا؟

آج ہماری دعاؤں میں قبولیت کیوں نہیں ؟ ہماری دعاؤں میں اثر کیوں نہیں ؟ ہماری فریادیں کیوں نہیں سنی جاتیں اس کی بارگاہ میں ؟ اس لئے کہ ہم نے اس کے دین کو پیچھے کیا اس نے ہمیں پیچھے کر دیا، ہم نے اس کے دین سے منہ موڑا اس نے ہم سے منہ موڑ لیا۔ ہم نے اس کے دین کو چھوڑا اس نے ہمیں چھوڑ دیا،ہم اس کے دین کی باتیں سن کر عمل کرنے کو تیار نہیں وہ ہماری صدائیں سن کر قبول کرنے کو تیار نہیں ۔ آج کوئی دین و ملت کی خبر لینے والا نہیں رہا کہ وہ دن بدن کیوں پستیوں کی طرف جا رہی؟ اس کی سب سے زیادہ ذمہ دار اور عدالت خداوندی میں جوابدہ حکومت، حکمران و سیاستدان طبقہ ہے جنہوں نے مغرب کی مکاری لبرل اور سیکولر نظریات کو اپناتے ہوئے دین کی نجکاری کی اور اس کی مہار بندے بندے کے ہاتھوں میں دے دی۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا کیا ، حکیم الامت حضرت اقبال ؒ کی زبان ترجمان سے عرض کرتا ہوں ۔

تنگ بر ما راہ گذارِ دیں شدے
ہر لعینِ راز دارِ دیں شدے

کیا آج ہمارا معاشرہ یہ منظر پیش نہیں کر رہا کہ ہر لعین، ہر کمینہ سے کمینہ شخص، ہر کم ظرف و ضمیر فروش انسان دین کا راز دار اور ٹھیکیدار بن کے بیٹھ گیا ہے؟ دین کی نجکاری سے، دین کو ریاستی امور و حکومت سے الگ کرنے سے فرقے بڑھے، مسالک بڑھے،معاشرہ میں تعصب اور نفرتیں بڑھیں ، عداوتیں پھلی پھولیں ، معاشرہ میں بگاڑ پیدا ہوا، ابلیسی و دجالی قوتوں نے راہ پائی اور معاشرہ کے سر پر سوار ہو کر بیٹھ گئیں ۔ آج ہر مسلک ، ہر فرقہ، ہرگروہ خود کو سچا اور دوسروں کو کافرو مشرک گردانتا ہے۔ آج امت گروہ در گروہ، فرقہ در فرقہ ، مسلک در مسلک تقسیم کے عمل سے گذر رہی ہے۔آج ملت کا ہر شخص اسلام نہیں بلکہ صرف اپنے اپنے عقیدہ و مسلک کا جھنڈا لے کر دنیا پر پانپنے کی کوشش کر رہا ہے، اور ہمارا ملت اسلامیہ کا حکمران طبقہ بھی دین و ملت کو چھوڑ کر وطن پرستی کو بنیاد بنا کروطن کو خدا بنا کے بیٹھا ہے کہ جو کرنا ہے وطن کیلئے کرنا ہے ملت کیلئے نہیں ، ملت ڈوبتی ہے تو ڈوبے، دین جاتا ہے تو جائے کوئی پرواہ نہیں مگر ملک میں ان کی حکمرانی قائم و دائم رہنی چاہیے اس پر کوئی آنچ نہ آئے۔

قرآن مجید نے قوموں کے عروج و زوال کی جو تاریخ بیان کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قومیں جب بھی دین سے دور اور آخرت کے محاسبہ سے بے نیاز ہوتی ہیں یا ان کا یہ تصور ناقص ہوتا ہے اور ان میں اخلاقی ناسور سرایت کر گئے ہیں تو اگر قوم میں اصلاح احوال کا جذبہ پیدا نہیں ہوا تو وہ ہمیشہ برباد ہوجاتی ہے۔ اس کی تباہی و بربادی میں اس سوال کو کبھی کوئی اہمیت نہیں رہی کہ ان کے گمراہی، ضلالت، فسق و فجور ،فساد، فتنہ و بدخلقی کی نوعیت کیا ہے، بلکہ ہر برا عمل، خواہ اس کی نوعیت حقیر سے حقیر تر کیوں نہ ہو، اور سائز میں ذرہ سے بھی چھوٹی ہو جب بھی وہ کسی معاشرہ کا اجتماعی کردار بن جاتی ہے تو سمجھ لیں کہ اس کی تباہی بربادی کا سماں بن گیاہے ۔ اب وہ فطرت ، قانونِ قدرت کے رحم و کرم پر ہے چاہے تو اسے قائم رکھے، چاہے تو ڈبو دے۔ معاشرہ کے اندر جب فساد راہ پا جاتا ہے تو اس کا ظہور نہ تو کسی ایک ہی شکل میں ہوتا ہے اور نہ کسی ایک ہی طبقہ تک محدود رہتا ہے۔ بلکہ ہر شعبہ زندگی اور قوم کا ہر طبقہ اس سے متاثر ہوتا ہے۔ قوم کے سنجیدہ عناصر جب اصلاح احوال کے لیے فکر مند نہیں ہوتے ، وہ معاشرہ اگر اصلاح کی طرف نہیں آتا تو قہر خداوند ی اس کا منتظر ہے جو کسی بھی وقت اس پر برس سکتا ہے۔ اس قہر اور غضب خداوند ی کے چھوٹے چھوٹے جھٹکے اور پیغام آئے بھی مگر ہم نے ان پر کان نہیں دھرے ، اس سے عبرت حاصل نہیں کی۔ جب اصلاح کار کی کوئی گنجائش نہ رہے تو پھر قہر خداوندی کا کوڑا برس کر ہی رہتا ہے۔ یہ کوڑا کئی بار ہم پر ہماری بد اعمالی اور غفلت کے سبب برس بھی چکا ہے زلزلوں ، قدرتی آفتوں ، یزید پلید، تاتاریوں ، منگولوں ، چنگیزیوں ، ہلاکیوں کی صورت میں مگر ہم نے اس سے سبق نہیں سیکھا۔

قرآن مجید کے اس فلسفہ کی رو سے قوم کے اصلاح کار کے لیے یہ ضروری ہے کہ معاشرہ کے اندر خدا کا خوف اور اس کے ساتھ صحیح بنیادوں پرتعلق پایا جائے۔ دلوں میں آخرت کے محاسبہ کا اندیشہ موجود ہو اور کسی بھی قسم کے فساد اعمال کو معاشرہ پر مسلط ہونے کا موقع نہ دیا جائے۔ یہ مقصد ظاہر ہے کہ صرف اس صورت میں حاصل ہو سکتا ہے جب قوم کے اندر اصلاح معاشرہ کے لیے ایک مسلسل جدوجہد کی جاتی رہے۔ اور کسی بھی برائی و فساد کے معاملے میں چشم پوشی سے کام لے کر اسے قوم کے اجتماعی وجود میں راہ پانے کا موقع نہ دیا جائے۔

اگر آج ہم اپنے معاشرہ کا مشاہدہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کتنی ہی خرافات ، برائیاں اور بد اخلاقیاں ہیں جو پوری طرح معاشرہ کے رگ رگ میں رچی بسی ہوئی ہیں ۔ اللہ و رسول ﷺ کو بھول کر فضولیات میں وقت ضائع کرنا قوم کا شیوہ بن چکا ہے۔آج ہماری قوم کے قلوب و اذہان کو اللہ و رسول ﷺ کے ذکر سے نہیں باطل خرافات اور شیطانوں کی محافل سے سکون ملتا ہے۔ بت بینی، ڈرامہ و فلم سازی، موسیقی کی دھنیں پر مست ہونا، ناچ راگ، فضول اور بیہودہ گفتار قوم میں پوری سراعت کر چکی ہے ۔ اصلاح معاشرہ کی طرف کوئی سوچ، کوئی قدم اٹھتے نظر نہیں آتے نہ انفرادی نہ اجتماعی۔ ان احوال میں امت پر خدا کا غضب اور قہر نازل نہیں ہونا تو کیا ہونا ہے؟
دانائے راز، ترجمان حقیقت حضرت اقبال رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔ ’’ راستہ اگر خوبصورت ہوتو اس پر چلنے سے پہلے پتہ کروکہ کس منزل کو جاتا ہے لیکن اگر منزل خوبصورت ہو تو راستے کی پروا مت کرو کہ وہ کتنا کٹھن اور خطرناک ہے۔‘‘

ہماری منزل بہت خوبصورت و عظیم ہے مگر ہم اس کی طرف جانے والے مسافر نہیں لگتے۔ یہ دنیا مکافات عمل ہے، یہاں ہر شخص کو اپنے کیے کا حساب دینا ہے، ہر جھوٹ ، ہر دھوکے، ہر فریب ، ہر تکلیف، ہر اذیت کا جو وہ کسی کو دیتا ہے، اسے اپنی ذات پہ بھگتنا ہے۔ اگر کوئی زانی ہے تو یہ عمل اس کے گھر بھی لوٹ کر آئے گا، ہر غلط ارادے ، سوچ، عمل ، غفلت و گمراہی ، ضلالت و فسق و فجور کا حساب دینا ہے۔ اور جو اذیت ہم رسول اللہ ﷺ کو دے رہے ان کے طریق پر نہ چل کے اور آپ ﷺ کی امت کی پروا نہ کر کے ، اس کا تو حساب اتنا کٹھن ہونا ہے اور اتنا سخت کوڑا برسنا ہے جس کا شائد ہمیں اندازہ ہی نہ ہو۔یقیناًہمارا انجام بھی اچھا نہیں ہوگا۔ دنیا میں ذلت و رسوائی، خواری و ناداری ہم پر مسلط ہو چکی ہے ۔ ہمارے اسلامی ملک ایک ایک کر کے دجالی قوتوں کے تسلط میں جارہے ہیں ، افغانستان، عراق، شام، لیبیا کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں ۔ہم مسلمان بحیثیت مجموعی بربادی کی طرف جا رہے ہیں ۔

تبصرے بند ہیں۔