یومِ عرفہ: تکمیلِ دین اور اتمامِ نعمت کا دن

خبیب کاظمی

اللہ تعالیٰ کے بیشمار انعامات و احسانات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے اپنی رضا اور خوشنودی والی زندگی گذارنے اور زیادہ سے زیادہ اس کا قرب  حاصل کرنے کےلیے کچھ خاص ایام و اوقات مقرر فرمادئیے ہیں جن میں اللہ کی رحمت و توجہ اپنے پندوں پر  زیادہ ہوتی ہے ۔ بہ نسبت دوسرے دنوں کے ان ایام ِ خاص میں نیک اعمال کر کے ایک مومن کئی گنا  اجر پاسکتا ہے۔ان ایام سے فائدہ وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جو ان قیمتی اوقات کی قدر  سمجھتے ہیں ۔

ان قیمتی ایام اور مبارک لمحات میں ذی الحجہ کا پہلاعشرہ بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ قرآن وسنت میں ان دس دنوں کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ ہمارے اسلاف  تین عشروں کو بہت عظیم سمجھتے تھے۔ رمضان المبارک کا آخری عشرہ، ذی الحجہ کا پہلا عشرہ  اور ماہِ محرم کا پہلا عشرہ۔ ان عشروں میں وہ بڑی کثرت سے اللہ کی عبادت اور نیکی کے کام کیا کرتے تھے۔اس عشرہ کی فضیلت  و اہمیت کئی لحاظ سے  ہمارے سامنے واضح ہوتی ہے۔

  1. اللہ تعالیٰ نے ان دس  دنوں کی قسم کھائی ہے۔ اللہ  کی ذات  خود عظیم ہے اگر اس نے کسی چیز کی قسم کھائی ہے تو یقینا   وہ چیز بھی غیر معمولی طور پر عظیم  ہوگی۔ارشادِ ربانی ہے: "وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ” ’’قسم ہے فجر کی‘ اور دس راتوں کی۔‘‘  (الفجر)

امام ابن کثیرؒ سمیت مفسرین  کی بڑی  تعداد "لیال عشر ” سے مراد  ذو الحجہ کی یہی پہلی دس راتیں  مانتے ہیں ہیں ۔

  1. سورہ حج میں جن (ایام معلومات)  چند دنوں کا ذکر ہے  اور جن میں اللہ کا  ذکر کثرت سے کرنے کا حکم ہے، جمہور اہلِ علم کے نزدیک یہی دس ایام ہیں ۔ "وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِیْ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَھمْ مِّنْم بھیْمَة الْاَنْعَامِ” اور چند مقرر دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انھیں بخشے ہیں  (الحج:28)  حضرات عبداللہ  ابن عمر اور عبد اللہ ابن عباس، ابراھیم نخعی قتادہ اور متعدد دوسرے صحابہ و تابعین "ایام معلومات” سے مراد انھیں دس دنوں کو مانتے تھے ۔ امام ابو حنیفہؒ     کی بھی یہی رائے ہے۔ امام شافعیؒ  اور امام احمدؒ   کا بھی ایک قول  اسی کی تائید میں  ہے۔(تفہیم القرآن)
  2. حدیث ِ نبوی سے  بھی اس عشرہ کی فضیلت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ارشاد گرامی ہے: ’’دنیا کے افضل ترین دن ایام العشر (یعنی ذوالحجہ کے دس دن) ہیں ۔ دریافت کیا گیا کہ کیا جہاد فی سبیل اللہ کے ایام بھی ان کے برابر نہیں ؟ فرمایا:’’ نہیں جہاد فی سبیل اللہ میں بھی ان کی طرح نہیں، سوائے اس شخص کے جو جنگ میں کام آجائے اور شہید ہوجائے۔ ما العمل في أيام أفضل منها في هذه، قالوا: ولا الجهاد؟ قال: ولا الجهاد إلا رجل خرج يخاطر بنفسه وماله ولم يرجع بشيء (البخاري)

یوم عرفہ تکمیل دین کا مرحلہ

ان  دس دنوں  میں ایک "یومِ عرفہ” ہے جسے حج کا رکن اعظم بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ دن انتہائی شرف و فضیلت  والا دن ہے، اس کا اندازہ آپ اللہ کے رسولﷺ کے اس قول سے لگا سکتے ہیں کہ” اگر عشرۂ  ذی الحجہ میں سوائے یومِ عرفہ کے اور کوئی قابل ذکر یا اہم شے نہ بھی ہوتی تو یہی دن اس کی فضیلت کے لیے کافی تھا۔  اِس کو  گناہوں کی بخشش اور دوزخ سے آزادی کا دن  کہا گیا ہے۔اس سلسلے میں کئی احادیث مروی ہیں ۔ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: (مَا مِنْ یَوْمٍ اَکْثَرَ مِنْ اَنْ یُعْتِقَ اللّٰہُ فِیْہِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ مِنْ یَوْمٍ عَرَفَۃَ) اللہ تعالیٰ جس قدر عرفہ کے دن لوگوں کو آگ سے آزاد فرماتا ہے اس سے زیادہ کسی اور دن آزاد نہیں کرتا۔(مسلم ) ایک اور موقع پر  اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ’’شیطان یومِ عرفہ کے علاوہ کسی اور دن  اپنے آپ کو اتنا چھوٹا ‘ حقیر‘  ذلیل  اور غضبناک محسوس نہیں کرتا جتنا اس دن کرتا ہے۔ یہ محض اس لیے ہے کہ اس دن  وہ اللہ کی رحمت کے نزول اور انسانوں کے گناہوں سے صرفِ نظر کا مشاہدہ کرتا ہے۔ البتہ بدر کے دن شیطان نے اس سے بھی بڑی شے دیکھی تھی‘‘ عرض کیا گیا یارسول اللہﷺ  یومِ بدر اس نے کیا دیکھا؟ فرمایا: ’’جبرئیل کو دیکھا    جو فرشتوں کی صفوں کو ترتیب دے رہے تھے‘‘۔ (امام مالکؒ)

دین اسلام کی تکمیل  :  صحیحین میں عمربن خطاب سے حدیث مروی ہے  ایک یہودی نے عمربن خطاب سے کہا  ائے   امیر المومنین آپ ایک آيت قرآن مجید میں پڑھتے ہیں  اگروہ آيت ہم یہودیوں پرنازل ہوتی توہم اس دن کو عید کا دن بنالیتے۔ عمررضی اللہ عنہ پوچھا وہ کون سی آیت ہے ؟ اس نے کہا : (اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا) آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کوکامل کردیا اورتم پراپناانعام بھر پور کردیا اورتمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پررضامند ہوگیا ۔(المائدة) عمر نے فرمایا ہمیں اس دن  کا بھی اورجگہ کا بھی علم ہے، جب یہ آيت نبی اکرم  ﷺ پرنازل ہوئی وہ  جمعہ کا دن تھا اورنبی ﷺ عرفہ میں تھے ۔

سورہ بروج میں جس یوم مشہود (حاضر ہونے والے اور حاضر کیے گئے) کی قسم اللہ نے کھائی ہے وہ عرفہ کا دن ہے۔ (ترمذی/ابوھریرہ) اوریہی دن الوتر بھی ہے جس کی اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں قسم کھائی ہے ( والشفع والوتر ) (اورجفت اورطاق کی قسم) (الفجر) ابن عباس  کہتے ہیں الشفع عیدالاضحیٰ اورالوتر یوم عرفہ ہے۔ عکرمہ اورضحاک رحمہ اللہ تعالی کا قول بھی یہی ہے۔(ابن کثیر)۔ یہ عرفہ کا ہی دن ہے جس میں اللہ تعالی نے اولاد آدم سے عہدِ  میثاق لیاتھا جس کی تفصیل سورۃ الاعراف ،  172-173 میں ہے اور جسے عہد ِ الست بھی کہا جاتا ہے ( احمدؒ /ابن عباس)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  اللہ تعالی یوم عرفہ سے زیادہ کسی اوردن میں اپنے بندوں کوآگ سے آزادی نہیں دیتا، اور  اللہ تعالٰی ان کے قریب ہوتا اورپھرفرشتوں کےسامنے ان سے فخرکرکے فرماتا ہے  یہ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟ عبداللہ بن عمر  فرماتے  ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ یوم عرفہ کی شام میدان عرفات میں وقوف کرنے والوں پر فخرکرتے ہوئے فرشتوں سے کہتا ہے "میرے ان بندوں کودیکھو میرے پاس گردوغبار سے اٹے ہوئے آئے ہیں ” اِس دن میدان عرفات میں وقوف کرنےوالوں کوگناہوں کی بخشش اور آگ سے آزادی  کا پروانہ ملتا ہے۔

عرفہ کا روزہ  :  نبئ   مکرمﷺ نے ذی الحجہ کے عشرہٴ اول  میں سے 9 ذی الحجہ (یومِ عرفہ) کے روزے کا بطورِ خاص ذکر کیا ہے حدیث میں اس کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ارشادِ نبویؐ ہے: (صیام یوم عرفة احتسب علی اللہ ان یکفر السنة التی قبلہ والسنة التی بعدہ ) (مسلم-الصوم) ’’یومِ عرفہ کے روزے کے بارے میں مجھے اللہ  سے امید ہے کہ یہ ایک سال پہلے کے اور ایک آئندہ آنے والے سال کے گناہوں کا کفارہ ہوگا۔‘‘ گناہوں کے کفارہ سے  مراد  گناہ صغیرہ ہیں نہ کہ کبیرہ۔صغیرہ گناہوں کا کفارہ مشروط ہے ترک کبائر کے ساتھ (إن تجتنبوا كبائر ما تنهون عنه نكفر عنكم سيئاتكم ” النساء)۔البتہ حاجیوں کے لیے   یہ روزہ مستحب نہیں ہے  ابو ھریرۃ   روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے  عرفات میں مقیم   حاجیوں  کےلیے روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے "نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  عن صوم یوم عرفۃ بعرفۃ” (احمد، ابن ماجہ)

محترم قارئین  جو اوقات و لمحات خصوصی اہمیت و فضیلت کے حامل ہوں ان کے شایانِ شان اہتمام سے ان کا استقبال بھی  کرنا چاہیے۔ ان ایام میں کثرت سے تکبیر، تحمید، تہلیل اور ذکر  الٰہی  مسنون و پسندیدہ عمل ہے، زیادہ سے زیادہ ان ایام میں نیکی اور تقویٰ کے کام کرنے کو کوشش کرنی چاہیے :”واللذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا” اور جن لوگوں نے ہمارے لیے کوشش کی ہم ان کو ضرور اپنے (قرب کے) راستے دکھلائیں گے  (العنکبوت)

باری تعالیٰ ہمیں ان مبارک لمحات سے بھرپور استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری جملہ عبادات کو شرفِ قبولیت سے نواز کر ذریعۂ نجات بنائے۔آمین!

وصلی اللّٰہ علی سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا

تبصرے بند ہیں۔