دجالی طاقتوں کا نیا ہتھیار، ہارپ ٹیکنالوجی (آخری قسط)

احیدحسن

ہارپ ایک مرتکز اور فوکس شدہ برقی مقناطیسی (الیکٹرومیگنیٹک)شعاع کے ذریعے کرۂ فضائی کے آئنو سفئیر (زمین کے گرد موجود آئنوں کا ایک کرۂ) کو گرم کر دیتی ہے۔

ہارپ کا نظام ریڈیو ٹیلی سکوپ کے برعکس کام کرتا ہے۔ یہ سگنل وصول کرنے کی بجائے سگنل بھیجتا ہے۔ انتہائی طاقتور شعاعیں آئنو سفیئر کے ایک خاص حصے کو (جس ملک کے حصے کی طرف شعاعیں بھیجی جائیں) گرم کر دیتی ہیں۔ پھر یہ شعاعیں زمین پر واپس لوٹتی ہیں اور زندہ مردہ ہر چیز میں سرایت کر جاتی ہیں۔

ہارپ کامقصد یہ ہے کہ کس طرح آئنو سفیئر کو دفاعی مقاصد کے لیے تبدیل کیا جا سکے۔ 1990 ء کے ایک حکومتی مقالے کے مطابق ہارپ کی ریڈیو فریکونسی(آرایف) پاور آئنو سفئیر میں غیر فطری سرگرمیاں لا سکتی ہے۔

ٹیکساس کے ایک ماہر فزکس برنارڈ السیٹلنڈ کے ایک بیان سے واضح ہوتا ہے کہ کس طرح امریکہ ہارپ کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔ یہ حکومتی تردیدوں کو بھی جھوٹ ثابت کر تا ہے کہ ہارپ ایک پرا من تحقیقی پروگرام ہے۔ فوج کے مطابق

1۔ ہارپ کو ایک جدید ریڈار سسٹم کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

2۔ یہ زمین کے ایک وسیع حصے کی مواصلات کو جام کر دے گی۔ جبکہ فوجی مواصلات ٹھیک رہیں گی۔

3۔ اس کو تیل، گیس اور معدنیات کی تلاش کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

4۔ اسے طیاروں اور کروز مزائلوں کی شناخت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

تا ہم سائنسدانوں کے مطابق آئنو سفئیر میں اس کا استعمال تباہ کن ثابت ہو گا۔ الاسکا کے دوباشندوں نے اس کا واضح اظہار کیا۔ نو ہارپ تحریک کے بانی کلئیر زکہر کے مطابق فوج آئنو سفیئر کو ٹھڈے مار کر نتائج دیکھ رہی ہے۔ ہارپ آسمان میں کیا جانے والا ایک تجربہ ہے۔

ہارپ کی تاریخ

آر کو پاور ٹیکنالو جیز ان کارپورٹیڈ(اے پی ٹی آئی) نے ہارپ کی تعمیر کا ٹھیکہ لیا۔ جون1994ء میں آرکو نے اے پی ٹی آئی کو ای سسٹمز کے ہاتھ بیچ دیا جو دنیا کی سب سے بڑی ٹھیکے دار کمپینوں میں سے ایک ہے جو سی آئی اے اور دیگر دفاعی تنظموں کے لیے کام کر رہی ہے۔ اس کی800 ملین ڈالرکی فروخت خفیہ مقاصد کے لیے انہی تنظیموں کو کی جاتی ہے۔ جو اتنے خفیہ ہوتے ہیں کہ ان کے متعلق امریکی کانگریس کو بھی نہیں بتایا جاتا۔

السٹینڈ کے نظام میں ریڈیو فریکونسی کو مرتکز کر کے آئنو سفیئر کے ایک خاص حصے پر فوکس کیا جاتاہے۔ یہ آئنو سفئیر میں زبردست توانائی منتقل کرتا ہے۔اس سے ایک کیوبک سنٹی میٹر میں ایک واٹ توانائی کو مرتکز کیا جا سکتا ہے۔ توانائی کا یہ فرق آئنو سفئیر کے اندر حیران کن تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔ 1900 ء میں نکولا ٹیسلا کے کام نے اس تحقیق کی بنیاد ڈالی۔ا س کے ذریعے آرکو تاروں کے بغیر صارف تک توانائی منتقل کر سکتی ہے۔ ہارپ سے متعلقہ افراد کے مطابق یہ ٹیکنالوجی میزائلوں اور طیاروں کو بھٹکا سکتی ہے۔ زمین کے وسیع علاقوں کو برقی مقناطیسی شعاعوں کی لپیٹ میں دے سکتی ہے۔اور ہوایا خشکی کے بڑے حصے میں مواصلات کو جام کر سکتی ہے۔ آئنو سفئیر کے اوپر اٹھنے سے دشمن کے میزائلوں کو غیر معمولی مزاحمتی قوتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور وہ فضا میں ہی تباہ ہو جائیں گے۔

آئنو سفئیر کے گرم ہونے سے ہواؤں کا نظام تبدیل ہو گا جس سے ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں۔ اس سے کسی علاقے کے کرہ ہوائی کی سالمیاتی ترکیب (مالیکیولر کمپوزیشن ) کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ایک خاص مالیکیول مثلاً پانی کے مالیکیول کو زیادہ کیا جا سکتا ہے۔ جس سے وہان بارش ہو گی۔ تیز اور مسلسل بارش سے سیلاب بھی لایا جا سکتا ہے۔

انسانی ذہن کو جام کر دینے کے لیے ہارپ کا استعمال

امریکی ائیر فورس کی فائلوں نے بیگک اور میننگ کے مطابق انکشاف کیاکہ ہارپ کے ذریعے ریڈیو فریکونسی شعاعوں کے استعمال سے زمین کے کسی وسیع علاقے کے لوگوں کے دماغی افعال کو جام کرنے کا نظام بنایا جا چکا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے متعلق بیشتر علم زبیگینو برز یز نسکی کے کالموں سے ہوا جو سابقہ امریکی صدر جمی کارٹر کا نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر رہ چکا ہے۔ جان ایف میکڈونلڈ نے بھی، جو سابقہ امریکی صدر جانسن کا سائنسی مشیر اور جیو فزکس کا پروفیسر رہ چکا ہے، اس کے متعلق بہت کچھ لکھا ہے۔ ان تفصیلوں نے واضح کیا کہ ایسا کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ انٹرنیشنل ریڈکراس جینوا کے بعض صفحات نے تو اس فریکونسی کی حد تک بھی لکھی جس پر انسانی ذہین پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ درج ذیل جملے برزیزنسکی کی 25 سال پہلے کی ایک کتاب سے لیے گئے ہیں۔ جبکہ وہ کولمبیا یونیورسٹی میں پروفیسر تھا،

” سیاسی منصوبہ ساز انسانی دماغ اور طرزِ عمل پر تحقیق کرنا چاہتے ہیں۔ جیو فزکس اور جنگی حکمت عملیوں کے ماہر گورڈن جے ایف میکڈونلڈ کہتا ہے کہ مصنوعی طور پر پیدا کیے گیے برقی جھٹکے (الیکڑک سٹروک) ایسے ارتعاشات پیدا کر سکتے ہیں جو زمین کے کسی خاص حصے پر کیے جا سکتے ہیں۔ اس سے ایک ایس انظام بنایا جا سکتا ہے جس سےزمین کے کسی خاص حصے کی آبادی کے دماغ کو افعال کو بہت بری طرح سے لمبے عرصے کے لیے متاثر کیا جا سکتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کا استعمال کتنا ہی تشویشنا ک کیوں نہ ہو، یہ اگلے چند عرصوں میں پیدا ہو جائے گی”

کتاب 1970 Don’t play this HAARP ء میں کی گئی برزیز نسکی کی پیش گوئیوں کے یہ حوالے دیتی ہے۔
” دنیا کا یہ اعلیٰ طبقہ عوامی طرزِ عمل کو متاثر کرنے اور انہیں مکمل کنٹرول میں رکھنے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال سے نہیں ہچکچائے گا۔”

اس کی پیشن گوئیاں درست ثابت ہوئیں۔ آج اس مقصد کے لیے کئی ذرائع اختیار کیے جا رہے ہیں۔ امریکی ائیر فورس کے مطابق "اس سے دہشت گردوں، عوام اور مخالفین کو دبانے میں آسانی رہے گی۔ اس سے کسی آدمی کے کام کرنے کی صلاحیت اس قدر متاثر ہو گی کہ وہ خود غیر موثر صورتحال میں چلا جائے گا۔ اس ٹیکنالوجی کا علاج مشکل ہے اور اسے خفیہ طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔”

امریکی حکومتی ریکارڈ کے مطابق آئنو سفئیر سے واپس آنے والی ہارپ کی شعاعیں زمین میں کئی کلو میٹر تک سرایت کر سکتی ہیں اور اس سے زیر زمین سرنگوں اور اسلحے وغیرہ کا پتہ چلایا جا سکتا ہے۔1996 ء میں صرف اسی ایک مقصد کے لیے امریکی سینٹ نے پندرہ ملین ڈالر مختص کیے جسے ارتھ ٹوموگرافی بائی ہارپ کہتے ہیں۔ لیکن اس مقصد کے لیے استعمال ہونے والی فریکونسی وہ فریکونسی ہے۔ جو انسانی طرز عمل اور جنگلی اور آبی حیات مثلاً مچھلیوں کے دماغی افعال اور حرکات کو زبردست متاثر کرتی ہے۔

بیگک اور میننگ وہ حکومتی تفصیلات منظر عام پر لائے ہیں جس کے مطابق امریکی فوج کے پاس موسم کنٹرول کرنے کی ٹیکنالوجی موجود ہے۔ ہارپ زمیں کے ایک مکمل نصف کرے کے موسم کو متاثر کر سکتی ہے لیکن ایک جگہ کیے گئے تجربات پوری زمین کے موسم کو متاثر کر سکتے ہیں۔ کتاب Angles Donet play this HAARP میں آزاد سائنسدانوں مثلاً الزبتھ راشر سے کیے گئے انٹرویوز میں بھی ہی بات سامنے آئی ہے۔

ہارپ کے ماحول پر منفی اثرات

شمالی کیرولنا کے ماہر فزکس ڈینیل ونڑ کے مطابق ” ہارپ کی ہائی فریکونسی کی شعاعیں زمین کی قدرتی بہت کم فریکونسی والی موجوں کے ساتھ ( جو ارتعاشات کے طور پر معلومات کے لیے استعمال ہوتی ہیں) تعامل کر کے غیر متوقع اور غیر معمولی مضر اثرات کا باعث بن سکتی ہے۔ "

نیو یارک کے ڈیوڈ پیروکے مطابق

” زمین آئنوں کے ایک کرے (آئنو سفیئر ) کے لحاظ سے اپنے محور کے گرد گھوم رہی ہے جو سورج سے آنے والے چارج شدہ ذرات کو جذب کرتا ہے۔ ہارپ کی کئی گیگا واٹ کی شعاعیں میں ایک مائیکرو ویو چاقو کی طرح آئنو سفئیر کو کاٹ دیں گی جس سے یہ مفید تہہ سوراخوں اور کٹاؤ کا شکار ہو جائے گی”

ہارپ زمین کے مقناطیسی میدان کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ کنساس شہر کے پال شیفر کے مطابق (جو الیکٹریکل انجینئر ہے اور جس نے چار سال نیو کلیائی ہتھیاروں کو بنانے میں لگائے ہیں) موجودہ صنعتی اور ایٹمی دور پہلے ہی زمین کو غیر متوازن صورت کا شکار کر چکا ہے۔ فضا کے اندر موجود زیادہ توانائی والے ذرات کی غیرفطری حرکت موسمیاتی تبدیلیوں کی ذمہ دار ہے (ہارپ ان تبدیلیوں میں تیزی لا سکتی ہے)۔ زمین اپنی حرارت خارج کر رہی ہے اور زلزلوں اور آتش فشانی کے عمل سے دوبارہ توازن حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

زمین کا بخار (گلوبل وارمنگ)

شیفر کے مطابق

” آپ زمین کی غیر معمولی توانائی کی کیفیت کا موازنہ ایک کار کی بیٹری سے کر سکتے ہیں جو توانائی کا نارمل بہاؤ جا م ہونے سے انتہائی گرم ہو چکی ہے جس سے گرم ماحول، برقیاتی تبدیلیاں اور طبعی اثرات رونما ہورہے ہیں کیونکہ قید توانائی باہر نکلنے کی راستہ ڈھونڈ رہی ہے۔”

اگر ہم زمین کی موت نہیں چاہتے تو ہمیں غیر قیام پذیر ذرات (مثلاً ہارپ) کے استعمال کو ترک کر دینا چاہیے او رتمام ایٹمی تجربات اور سٹار وارز کے پلانٹوں کو بند کر دینا چاہیے۔”

اب جبکہ شیفر یہ کہ رہے ہیں، امریکی فوج اور حکومت جان بوجھ کر زمین کی پلازمہ تہہ کو مزید غیر متوازن صورت کا شکار کر رہی ہے جسے آئنو سفیئر کہا جاتا ہے۔

آسمان سے برقی بارش

سٹینفو رڈ یونیورسٹی کے دو سائنسدانوں نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ کم فریکونسی والی یہ موجیں زمین کے مقناطیسی میدان کو مرتعش کر سکتی ہیں جس سے زیادہ توانائی والے ذرات زمین کی فضا میں داخل ہو جاتے ہیں۔ پھر یہ مزید آئن پیدا کرتے ہیں اور ایکس رے شعاعیں خارج کرتے ہیں۔ ہارپ کے افسران سگنل آن اور آف کر کے کسی بھی علاقے کی فضا کواس صورتحال کانشانہ بنا سکتے ہیں۔

زمین کے گرد موجود ریڈیائی بیلٹ (وان ایلن بیلٹ) میں سگنل بھیج کر وہ موسم کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ امریکی دفاع نے اس میدان میں تحقیق کے لیے تیس سال لگائے مثلاً بارش برسانے کی ٹیکنالوجی کو آزمانے کے لیے و یتنام لے جایا گیا۔ امریکی شعبہ دفاع نے طوخانوں اور آسمانی بجلی کو استعمال کرنے کے لیے پروجیکٹ سکائی فائر اور پروجیکٹ سٹارم فیوری کو استعمال کیا۔ کتابDon’t play this HAARP ایک ماہر کے حوالے سے لکھتی ہے کہ فوج نے دشمن کے علاقے کے اوپر اوزون کی تہہ کو تباہ کے لیے لیزر او رکیمیکلوں کے استعمال پر بھی تحقیق کی۔

زلزلے لانے اور ان کی شناخت کے لیے پروجیکٹ پرائم آرگس بنایا گیا۔ اس کے لیے ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹ ایجنسی (ڈی اے آر پی اے) نے رقم فراہم کی۔ 1994 ء میں فورس نے انکشاف کیا کہ ان کے 2020 ء تک کے خلائی منصوبے میں موسم کا کنٹرول بھی شامل ہے۔

موسم کا کنٹرول

1958 ء میں موسمیاتی تبدیلیاں لانے کے چیف وائٹ ہاؤس ایڈوائزر کیپٹن ہاورڈ نے کہا کہ امریکی شعبہ دفاع فلکیاتی اور زمینی چار جوں کے استعمال سے موسم کو تبدیل کرنے پر تحقیق کر رہا ہے۔ ایسا الیکٹرانک شعاعوں کے ذریعے کسی علاقے کی فضاء کو آیؤ نائز کر کے کیا جائے گا۔

1966 ء میں گورڈن ایف میکڈونلڈ یو نیورسٹی آف کیلیفورنیا میں جیو فزکس کا ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر تھا۔ اس نے دفاعی مقاصد کے لیے موسمیاتی تبدیلیاں لانے پر کئی مقالے شائع کیے۔ How to wreck environment میں اس نے موسم کے استعمال، آب و ہوا کو تبدیل کرنے، قطبین کے گلیشئرز کو پگھلانے اور اوزون تہہ کو تباہ کرنے، زلزلوں کی انجیئرنگ، سمندری موجوں کے کنٹرول کی ٹیکنالوجی کو بیان کیا۔ اس نے بیان کیا کہ کس طرح یہ آلات بنائے جا سکتے ہیں اور کسطرح انہیں دشمن کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ان باتوں کے منظرِ عام پر آنے سے عوام حیران رہ گئے کیونکہ سرکردہ سائنسدان موسم کو صرف ہوا کے دباؤ یا حرارت کا نہیں بلکہ ایک برقی نظام بھی سمجھتے ہیں جو ہارپ کے استعمال سے تبدیل ہو سکتا ہے۔

اگر آئنو سفئیر کو ہارپ کے ذریعے متاثر کر دیا تو اس کے نیچے کی فضا خود بخود متاثر ہوتی ہے۔ انسان کے لائے ہوئے برقی اثرات زمین کے ریڈیائی یا وان ایلن بلٹ سے چارج شدہ ذرات کو باہر نکال دیتے ہیں اور یہ گرتے ہوئے آئن فضاء میں موجود آبی بخارات سے بر ف کا باعث بنتے ہیں جو پھر بارش کے بادلوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ہارپ کا ایک معمولی سگنل بارش اور سیلاب جیسے بڑے واقعات کا سبب بنتا ہے۔

ہارپ، موسمیاتی تبدیلیاں لانے کے لیے استعمال کیا جانے والا خفیہ ہتھیار، برقی مقناطیسی (الیکٹرومیگنیٹک ) شعاعوں کے جنگی استعمال

صرف عام نظریہ دان ہی نہیں بلکہ یورپی یونین (ای یو) نے بھی ہارپ ٹیکنالوجی کو زمین کے ماحول کیلیے ایک بہت بڑا خطرہ قرار دیا ہے اور اس کے صحت اور ماحول پر اثرات سے متعلق مزید معلومات کے حصول کے لیے قرار داد منظور کی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہارپ کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ یہ پروجیکٹ ریڈیو سائنس پر تحقیق کے لیے ہے۔

ہارپ  انتہائی اہم امریکی دفاعی پروگرام ہے۔ جس نے کئی تنازعات کھڑے کر دیے ہیں۔کچھ محققین کے مطابق اس پروگرام کا مقصد 2020 ء تک امریکی فوج کو الیکٹرمیکنیٹک جنگی ٹیکنالوجی میں مکمل غلبہ فراہم کرنا ہے۔

جبکہ

” بعض محققین کا کہنا ہے کہ ہارپ کو موسمیاتی تبدیلیاں لانے ‘ زلزلے’ سونامی پیدا کرنے او رکسی ملک کے الیکڑانکس اور مواصلاتی نظام کو جام کرنے کیلیے استعمال کیا جا چکا ہے۔”

امریکہ اس پروگرام کے کئی اہم پہلو قومی رازوں کے طور پر چھپا رہا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ہارپ اور اس جیسے دوسرے برقی مقناطیسی (الیکٹرومیگنیٹک) ہتھیار موجود ہیں۔ ہارپ کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق ہارپ ایک تحقیقی پروگرام ہے جو زمین سے30 میل سے 600 میل کی بلندی پر موجود آئنوں کے کرے (آئنو سفیئر) پر تحقیق کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور اس سے سول اور دفاعی مواصلات کی رفتار تیز کی جا سکتی ہے۔

ہارپ ویب سائٹ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ الیکٹرومیگنیٹک فریکونسی کے استعمال سے توانائی کی شعاعیں استعمال کی جارہی ہیں جو عارضی طور پر کسی محدود علاقے کے آئنو سفیئر کو متحرک کر دیتی ہیں۔ کچھ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایسے تجربات کے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔ ہارپ سے متعلق سائنسدان مثلاً یونیورسٹی آف الاسکا (امریکا) کے ڈاکٹر مائیکل کو سو دو وسکی (Chossudovsky) اور ڈاکٹر نک بیگک اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آئنوسفیئر میں ہارپ کے ذریعے لائی گئی تبدیلیاں زلزلوں اور سونامی کا باعث بن سکتی ہیں۔ اس وجہ سے پوری یونین نے کسی غیر جانبدار بین الاقوامی ادارے کی طرف سے اس پروگرام کے قانونی اور اخلاقی تقصانات کاجائزہ لینے کی سفارش کی ہے۔ ہسٹری چینل کی ایک ڈاکو منٹری کے مطابق

” برقی مقناطیسی ہتھیار آسمانی بجلی کی ایک چمک میں موجود برقی کرنٹ سے کئی گنازیادہ طاقتور توانائی پیک کر دیتے ہیں جسے دیکھا نہیں جا سکتا۔ اس سے دشمن کے میزائل کو آسمان میں ہی تباہ کیا جا سکتا ہے، میدان جنگ میں دشمن کی فوج کو اندھا کیا جا سکتا ہے، ایک ہجوم کی جلد کو جلایا جا سکتا ہے او رایک سیکنڈ میں کسی بھی شہر کی الیکڑانکس کو تباہ کیا جا سکتا ہے۔

اس توانائی کے استعمال سے آئنو سفیئر کو گرم کیا جا تا ہے جس سے اس خاص علاقے کا موسم تبدیل ہو جاتا ہے اور آنے والے سیلاب اور طوفان صحرا میں ہی دشمن کو تباہ کر سکتے ہیں۔ امریکی فوج نے ان مقاصد کے حصول پر بہت وقت خرچ کیا ہے۔ اگر کسی بھی علاقے سے یہ شعاعیں گزار ی جائیں تو گھروں کی تمام برقی اشیاء مستقل طور پر تباہ ہو جائیں گی۔”
وہ لوگ جواب بھی ان تباہ کن ہتھیاروں کے وجود کا انکار کر تے ہیں۔ ان کے لیے نیوزی لینڈ کے مشہور اخبار نیوزی لینڈہیرالڈ کے ایک کالم کا درج ذیل حصہ لکھا جا تا ہے۔

” منکشف ہونے والی بعض فائلوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جنگی تجربات اکلینڈ (Auckland) کے ساحل پر ایک ٹائڈ ل ویو بم کی تکمیل کیلیے کیے گیے تھے۔ امریکی دفاعی چیف نے کہا کہ اگر یہ پروجیکٹ جنگ کے خاتمے سے پہلے مکمل ہو جاتا تو یہ ایٹم بم کا کردار ادا کرتا۔ سونامی بم کی تفصیلیں جسے پروجیکٹ سیل(Seal) کہتے ہیں، وزارتِ خارجہ اور دفاع کی جاری کی گئی 53 سال پرانی فائلوں میں موجود ہیں۔”

آپ اندازہ کریں کہ اگر آج سے نصف صدی قبل سونامی لانے والے ہتھیار موجود تھے تو اب کتنے تباہ کن ہتھیار موجود ہوں گے۔ اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کے متعلق واقفیت عام کریں۔

امریکی دفاعی منصوبہ ساز ہمیشہ تباہ کن ہتھیاروں کے بنانے میں کوشاں رہتے ہیں لیکن انہیں خفیہ رکھا جاتا ہے لہذا بہت کم لوگ ہی اس سے واقف ہیں۔ ایسے دفاعی منصوبوں کی کئی مثالیں ہیں جنہیں سالہا سال خفیہ طور پر جاری رکھا گیا۔ مین ہٹن(Man hatton) پروجیکٹ جس کے ذریعے دنیا کا پہلا ایٹم بم بنایا گیا، اس کی مثال ہے۔ اس منصوبے کو ریاست کے گورنر سے بھی خفیہ رکھا گیا۔
کچھ محققین نے دنیا کے عظیم تباہ کن واقعات مثلاً ہیٹی کے زلزلے، انڈونیشیا کے سونامی2004 ء، پاکستان کے2010 ء کے سیلاب (روسی ماحولیاتی سائنسدان اینڈری آریشو کے مطابق)اورسمندری طوفان کترینا میں ہارپ کے ملوث ہونے پر سوالات اٹھائے ہیں۔ ایسے واقعات قدرتی طور پر بھی رونما ہو تے ہیں لیکن اگر آپ غور کریں تو ہارپ سے یہ ممکن ہے۔

کیا کسی نے اس پر غور کیا کہ ہر سال نیا موسمی بحران آتا ہے جو کہ خاص کسی ایک مسئلے کے مطابق ہوتا ہے۔ مثلاً 2005 ء میں جو ہورہا تھا وہ صرف سمندری طوفان تھے۔ا س سال آپ نے سونا میوں، لینڈ سلائڈنگ اور آتش فشانیوں کے متعلق نہیں سنا ہو گا۔
2005 ء میں سمندری طوفان کترینا، ریتا اور ولما آئے ان میں سے کترنیا خصوصاً عجیب تھا کہ کیونکہ یہ معلوم تاریخ کا واحد سمندری طوفان تھا جو دو دن تک بغیر حرکت کے ایک جگہ رہا۔ یہ ایک عجیب بات ہے کیونکہ طوفان کو سرگرم رہنے کے لئے حرکت کی ضرورت ہوتی ہے۔

2004 ء کے سونامی کو دیکھ لیجئے۔ سارا میڈیا اس واقعے کو بیان کر رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی اور چیز کا وجود ہی نہیں ہے۔

2007 ء بد ترین سیلابوں کا سا ل تھا۔

2009 ء او ر2010 ء میں زلزلے آئے۔ یہ نہ صرف پہلے کی نسبت زیادہ تعداد میں آرہے تھے بلکہ ان کی شدت بھی بڑھ رہی تھی۔ شکاگو، انڈونیشیا، ہیٹی، ترکی، افغانستان زلزلوں کی زد میں رہے۔

ایسی حکومتیں موجود ہیں جو موسم کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکی ہیں۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ ہر سال موسموں کی یہ بڑھتی شدت قدرتی ہے یا اس کے پیچھے کوئی ہاتھ ہے؟ اور وہ ہر سال آزمانے کے لیے ایک نئی تباہی کا انتخاب کرتے ہیں جنوری 2010 ء میں ناروے میں روشنی کے عجیب حلقے (سپائرل) دیکھے گئے۔ کریملن میں چار کونوں والی ایک شکل (ٹیٹرا ہیڈران) تیرتی ہوئی دیکھی گئی۔ چین میں زلزلے سے پہلے آسمان پر رنگ بدلتے ہوئے دیکھے گئے۔

وہ لوگ جو ہارپ سے واقف نہیں ان تبدیلیوں کو لوک کہانیوں سے منسوب کر رہے ہیں یا پھر موسمیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔

ہر سال رونما ہوئے والے عجیب و غریب واقعات کے پیچھے دجال کے ان کارندوں کی کاروائیوں کو نہیں نظر انداز کرنا چاہیے جو زمین کی مٹی، پانی اور ہوا ہر چیز کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنے کے لیے ہارپ اور اس جیسی دیگر تباہ کن ٹیکنالوجیز ایجاد او راستعمال کر رہے ہیں۔

میں عوام پر زور دیتا ہوں کہ وہ اس تباہ کن ٹیکنالوجی کے متعلق آگاہی حاصل کریں جو دنیا اور تہذیبوں کی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔عالم اسلام کے سائنسدانوں کا فرض ہے کہ وہ اینٹی ہارپ ٹیکنالوجی پر آج ہی سے تحقیق شروع کر دیں.

تبصرے بند ہیں۔