قلعہ دیپالپور کی تہذیب و ثقافت تاریخ کے آئینے میں

حامد نذیر ڈولہ

 پاکستان مختلف قدرتی خطوں اور علاقوں سے مل کر ایشیائی نقشے میں اپنی ایک منفرد شناخت رکھتا ہے۔اس کے قدرتی علاقے، جو اسے مختلف حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ان کی مخصوص پہچان ہے۔ یہاں انسانی آبادی، اُن کا رہن سہن، طورو طریقہ، بُودوباش،زبان، کھان پان یہاں تک کے ان کی زندگی کے شب و روز، سب ہی یہاں کی قومیت، معاشرت اور مشترکہ تہذیب و تمدن کی نمائندگی کرتے ہیں۔

 پنجاب  پاکستان کا ایک صوبہ، جسے پاکستان کا دل کہا جاتا ہے۔ یہ صوبہ، زمانہ قدیم سے مختلف خطوں اور علاقوں میں منقسم ہے۔مثلا ملتان، قلعہ دیپالپور، ہڑپہ  اور لاہور جیسے مشہورشہر ہیں۔ یہ سب کے سب ہند کی قدیم تاریخ سے گہرے رشتے رکھتے ہیں۔ ان علاقوں میں وقتا فوقتا اہلِ علم و فن اور قابل حضرات آ کر آباد ہوتے رہے اور یہاں کے لوگوں میں علم و فن، فضل و کمال، ادب و فلسفہ اور حکمت و دانش کی تعلیم سے آراستہ کیا۔

  قلعہ دیپالپور بھی انہیں علاقوں میں سے ایک ہے۔ دراصل  دیپالپور کا شمار پاکستان کے انتہائی قدیم شہروں میں ہوتا ہے۔اس کی بنیاد قبل از مسیح راجہ دیپال راجپوت نے رکھی تھی۔

  چند سال قبل مصر میں ایک مصری بادشاہ کے مقبرے کی دریافت نے دھوم مچادی تھی یہ مقبرہ 525ء قبل مسیح میں تعمیر ہوا تھا اس مقبرے سے ملنے والے برتن، پختہ اینٹوں اور دیگر اشیا پر اب بھی تحقیق جاری ہے۔ ماہرین مصر کا خیال ہے کہ اس تحقیق سے جن نتائج کے سامنے آنے کی توقع ہے وہ نہایت اہم ہوں گے۔ اس مقبرے کی دریافت کو اہل مصر اپنی ایک اہم کامیابی تصور کر رہے ہیں ہمارے ہاں بھی کم و بیش اس زمانے کے آثار قدیمہ موجود ہیں مگر نہ تو سرکاری محکمہ زیادہ فعال ہے اور نہ ہمارے ماہرین عمرانیات اور مؤرخین نے اس ارتقاء کو کھوجنے کی کوشش کی ہے۔ قدیم قصبہ دیپالپور اس کی ایک مثال ہے۔

 یہاں سے ملنے والے پرانے سکول سے یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ جگہ 175قبل مسیح سے پہلے آباد تھی اس کی قدامت کی گواہی وہاں موجود شکستہ عمارات کے آثار دے رہے ہیں۔ یہاں موجود ایک قلعہ، مندر اور وسیع سرائے گزشتہ دور کے شان و شوکت کی کہانی سنارہی ہے اُس دور کی جب یہ حکمرانوں کے زیر تسلط تھااور اِس دور کی جو اب قصہ پارینہ بن چکا ہے۔

  تاریخ میں دیپالپور ایک فوجی سرحدی چوکی کی حیثیت سے مشہور ہوا جس نے تیرہویں اور چودہویں صدی عیسوی میں سلطنت کے دفاع میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ مغلیہ دور میں اس قصبے کو "سرکاری” حیثیت حاصل تھی۔ انگریزوں کے دور حکومت میں اس قصبے کی حیثیت ختم ہو کر رہ گئی۔ دیپالپور میں موجود قلعے کو دیکھ کر اس کی قدامت کا اندازہ تو کیا جا سکتا ہے مگر یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ یہ کتنا قدیم ہے ؟کیوں کہ تاریخ میں یہ ذکر نہیں ملتا۔ 1285ء میں شہنشاہ بلبن کا بیٹا محمد تغلق یہاں کا حکمران تھا۔ وہ منگولوں کے خلاف ایک خون ریز معرکے میں مارا گیا۔

  امیر خسرو کو بھی اس قلعہ میں قید کیا گیا تھا اور اس کام کو بھی منگو لوں نے سرانجام دیا تھا۔ اس کے چار دروازے ہیں اور بہت اونچی فصیل پر واقع ہے۔قلعے کے چاردروازوں میں سے دو ابھی تک موجود ہیں اورزمانہ رفتہ کی شان و شوکت کی گواہی دے رہے ہیں۔یہ وہ قلعہ ہے جہاں پر سکندر ِیونانی کے قدم روکے گے اور یہاں سے پوری طرح زخمی ہوکے گیا اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موت سے ہمکنار ہوا۔

 دیپالپور میں ایک قدیم مندر بھی موجود ہے۔ اس مندر سے ایک روایت بھی منسوب ہے۔ کہا جاتا ہے کہ راجہ دیپاچند کے بیٹے لعل راج کو اس کی سوتیلی ماں رانی دھولراں نے بدعادی کہ جاؤ تم زمین میں غرق ہو جاو۔ لعل راج ایک کم سن بچہ تھا وہ کھڑا کھڑا زمین میں دھنسناشروع ہو گیا۔ یہ دیکھ کر رانی پریشان ہو گئی اور اسے پکڑنا چاہا مگر رانی کے ہاتھ صرف بچے کے بال ہی آ سکے۔ بچہ زمین میں زندہ دفن ہو گیا۔ راجہ دیپاچند کو علم ہوا تو اس نے رانی کو ہلاک کر دیا اور اپنے بیٹے کی یاد میں یہ مندر تعمیر کیا۔ اس مندر کا کھنڈر آج بھی موجود ہے۔

مندر کے نزدیک ایک عالی شان سرائے بھی تعمیر کی گئی تھی جہاں مندر میں آنے والے لوگ قیام پذیر ہوتے تھے۔سرائے میں چاروں کھلے کھلے ہوا دار کمرے،درمیان میں بہت بڑا صحن اور چار دروازے تھے۔

 مغل حکمران دہلی اور لاہور کے درمیان سفر کرتے تو دیپالپور میںہی قیام کرتے۔اکثر کتابوں میں یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ 1518ء میں شہنشاہ اکبر اپنے بیٹے شہزادہ سلیم کے ہمراہ جب حضرت فرید گنج کے دربار پر حاضری کے لئے آیا تو اس نے بھی دیپالپور میں ہی قیام کیا یہ وہ دور تھا جب عبدالرحیم خان دیپالپور کا گورنر تھا گویا مغلیہ دور تک اس کی اہمیت برقرار رہی۔

  اس لیے اس علاقے میں علم و ادب، تہذیب و ثقافت اور سیاست و معاشرت کے نقوش پائے جاتے ہیں۔اسی بنا پر یہاں علمی، ادبی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی تاریخ کا  ایک گراں مایہ سرمایہ موجود ہے۔ان عوامل اور سرمایہ افتخار کے سبب یہاں علم و ادب کا ایک ستھرا مذاق پایا جاتا ہے۔1810ء تک یہ نکئی خاندان کی جاگیر رہا۔یہاں معتدد قدیم عمارتوں کے آثار آج بھی پائے جاتے ہیں۔ان میں لالوجسراج کا مندر،شاہجاں دور کے وزیر خان خاناں کی تعمیر کردہ مسجد، امام شاہ اور محمود شاہ نامی بزرگوں کے مزارات قابلِ ذکر ہیں۔

 ہماری حکومت پنجاب اور خصوصا لوکل گورنمنٹ تحصیل دیپالپور سے درخواست ہے کہ اس قلعہ کو دوبارہ تعمیر کروایاجا ئے اور اس کی دیکھ بھال کے لیے سکیورٹی کا انتظا م کیا جائے تاکہ اس قلعہ کو سیاح پوائنٹ بنایا جاسکے۔ اس جہدوجد میں مقامی آرٹ فورمز اور خاص طور پر ہست ونیست(ادارہ برائے روایتی علوم و فنون)کا اہم کردارہے۔ جو اس علاقے کی تہذیب و ثقافت کودنیا کے سامنے لانے کیلیے انتہک محنت کر رہے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔