برما میں انسانیت سوز مظالم کی الم ناک داستاں

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

یہ معصوموں اوربے گناہوں کے تڑپتے لاشے، یہ مظلوموں اور بے کسوں کی فلک شگاف آہیں ،  یہ لٹے پٹے لوگوں کے پر درد نالے، یہ ہچکیاں، یہ سسکیاں، یہ آنکھوں کے راستے بہتے ہوئے خون کےدریا، یہ سینوں میں اٹھتی ہوئی انتقامی موجیں ، وہ آنکھوں میں قاتلوں کی بھیانک صورتیں ، وہ ذہنوں میں لٹیروں کے گھناؤ نے چہرے ….

بتاؤ میں ایسے حالات میں اور کیا سوچ سکتا ہوں ؟؟

دل ميں اک شعلہ بھڑک اٹھا ہے آخر کيا کروں ؟

ميرا پيمانہ چھلک اٹھا ہے آخر کيا کروں ؟

زخم سينے کا مہک اٹھا ہے آخر کيا کروں ؟

اے غم ِ دل کيا کروں ، اے وحشت ِ دل کيا کروں ؟

 ہر وقت سماعتوں سے ٹکراتی بندوقوں اور گولہ بارود کی آوازیں ، دل ہلا دینے والے قتل کی وارداتیں ، روح فرسا واقعات، دہشت ناک مناظر۔۔۔چشم فلک دیکھ رہی ہے کہ روہنگیاکس طرح بے یار و مددگارپڑا ہے، ایسی بربریت،  ایسی درندگی ایسی سفاکی اور اس پر اسلامی ملکوں سمیت دنیا بھر کی بے حسی اور خاموشی شاید ہی پہلے کسی نے دیکھی ہو۔

 بدھسٹ اور اس کی ظالم وجابر فوج، برما اور خاص کر اراکان کے آسمان پر ایسے گرج رہی ہے جیسے ان کے سروں پر آسمان ہی نہیں ۔ بڑوں سمیت معصوم بچوں کو اس طرح شہید کیا جا رہا ہے جیسے کھیتوں میں کیڑے مارنےاورخودرو خس وخاشاک کو جلانے کے لئے ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے، طاقت کا یہ وحشیانہ مظاہرہ کرکے بدھسٹ مسلمانوں اور اسلامی ممالک کے خلاف اپنی فوجی برتری، طاقت اور ہیبت کی دھاک بٹھانے کی کوشش کر رہےہیں ۔

برمامیں روہنگیائی مسلمانوں پر ڈھائے جارہے مظالم کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہاہے، 1942 سے لیکر اب تک تقریبا دولاکھ سے زائدروہنگیائی مسلمانوں کا قتل کیا جاچکاہے،  سینکڑوں خواتین کی عصمتیں لٹ چکی ہیں ، معصوم بچوں کو زندہ نذرآتش کرنےکا نہ تھمنے والاالم ناک سلسلہ ابھی تک جاری ہے، گذشتہ 25 اگست کو ایک مرتبہ پھر تقریبا روہنگیا کے 30 گاؤں میں برماکی سرکاری فوج اور رکھینے بڈھست گروپ نے دہشت گردی مچائی اور حملہ کرکے تقریبا تین سو کے قریب مسلمانوں کو موت کی نیند سلادیا، مانگ ڈاؤن، بوٹھیڈوگ اور راتھی ڈوگ کے اضلاع میں تقریبا تیس گاؤں کے مسلمانوں کو ٹارگٹ کرکے انہیں گولیوں سے بھون دیا گیااورکئی ایک خواتین کی عصمت دری کی گئی-

برما میں بسنے والے مسلمانوں پر وہاں کی ظالم حکومت اور فوج کے وحشیانہ مظالم اورانسانیت سوزبربریت کی خبریں آئے دن ذرائع ابلاغ پرنشرہورہی ہیں ، سوشل میڈیاکے ذریعہ وائرل ہونے والی تصاویر کو دیکھ کر تو کلیجہ منہ کو آنے لگتاہے۔

  برما کےان نہتےمسلمانوں پر 2012سے قیامت صغریٰ ٹوٹ رہی ہے، اب تک ان کی پریشانیوں کا کوئی سدباب نہ ہوسکا۔ نہ تو برماکی سرکار اپنے ظلم سے رک رہی ہے اور نہ عالمی ادارے کو ئی مؤثر اقدام کر پارہے ہیں ۔ برما میں روہنگیائی مسلمانوں کا یہ مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے؛بل کہ بات اس وقت بگڑی جب 1982میں جنرل نی ون کی ایک فوجی حکومت نے نیا شہریت کا قانون پاس کیا ؛جس کے تحت روہنگیا ئی مسلمانوں کی شہریت رد کردی گئی  اور اس قانون کی رو سے لاکھوں روہنگیا ئی مسلمانوں سے شہری حقوق سلب کر کے ان کو ملک کے اندر ہی کیمپوں میں رہنے پر مجبور کردیا گیا؛جس کے نتیجے میں تقریباً ایک لاکھ روہنگیائی مسلمان کو اپنا گھر بار چھوڑ کے کسی نہ کسی کیمپ میں پناہ گزیں ہونا پڑا اور برمائی فوج نے انہیں روزگار حاصل کرنے کی خاطر بھی کیمپوں سے باہر نہیں نکلنے دیا۔

 برمی مسلمانوں کی تاریخ :

برما کےکئی لاکھ مسلمانوں پر الزام ہے کہ وہ وہاں کے مقامی باشندے نہیں ہیں ؛بلکہ بنگالی ہیں ، اور بنگلہ دیشی مہاجرین کی حیثیت سے برما پر ان کا کوئی حق نہیں ہے،  جبکہ تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ 1826میں جب برطانوی راج نے اپنی حدود کو وسیع کرتے ہوئے ریاست بنگال کی توسیع کی اور برما تک بنگال کی ریاست کو پھیلادیا تب وہاں کی زرخیز زمینوں پر کھیتی کرنے کی غرض سے بڑی تعداد میں بنگالی مزدوروں کو وہاں لے جا کر آباد کیا ۔ واضح رہے کہ بنگالی باشندوں کو کھیت مزدور کی حیثیت سے نہ صرف برما لے جایا گیا؛ بلکہ برطانوی سامراج نے انہیں مفلس مزدور سمجھ کر دنیا کے دیگر بہت سے ممالک میں بھی آباد کیا مثلاً آسام،  ماریشس، مالدیپ،  سورینام، ترینڈاڈ،  گیانا اور دیگر جنوبی امریکی ممالک تک ان مسلمانوں کو لے جایا گیا ان کی نسلیں آج بھی وہاں آباد ہیں اور اپنے پرانے دیار ان کو یاد تک نہیں ہے ۔ اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر برما میں بھی ان بنگالی مسلمانوں کو آباد کیا گیا تھا،  حالانکہ اس سے قبل بھی وہاں خاطر خواہ مسلم آبادی موجود تھی ۔

 برما میں عرب مسلمانوں کی آٹھویں صدی عیسوی سے آمد اور مستقل قیام مؤرخین کااتفاق ہےکہاجاتا ہے کہ برما میں 1430-34کے زمانے سے ہی مسلمانوں کی آبادی موجود تھی اور ماروک علاقے کے راجہ بارا میکھلا نے 1430میں بنگال کے سلطان جلا ل الدین محمد شاہ کی فوج کی مدد سے ارکان صوبے پر اپنا تسلط قائم کیا تھا اور اسی زمانے میں سلطان بنگال کے مسلمان فوجی وہاں آباد ہوگئے تھے ۔ اس جنگ کے معاوضے کے طور پر ارکان کے راجہ نے وہاں کے کچھ علاقے بھی بنگالی سلطنت کی تحویل میں دے دیئے تھے؛ جن پر مسلم آبادیاں بسائی گئی تھیں ۔

 تاریخ شاہد ہے کہ اس کے بعد لمبے عرصے تک اراکان میں بنگالی اسلامی سکوں کا چلن جاری رہا۔خود اراکان کا راجہ بھی جو سکے ڈھلواتا تھا اس میں ایک جانب برمی زبان ہوتی تھی اور دوسری جانب فارسی زبان لکھی ہوتی تھی۔ یہ سلسلہ 1666تک جاری رہا اور اس مرحلے میں اراکان سے چٹاکانگ تک کا علاقہ برما میں شامل رہا ۔ سلطنت بنگال سے علیحدگی کے بعد بھی لمبے عرصے تک برما کے بودھ راجہ اپنے لئے مسلم خطابات استعمال کرتے رہے۔ 1785 تک اراکان ایک خود مختار صوبہ تھا جس پر برما کا کوئی تسلط نہیں تھا اور وہ سلطنت بنگال کی حمایت سے اپنی خود مختاری قائم کئے ہوئے تھا لیکن 1785 میں برمانے اس خود مختار ریاست پر قبضہ کرلیا اور ہزاروں اراکانی باشندوں کو قتل کردیا۔ اس سے گھبرا کر بڑی تعداد میں اراکانی لوگ صوبۂ بنگال میں بھاگ کر آگئے جہاں اس وقت برٹش حکومت تھی ؛ اس کے نتیجے میں اراکان صوبے کی آبادی بہت کم رہ گئی تھی چنانچہ 1826میں جب برطانوی راج برما تک پھیل گیاتو بنگال اوربرما کے درمیان کوئی بین الاقوامی سرحد نہیں رہی اور نگریزوں نے بڑی تعداد میں بنگالیوں کو اراکان پہنچ کر کھیت مزدور کی حیثیت سے کام کرنے کی حوصلہ افزائی کی جس کے نتیجے میں اراکان ضلع کی آبادی میں خاطرخواہ اضافہ ہوا؛یہی وہ مسلمان ہیں جن کو آج روہنگیا ئی مسلمان کہاجاتا ہے ۔

برما کی حکومت نے ان پرپابندی لگائی کہ وہ پختہ مکان نہیں بنا سکتے، دو سے زائد بچے پیدا نہیں کر سکتے، شادی کیلئے رجسٹریشن ضروری ہے جو اس قدر مشکل ہے کہ کسی عذاب سے کم نہیں ۔ یہ لوگ اب بنگلہ دیش اور برما کی سرحد کے درمیان سمندر کے کنارے دلدلی زمین والے علاقوں میں جھونپڑیاں بنا کر رہتے ہیں جہاں انہیں دنیا کی کوئی سہولت میسر نہیں ۔

حکومت ان کے علاقوں میں کوئی ترقیاتی کام نہیں کرتی بلکہ ان پر تو یہ پابندی بھی عائد ہے کہ یہ پیدل بھی ملک میں تو کجا، ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں تک کا سفر نہیں کر سکتے۔ یہ لوگ کوئی کاروبار نہیں کر سکتے، ان کے علاقوں میں کوئی سکول نہیں یعنی ان کے بچے ہمیشہ ان پڑھ ہی رہتے ہیں اور ان کے تعلیم حاصل کرنے پر بھی پابندی ہے۔ برما کی حکومت نے تو ان کے پھل اور انڈے تک کھانے پر پابندی عائد کر رکھی ہے، مبادا کہیں یہ صحت مند ہو کر حکومت کیلئے خطرہ نہ بن جائیں ۔ جون 2012ء میں ان پر اس حالت زار میں بھی بے پناہ مظالم ہوئے، ان کی بے شمار جھونپڑ بستیوں کو جلا دیا گیا اور بے شمار عورتوں اور بچوں کو قتل کر دیا گیا۔ یہ لوگ فریاد بھی نہیں کر سکتے کیونکہ برما کی حکومت ان کی کوئی فریاد نہیں سنتی اور یہ پولیس کے پاس بھی نہیں جا سکتے۔

 برمی مسلمانوں کا قصور:

  برمی مسلمانوں کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ امت محمدیہ کا حصہ ہیں ، اگر وہ عیسائی یا یہودی یاایسی ہی کسی جنس سے ہوتے تو پوری دنیاکا میڈیاآسمان سر پر اٹھا لیتا، نیٹوکی افواج امن عالم کا نعرہ بلندکرتی ہوئی پہنچ جاتیں ، امریکی قیادت کے دورے ہی ختم نہ ہوتے، اقوام متحدہ حقوق انسانی کی پامالی پر قراردادیں منظورکرتاہوااپنے خزانوں کے منہ کھول دیتا، شیوخ عرب اتنی بڑی بڑی اورموٹی موٹی رقوم کے چیک پیش کرتے کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتیں ، عالمی اداروں کے نمائندے اپنے کارندوں کے ہمراہ مظلومین کے ایک ایک فرد کے ساتھ کھڑے ہو کرتصویریں بنواتے اوردنیابھر کی’’ این جی اوز‘‘ان کے حالات پر ڈاکومینٹری فلمیں اور ڈرامے بناکر عالمی ایوارڈ حاصل کر چکی ہوتیں ۔

افسوس ہے ان مسلم دشمن قوتوں پر جوکتوں اور بلیوں سےتو پیارکرتے ہیں لیکن برماکے مسلمانوں کوحیوانات سے بھی بدتر سمجھ کرمسلسل بے اعتنائی برت رہے ہیں ۔

کہتے ہیں مساوات اسی کو تو ستم ہے

اتنی ہی خوشی ان کو ہے جتنا مجھے غم ہے

برمی مسلمانوں کی مدد کے لیے آگے آئیں:

ترکی، ہندوستان، افغانستان اور پاکستان سمیت دنیا بھر کے 34 ممالک میں  بلا تفریق مذہب احتجاج ہو رہا ہےاور امداد کا کام بھی شروع ہوچکاہے ۔

 لیکن ہٹ دھرم بدھسٹوں نے روہنگیا پر آتش و آہن کی برسات کو بلا توقف جاری رکھا ہوا ہے۔ تاحال ہزارہاافرادشہید اور لاکھوں کی تعداد میں انسان زخمی ہوچکے ہیں ۔

 درندہ صفت افواج کی جانب سے ڈنکے کی چوٹ پر مسلمانوں کابہیمانہ قتلِ عام اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ موجودہ نام نہاد مہذب دنیا میں انسانیت دم توڑ چکی ہے اور بین الاقوامی نظام انصاف میں مسلمانوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔

اس حوالے سے جناب صفدر چیمہ کی چشم کشا تحریر "روہنگیا مسلم مسئلے کے ممکنہ دو حل”بھی قابل تقلید ہے۔

"کسی بھی احتجاج کی طرف جانے سے پہلے کچھ باتیں سمجھ لینی چاہئیں تاکہ یہ فیصلہ کرنا آسان ہو کہ روہنگیا مسلم بھائیوں کی ہم بہتر طریقے سے مدد کیسے کر سکتے ہیں …برما کی کل آبادی تقریبا ساڑھے پانچ کروڑ ہے اور مسلم اس کل آبادی کا چار فیصد ہیں جو کہ تقریبا بیس بائیس لاکھ کے قریب بنتے ہیں لیکن ان میں سے کافی تعداد میں سعودی عرب، تھائی لینڈ، ملائشیا، بنگلا دیش، پاکستان وغیرہ میں رہائش پذیر ہیں ، سوائے بنگلا دیش اور برما کے ہر جگہ بہتر زندگی گذار رہے ہیں …

روہنگیا مسلم دھرتی کے اس گولے پر وہ مظلوم قوم ہے جو کسی بھی ریاست کی شہری نہیں ہے. نہ تو انہیں برما قبول کرتا ہے اور نہ ہی بنگلا دیش…ہم اس بحث میں نہیں جاتے کہ روہنگیا کے لوگ تقریبا 1025 عیسوی کے قریب حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور 1992 تک اسی علاقے میں امن و شانتی کے ساتھ زندگی گذار رہے تھے۔ پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ برما کی سرکار اور وہاں کی اکثریتی بدھ آبادی ان کے خون کی پیاسی بن گئی؟ ہو سکتا ہے اس کے پیچھے بھی کوئی ٹھوس وجوہات ہوں ، لیکن اس وقت جو برما کی سر زمین پر انسانی المیہ جنم لے رہا ہے اس سے کسی طور بھی چشم پوشی اختیار کرنا بہت بڑا جرم ہے اور ہمیں اپنی استطاعت کے مطابق مظلوموں کی مدد کے لیے آواز اٹھانی ہوگی…

حل نمبر ایک:

روہنگیا مسلمانوں کے لیے ایک آزاد ریاست کا مطالبہ کیا جائے لیکن اس کے لیے انہیں خود کھڑا ہونا پڑے گا، اور بشمول ہمارے تمام عالم اسلام کو ان کی اخلاقی، سیاسی و مالی مدد کرنی ہوگی۔ لیکن ہم یہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ عالم اسلام اس کے لیے کھڑا ہوگا یا نہیں ———-اسی طرح فلسطینی عرب ہیں ۔ تقریبا پوری عرب دنیا قومیت کی وجہ سے ان کی حمایت کرتی ہے اور کئی قسم کے سیاسی و معاشی مفادات وابستہ ہیں ۔ جبکہ روہنگیا مسلمان قوم کی دنیا میں نہ تو کوئی اور ریاست ہے اور نہ ہی اس خطے میں کسی طاقت کے سیاسی یا معاشی مفاد ہیں کہ وہ ان کی کسی قسم کی مدد کرے۔ ان بھائیوں کی مدد خالصتا عوامی سطح پر کی جا سکتی ہے، لیکن کب تک اور کس حد تک؟

حل نمبر دو:

ترکی، ملائشیا، تھائلینڈ بھی روہنگیا مسلمانوں کے لیے کافی نرم گوشہ رکھتے ہیں ، جیسا کہ آپ کے علم میں ہوگا کہ ترکی نے بنگلا دیش کو اپیل کی ہے کہ سارا خرچ ہم برداشت کریں گے۔ آپ صرف انہیں اپنے ہاں رہنے کی جگہ دیں اور اسی طرح تھائی لینڈ میں موجود روہنگیا مسلمانوں کو مستقل بسانے کے لیے وہاں کی حکومت کسی جزیرہ نما خطہ اراضی کے لیے کوشاں ہے۔ ملائشیا بھی کافی سرگرم ہے۔ اس کے علاوہ ان کی سب سے بڑی تعداد کافی سالوں سے سعودی عرب کے دو شہروں مکہ اور جدہ میں اسپیشل اسٹیٹس کے ساتھ مقیم ہے۔

ترکی، ملائشیا، تھائ لینڈ اور سعودی عرب چاروں ممالک معاشی لحاظ سے کافی مضبوط ہیں ۔ اگر یہ انہیں بحیثیت رفیوجی پالنے یا پناہ دینے کی بجائے مل کر کسی ساحلی پٹی پر مناسب اراضی خرید کر ان کی آزاد ریاست بنا دیں تو بڑا کام ہو گا۔  چاروں ممالک مل کر وہاں پر انفراسٹکچر (سی پورٹ، ایئر پورٹ، روڈ ٹرانسپورٹ، شعبہ تعلیم اور بجلی وغیرہ ) کے پروجیکٹس میں انویسٹمنٹ کرسکتے ہیں ۔ پندرہ سے بیس سال تک حاصل ہونے والی انکم کا ساٹھ فیصد وصول کریں تا کہ اپنے اخراجات پورے کر سکیں ۔ تب، سب کچھ روہنگیا مسلم ریاست کو سونپ کر اپنے گھر کی راہ لیں …

دوستو یہ دو ممکنہ پائیدار اور حقیقت پسندانہ حل ہیں ۔ اب دونوں میں سے جو آپ کے نزدیک آسان اور قابل عمل ہے وہ بتائیے تو پھر ہم اس کے مطابق ہم اپنی استطاعت کے مطابق عملی کوششوں کا آغاز کریں …

حدیث کا مفہوم: سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کے سامنے کسی معاملے میں دو حل ہوتے تھے تو آپ آسان حل کو پسند فرماتے تھے۔”

الغرض:

ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ دنیا بھر کے عام مسلمان برما  کےمظلوم بھائیوں کے لئے کیا کر سکتے ہیں ؟؟

مالی تعاون وامداد، قانونی اسٹرائیک و احتجاج کے علاوہ نالہ نیم شبی اور آہ سحر گاہی کے ذریعہ برمی مسلمانوں کی مدد سے بالکل دریغ نہ کریں !اور یاد رکھیں !

قریب ہے یارو روز محشر چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر

جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستین کا

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔