ترکی: اسلام دشمنی کے خلاف کامیابی پر شادمانی کا یہ منظر

عمیر کوٹی ندوی

یہ منظر ابھی نظروں سے اوجھل نہیں ہوا ہے کہ کس طرح گزشتہ برس 15؍ جولائی کو ترکی میں ہونے والی فوجی بغاوت نے پوری دنیا پر سکتہ طاری کردیا تھا اور وہ دم بہ خود ہوکر انجام کی منتظر تھی۔ دنیا اس وقت واضح طورپر دوحصوں میں منقسم تھی، ایک حصہ بغاوت کو کامیاب ہوتا ہوا دیکھنے کا خواہش مند تھا تو دوسری طرف اسلام پسند،امن و انسانیت پسند تھے۔بغاوت کو انجام دینے والے ،اس  کے محرک وسرپرست اوردرپردہ ان کے شریک کار، معاون ومددگار کامیابی کے لئے اپنی پوری طاقت صرف کررہے تھے تو اس ملک کے بیدار مغز سربراہ نے انہیں ناکام کرنے کے لئے ملک کے عوام کو سڑکوں پر اتار دیا تھا۔ آخر کار وہاں کے عوام اپنے سربراہ کی توقع پر پورے اترے اور انہوں نے اپنی جانوں کی قربانی دیتے ہوئے اس بغاوت اوراس کے سرپرستوں کے عزائم کو ناکام بنادیا۔ بغاوت سے کہیں زیادہ اس کی ناکامی دنیا کے لئے حیرت انگیز تھی ۔ اس لئے کہ وہ تو کسی اور چیز کی توقع کئے بیٹھی تھی  لیکن نتیجہ اس کے برعکس برآمد ہوا۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ غیر معمولی واقعہ تھا لہذا ہر ایک کی یاداشت میں ابھی تازہ ہے۔ ترکی کے لئے تو گویا یہ کل کی نہیں لمحہ دولمحہ پہلے کی بات ہے، اس لئے وہ اسے بھولنے کو قطعی تیار نہیں ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان  کے الفاظ میں "ہم 15 جولائی کو فراموش نہ کرنے اور فراموش نہ کروانے کے بارے میں پُر عزم ہیں "۔ اس لئے ترکی نےاس کی سالانہ یادتقریب”یومِ جمہوریت و قومی اتحاد ”  کا ملکی پیمانے پر ہی نہیں بین الاقوامی سطح پراہتمام کیا ۔

ناکام بغاوت کی پہلی سالانہ تقریب  کے موقع پر ترکی کے صدر رجب طیب اردگان  نے جو باتیں کہی ہیں وہ غور فکر کی  دعوت دیتی ہیں ۔ انہوں نے ترکی کی  قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ "ترک  قوم نے 15 جولائی کو فوج کی شکل میں منظم ہونے والے باغی ٹولے کے خلاف ایمان کی طاقت اور نہتے ہاتھوں  جنگ کی جس کی  دنیا  بھر میں  کوئی نظیر نہیں ملتی……میں اس قوم  کا حصہ اور اس وطن کی اولاد ہونے پر  اللہ تعالی کا ہمیشہ شکر ادا کرتا ہوں "۔ ترکی کے سربراہ نے بغاوت کی ناکامی کی جو بنیاد بیان کی ہے وہ "ایمان کی طاقت اور نہتے ہاتھوں "ہے، یہی نہیں بلکہ ان کی زبان سے وہ کلمات ادا ہوتے ہیں جن میں اللہ کا شکر ادا کیا گیا ہے۔

ترکی جہاں سے 1923ء میں اسلام کو دیش نکالا دے دیا گیا تھا اس کےیہ وہی سربراہ ہیں جنہیں ” انصاف و ترقی پارٹی” کے سربراہ ہونے کے باوجود 2002ء کے انتخابات و وزارت عظمی کے لئےمحض اس لئے نااہل قراردے دیا گیاتھا کہ  1998ء میں اپنی کسی تقریر میں ان کی زبان سےاسلام کے حق میں کلمات اداہوئے تھے۔لیکن اس وقت بھی انہوں نے کسی بدمزگی، کشیدگی ، اصراراور تصادم  کی راہ کو اختیار کرنے کی جگہ مواقع اور حالات کا صحیح استعمال کیا۔ نتیجتاً ان کی پارٹی نے 2002ء کے انتخابات میں واضح کامیابی حاصل  کی اور ان کی جگہ ان کے نائب عبداللہ گل وزیراعظم بنائے گئے۔بعد میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے اس پابندی اور اس کی وجہ سے ہونے والی سزا کو ختم کیا گیا۔پھر ضمنی انتخاب کے ذریعے اردگان پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے اور ان کے لئے عبداللہ گل وزارت عظمی سے دستبردار ہوگئے۔

ایک آج کا دن ہےکہ وہ ترکی جو خطہ ہی میں نہیں بین الاقوامی برادری میں بھی ایک طاقت تصور کیا جاتا ہے، مسلم دنیا میں جس کا بڑا مقام ہے اس کا سربراہ علی الاعلان فوجی بغاوت کی ناکامی کی بنیادی وجہ ایمان کی طاقت کو قرار دے رہا ہے ۔ صرف اسی موقع پر نہیں بلکہ ہرموقع پر ، ہر جگہ ایمان واسلام نہ صرف اس کی زبان پر ہوتا ہے بلکہ اس کے کردار اور اقدام سے بھی اس پر اعتقادو یقین کا اظہار ہوتا ہے۔ اس کردار نے ترکی اور اس کے موجودہ سربراہ سے اہل ایمان کی وابستگی، فوجی بغاوت کی ناکامی پر عزم وارادہ ، حوصلہ، آرزوؤں ، امیدوں اور اطمینان قلب میں اضافہ کردیا ہے۔ حالانکہ دور حاضر کے حالات اور اغیار کی ریشہ دوانیوں نے عوام ہی نہیں حکومتوں کو لرزہ براندام کردیا ہے حتی کہ اپنے اقتدار کی بقاء کے لئے وہ ان کے شریک جرم ہوگئے ہیں ۔

حال ہی میں ہیکروں کےایک گروپ "گلوبل لیکس” نےامریکہ میں متعین متحدہ عرب امارات کے سفیر یوسف القتیبہ کے ای میل اکاؤنٹ کو ہیک کرکے ان کے ای میلس کو انٹر سپٹ، ہفنگٹن پوسٹ اور ڈیلی بیسٹ کو ارسال کردیا تھا۔ ان  میں دیگر باتوں کے علاوہ یہ بات بھی سامنے آئی کہ ترکی میں ہونے والی ناکام  بغاوت میں تعاون کرنے پر جان ہنَّا(اسرائیل نواز Foundation for Defense of Democracies (FDD) نام کے ایک تھنک ٹینک کے کاؤنسلر) نے اپنے ایک میل میں یوسف القتیبہ کا شکریہ ادا کیا ہے۔ خیال رہے کہ جان ہنا نے ہی ترکی میں بغاوت سے پہلےتحریر کردہ اپنے ایک مضمون میں بغاوت کی پیش گوئی کر دی تھی ۔

 اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جس طرح اخوان المسلمون کی جمہوری راستہ سے انتخابات میں کامیابی حاصل کرلینے کے بعد مصر میں قائم  ہونے والی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت ایک گہری سازش کانتیجہ تھی  اور اس میں مغرب ومشرق بغل گیر ہوگئے تھے ۔اسی طرح ترکی کی فوجی بغاوت میں بھی گہری سازش کی بو محسوس کی گئی تھی ۔ فرق یہ ہے کہ مصر میں فوجی بغاوت کا میاب ہوگئی اس لئے سب نے کھل کرکے جشن منایا لیکن ترکی میں ناکامی کی وجہ سے وہ بے نقاب ہونے سے بچ گئے ۔ لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ ان دونوں ہی جگہ بغاوت کی مرکزی وجہ "اسلام” تھی اور اسلام بیزاری نے ہی سب کو ایک جگہ جمع کردیا تھا اور آج بھی یہ نکتہ مغربی عزائم اور مشرق کی حکمرانی کی خو کوباہم شیر شکر کئے ہوئے ہے۔

اسی طرح فلسطین میں جمہوری راستہ سے قائم ہونے والی حماس کی حکومت کو سبوتاز کردیاگیا اس کی سزا آج بھی انہیں دی جارہی ہے۔اب تو مشرق میں بھی حماس سے بیزاری جگ ظاہر ہوگئی ہے۔اس کے باوجود ترکی کے سربراہ کی ” ہم نے 7 طاقتور ریاستوں کی پشت پناہی حاصل ہونے والے غدار ٹولے کے 40 سالہ منصوبے کو 20 گھنٹوں کے اندر ناکام بناتے ہوئے  دوبارہ  تاریخ رقم کی ہے”اور "ایمان کی طاقت اور نہتے ہاتھوں "کی بات اس کی تائید کرتی ہے کہ چراغ مصطفوی کو مغرب کی آندھیوں اور باطل پرستوں کی پھونکوں سے نہیں بجھایا جاسکتا ۔ وہ اللہ جو مکڑی کے جالے سے اسلام اور اپنے نبی کی حفاظت کرنے اور مچھر سے اسلام دشمن کی جان لینے پر قادر ہے اس کے لئے باطل پرستوں کے عزائم کو ناکام بنانا اور اہل ایمان کی حفاظت کرنا کچھ مشکل نہیں ہے۔

تبصرے بند ہیں۔