پناہ گزیں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف بے بنیاد پروپگنڈا مہم

امام الدین علیگ

ایک اندازے کے مطابق ملک بھر میں تقریباً سوا لاکھ روہنگیا پناہ گزیں موجود ہیں ، جن کے ناگفتہ بہ حالات و مسائل پر وقتاً فوقتاً خبریں اور تحریریں سامنے آتی رہتی ہیں ۔ فی الوقت وطن عزیز میں ایک خاص طبقے کے خلاف جس طرح ڈرامائی انداز میں نفرت آمیز مہم اور پُر تشدد واقعات میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے، اس کے نتیجے میں ملک میں موجود پناہ گزیں روہنگیا مسلمان بھی محفوظ نہیں رہے۔ حال ہی ایک واقعہ میں 14اپریل کو جموں کشمیر کے بھگوتی نگر میں روہنگیاکیمپ کو شرپسند عناصر نے آگ کے حوالے کردیا جس میں ان کی10 میں 7جھگیاں جل کر خاکستر ہو گئیں ۔

یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، جموں میں گزشتہ سال نومبر سے شروع کی گئی ’روہنگیا بھگاؤ مہم‘کے بعد سے اب تک پناہ گزینوں کی بستیوں میں آگ لگنے کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں ، جن میں پانچ روہنگیا مسلمان جاں بحق اور ان کی درجنوں جھونپڑیاں نذر آتش ہوچکی ہیں ۔ایک طرف سے وطن عزیز میں پناہ گزیں ان رہنگیا مسلمانوں کی کسمپرسی کی حالت اتنی بدترین ہے کہ ذرائع ابلاغ کے مطابق ا ن کی ایک بڑی تعداد بھیک مانگ کر گزر بسر کرنے کے لیے مجبور ہے، تو دوسری طرف ہجرت و پناہ گزینی کے اس عالم بے بسی میں نفرت آمیز و پُرتشدد مہم کے شعلے بھی چہار جانب سے گھیر لیے ہیں ۔ ایسے میں ان کے سامنے حکومت ہند کے سامنے گڑگڑانے اور فریاد کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ملک میں پناہ گزیں روہنگیا مسلمانوں کی حالتِ زار اور گوں نا گوں مسائل بھلا کچھ کم تھے جو ان کے خلاف باقاعدہ مہم چلانے کی ضرورت آن پڑ گئی! جموں کی ’جموں چیمبر آف کامرس‘ جیسی کئی شدت پسند اور تجارتی تنظیموں کی جانب سیان مظلوم و مقہور اور بے آسرا لوگوں کے خلاف چلائی گئی نفرت انگیز مہم کا نتیجہ ہے کہ آج وہاں پر مقیم متاثرہ روہنگیا مسلمان اپنے کیمپوں اور جھونپڑیوں میں قید تنہائی اور بے بسی کے شکار ہوگئے ہیں ۔ ان کے خوف و دہشت کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے پیٹ کی آگ بجھانے، روزی روٹی کمانے، حتیٰ کہ روزمرہ کی ضروریات کی تکمیل کے لیے بھی اپنی جھونپڑیوں سے باہر نکلنے میں خوف کھاتے ہیں کہ بادل ناخواستہ کہیں کوئی جان کا دشمن بن کر ان پر ٹوٹ نہ پڑے اور اب تو وہ اپنی ان خانہ خراب جھونپڑیوں میں بھی محفوظ نہیں رہے!

موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ان کے خلاف منصوبہ بند طریقے سے حالات بگاڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جموں چیمبر آف کامرس کے چیئرمین راکیش گپتا نے ایک پریس کانفرنس میں اشتعال انگیز بیان دیتے ہوئے علی الاعلان یہ تک کہہ دیا کہ ’اب وقت آگیا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کو چن چن کر مار ڈالا جائے۔‘ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں انھوں نے میڈیا پر بیان سے چھیڑ چھاڑ کرنے کا بہانہ تلاش کرلیا۔بہرحال اس وقت غیر انسانی پروپگنڈوں اور حیوانیت کا ایسا دور دورہ ہے کہ بدترین حالات کے شکار، لاچار و بے بس روہنگیا کو بھی نہیں بخشا جا رہا ہے۔ ان کے خلاف ملک کے ایک طبقیکی جانب سے چلائی جا رہی نفرت و حقارت بھری مہم کی ایک جھلک حال ہی میں پارلیمنٹ میں بھی دیکھنے کو ملی۔

10اپریل کو لوک سبھا میں اس مسئلے پر بحث کے دوران حزب اقتدار نے روہنگیا مسلمانوں کو جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ وقفہ صفر کے دوران  بی جے پی لیڈر نشی کانت دوبے نے ان کے خلاف پہلے سے چلائے جا رہے بے بنیاد پروپگنڈا یعنی بنگلہ دیشی ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ روہنگیا مسلمان پہلے بنگلہ دیش سے میانمار گئے اور وہاں سے اب ہندوستان آ رہے ہیں ۔ دوبے نے بغیر کسی ثبوت و لیل کے الزامات کی جھڑی لگاتے ہوئے کہا کہ روہنگیا مسلمان لوگ جعلی نوٹوں کے کاروبار، انتہا پسندی، نکسل ازم وغیرہ میں ملوث ہیں ۔ انھوں نے یہ بے بنیاد دعویٰ بھی کرڈالا کہ کئی علاقوں میں تو روہنگیا مسلمانوں کی وجہ سے آبادی کا تناسب بھی بدل گیا ہے۔جب کہ ملک کے مختلف علاقوں میں بکھرے پڑے تمام روہنگیا مسلمانوں کی مجموعی تعداد خود مخالفین کے مطابق سوا لاکھ سے زیادہ نہیں ہے۔ اب بھلا سوا لاکھ کی تعداد 125کروڑ آبادی والے ملک کا تناسب کیسے بگاڑ سکتی ہے؟ ویسے بھی وہ پناہ گزیں ہیں جوحالات ٹھیک ہوتے ہی اپنے وطن واپس چلے جائیں گے۔ بی جے پی لیڈر نے اپنے ان بے بنیاد دعوؤں کی بنیاد پر مرکزی حکومت سے ایک کمیشن بنا کر روہنگیا مسلمانوں کی جانچ کرکے انہیں ملک سے باہر کرنے کا مطالبہ کیا۔اس معاملے پر اپوزیشن نے قابل ستائش موقف اختیار کرتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں کی قابل رحم حالت کے پیش نظر مرکزی حکومت سے ملک میں پناہ گزین قانون بنانے کا مطالبہ کیا۔ کانگریس لیڈر اور سابق وزیر مملکت ششی تھرور نے کہا کہ پناہ دینے کیمعاملے میں ہندوستان کی روایت اور تاریخ بہت ہی مثالی رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ روہنگیا کے خلاف ایک پروپیگنڈہ مہم چلائی جا رہی ہے۔ انہوں نے حزب اقتدار اور مرکزی حکومت سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ بے بنیاد الزام لگانے کی بجائے ملک میں ایک پناہ گزین قانون بنائے جانے کی ضرورت ہے تاکہ افواہوں اور پریس کی رپورٹ کی بنیاد پر پروپیگنڈہ مہم نہ چلائی جا سکے۔

اس سے قبل 4اپریل کو ٹائمس آف انڈیا میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ مرکز کی مودی حکومت تقریباً 40ہزار پناہ گزیں روہنگیا مسلمانوں کو واپس میانمار بھیج سکتی ہے۔اخبار نے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ حکومت پچھلے پانچ سے سات سال کے دوران ملک میں آنے والے روہنگیا کی شناخت کرکے انھیں ڈپورٹ کرنے یعنی واپس بھیجنے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔یہ انتہائی تشویشناک بات ہے اور اگر مرکزی حکومت ان اطلاعات کے مطابق میانمار میں روہنگیا مخالف موجودہ حالات کی شدت کو نظر انداز کرتے ہوئے انھیں ڈپورٹ کرتی ہے تو اسے کسی بھی صورت میں درست نہیں ٹھہرایا جا سکتا! ایسے میں میانمار کے حالات سدھرنے سے قبل روہنگیا مسلمانوں کو جبراً واپس بھیجنا در حقیقت انھیں جلتی بھٹّی میں جھونکنے کے مترادف ہوگا۔

 مرکزی حکومت سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اپوزیشن کے موقف اور سابق مرکزی وزیر ششی تھرور کی باتوں کا خیال رکھتے ہوئے اس معاملے کو انسانی بنیادوں پر حل کرے، بالکل اسی طرح جس طرح پاکستان و اطراف کے اقلیتوں کے مسئلے پر انسانی بنیادوں پر توجہ دی جاتی رہی ہے۔دوسری جانب بین الاقوامی ادارہ اقوام متحدہ میں 24مارچ 2017کو روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے پر یورپی یونین کی جانب سے پیش کی جانے والی ایک قرار داد کومتفقہ طور پر منظور کیا گیا تھاجس کے مطابق میانمار کی فوج کی جانب سے روہنگیا کے مسلمانوں کے قتل اور جنسی استحصال جیسے مظالم کی تفتیش کرنے اور حقائق تلاش کرنے کے لیے ایک آزاد مشن بھیجا جائے گا جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔ اس قرار داد میں ظلم ڈھانے والوں کا بھرپور احتساب کرنے اور ان مظالم کا شکار بننے والوں کے ساتھ مکمل انصاف کرنے جیسے بلند بانگ دعوے بھی کیے گئے تھے، ایسے میں اقوام متحدہ سے بھی امید کی جاتی ہے کہ وہ دعوؤں سے آگے بڑھ کر روہنگیا بحران پر عملی اقدامات کرتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر ان کے مسائل کو حل کرے اور قرب و جوار کے ممالک میں دربدر بھٹک رہے روہنگیا عوام کو ذلت و خواری کی زندگی سے نجات دلائے،اس کے لیے چاہے امن فورسز کی تعیناتی کرنی پڑے یا حکومت میانمار کے خلاف سخت سے سخت عالمی پابندیاں عائد کرنی پڑیں ، ضرور کی جائیں اور تمام ممکنہ اقدامات پر غور کیا جائے، کیوں کہ روہنگیا مسلمانوں کے حالات اب بلندبانگ دعوؤں اورقرار داد کی منظوری سے بڑھ کر عملی اقدامات کے متقاضی ہیں ۔

ان سنگین حالات میں ملک کے مسلمانوں کی ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے۔ یہاں پناہ گزیں  روہنگیا کی خبر گیری کرنا اور بڑھ چڑھ کر ان کی مدد کرنا ملک کے مسلمانوں کا ملی فریضہ ہونے کے ساتھ ساتھ عام عوام کا انسانی فریضہ ہے۔ اگر ملک کے مسلمان برما اور دیگر ممالک میں ظلم و تشدد میں گھرے مسلمانوں کی مدد کرنے سے قاصر ہیں تو انھیں چاہیے کہ کم از کم اپنے یہاں آنے والے ان مہمانوں کی خبر گیری کرکے ایک عالمی امت ہونے کا احساس دلائیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔