عالمی یوم آبادی اور ہمارے ملک بھارت کا منظر نامہ

ڈاکٹر سیّد احمد قادری

 آج( 11 جولائی) عالمی یوم آبادی ہے۔ گزشتہ کئی سال کی طرح اس سال بھی عالمی سطح پر  11 ؍جولا ئی کو عالمی یوم آبادی کا انعقاد کیا جائے گا ۔ جس میں سیمنار، سمپوزیم، تقاریر اور مختلف نمائشوں و ٹیلی ویژن مباحث کے ذریعہ یہ  بتانے کی کوشش کی جائیگی کہ بڑھتی آبادی کے باعث اس وقت پوری دنیا کن مسائل سے دوچار ہے ۔دراصل عالمی سطح پر بہت تیزی سے بڑھتی آبادی کی وجہ کر وسائل کی کمی سے انسانی زندگی میں طرح طرح کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں ۔

1987 ء میں جب بہت زیادہ بڑھتی آبادی کے سبب کم ہوتے وسائل ، مسائل بن کر سامنے آئے ، تب اس امر کا شدت سے احساس ہوا،جسے United Nation development Programme (UNDP) کے سامنے رکھا  گیااوران امور پر بہت سنجیدگی سے تبادلۂ خیال کرتے ہوئے ان مسائل کے تدارک کے لئے لائحہ عمل تیار کیا گیا ۔ جس کے تحت United Nations Fund for Population Activities (UNFA)  نے 11 جولائی 1989 سے ہر سال عالمی سطح پر یوم آبادی کے انعقاد کئے جانے کا فیصلہ کیا ۔ تاکہ عام لوگوں میں بہت تیزی سے بڑھتی آبادی سے پیدا ہونے والے مسائل سے نہ صرف آگاہ کیا جائے ، بلکہ ان مسائل کے تدارک کی بھی عملی طور پر بھی  سنجیدہ کوششیں کی جائیں ۔اس لئے کہ ایک اندازے کے مطابق عہد حاضر میں انسانی آبادی ہر دن ڈھائی لاکھ سے بھی تجاوز کر رہی ہے، جس سے وسائل کی کمی ہو رہی ہے اور انسانی مسائل شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں ۔ جوبلا شبہ انسانی زندگی کے لئے باعث تشویش ہے ۔ اس ضمن میں عالمی سطح کے ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا میں جس تیزی سے آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے ، اس تناسب میں انسانی وسائل مہیا نہیں ہو رہے ہیں ۔ جس کی وجہ کر خوراک کی فراہمی ، علاج و معالجہ ، رہائش، تعلیم اور دیگر کئی بنیادی سہولیات میں بہت زیادہ ہونے والی کمی کے باعث انسانی زندگی نت نئی دشواریوں اور پریشانیوں سے نبرد آزما ہے۔

11 جولائی 1989 ء سے بڑھتی عالمی یوم آبادی سے پیدا ہونے والے مسائل سے UNFA روشناس کرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ مختلف ممالک میں لوگوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ دنیا میں اوسطََ ہر گھنٹے نوہزار بچے پیدا ہوتے ہیں ۔ اس تناسب سے دنیا کی آبادی میں سالانہ آٹھ کروڑ کا اضافہ ہو رہا ہے اور یہ آبادی اسی طرح بڑھتی رہی تو اس کرہ ارض پر کئی ارب آبادی بڑھ جانے کا اندیشہ ہے۔ جو انسانی زندگی اور ماحولیات کے لئے تشویش کا باعث ہے۔ دنیا میں اس وقت کئی ممالک ایسے ہیں ، جہاں شرح پیدائش بہت زیادہ ہونے کے سبب ان ممالک میں بچوں کی پیدائش اور ان کی نگہداشت کے ساتھ ساتھ بچے پیدا کرنے والی ماؤں کے لئے طبی سہولیات کا فقدان بھی ہے۔

 ان امور پر ایک نظر ڈالی جائے تو ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ دنیا میں انسان بڑھ رہے ہیں ، لیکن مشکل حالات کی وجہ کر انسانیت دم توڑ رہی ہے ۔ لوگوں کے درمیان سے رواداری، خلوص و محبت ، یکجہتی ، تہذیبی قدریں اور  انسانی روایات کا فقدان ہو رہا ہے۔ خوراک کی کمی، بہت سارے ممالک میں عام ہے ۔اس وقت کئی ممالک میں بچوں کی بڑی تعداد تغزیہ کی شکار ہے۔ عورتیں خوراک کی کمی کی وجہ سے انیمیا سے جوجھ رہی ہیں ۔ ملازمت میں کمی سے غربت و افلاس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لوگ دانے دانے کو محتاج ہو رہے ہیں ۔ پینے کا صاف پانی لوگوں کو میسر نہیں ہونے سے لوگ گندہ اور آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں، جس سے ایسے لوگ طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں ۔ غریبوں کے لئے علاج و معالجہ کا نظام بھی مناسب نہیں ہونے سے ایسے لوگ بے بسی اور بے چارگی کی زندگی گزارنے پر خود کو مجبور پا رہے ہیں۔ تعلیم کی حصولیابی سے بہت سارے مسائل کا تدارک ممکن ہے ، خاص طور پر تعلیم یافتہ نوجوان جوڑوں میں یہ خیال تو پیدا ہو ہی سکتا ہے کہ’ چھوٹا خاندان ، سکھی خاندان‘ بن سکتا ہے ۔ لیکن تعلیمی سہولیات کے فقدان سے غریب طبقہ محروم ہے ۔ بڑھتی آبادی سے رہائش کا بھی مسئلہ بڑھ رہا ہے۔ لوگ بہت تیزی سے مکانات تعمیر کرا رہے ہیں، جس سے کھیت، کھلیہان سمٹتے جا رہے ہیں اور جنگل کٹ رہے ہیں  نتیجہ میں ایک طرف جہاں اشیأ خوردنی کی کمی ہو رہی ہے، وہیں ماحولیات بھی متاثر ہو رہا ہے ۔ماحولیات کے متاثر ہونے سے بارش میں بھی بہت کمی واقع ہو رہی ہے، جس سے ندی، تالاب سوکھ رہے ہیں۔ ندیاں سمٹتی جا رہی  ہیں، تالابوں اور پوکھروں پر رہائشی اور تجارتی مراکز تعمیر ہو رہے ہیں۔

اس پورے تناظر میں اگر ہم اپنے ملک کی بڑھتی آبادی اور اس کی وجہ کر گھٹتے وسائل سے پیدا ہونے والے مسائل پر ایک نظر ڈالیں تو ہمیں بہت زیادہ مایوسیوں کا سامنا ہوتا ہے۔ ایسے بڑھتے ناگفتہ مسائل کے تدارک کے لئے چند دہائی قبل حکومت وقت نے آبادی کم کرنے کے لئے عوام کے درمیان فیملی پلاننگ کی اہمیت اور افادیت پر زور دیا تھا ۔ عوامی طور پر ذہن سازی کے لئے طرح طرح کے اشتہارات ، اعلانات سے مثبت نتائج سامنے آئے تھے۔ لیکن یہاں تو ہر معاملے میں بد عنوانی کا عمل دخل ہوتا ہے۔ مثلاََ مرد وعورت کو فیملی پلاننگ کا آپریشن کرانے کے بعد سرکاری سطح پر کئی طرح کی معاشی سہولیات دی جاتی تھیں ۔ لیکن سیاست اور بدعنوانی کے دخل نے ایسے کئی اچھے پروگرام کو تقریباََ ختم کر دیا۔ جس کی وجہ کر ’ہم دو ہمارے دو‘  اور ’ چھوٹا پریوار ، سکھی پریوار‘ کا جو ذہن لوگوں میں بن رہا تھا، وہ ختم ہو گیا۔ ایک زمانے میں ہمارے ملک میں ’’ جن سنکھیا استھرتا کوش‘‘ نے بڑھتی آبادی کم کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر کوششیں کی تھیں ۔ لیکن اس کی بھی ساری کوششیں سیاست کی نذر ہو گئیں۔ ان ناکامیوں کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ اس وقت ملک کے گرد  وپیش میں ہر  جانب لوگوں کا اژدھام نظر آتا ہے ، جدھر جایئے، ادھر بھیڑ ہی بھیڑ۔

ٹرینوں میں ، بسوں میں ، سڑکوں پر ، گلیوں میں ، مال میں ، بازار وں میں ، اسپتالوں میں ، ہر طرف انسانی زندگی بنیادی سہولیات کے لئے پریشان ہے۔بدعنوانی شباب پر ہے، چوری ، ڈکیتی ، خون خرابہ، قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے اور ایسے میں ہمارے بعض نا عاقبت اندیش سیاسی رہنمأ مذہبی منافرت پھیلانے کے لئے ، ملک کی ترقی اور عوامی مسائل سے بے پرواہ، ملک کی اکثریت کو یہ تلقین کر رہے ہیں کہ وہ دس دس بچے پیدا کریں۔ ایک ممبر پارلیامنٹ نے تو یہاں تک کہا  تھاکہ شادی شدہ جوڑے کو جیلوں میں بند کر دیا جائے اور وہ وہاں صرف بچے پیدا کرنے کا کام کریں۔ جس ملک کے سیاسی رہنماؤں کی ایسی گھٹیا سوچ اور فکر ہو اس ملک میں بڑھتی آبادی کے باعث بہت تیزی سے کم ہوتے وسائل سے درپیش مسائل کے تدارک کی بات کس طرح کی جا سکتی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ اس وقت ہمارا ملک بھارت لگاتار ترقی اور خوشحالی کا حدف حاصل کرنے میں لگاتار پیچھے ہوتا جا رہا ہے۔ اس سال کے SDG  میں 149 ممالک کے جو اعداد و شمار یکجا کئے گئے ہیں ، ان میں ہمارا ملک  110 ویں مقام پر ہے۔ جبکہ سویڈن ،ڈنمارک اور ناروے کوپہلا، دوسرا اور تیسرا  مقام حاصل ہوا ہے۔ لیکن مجھے امید ہے کہ غیر سیاسی دانشوران، ان مسائل کے تدارک کے لئے اپنی سطح سے کوشش جاری رکھینگے اور عالمی سطح  پرہو رہی ان کوششوں کو سامنے رکھ کر اپنے ملک کے لوگوں کی ذہن سازی کرینگے۔ اگر آج کے اس عالمی دن کو  اہمیت دی جائے ، تو میرا خیال ہے کہ بہت سارے مسئلے دور ہو سکتے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔