نیامشن نیا ویژن

مدثراحمد

آزادی کے بعد ملک میں مسلمانوں کےتعلیمی حالات کے تعلق سے یوں تو حکومتی سطح پر کئی رپورٹس سامنے آئے ہیں، جس میں واضح کیاگیاہے کہ تعلیمی اعتبارسےکمزورہیں اور ان کی پسماندگی حالت یہ ہے کہ وہ دلتوں اور دیگر پچھڑے طبقوں سے پیچھے ہیں۔ حکومتوں کی باربار ان رپورٹس کے باوجودنہ خودحکومتیں مسلمانوں کی تعلیمی شرح کو بہتر بنانے کی پابندہیں، نہ مسلمانوں کی بڑی بڑی جماعتیں اور مالدارطبقے کی جانب سے اس سمت میں پیش رفت ہوئی ہے۔ ہاں، گنے چنے لوگ تجارت کے نظریہ سے تعلیمی اداروں کو فروغ دے چکے ہیں اور اس میں کچھ نام کے واسطے لوگ غریب بچوں کو تعلیم دینے کا ثبوت پیش کرتے رہے ہیں، مگر آج بھی مسلمانوں کے پاس اعلیٰ ومعیاری تعلیمی اداروں کی کمی ہے۔

 علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کےسرسیداحمدخان، کرناٹک میںالامین تعلیمی اداروں کے بانی ممتازعلی خان، المحمود تعلیمی اداروں کے بانی بی ایس نظیر احمد، شاہین تعلیمی ادارہ جات کے سرپرست عبدالقدیر، زبیدہ تعلیمی اداروں کے سرپرست ڈاکٹر حافظ کرناٹکی، کیرلامیں ملاپورم ابوبکر مصلیارجیسی ہستیاں ایک جیسی کوششوں اور محنتوں سے مسلمانوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے پابندہیں اور ان کے تحت قائم کئے گئے تعلیمی اداروں سے ہزاروں طلباء استفادہ کررہے ہیں۔ یہ محض مختصر سی فہرست ہے جو تعلیم کیلئے قربانیاں دے رہے ہیں۔ مگر آج بھی مسلمانوں کو معیاری اور اعلیٰ تعلیم دینے والوں کی اشد ضرورت ہے، جس کیلئے نئی نسل آگے آرہی ہے۔

اسی نئی نسل میں ولی رحمانی نامی نوجوان نے پچھلے دنوں اپنے تعلیمی ادارے کو فروغ دینے کیلئے100-100 روپئےکا چندہ دینے کی اپیل کی تھی اور اس اپیل کے مطابق اُمت مسلمہ نے اپنی طرف سے معقول تعائون کیا اور اب بھی کررہے ہیں۔ دراصل آج کہنےوالے اور سنانے والے بہت لوگ سماج میں مل جاتے ہیں، لیکن کام کرنے والے اور کام کرنےوالوں کا تعائون کرنےوالے بہت کم لوگ ہیں اور اگر کوئی کام کرتابھی ہے تو اُس کی ٹانگ کھینچنے والے بہت مل جائینگے اور جو لوگ کام کرنےوالوں کا تعائون کرنا چاہتے ہیں اُن کے درمیان روکاٹیں پیدا کرنےوالے بھی بہت سے لوگ پیداہوجاتے ہیں۔

 ان حالات میں ہمارے درمیان اچھا کام کرنےوالے دلبرداشتہ ہوجاتے ہیں یاپھر وہ قوم سے ہی اُمید چھوڑ دیتے ہیں۔ ہوناتویہ چاہیے کہ جو لوگ کام کرناچاہتے ہیں اُنہیں کام کرنے کا موقع دیاجائے اُن کی ہمت افزائی کی جائے اور اُنہیں آگے بڑھنے کیلئے موقع فراہم کیاجائے۔ جب سے ولی رحمانی نے سوشیل میڈیاپر اپنے تعلیمی ادارے کیلئے اپیل کی ہے اُس وقت سے مسلم دانشوروں کا طبقہ دو حصوں میں بٹ گیاہے، ایک طبقہ ان کی محنتوں کی ستائش کررہاہے تو دوسراطبقہ ان پر الزامات اور ممکنہ بدعنوانیوں کی شکایتیں کررہاہے اور اُن باتوں کا حوالہ دیاجارہاہے جو ماضی میں قوم کے نام پر چندے کرکے ہضم کرچکے ہیں۔ یقیناً ہر دورمیں صالحین کی مخالفت کیلئے شرپسند پیداہوئے ہیں، جہاں خیر کام ہواہے اور وہاں شرکا کام بھی ہواہے۔

قوم کے نام مدرسے، کالج اور یونیورسٹیاں بنانے کے نام پر کئی لوگوں نے چندے بٹورے اور ہضم کرگئے، قوم کے نام پر میڈیاہائوز بنانے کے نام پر1998 میں ہی چندے وصول کرنے کا سلسلہ شروع ہواتھا، اس کے بعد ملک کے ایک نامور سیاستدان نے مسلم میڈیا ہائوز بنانے کے نام پر عربوں سے اربوں روپئے وصول کئے اور اپنے ذاتی ٹرسٹ کے نام پر تعلیمی ادارے قائم کرلئے۔ سماج میں چور واچوکوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے، اگر صرف چوروں کی مثالیں لیتے جائیں تو صحیح کام کرنےوالے لوگوں کو نقصان پہنچے گا۔ کل کس نے دیکھاہے، لیکن ولی رحمانی جیسے نوجوان جب کچھ کرنے کیلئے آگے بڑھے ہیں تو اُس کا تعائون کرنے کیلئے اُمت کو آگے آناہوگا۔ کیونکہ اب تک مسلمانوں کے مال پر مخصوص طبقہ اپنا حق جمائے بیٹھاتھا اور دوسرے خیرکےکام وکاج پر خرچ کرنے کو ممنوع قرار دیتاتھا۔ چونکہ اب حالات بدل رہے ہیں، لوگوں کی ضروریات بدل رہے ہیں، سماج کونئے نظریات اور نئے ویژن کی ضرورت ہے تو اُس لحاظ سے بھی اُمت کو اپنا تعائون پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

آج مسلمانوں کو بہترین تعلیمی ادارے، آزادمیڈیاہائوز، بہتر روزگارکیلئے مواقعوں کی ضرورت ہے، ان کاموں کیلئے اگر قوم کا پیسہ خرچ کیاجاتاہے تویہ پیسہ ضائع نہیں ہوگا۔ اس سمت میں علاقائی اور مقامی سطح پر غور وفکرکرنے کی ضرورت ہے اوریہ کام اگلے دس سالوں تک مکمل ہونا چاہیے، ورنہ آنےوالے دنوں میں مسلمانوں کیلئے مواقع محدود رہے جائینگے اور فرقہ پرست مسلمانوں پر مزید شکنجہ کستے رہینگے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔