اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ‎

محمد یوسف برکاتی

(کراچی)

اللہ تبارک وتعالی قران مجید فرقان حمید کی سورہ یونس کی آیت 62 میں ارشاد فرماتا ہے :

اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ

ترجمعہ کنزالایمان۔ ۔۔سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم۔

معزز یاروں سب سے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ” ولی ” کسے کہتے ہیں لفظِ ’’ولی‘‘ وِلَاء سے بناہے جس کا معنی قرب ا ور نصرت ہے۔ وَلِیُّ اللہ وہ ہے جو فرائض کی ادائیگی سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا قرب حاصل کرے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مشغول رہے اور اس کا دل اللہ تعالیٰ کے نورِ جلال کی معرفت میں مستغرق ہو ،جب دیکھے قدرتِ الٰہی کے دلائل کو دیکھے اور جب سنے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی آیتیں ہی سنے اور جب بولے تو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی ثناہی کے ساتھ بولے اور جب حرکت کرے، اطاعتِ الٰہی  میں حرکت کرے اور جب کوشش کرے تو اسی کام میں کوشش کرے جو قربِ الٰہی کاذریعہ ہو اور  اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ذکر سے نہ تھکے اور چشمِ دل سے خدا کے سوا غیر کو نہ دیکھے۔ یہ صفت اَولیاء کی ہے، بندہ جب اس حال پر پہنچتا ہے تو اللہ عزوجل  اس کا ولی و ناصر اور معین و مددگار ہوتا ہے۔
ہمارے متکلمین یعنی علمِ کلام کے ماہر علماء کہتے ہیں ’’ولی وہ ہے جو صحیح اور دلیل پر مبنی اعتقاد رکھتا ہو اور شریعت کے مطابق نیک اعمال بجالاتا ہو جبکہ بعض عارفین نے فرمایا کہ ولایت قربِ الٰہی اور ہمیشہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ مشغول رہنے کا نام ہے،جب بندہ اس مقام پر پہنچتا ہے تو اس کو کسی چیز کا خوف نہیں رہتااور نہ کسی شے کے فوت ہونے کا غم ہوتا ہے کیوں کہ وہ صرف اللہ تعالی کا ہوجاتا ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں جب ایک انسان کو اللہ رب العزت اپنا قرب عطا کردیتا ہے تو اس کے دل میں دنیا کی محبت کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور جس کے دل سے دنیا کی محبت نکل جائے تو وہ ولایت کے مقام تک آسانی کے ساتھ پہنچ جاتا ہے ایک دفعہ حضرت عیسی علیہ الصلوہ و السلام ایک جگہ سے گزر رہے تھے کہ انہوں نے ایک نوجوان کو باغ میں پانی ڈالتے ہوئے دیکھا اس نوجوان نے جب آپ علیہ السلام کو دیکھا تو دوڑا ہوا آیا اور عرض کیا کہ آپ علیہ السلام اللہ تعالی کے برگزیدہ نبی ہیں۔
اس نے کہا کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں میرے لئے دعا فرمائیے کہ وہ مجھے اپنے عشق کا ایک ذرہ عنایت فرمادے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک ذرہ تو بہت ہے تم برداشت نہیں کرسکوگے تو عرض کیا کہ اچھا نصف ذرہ ہی عطا کردے تو حضرت عیسی علیہ السلام نے ہروردگار عالم سے دعا مانگی کہ اے رب اسے اپنے عشق کا نصف ذرہ مرحمت فرما دے یہ دعا مانگنے کے بعد آپ علیہ السلام وہاں سے تشریف لے گئے۔
کچھ عرصہ گزرا تو حضرت عیسی علیہ السلام کا وہاں سے گزر ہوا تو آپ علیہ السلام نے لوگوں سے اس نوجوان کے بارے میں دریافت کیا تو لوگوں نے کہا کہ وہ تو دیوانہ ہوگیا ہے اور پہاڑوں پر جاکر بیٹھ گیا ہے آپ علیہ السلام نے اپنے رب تعالی سے دعا کی کہ "اے رب تعالی میرا اس نوجوان سے سامنہ کروادے ”
پھر آپ علیہ السلام نے دیکھا کہ وہ نوجوان پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا آسمان کی طرف دیکھے جارہا ہے آپ علیہ السلام نے اسے سلام کیا لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا۔
حضرت عیسی علیہ السلام نے پوچھا کہ تم مجھے جانتے ہو ؟ میں عیسی (علیہ السلام )ہوں اللہ تعالی کا نبی تو اسی وقت آپ علیہ السلام پر وحی کا نزول ہوا کہ ” اے عیسی (علیہ السلام ) جس کے دل میں میرے عشق کا نصف ذرہ بھی موجود ہو وہ پھر انسانوں کی بات کہاں سن سکتا ہے مجھے قسم ہے اپنے عزت و جلال کی اگر اسے آرے سے کاٹ کر دو ٹکڑے کردیاجائے تو اسے احساس تک نہ ہوگا۔
( مکاشفتہ القلوب باب10 صفحہ 84 )
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں یہ ہے ولایت کا منصب اور قرب الہی کے پانے کا مقام و مرتبہ اور بیشک ایسے لوگوں کو نہ کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی غم اللہ تبارک و تعالی نے قران مجید فرقان حمید میں کئی جگہ اپنے محبوب اور قرب الہی کی سعادت  کو پانے والے ولیوں کا ذکر مختلف انداز سے کیا ہے سورہ الکھف کی آیت نمبر 28 میں ارشاد باری تعالی ہوا کہ۔
وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَ لَا تَعْدُ عَیْنٰكَ عَنْهُمْۚ-تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ وَ كَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا(28)
ترجمعہ کنزالایمان۔ ۔۔۔ اور اپنی جان ان سے مانوس رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اور اس کی رضا چاہتے ہیں اور تمہاری آنکھیں انہیں چھوڑ کر اور پر نہ پڑیں کیا تم دنیا کی زندگی کا سنگھار (آرائش )چاہو گے اور اس کا کہا نہ مانو جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلا اور اس کا کام حد سے گزر گیا۔
اس ترجمعہ کے خلاصہ میں محترم و معزز مفتی محمد آصف عبداللہ قادری ( دامت برکاتہم العالیہ ) فرماتے ہیں کہ کفاروں کے سردار نے سرکار صلی اللہ علیہ والیہ وسلم سے کہا کہ اگر آپ علیہ وسلم اپنی محفلوں سے غرباء اور شکستہ حال لوگوں کو باہر کر دیجئے ہمیں ان کے ساتھ بیٹھتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے اور اگر آپ علیہ وسلم نے ایسا کیا تو ہم آپ علیہ وسلم پر ایمان لاکر دائرہ اسلام میں داخل ہوجائیں گے اور ہمارے ساتھ ایک کثیر تعداد ہے لوگوں کی تو اسلام کو بڑا فائدہ ہوگا تو آپ علیہ وسلم نے انکار فرمادیا جس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی اور اس میں رب تعالی نے اپنے حبیب کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلیہ وسلم سے فرمایا کہ وہ لوگ جن کی زباں پر صرف میرا اور آپ علیہ وسلم کا ذکر ہو ان کے ساتھ جڑے رہیں اور کفاروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کا کہا نہ مانو جن کے دلوں سے ہم نے اپنی یاد کو غافل کردیا ہے غریب صحیح مسکین صحیح شکستہ حال صحیح لیکن وہ اللہ تعالی کے نیک اور صالح لوگ ہیں۔
اس سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ ہمیں اپنی زندگی صرف ایسے لوگوں کے ساتھ رہ کر گزارنی چاہیئے جو اللہ تعالی کے خاص اور محبوب بندے ہوں اللہ رب العزت کے ولیوں میں ان کا شمار ہو جن کی زباں پر صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا ذکر ہو اسی میں ہماری زندگی کی بقا ہے اور خاص طور پر فی زمانہ سب سے بڑی بات اپنا ایمان بچانا ہے اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم دینی ماحول میں رہیں اور دیندار لوگوں کی صحبت اختیار کریں۔
ں مفسرین نے اس آیت کے بہت سے معنی بیان کئے ہیں ، ان میں سے 3معنی درج ذیل ہیں :
(1)…مستقبل میں انہیں عذاب کا خوف نہ ہو گا اور نہ موت کے وقت وہ غمگین ہوں گے۔
(2)… مستقبل میں کسی ناپسندیدہ چیز میں مبتلاہونے کا خوف ہوگا اور نہ ماضی اور حال میں کسی پسندیدہ چیز کے چھوٹنے پر غمگین ہوں گے۔ (البحرا لمحیط، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳۸، ۱ / ۳۲۳۔جلالین مع صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۶۲، ۳ / ۸۸۰)
(3)… قیامت کے دن ان پر کوئی خوف ہو گا اور نہ اس دن یہ غمگین ہوں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ولیوں کو دنیا میں ان چیزوں سے محفوظ فرما دیا ہے کہ جو آخرت میں خوف اور غم کا باعث بنتی ہیں۔
ابن جریر میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کے بعض بندے ایسے بھی ہیں جن پر انبیاء اور شہدا بھی رشک کریں گے لوگوں نے پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون ہیں؟ ہمیں بتائیے تاکہ ہم بھی ان سے محبت و الفت رکھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ لوگ ہیں جو صرف اللہ کی وجہ سے آپس میں محبت رکھتے ہیں۔ مالی فائدے کی وجہ سے انہیں رشتے داری اور نسب کی بناء پر نہیں، صرف اللہ کے دین کی وجہ سے ان کے چہرے نورانی ہوں گے یہ نور کے منبروں پر ہوں گے۔ سب کو ڈر خوف ہو گا لیکن یہ بالکل بے خوف اور محض نڈر ہوں گے جب لوگ غمزدہ ہوں گے یہ بے غم ہوں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔ یہی روایت منقطع سند سے ابوداؤد میں بھی ہے۔ [سنن ابوداود:3527،قال الشيخ الألباني:صحیح]۔
مسند احمد کی ایک مطول حدیث میں ہے کہ دور دراز کے رہنے والے خاندانوں اور برادریوں سے الگ شدہ لوگ جن میں کوئی رشتہ کنبہ قوم برادری نہیں وہ محض توحید و سنت کی وجہ سے اللہ کی رضا مندی کے حاصل کرنے کے لیے آپس میں ایک ہو گئے ہوں گے اور آپس میں میل ملاپ، محبت، مودت، دوستی اور بھائی چارہ رکھتے ہونگے، دین میں سب ایک ہوں گے، ان کے لیے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نورانی منبر بچھا دے گا جن پر وہ عزت سے تشریف رکھیں گے۔ لوگ پریشان ہوں گے لیکن یہ با اطمینان ہوں گے۔ یہ ہیں وہ اللہ کے اولیا جن پر کوئی خوف غم نہیں۔
(مسند احمد343/5:ضعیف)
جب کوئی انسان دنیا میں نیک خواب دیکھتا ہے تو یہ بشارت ہوتی ہے کہ اب وہ رب ذوالجلال کا خاص اور مقرب بندہ بن چکا ہے اور فرشتے اسے دنیاوی زندگی میں ہی قیامت کی خوشخبری سنادیتے ہیں جیسے ارشاد ہوا کہ إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّـهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ» [41-فصلت:30-32] ‏‏‏‏ میں ہے کہ ” سچے پکے مومنوں کے پاس فرشتے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم خوف نہ کرو، تم غم نہ کرو، تمہیں ہم اس جنت کی خوشخبری سناتے ہیں جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا ہے۔ ہم دنیا و آخرت میں تمہارے کار ساز ولی ہیں۔ سنو تم جو چاہو گے جنت میں پاؤ گے، جو مانگو گے ملے گا۔ تم غفور و رحیم اللہ کے خاص مہمان بنو گے “۔
سیدنا براء رضی اللہ عنہ کی مطول حدیث میں ہے مومن کی موت کے وقت نورانی سفید چہرے والے پاک صاف اجلے سفید کپڑوں والے فرشتے اس کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں اے پاک روح چل کشادگی راحت تروتازگی اور خوشبو اور بھلائی کی طرف چل سورہ انبیاء کی آیت 103 میں اللہ تعالی فرماتا ہے
«لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ وَتَتَلَقّٰهُمُ الْمَلٰئكَةُ ھٰذَا يَوْمُكُمُ الَّذِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ»
ترجمعہ کنزالایمان۔۔۔انہیں غم میں نہ ڈالے گی اس دن سب سے بڑی گھبراہٹ اور فرشتے ان کی پیشوائی کو آئیں گے کہ یہ ہے تمہارا وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا۔ یعنی وہ دن جب ہر کسی کو اپنی اپنی پڑی ہوگی ہر کوئی اپنے کئے ہوئے گناہوں سے پریشان ہوگا اور اپنے لئے نیکیاں تلاش کررہا ہوگا لیکن اللہ تعالی کے خاص اور محبوب ولی صفت بندوں پر نہ کوئی غم ہوگا نہ پریشانی۔
ایک اہل ایمان مسلمان کے لئے یہ معنی نہیں رکھتا کہ اس کا مال اس سے چھن جائے اس کا گھر بار لٹ جائے بلکہ فی زمانہ سب سے قیمتی چیز اپنے ایمان کی حفاظت ہے کیوں کہ مال و دولت ہو یا عال اولاد یہ سب اللہ تعالی کی وہ نعمتیں ہیں جو جب چاہے جسے چاہے رب تعالی عطا کردے یا جب چاہے جس سے چاہے چھین لے یہ اس کی مصلحت اور مرضی پر منحصر ہے لیکن اگر ایمان چھن جائے تو ہمارا سب کچھ تباہ و برباد ہوجاتا ہے اور ہم دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتے ہیں جبکہ جہنم ہمارا مقدر بنجاتی ہے۔
سورہ الکھف کی مذکورہ آیت مبارکہ میں  اِس اِرشادِ ربانی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط سے اُمتِ مسلمہ کے عام افراد کو یہ حکم دِیا جارہا ہے کہ وہ اُن لوگوں کی معیت اور صحبت اِختیار کریں اوراُن کی حلقہ بگوشی میں دِلجمعی کے ساتھ بیٹھے رہا کریں، جو صبح و شام اللہ کے ذِکر میں سرمست رہتے ہیں اور جن کی ہر گھڑی یادِالٰہی میں بسر ہوتی ہے۔ اُنہیں اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے کسی اور چیز کی طلب نہیں ہوتی، وہ ہر وقت اللہ کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں۔ یہ بندگانِ خدا مست صرف اپنے مولا کی آرزو رکھتے ہیں اور اُسی کی آرزو میں جیتے ہیں اور اپنی جان بھی ان کے حوالے کردیتے ہیں۔ اﷲ کے ولیوں کی یہ شان ہے کہ جو لوگ اﷲ تعالیٰ کے ہونا چاہتے ہیں اُنہیں چاہئیے کہ سب سے پہلے وہ ان اولیاء اﷲ کی صحبت اِختیار کریں۔ چونکہ وہ خود اﷲ کے قریب ہیں اور اِس لئے اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں  کو اُن کے ساتھ جڑ جانے کا حکم فرمایا ہے۔
غوثِ اعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ، حضر ت بہاؤ الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شاہ رکن عالم رحمۃ اللہ علیہ اور حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ اُن لوگوں میں سے تھے جنہوں نے خود کو اللہ کے قریب کرلیا تھا۔ اللہ تعالی کے اولیا اپنے مراتب و منزلت کے مطابق ہر دور میں اور ہر جگہ موجود رہتے ہیں۔ مذکورہ بالا آیتِ کریمہ میں ایسے ہی لوگوں کی صحبت اِختیار کرنے اور اُن سے اِکتسابِ فیض کا حکم دیا گیا ہے۔ یعنی جو شخص اللہ کے ولی کی مجلس میں بیٹھے گا اُسے اللہ کی قربت اور مجلس نصیب ہوگی۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں یہ وہ لوگ ہیں جنہیں نہ جنت کا لالچ ہے اور نہ ولایت کا، نہ کرامت کا شوق ہے اور نہ شہرت کی طلب، یہ نہ حوروں کے متمنی ہیں نہ قصوروں کے۔ اِن کا واحد مقصد اللہ کا دیدار ہے اور یہ فقط اللہ کے مکھڑے کے طالب ہیں۔ لہٰذا عام لوگوں کو تعلیم دی گئی کہ جو لوگ میرے (اللہ کے) مکھڑے کے طالب ہیں اُنہیں بھی اُن کا مکھڑا تکنا چاہیئے اور اپنی نظریں اُن کے چہروں پر جمائے رکھنا چاہیئں کیا معلوم کہ ہماری بروز محشر یہ ہی بات  نجات کا ذریعہ بن جائے۔
اگر ہمیں اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنا ہے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی خوشنودی حاصل کرنی ہے تو ہمیں اللہ والوں کی صحبت اختیار کرنا ہوگی کیوں کہ کسی نے کیا  خوب سچ  کہا ہے کہ

اللہ اللہ کرنے سے اللہ ملتا نہیں
اللہ والے ہیں جو اللہ سے ملا دیتے ہیں

شاعر مشرق حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال علیہ رحمہ نے ایسے ولیوں کو فقیروں سے تسبیح دے کر انتہائی پیارے انداز میں یہ شعر فرمایا کہ

تمنا درد دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی

نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں

 اللہ تعالی کے ولیوں کے بارے میں لکھنے کا یہ موضوع بڑا وسیع ہے اور اس پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے لیکن میں نے کوشش کی ہے کہ مختصر لیکن جامع انداز میں اس موضوع کو آپ تک پہنچا سکوں اب آپ پڑھکر یہ فیصلہ کریں کہ میں اپنی اس کوشش میں کہاں تک کامیاب ہوسکا ہوں اور آخر میں دعا ہے کہ اللہ باری تعالی مجھے حق بات لکھنے اور ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم۔

تبصرے بند ہیں۔