پارلیمنٹ میں سنگول کا پیغام

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں بی جے پی حکومت کے 30 مئی کو نو سال مکمل ہوئے۔ اس سے محض دو روز قبل 28 مئی کو وزیراعظم نریندر مودی نے نئی پارلیمنٹ کا افتتاح کیا۔ اسی دن ونائک دامودر ساورکر کی 140 ویں یوم پیدائش تھی۔ افتتاحی تقریبات کا حزب اختلاف کی 21 جماعتوں نے یہ کہہ کر بائیکاٹ کیا کہ صدر جمہوریہ ملک کی آئینی سربراہ ہیں۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی کاروئی ان کی اجازت سے چلتی ہے۔ اس لئے پارلیمنٹ کا افتتاح صدر جمہوریہ دروپدی مورمو کے ہاتھوں ہونا چاہئے نہ کہ وزیراعظم کے۔ بی جے پی حکومت کے نو سال گواہ ہیں کہ نریندر مودی نے آئین، عوام، پروٹوکال اور اپوزیشن کی کبھی پرواہ نہیں کی۔ نتیجہ جو بھی ہو انہوں نے جو سوچا وہ کیا۔ کیونکہ پارلیمنٹ میں ان کی اکثریت ہے، کارپوریٹ دوست پیچھے کھڑے ہیں، ایجنسیاں، آئینی ادارے پارٹی کارکن کی طرح کام کر رہے ہیں اور حزب اختلاف جماعتوں کے اپنے تحفظات ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ مصلحت و انتشار کا شکار ہیں۔ اس صورتحال نے مودی حکومت کو بے لگام بنا دیا ہے۔

ہندو دھرم کی روسومات کے مطابق نئی پارلیمنٹ کا افتتاح اور اسپیکر کی کرسی کے پاس سنگول (راج دنڈ) نصب کرنا ہندوتوا کا ایجنڈہ چلانے کی مثال ہے۔ افتتاح سے دو روز پہلے تک سنگول کے بارے میں کسی کو کوئی علم نہیں تھا۔ وزیر داخلہ امت شاہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے جب بتایا کہ افتتاح کے موقع پر وزیراعظم کو سنگول پیش کیا جائے گا جسے وہ اس کے جائز مقام یعنیٰ اسپیکر کی کرسی کے پاس نصب کریں گے۔ اس کے بعد میڈیا میں سنگول پر گفتگو ہونے لگی۔ سنگول کو لے کر بی جے پی نے جھوٹا پروپیگنڈہ کیا کہ 1947 میں برطانوی حکومت کے آخری وائس رائے لارڈ مائونٹ بیٹن نے پنڈت نہرو کو بھارت کا اقتدار سونپتے وقت منتقلی اقتدار کی علامت کے طور پر سنگول انہیں پیش کیا تھا۔ جسے نہرو جی نے الہ آباد کے آنند بھون میوزیم میں رکھوا دیا تھا۔ جبکہ یہ آنند بھون میں نہیں بلکہ الہ آباد کے میوزیم میں رکھا ہوا تھا۔ سینئر صحافی ارملیش کے مطابق پنڈت نہرو کو سنگول لارڈ مائونٹ بیٹن نے نہیں بلکہ تمل ناڈو کے ادھینم مٹھ کے سادھوؤں نے رات میں پونے بارہ بجے ان کی رہائش گاہ پر پیش کیا تھا۔ کیونکہ وہ ایسا وقت تھا جبکہ نہرو جی سب سے مل رہے تھے۔ وہ سب کی باتیں قبول کر رہے تھے۔ وہ جذبات کا احترام کرتے ہوئے کسی کی دل آزاری نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس لئے انہوں نے سنگول لے لیا اور بعد میں اسے الہ آباد کے میوزیم میں رکھوا دیا۔ اس لحاظ سے بی جے پی کا دعویٰ من گھڑت اور بے بنیاد ہے۔

سوشل ایکٹوسٹ اور ماہر تاریخ رام پنیانی کا کہنا ہے کہ جنوب کے چولا راجاؤں میں سنگول کی روایت تھی۔ شیوائک مٹھ کے سادھو راجا کو سنگول پیش کرتے تھے۔  نریندرمودی چولا ونس اور راج شاہی سے خود کو جوڑنا چاہتے ہیں۔ جمہوریت میں اقتدار کی منتقلی دھرم گروؤں کے آشرواد، سنگول سے نہیں ووٹوں کے ذریعہ ہوتی ہے۔ پیوش بیبلے نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اپنے خیال کا اظہار کیا کہ سنگول کا تعلق ہندو مذہب سے کم راجاؤں اور بادشاہوں سے زیادہ ہے۔ ماضی میں جب کوئی حکمراں دوسرے کو اقتدار منتقل کرتا تھا تو علامت کے طور پر سنگول پیش کرتا تھا۔ تجزیہ کار نیرا چنڈھوک نے "دی وائر” کے اپنے مضمون میں سنگول پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سنگول بادشاہ یا راجہ کو اپنی رعایا یا پرجا پر حکمرانی کا خدائی حق دیتا ہے۔ اس سے راجہ کو یہ اختیار ملتا ہے کہ وہ اپنی رعایا کے ساتھ جیسا چاہے سلوک کرے۔ زمانہ قدیم میں راجہ کا فیصلہ حتمی ہوتا تھا۔ اسے چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ہونے والے راجہ کو رعایا کے ساتھ اخلاق کے ساتھ پیش آنے کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اقتدار کی منتقلی کے وقت اسے سنگول دیا جاتا تھا۔ جو راجہ کو رعایا کے ساتھ اخلاقیات سے پیش آنے کی یاد دلاتا تھا۔ یہ راجہ پر منحصر تھا کہ وہ سنگول کا احترام کرے یا نہ کرے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر راہل گاندھی نے اپنے ٹوئٹ میں اس طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پارلیمنٹ عوام کی آواز بلند کرنے کی جگہ ہے لیکن وزیراعظم نے اس کا افتتاح اس طرح کیا ہے جیسے ان کی تاج پوشی ہوئی ہو۔ سنسکرت کے جانے مانے عالم رادھا ولبھ ترپاٹھی کا کہنا ہے کہ شاستروں یا سنسکرت لٹریچر میں راجیہ ابھیشیک کرنے اور اقتدار کی منتقلی کے وقت سنگول (راج دنڈ) دینے کی کوئی روایت نہیں ملتی۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے دانشور رام مادھو نے انڈین ایکسپریس میں لکھے اپنے مضمون میں سنگول کو دھرموکریسی نصب کرنا بتایا ہے۔ اس کا مطلب ہے دھرم کا راج یا ہندو راج۔ حالانکہ نریندرمودی نے 2014 میں پہلی مرتبہ پارلیمنٹ میں قدم رکھنے پر بھارت کے آئین کو دھرم گرنتھ کہا تھا۔

بی جے پی اور اس کی حکومت نے گزشتہ نو سالوں کے دوران مذہب کے سیاسی منصوبے اور سیاست کے مذہبی منصوبوں کو ملانے کا کام کیا ہے۔ اس کی وجہ سے جمہوریت کو لے کر طرح طرح کے شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔ اب سنگول نصب کرکے اس نے صاف کر دیا ہے کہ 2024 کا الیکشن وہ کس بنیاد پر لڑنے جا رہی ہے۔ بی آر امبیڈکر یونیورسٹی میں پروفیسر اور تجزیہ کار ابھے دوبے کا کہنا ہے کہ دھرم تنتر کا دوسرا نام ہندو راشٹر ہے۔ جمہوریت میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں مذہب انسان کا انفرادی معاملہ ہے حکومت کا نہیں۔ اس لئے وزیراعظم کو سرکاری تقریبات میں مذہب کا استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ انہیں اپنا مذہبی عقیدہ اپنی ذات تک محدود رکھنا چاہئے۔ جمہوریت میں تمام لوگ قانون کے سامنے برابر ہوتے ہیں۔ اس کی تین خصوصیات ہیں، قانون کی حکمرانی، آئینی مساوات اور سیاسی آزادی۔

یورپی ممالک میں بادشاہت اور چرچ (مذہب) دونوں کے خلاف لڑ کر جمہوریت قائم ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں کے روشن خیال اور باشعور لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم نہ تو ایشور، اللہ کے نام پر مذہب کے ایجنٹوں کا اقتدار چاہتے ہیں اور نہ ہی بادشاہت کے نام پر کسی ایک شخص کا اقتدار۔ ہم خود سمجھدار اور قابل ہیں، ہم اپنا راج پاٹ خود چلائیں گے۔ اس طرح جمہوریت بتدریج قائم اور مضبوط ہوتی گئی۔ اتنا مضبوط کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کے بیشتر ممالک جمہوریت کی زد میں آگئے۔ صورتحال یہ ہے کہ دنیا کے 203 خودمختار ممالک میں سے 156 خود کو ریپبلک یا جمہوریہ کہتے ہیں۔ جمہوریت درحقیقت ایسی طاقت ہے جو مذہب اور بادشاہت دونوں کی حرمت پر کھڑی ہے۔ جب بھارت آزاد ہوا تو ہم نے جمہوریت کو چنا۔ جس کی اخلاقیات کے لئے کسی سنگول کو نہیں بلکہ آئین کو اپنایا گیا۔ اب یہ آئین نہ صرف ہمارا سنگول ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ طاقتور چیز ہے۔

جو صرف اقتدار کی اخلاقیات کے بارے میں ہی بات نہیں کرتا، بلکہ اسے کنٹرول اور رہنمائی کرتا ہے۔ اسے  بے لگام بننے سے روکتا ہے۔ ہمارے اقتدار کو کسی سنگول (راج دنڈ) کی ضرورت نہیں۔ ہمارے پاس اس سے بھی زیادہ طاقتور چیز ہے آئین۔

تو سوال یہ ہے کہ کیا پارلیمنٹ جمہوریت کا مندر ہو سکتا ہے؟

میرا جواب ہے نہیں۔ کیونکہ جب ماڈرن انسان نے اپنی ترقی کے عمل میں بادشاہ اور مذہب دونوں کے اختیار کو رد کیا تو جمہوریت نے جنم لیا۔ اسی لیے جمہوریت کا سب سے اہم مقام کسی بھی مندر، مسجد یا چرچ سے بلند ہے۔ جمہوریت کی بنیادی روح مساوات اور بحث ہے اور ہم نے کسی مذہبی ادارے میں اس سطح کی مساوات اور بحث نہیں دیکھی، جیسا کہ دنیا بھر کی پارلیمانوں میں نظر آتی ہے۔

کیا پھر بھی ہمیں پارلیمنٹ میں سنگول چاہئے؟

 ہرگز نہیں۔ ہمارے پاس پہلے ہی سنگول سے زیادہ طاقتور چیز موجود ہے اور وہ ہے آئین۔ پھر نئی پارلیمنٹ کے افتتاح کے وقت جو کچھ ہوا وہ جمہوریت کو کمزور کرنے کی کوشش تھی۔ دانستہ یا نادانستہ ہم نے جمہوریت کی سب سے بڑی علامت پارلیمنٹ میں مذہبی اور غیر جمہوری رسومات ادا کرکے جمہوریت کے وقار کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ اسے کم کرنے کی کوشش کی۔ یہ باشعور لوگوں کے لئے فخر کا لمحہ تو بالکل نہیں تھا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔