اڑیسہ کا المناک ٹرین حادثہ

ریاض فردوسی

روبن نیا نے کرہاتے ہوئے کہا’’ پانی پلادو، میں مرانہیں ہوں زندہ ہوں‘‘، اسے مردہ سمجھ کر سرکاری اسکول میںوقتیہ بنے MORTUARY میں ڈال دیا گیا تھا، روبن اپنے دونوں پیرگنوا چکاہے۔ ایک کام کرنے والے نے اسے زندہ سمجھ کر اٹھایااور اب اس کا علاج چل رہاہے، روبن کے 6دوست لاپتہ ہیں۔ روبن نیا مغربی بنگال کے شمالی 24پرگنہ کے چرن کھلی گاؤں کا رہنے والا ہے۔

درجنوں کٹی پھٹی لاشیں ہیں، ہر طرف آہ و بُکا کی صدا ہے۔ الگ الگ رنگ کے کپڑوں میں لپٹی ہوئی لاشیں بہت ہی کم صحیح و سالم حالت میں ہے۔ غم و اندوہ سے لبریز  50 یا 51 سال کا آدمی ان لاشوں سے کپڑے اٹھا اٹھا کر دیکھتا جا رہا ہے، شدت سے کچھ تلاش کر رہا تھا، وہی ایک صحافی اپنے نیوز چینل کے لئے نیوز بنانے کے لئے Video Recording کر رہا ہے، اس نے پوچھا بڑے بھائی(دادا) آپ کس کو تلاش کر رہے ہیں؟

مغموم انسان آنکھوں سے آنسوؤں کے دریا کو صاف کرتے ہوئے جواب دیتا ہے اپنے جوان بیٹے کو،

صحافی پوچھتا ہے ملا؟ ’نہیں ملتا ہے۔

ایک مسافر کا دردناک بیان:

’’ظفر قادری کام کے سلسلے میںچنئی جا رہاتھا، گھر پرکافی قرض ہے، کماکر گھر والوں کی پریشانی ختم کرنی ہے۔ اس نے ایک زوردار آواز سنی۔ ٹرین سے بہت مشکل سے باہر نکلا تو دیکھا مال گاڑی دوسری ٹرین پر چڑھ گئی تھی۔ میرے ٹرین کے بہت سے ساتھی زخمی ہو گئے، کچھ کے ہاتھ تو پیر ٹوٹ گئے ہیں، کچھ کے کٹ گئے ہیں، لوگ درد سے کراہ رہے ہیں، بہت سے ٹرین کے ساتھی مر چکے ہیں۔ چائے پینے کے لئے جب دوسرے ڈبے میں گیا تھاتودیکھا تھا کہ ماں و باپ اور فیملی کے ساتھ چھوٹا بچہ ہنس کھیل رہا تھا، فیملی مر چکی ہے، چھوٹا بچہ رو رہا تھا اس معصوم کو یہ پتہ بھی نہیں ہے کہ میرے والدین اور کنبہ ختم ہوگیاہے۔ وہ بچہ بھی کچھ دیر بعد مر گیا۔ بہت سے لوگ پانی مانگ رہے تھے۔ جتنا ممکن ہوسکا، آس پاس کے لوگوں کی مدد سے میں نے پانی پلایا۔ گاؤں کے لوگ یہاں آئے اور جتنی ہو سکی مدد کی، ان لوگوں نے بنا بھید بھاؤ کی سب کی مدد کی۔ یہ حادثہ بہت خوفناک تھا‘‘

ٹرین کے زیادہ تر مسافر کام کرنے کے لئے ہی جار ہے تھے، ان کے گھر والوں کی امیدیں ان سبھوں سے وابسطہ تھی، چند لوگوں کی لاپرواہی سے لاکھوں لوگ پریشانی کا شکار ہوگئے۔ جب گھر کا کوئی فرد کمانے کے لئے باہر نکلتا ہے، گھر کے لوگوں کو امید کی روشنی نظرآتی ہے کہ میرابیٹا، میراشوہر، میرابھائی، میرے والدکماکر لائیں گے توراشن آئے گا، بچوں کے اسکول کی فیس جائے گی، قرض اداہوگا، علاج ہوگا۔ ناجانے کتنی بہنیں بیوا ہو گئی ہوگی، کتنے بچے یتیم ہوگئے ہوں گے، کتنے والدین کی امیدیں خاک میں مل گئی ہوں گی۔ یہ سب صرف چند لوگوں کی وجہ سے؟

ضلع سونیت پورشمالی مرال گاؤں آسام کا رہنے والا روپک داس جوکورومنڈل ایکسپریس میں سوار تھا اس کی گود میں ٹرین کے مسافر کاکٹاہوا سر بال کی طرح ہنگامی کھڑکی سے آکرگرا۔

دنیا کے سب سے بڑے ریلوے نظام کا دم بھرنے والی اس نکمی بھارت سرکار کے پاس مرنے والوں کے آخری رسومات کے لئے باوقار اور احترام کے پیش آنے کا آلات تک بھی نہیں ہے۔ تین ٹرینوں کے خوفناک تصادم میں کم از کم 288 افراد ہلاک اور 1000 سے زائد زخمی ہو گئے۔ اس حادثے میں بنگلورو-ہاؤڑا سپر فاسٹ ایکسپریس، شالیمار-چنئی سنٹرل کورومنڈیل ایکسپریس، اور ایک مال ٹرین شامل تھی۔ کورومنڈل ایک بہت تیز رفتار ٹرین ہے جو چینئی تک جاتی ہے۔ واضح رہے کہ اسکول کی چھٹیاں چل رہی ہیں اور ٹرینوں بہت زیادہ بھیڑ ہے، ہربوگی میں سیٹ سے دعگنااور تین گنا لوگ بیٹھ رہے ہیں اور سرکارمرنے والوں اور زخمیوں کی تعداد اتنی کم بتا رہی ہے۔

ایک ریل گاڑی دوسری ریل گاڑی سے اتنی زور سے ٹکرائی کہ بوگیاں ہوا میں اونچی ہو کر مڑگئی اور پٹریوں سے ٹکرا گئیں۔ ایک اور گاڑی ٹکرا کر مکمل طور پر ایسا لگا کہ دوسری ریل گاڑی کی چھت پر پھینک دی گئی ہو، جس سے مسافروں کے بوگی والے حصے پوری طرح کچل گئے۔

واضح رہے کہ انڈین ریلوے نے کاوچ ٹیکنالوجی سسٹم لگایا ہے جو دو ٹرینوں کے درمیان ممکنہ ٹکراؤ کو روکتی ہے، اور ٹرین خودبخود رک جاتی ہے، انڈین ریلوے کے 19 زون ہیں جن میں سے صرف دو میں یہ متعارف کرایا گیا ہے اور وہ بھی سینٹرل اور ایسٹ سینٹرل زون میں اور یہ حادثہ جنوب مشرقی زون میں ہوا ہے۔ اس کے علاوہ 16 زون اور بھی ایسے ہیں جہاں یہ ٹیکنالوجی نہیں ہے۔

مرنے والوں کی دبی کچلی لاشوں کو اس طرح سے ٹرک میں ڈالا جا رہا تھا جیسے وہ کوئی فالتو کچرا یا بے کار سا سامان ہو۔ ہیلارام ملک نے لاش اٹھانے والوں سے کہا کہ میرا بیٹا زندہ ہے میں اس کاہاتھ ہلتے دیکھاہے، وہ لوگ ماننے کوتیار ہی نہیں تھے، کیوںکہ لاشوں کو ایک دوسرے کے اوپر ڈبے کی طرح ڈالا گیا تھا، بہت مشکل سے ہیلا رام ملک کواپنا بیٹاوشواجیت ملا اور وہ زندہ تھااسے بہاگانامردہ گھرسے باہرنکالا گیاجہاںاسے مردہ سمجھ کر ڈال دیاگیاتھا، اب اس کا علاج کول کاتاکہ ٹراماسینٹرمیں ہورہاہے، اسے ہاتھ پیر میں چوٹ آئی ہے۔ وشواجیت سنترہ گاچھی سے چنئی کورومنڈل ایکسپریس پربیٹھ کر جارہاتھا۔ ہیلارام ملک نے بتایاکہ اس کے بیٹے نے 7بج کر 30منٹ پرفون کیا پھربیحوش ہوگیالوگوں نے اسے مردہ سمجھ کرمردہ خانے میں ڈال دیا۔ ہیلا رام نے اپنے بیٹے کوبچانے کے لئے 230کیلومیٹرکاسفرکیا۔

اس حادثے کو دیکھ کر حکومت سے گزارش ہے کہ ریلوے نظام کو تباہ کرنے والوں کو بخشا نہیں جانا چاہیے۔ غفلت کیسے ہوئی کہ اتنا بڑا حادثہ ہوا، اس کی تحقیقات ہونی چاہیے اور ذمہ داروں کے خلاف سخت کاروائی ہونی چاہیے۔ چند نا اہل لوگوں نے ٹرین کے نظام کے حالات کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔

آخر میں!

وزیر اعلیٰ بنگال محترمہ ممتا بنرجی نے اتوار کے روز اوڈیشہ کے بالاسور میں ٹرپل ٹرین حادثے میں وزارت ریلوے کی طرف سے دیے گئے موت کے اعداد و شمار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ان کی ریاست کے 61 افراد ہلاک اور 182 لاپتہ ہیں۔ محترمہ بنرجی نے سوال کیا کہ وندے بھارت کے انجن درست تھے تو اتنا المناک حادثہ کیسے ہوگیا؟

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ایک ریاست سے 182 لاپتہ ہیں اور 61 کی موت کی تصدیق ہوئی ہے، تو بھارت سرکار کے اعداد و شمار کہاں تک صحیح اور درست ہیں؟

وہی کانگریس کے لیڈر ملکارجن کھرگے نے ٹوئٹر پر کہا، ” شاید آزاد ہندوستان کے سب سے ہولناک ٹرین حادثے کے بعد۔ اشتہارات اور پی آر کی چالوں نے حکومت کے کام کرنے والے نظام کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ ” انہوں نے مرکز پر نوکریوں کو پُر نہ کرنے کا الزام لگایا جس کی وجہ سے ”افرادی قوت کی کمی” ہے۔  ”ریلوے میں 3 لاکھ عہدے خالی ہیں، بڑے افسروں کے عہدے بھی خالی ہیں، پی ایم او میں بھرتیاں، 9 سال میں کیوں نہیں بھری گئیں؟

بی بی سی کے نمائندے دلنواز پاشا سے بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی جے شنکر گپتا نے کہا کہ ’یہ حکومت اور اس کے وزرا کسی قسم کا اخلاقی دباؤ محسوس نہیں کرتے۔ یہ بدقسمتی ہے۔ پہلے لال بہادر شاستری نے استعفیٰ دیا تھا، نتیش کمار نے بھی استعفیٰ دیا تھا، بعد میں انھوں نے اسے واپس لے لیا تھا۔ پہلے لوگ ذمہ داری محسوس کرتے تھے لیکن اس حکومت میں یہ اخلاقی ذمہ داری نظر نہیں آتی۔ اتنے بڑے حادثے کے بعد وزیر ریلویز کو استعفیٰ دے دینا چاہیے اور انکوائری کا اعلان کرنا چاہیے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. عرفان اکرم کہتے ہیں

    قدرت اللہ شہاب جو کہ قیام پاکستان 1947ءکے وقت اسی علاقے میں تعینات تھے جہاں یہ حادثہ پیش آیا ۔ اور ٹرین سروس کے ذریعے بمبئی اور وہاں سے کراچی روانہ ہوئے ۔
    آج کے موجودہ ہندوستانی معاشرے میں تعلیم یافتہ مسلمانوں پر حکومتی اداروں کی ملازمتوں کے مواقع ختم کر دئیے گئے ہیں۔ یہ بات نہیں کہ مسلمان تعلیمی لحاظ سے کم تر ہیں بلکہ یہ تعصب ہے کہ۔ اس واقعے کی رپورٹنگ کرنے والے کئی مسلمان نام نظر آتے ہیں لیکن ریلوے؛ سول ایڈمنسٹریٹر یشن وغیرہ میں کوئی قابل ذکر مسلمان نام نظر نہیں آتا۔
    کسی نے خوب کہا ہے کہ
    ناکامی یتیم ہوتی ہے اور کامیابی کا ہر کوئی حقدار یا دعویدار ہے۔ آج اس ناکامی کی زمہ داری قبول کرنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں۔

تبصرے بند ہیں۔