بھڑوا، کٹوا، ملا آتنک وادی …

سرفراز فلاحی

(سوائی مادھوپور راجستھان)

 یہ الفاظ ہندوستانی پارلیمنٹ کے ایک مسلم ممبر کے لئے حکمراں پارٹی کے ممبر کی جانب سے کہے جائیں اورپاس بیٹھے حکمراں جماعت کے وزیر صحت سمیت کئی ممبران اس پر  ہنستے رہے۔

یہ غلیظ حرکت ملک میں موجود خطرناک صورتحال کی طرف واضح اشارہ تو کرتی ہی ہے یہ سوچنے پر بھی مجبور کرتی ہے کہ کیا ہم واقعی ایک جمہوری ملک میں رہ رہے ہیں۔

کیا ایسا کرنے کے لئے پارٹی ہائی کمان کی طرف سے اشارے ملے، اجازت ملی، حکم ملا یا پارٹی کی رضا اس میں شامل نہیں یا الیکشن سے عین قبل اس عمل کے ذریعہ ملک میں نفرت انگیز ہیجانی کیفیت پیدا کرکے پولرائزیشن کے ذریعہ اقتدار پر پکڑ مضبوط کرنا کسی گروہ کا مقصد ہے۔

دلتوں کی نمائندہ کہی جانے والی سیاسی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ کو دلت پارٹی کے رکن ہونے کی وجہ سے یہ بے عزتی جھیلنی پڑی یا مسلمان رکن پارلیمنٹ ہونے کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے  یہ سب وہ سوالات ہیں جن کے جوابات سب کو معلوم کرنے کا حق ہے اور معلوم کیا ہی جانا چاہئے جن الفاظ کا استعمال اب تک سڑکوں اور گلیوں میں ہورہا تھا وہ اب قومی قانون ساز ادارے میں، معزز اراکین کی موجودگی میں، ایک معزز رکن کے لئے استعمال کیا جانا اور اسے سن کر حکمراں جماعت کے وزیر سمیت ارکان  کا ہنسی کے فوارے چھوڑنا ایک خطرناک صورتحال کے آجانے کا اشارہ ہے جس میں ایک خاص تہذیب خاص طرز فکر خاص فرقے کے علاوہ کسی کی عزت آبرو ریسپیکٹ احترام  لائق اعتنا نہیں ہے۔

 کیا یہ ایک ایسے سماج کی تعمیر ہوچکنے کی جانب اشارہ ہے جس میں صرف ایک خاص طبقہ ہی قابل عزت واحترام ہے باقی تمام طبقات ان کی خدمت کے لئے ہیں اور انھیں عزت و احترام جیسی کسی چیز کا کوئی حق نہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ حکمراں جماعت کے اراکین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جب چاہے کسی کی عزت آبرو جان و مال پر ہاتھ ڈال سکتی ہے اگر اسے لگے کہ عدالتوں کے ذریعے کسی کو ختم کرنا مشکل یا دیر طلب ہے تو وہ عدالتی تحویل میں دو دو ملزموں کو گولیوں سے بھونے جانے کا سبب بھی بن سکتی ہے اگر ان کے خلاف جمہوری طریقے پر احتجاج بھی کیا جائے تو وہ  سڑک پر چل رہے احتجاجی کسانوں کو اپنی قیمتی گاڑی کے نیچے کچلنے میں بھی نہیں ہچکچاتی اور پھر بھی نہ تو ان کی رکنیت معطل ہوتی ہے نہ جرم کی سنگینی کے مطابق سزا۔

 جو عمل پارلیمان میں ہوگا اس کا اعادہ پورے ملک میں نہ ہوگا ایسا سوچنا بھی نادانی ہے۔ اس کا اعادہ نہ صرف ملک کی شاہراہوں پر ہوگا بلکہ اسے کوئی غیر معمولی جرم بھی شمار نہیں کیا جائےگا۔ اس کے نتائج کیا ہونگے کہنا مشکل ہے مگر پہلی نظر میں جو اندیشے نظر آتے ہیں وہ یہ کہ ایک طبقہ عدم تحفظ کے ساتھ ساتھ محرومی بے عزتی اور احساس کمتری میں مبتلا ہوکر سماج میں طبقاتی کشمکش کے لئے تیار ہوجائےگا۔

ملک کی صورتحال کو اس جانب مسلسل دھکیلتے رہنے والی سیاسی جماعتیں کیا اس ملک اور اہل ملک کی خیر خواہ ہونے کے دعوے میں حق بجانب ہیں یہ بھی عوام کو سوچنا پڑیگا یہ سب باتیں بحیثیت عام شہری میں نے عرض کی۔

اس صورتحال میں مسلم سیاسی رہنماؤں کے لئے بھی سوچنے کا مقام ہے

عام طور پر سیاسی پارٹیوں سے وابستہ مسلم لیڈرس اپنی پوری وفاداری اپنی پارٹیوں سے رکھتے ہیں مسلم عوام ان کے لئے ووٹ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے وہ سمجھتے ہیں کہ قوم پر تو ہمارا حق ہے ہی دوسرے کو ترجیح دیجائے تاکہ ہماری سیٹ پکی رہے بیچارے مسلم عوام مسلم چہرے کو جتانے کے لئے جی جان سے ووٹ کرتے ہیں مگر جیتنے کے بعد رہنماؤں کی قربت سے دوسرے لوگ ہی مستفید ہوتے ہیں۔

 یہ مرض عموما تمام سیاسی جماعتوں میں مشترک ہے مگر  کانگریس پارٹی اس میں طاق ہے۔

راجستھان کی دو اسمبلی نشستوں کی مثال ہمارے سامنے ہے سوائی مادھوپور اور کاما بھرتپور ان نشستوں سے سابق مرکزی وزیر  ڈاکٹر ابرار احمد  کے بیٹے دانش ابرار اور سابق وزیر چودھری طیب حسین کی بیٹی زاہدہ بانو نمائندگی کرتی ہیں دونوں کے تعلق سے عام مسلمانوں کی رائے میری رائے سے الگ نہیں ہے

چند ایک کو چھوڑ کر اپنے سیاسی نمائندوں کی حیثیت واضح کرنے کے لئے یہ شعر سب سے موزوں ہے۔

ہمارے بھی ہیں لوگ ایوان میں

مگر پھول کاغذ کے گلدان میں

کانگریس کی محبت کی دکان میں بھی محبت سب کے لئے برابر نہیں ہے۔

ایسے میں عام مسلمانوں کو اپنی زمینی سیاسی قیادت تیار کرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔

اپنے حقیقی خیر خواہوں کو پہچاننا چاہئے۔

 ہمت حوصلہ اور اپنی تہذیب عقیدے اور شناخت پر کسی حال میں مداہنت نہیں برتنا چاہئے۔

امت کے خطیبوں کو چاہئے کہ وہ عوام میں مایوسی اور قنوطیت کے بجائے عزم اور حوصلہ پیدا کریں مگر بے موقع جذباتیت سے بھی عوام کو دور رہنے کی تلقین کریں۔

یاد رہے کہ حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔

حالات کو بدلتے وقت نہیں لگتا نفرت کی بنیاد پر بہت دنوں تک لوگوں کو بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔