بچوں کو تعلیم کی ضرورت ہے، اجرت کی نہیں

ہریش کمار

(پونچھ، جموں)

بچوں کو ملک کا مستقبل کہا جاتا ہے۔ کسی بھی ملک کے بچے تعلیم یافتہ اور صحت مند ہوں گے تو وہ ملک ترقی کرے گا۔ لیکن اگر کسی معاشرے میں بچے کتابیں چھوڑ کر بچپن ہی سے مزدوری کرنے لگیں تو اس ملک اور معاشرے کو اپنے اندر جھانکنے کی ضرورت ہے۔ اسے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ بچے کو قلم چھوڑ کر مزدور کیوں بننا پڑا؟ جب کسی بچے کو اس کے بچپن، کھیل کود اور تعلیم کے حق سے محروم کر کے مزدوری کی بھٹی میں جھونک دیا جاتا ہے، اسے جسمانی، ذہنی اور سماجی طور پر اذیتیں دی جاتی ہیں اور اس کا بچپن مزدور میں تبدیل کر دیا جاتا ہے، تو اسے چائلڈ لیبر کہتے ہیں۔ اگرچہ پوری دنیا کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی چائلڈ لیبر مکمل طور پر غیر قانونی ہے۔ آئین کے 24ویں آرٹیکل کے مطابق 14 سال سے کم عمر کے بچوں کو فیکٹریوں، ہوٹلوں، ڈھابوں یا گھریلو ملازموں کے طور پر کام کروانا چائلڈ لیبر کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہوا پایا جائے تو اس کے لیے مناسب سزا کا انتظام ہے۔ لیکن اس کے باوجود معاشرے سے اس قسم کا استحصال ختم نہیں ہوا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چائلڈ لیبر کا یہ سلسلہ آخر کب رکے گا؟ اعداد و شمار اب بھی گواہی دیتے ہیں کہ ہندوستان میں چائلڈ لیبر کا مسئلہ اب بھی برقرار ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے اعداد و شمار کے مطابق، 2020 کے اوائل میں 5 سال یا اس سے زیادہ عمر کے 10 میں سے ایک بچہ چائلڈ لیبر میں ملوث تھا۔ ایک اندازے کے مطابق 160 ملین بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہوئے۔ دوسری جانب عالمی سطح پر، انٹرنیشنل چائلڈ لیبر اور یونیسیف 2021 کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں میں چائلڈ لیبر کو کم کرنے میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔سال 2000 اور 2020 کے درمیان چائلڈ لیبر میں بچوں کی تعداد 16 فیصد سے کم ہو کر 9.6 فیصد رہ گئی ہے۔ دوسری طرف اگر ہم ہندوستان کی بات کریں تو 2011 کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں 5 سے 14 سال کی عمر کے 10.1 ملین بچے کام کر رہے ہیں۔ موجودہ اعداد و شمار مکمل طور پر واضح نہیں ہیں۔ لیکن ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں چائلڈ لیبر کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پرائمری تعلیم پر توجہ دینے والی ریاستوں میں حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ تاہم کورونا کی وبا کے بعد اس میں تھوڑا ضافہ ہوا ہے۔ جس میں کئی بچے چائلڈ لیبر بننے پر مجبورہوئے ہیں۔

ایسی ہی ایک مثال جموں و کشمیر کے کٹھوعہ ضلع کے رہنے والے امیت مہرا کی ہے۔ امیت کہتے ہیں کہ ”جب میں چھوٹا تھا کہ میرے والد کا انتقال ہو گیا۔ وہ اکلوتے کمانے والے تھے۔ گھر میں ماں کے علاوہ تین بہنیں ہیں۔ اس وقت میری عمر صرف 13 سال تھی۔ لڑکیوں کا ہمارے سماج میں کام کرنا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اسی لیے میں نے کمانا شروع کیا۔ میں پڑھائی میں اچھا تھا، لیکن زیادہ ذمہ داری کی وجہ سے دسویں جماعت سے آگے نہیں پڑھ سکا۔“ امیت بتاتے ہیں کہ ”میں اس درد کو جانتا ہوں کہ بچپن میں گھر سے باہر جانا اور پیسہ کمانا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ یقیناً چائلڈ لیبر بہت غلط کام ہے۔ لیکن بعض حالات میں یہ مجبوری اتنی بڑھ جاتی ہے کہ انسان گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ لیکن جن کے والدین ہوتے ہیں اور وہ اپنے بچوں کو کام پر لگاتے ہیں یہ بہت افسوسناک بات ہے۔ وہ کہتا ہے کہ آج بھی دیکھتا ہوں کہ چھوٹے بچے اس گرمی میں یا تو دکانوں پر کام کرتے ہیں یا بھیک مانگتے ہیں۔ میں حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ ایسے بچوں کی بہتری کے لیے کچھ اہم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جو کسی وجہ سے چائلڈ لیبر کرنے پر مجبور ہیں۔“اس سلسلے میں جموں و کشمیر محکمہ سماجی بہبود کے مشن وتسالیہ کی پروٹیکشن آفیسر آرتی چودھری کا کہنا ہے کہ محکمہ اس سلسلے میں فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ بعض والدین اپنے بچوں کو تعلیم دینے کے بجائے بھیک مانگنے کا کام خود کراتے ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں میں محکمہ سماجی بہبود کے اہلکاروں نے جموں کے مشہور وکرم چوک، گاندھی نگر اور دیگر گنجان علاقوں سے ایسے بچوں کو بچایا ہے۔ انہیں بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے اداروں میں داخل کرایا گیا ہے، جہاں انہیں مناسب غذائیت، مشاورت اور طبی دیکھ بھال فراہم کی جا رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بچائے گئے زیادہ تر بچے راجستھان کے رہنے والے ہیں۔ یعنی باہر کی ریاستوں سے بچوں کو یہاں لاکر بھیک مانگوائی جارہی ہے۔ تاہم کیا ایسا کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی ہے یا نہیں؟ اس کی کوئی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔

دوسری جانب جموں و کشمیر کی سرحد سے متصل پونچھ ضلع کے منگناڈ گاؤں کے سماجی کارکن سکھ چین لال کا کہنا ہے کہ اس گاؤں کے زیادہ تر لوگ خط غربت سے نیچے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے یہاں والدین اپنے بچوں کو شہر کے امیر لوگوں کے گھروں میں کام کرنے بھیجتے تھے۔ انہیں بتایاجاتا تھا کہ ان کے بچے بھی تعلیم حاصل کریں گے۔ والدین کو لالچ ہو جاتا تھا کہ ان کا بچہ کام کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی حاصل کر سکے گا۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہوتی تھی۔ بچوں کو نہ صرف گھر کے کام کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا بلکہ انہیں پڑھنے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ جس کے بعد گاؤں کے کچھ لوگوں نے مل کر ایک سماجی اصلاحی کمیٹی بنائی، جس کے تحت سب نے مل کر ایک میٹنگ بلائی اور فیصلہ کیا کہ بچوں کے مستقبل کے لیے انہیں شہر نہیں بھیجا جائے گا۔ تاہم اس کی مخالفت ان والدین نے کی جو اپنے بچوں کی تعلیم سے زیادہ ان کی کمائی سے فائدہ حاصل کر رہے تھے۔ لیکن گاؤں والوں کے سخت رویے کے بعد آخر کارانہیں بھی جھکنا پڑا۔ اس وقت اس گاؤں کا کوئی بچہ شہر میں چائلڈ لیبر کے طور پر کام نہیں کرتا ہے۔

تاہم اگر کوئی کسی بچے کو زبردستی چائلڈ لیبر کروانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے خلاف شکایت درج کروائی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے ملک بھر میں 1098 چائلڈ لائن ٹول فری نمبر دستیاب ہے۔ جس پر کال کر کے شکایت درج کروائی جا سکتی ہے۔وہیں چائلڈ لیبر ایکٹ 1986 کے تحت اگر کوئی شخص اپنے کاروبار کے مقصد سے 14 سال سے کم عمر کے بچے سے کام کرواتا ہے تو اسے 2 سال کی سزا اور 50 ہزارروپے جرمانے کا بندوبست ہے۔تاہم، اگر ملک کے تمام شعبوں میں منگناڈ گاؤں جیسی سماجی بیداری ہو تو چائلڈ لیبر پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔ (چرخہ فیچر)

تبصرے بند ہیں۔