آپ انٹرنیٹ کو چلا رہے ہیں یا انٹرنیٹ آپ کو؟

سیدہ طیبہ کاظمی

(پونچھ)

جیسا کہ یہ بات عام ہے کہ دنیا میں موجود ہر چیز کے مثبت اثرات سے زیادہ اسکے منفی اثرات موجود ہوتے ہیں۔ یہی نظریہ انٹرنیٹ پر بھی واضع اترتا ہے۔ انٹرنیٹ کے جہاں ہزاروں مثبت اثرات ہیں وہی اس کے کچھ ایسے منفی اثرات ہیں جنہوں نے زمانے میں زہر گھولنے کا کام کیا ہے۔ جس باعث انٹرنیٹ ایک نعمت کم اور ایک لعنت کے روپ میں زیادہ ابھرا ہے۔ آج ہم انٹرنیٹ کے انہیں منفی نتائج کو زیرِ بحث لائیں گے، جنہوں سوسائٹی کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔ انٹرنیٹ کے وسیع پیمانے پر استعمال نے رازداری اور سلامتی کے بارے میں اہم خدشات کو جنم دیا ہے۔ ذاتی ڈیٹا کی وسیع مقدار کے جمع ہونے کے ساتھ، افراد شناخت کی چوری، نگرانی اور سائبر کرائمز کے لیے تیزی سے خطرے دوچار ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا کے پھیلاؤ نے ذاتی معلومات کی رازداری کے بارے میں بھی خدشات کو جنم دیا ہے، جس کے نتیجے میں کارپوریشنز اور بدنیتی پر مبنی اداکار دونوں کے ممکنہ استحصال کا سبب بنتا ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے آن لائن گھوٹالے ہندوستان میں تیزی سے عام ہو گئے ہیں۔اس کی ایک مثال خاتون ڈاکٹر پونم راجپوت ہیں۔ جسے خود کوپولیس اہلکار بتاکرقریب 4.5 کروڑ روپے کا دھوکہ کیا گیا۔ پولیس حکام کا کہنا تھا کہ ملزم نے خاتون کو ‘سکائپ’ کالز پر لے کر اس پورے گھوٹالے کی منصوبہ بندی کی۔ان گھوٹالوں میں اکثر دھوکہ دہی والے پروفائلز یا پیجز شامل ہوتے ہیں جو منافع بخش سرمایہ کاری کی اسکیمیں، ملازمت کے مواقع، یا رعایتی قیمتوں پر مصنوعات پیش کرتے ہیں۔ متاثرین کو ادائیگی کرنے یا ذاتی معلومات کا اشتراک کرنے کے لیے دھوکہ دیا جاتا ہے، صرف بعد میں یہ احساس کرنے کے لیے کہ ان کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے۔

ماضی قریب کا ذکر کیا جائے تو آئے دن ایسا سینکڑوں واقعات منظر عام پر آتے ہیں جہاں کسی نہ کسی کے ساتھ کسی نہ کسی طرح کا کوئی دوکھا ہوا ہوتا ہے۔ گزرے دنوں ایسا متعدد واقعات سامنے آئے جہاں کسی معصوم کو کسی غیر جانکار نمبر سے فون موصول ہوئے ہیں اور انہیں فون کالز کے زریعے انہیں بلیک میل کیا گیا جس وجہ سے ان کو لاکھوں کروڑوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔ ضلع پونچھ کی بات کریں تو کچھ ماہ قبل یہاں ایک ایپلیکیشن سامنے آئی تھی جس کے مطابق کہا گیا تھا کہ اس کے استعمال سے گھر بیٹھے بیٹھے ٹریڈنگ کی جا سکتی ہے اور لاکھوں روپے کمائے جا سکتے ہیں۔ اسی چال میں پھنس کر پونچھ کے کئی افراد نے اپنے روپے اس ایپلکیشن پر لگائے۔ وقت گزرا اور وہ ایپلکیشن غائب ہو گئی اور ان لوگوں کو اپنے پیسوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ ہندوستان میں ای کامرس کی ترقی کے ساتھ، آن لائن شاپنگ کے فراڈ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ دھوکہ باز جعلی آن لائن اسٹورز قائم کرتے ہیں، کم قیمتوں پر مقبول مصنوعات کی تشہیر کرتے ہیں، اور غیر مشکوک خریداروں سے ادائیگیاں وصول کرتے ہیں۔ تاہم، متاثرین کو کبھی بھی مصنوعات موصول نہیں ہوتیں، اور دھوکہ باز رقم لے کر غائب ہو جاتے ہیں۔ سائبر اسپیس کے باہم مربوط ہونے سے سائبر کرائم کی مختلف شکلوں کو جنم دیا ہے۔ بشمول ہیکنگ، فشنگ، اور میلویئر حملے اہم ہیں۔ یہ خطرات نہ صرف ذاتی معلومات سے سمجھوتہ کرتے ہیں بلکہ اہم بنیادی ڈھانچے جیسے کہ پاور گرڈ اور مالیاتی نظام کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ واقعی ایک حساس میدان ہے، اگر اسے مثبت انداز میں استعمال نہ کیا جائے تو یہ کسی کی زندگی برباد کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ 15 مئی 2023 کو مناس لاہورہ (19) نامی لڑکے کو اپنی سابق گرل فرینڈ کی فحش تصاویر لیک کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ مزید برآں، انٹرنیٹ نے جعلی خبروں، پروپیگنڈے اور سائبر دھونس کو پھیلانے میں سہولت فراہم کی ہے، جس سے افراد کو نقصان پہنچ رہا ہے اور اداروں میں اعتماد کو نقصان پہنچا ہے۔

 اس سلسلے میں نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط پر ایک صاحب نے بتایا کہ ایک آنلائن ٹریڈنگ ایپلکیشن کے جھانسے میں آ کر انہوں نے اپنے 2 لاکھ روپے گنوا دئیے۔ مزید یہ بتایا کہ میں نے اس ایپلکیشن پر 2 لاکھ روپے کی انوسینٹ کی تھی۔ لیکن بعد میں پتہ چلا کہ وہ ایک فرضی سائٹ تھی اور مجھے اپنی محنت کی کمائی سے ہاتھ دھونا پڑا۔ انٹرنیٹ کے ہی منفی اثرات سے متعلق نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط پرایک اور صاحب نے بتایا کہ کس طرح وہ دن رات سوشل میڈیا کا استعمال کرتے رہے اور آہستہ آہستہ وہ اس کے عادی ہو گئے۔ اور وقت آنے پر انہیں ان کی دماغی صحت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ انٹرنیٹ کے جہاں ہزاروں لاکھوں نقصانات ہیں ان میں سب سے بڑا نقصان معاشرے میں بے حیائی اور عریانیت کا پھیلاؤ ہے۔جو کہ اخلاقی و دینی تباہی اور نوجوانوں کی بے راہ روی اور گمرہی کا سب سے بڑا زمہ دار ہے۔ دوسرا سب سے بڑا نقصان وقت کا ضیاع ہے۔ وقت کی اہمیت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے اگر انسان اس سے استفادہ کرنے اور اس کو فضولیات وعبثیات میں خرچ کرنے سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے تو بڑے مثبت نتائج حاصل کرسکتا ہے، اور اگر ا س کو بے فائدہ اور گھٹیا کاموں میں خرچ کرتا رہا تو وہ ایک بڑے قیمتی سرمائے سے محروم ہو جائے گا۔ انٹرنیٹ کے نقصانات میں سے دوسرا نقصان یہ ہے کہ اس سے منسلک اکثر لوگوں کے قیمتی اوقات ا س کے استعمال کی وجہ سے ضائع ہوجاتے ہیں۔وہ گھنٹوں تک بے حس وحرکت ہوکر اس کی اسکرین پر نظریں جماکربیٹھتے ہیں، اور اکثر غیر ضروری بلکہ نقصان دہ اُمور کا مشاہدہ کرتے ہوئے ایک ہی نشست میں اپنے قیمتی اوقات میں سے ایک اچھا خاصا حصہ ضائع کردیتے ہیں اور اُن کو اندازہ تک نہیں ہوتا۔ تیسرا اور سب سے بڑا نقصان صحت پر اس کے منفی اثرات کا پڑنا ہے۔ انٹرنیٹ کے زیادہ استعمال سے انسان زہنی تناؤ کا سب سے زیادہ شکار ہوتا ہے۔ ہائی بلڈپریشر، شوگر، جسمانی کاہلی وسستی اور وزن وموٹاپے کی زیادتی اور دیگر قلبی واعصابی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ تعلیمی میدان میں پستی، معلومات میں چوری، خاندان کے افراد کے درمیان لا تعلقی اور غلط معلومات کی اشاعت انٹرنیٹ کے بڑے نقصانات میں سرِ فہرست شامل ہیں۔

ایک ڈاٹا کے مطابق18 سے 29 سال کی عمر کے تقریباً 86 فیصد لوگ سوشل میڈیا پلیٹ فارم استعمال کرتے ہیں۔ 30سے49 سال کی عمر کے مزید 80فیصد لوگ اور  50 سے64 سال کی عمر کے 64 فیصد لوگ سوشل میڈیا پر ہیں۔ یہاں تک کہ 65 سال سے زیادہ عمر کے ایک تہائی بزرگ بھی اس کا استعمال کرتے ہیں، جبکہ 2010 میں صرف 10 فیصد تھے۔ ایک سروے سے پتا چلا ہے کہ 13 سے 17 سال کی عمر کے 97 فیصد نوجوانوں کا کم از کم ایک سوشل میڈیااکاؤنٹ ہے۔اسمارٹ فونز کے اجراء کے بعد سے بچوں اور نوجوانوں میں ذہنی صحت کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ 2005 سے 2017 کے دوران کسی مخصوص سال میں بڑے ڈپریشن کی علامات کی اطلاع دینے والے نوجوانوں کی شرح میں 52 فیصد اضافہ ہوا۔ 2009 سے 2017 تک، 18 سے 25 سال کی عمر کے بالغوں میں اس میں 63 فیصد اضافہ ہوا۔2008 سے 2017 تک نوجوان بالغوں میں ایک مخصوص مہینے میں نفسیاتی پریشانی کا سامنا 71 فیصد بڑھ گیا۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ اسی عرصے کے دوران نوجوان بالغوں میں خودکشی کے خیالات کی شرح میں 47 فیصد اضافہ ہوا۔ بڑی عمر کے لوگوں کے لیے، اسی ادوار کے دوران ان ذہنی صحت کے مسائل میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا۔ بچے اور نوجوان بالغ سب سے زیادہ اثر کا تجربہ کرتے ہیں۔ یہ کوئی بڑی حیرت کی بات نہیں ہے کیونکہ وہ سوشل میڈیا کا سب سے زیادہ استعمال کرتے ہیں اور ڈیجیٹل مقامی کے طور پر بڑے ہوئے ہیں۔ لیکن اعدادوشمار چونکا دینے والے ہیں۔

اگرچہ انٹرنیٹ نے بہت سے لوگوں کے لیے معلومات کے فرق کو ختم کر دیا ہے، لیکن ڈیجیٹل تقسیم اب بھی برقرار ہے۔ ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی تک رسائی میں عدم مساوات پسماندہ کمیونٹیز کو غیر متناسب طور پر متاثر کرتی ہے، موجودہ سماجی اور معاشی تفاوت کو بڑھاتی ہے۔ انٹرنیٹ تک رسائی کی کمی تعلیمی مواقع میں رکاوٹ ہے، معاشی ترقی کو محدود کرتی ہے، اور سماجی عدم مساوات کو برقرار رکھتی ہے۔ انٹرنیٹ کی طرف سے پیش کردہ مستقل رابطے نے آن لائن لت اور دماغی صحت کے مسائل کو جنم دیا ہے۔ سوشل میڈیا اور آن لائن پلیٹ فارمز کا زیادہ استعمال تنہائی، اضطراب اور افسردگی کے جذبات کا باعث بن سکتا ہے۔آج کل زیادہ تر نوجوان انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے اضافے کے مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں جس سے ان کی ذہنی صحت متاثر ہو رہی ہے اور اس وجہ سے پوری قوم کی ترقی بالواسطہ طور پر متاثر ہو رہی ہے۔ سائبر اسپیس اور انٹرنیٹ کی لعنتوں کو کم کرنے کے لیے، رازداری اور سلامتی کے مسائل کو حل کرنا ناگزیر ہے۔ ڈیجیٹل تقسیم کو ختم کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے، ٹیکنالوجی تک مساوی رسائی اور سب کے لیے رابطے کو یقینی بنانا چاہیے۔ تعلیم اور بیداری کی مہمات افراد کو آن لائن دنیا میں محفوظ اور ذمہ داری کے ساتھ تشریف لے جانے میں مدد کر سکتی ہیں۔ مزید برآں، ڈیجیٹل خواندگی اور تنقیدی سوچ کی مہارت کو فروغ دینا غلط معلومات اور سائبر دھونس کے پھیلاؤ کا مقابلہ کر سکتا ہے۔سائبر اسپیس اور انٹرنیٹ نے انسانی تہذیب میں گہری تبدیلیاں لائی ہیں۔ اگرچہ رابطے، معلومات تک رسائی، اقتصادی ترقی، اور سماجی بااختیار بنانے کے حوالے سے ناقابل تردید برکات ہیں، لیکن رازداری کے خدشات، سائبر کرائم، عدم مساوات اور ذہنی صحت کے مسائل کی لعنتوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ افراد، حکومتوں اور اداروں کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ انسانیت کے طویل مدتی فائدے کے لیے سائبر اسپیس اور انٹرنیٹ کی صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لیے ان چیلنجوں سے فعال طور پر نمٹیں۔کہنے کو تو انٹرنیٹ ایک مفت ملی چیز ہے مگر غور کیا جائے تو ہر مفت چیز کا معاوضہ انسان کی زندگی اور اس کا قیمتی وقت ہوتا ہے۔ کبھی اس انٹرنٹ سے فرست ملے تو غور فکر کیجیے گا کہ آخر کون کسے چلا رہا ہے: آپ انٹرنیٹ کو یا انٹرنیٹ آپ کو؟ (چرخہ فیچرس)

تبصرے بند ہیں۔