2015ء….روشنی کاسال، جوروشنی بکھیرے بنابیت گیا

ڈاکٹرغلام قادرلون

                ۲۰۱۵ء  کاسال یونیسکو(UNESCO) نے عظیم سائنسدان ابن الہیثم کی یادمیں پوری دنیاکے لئے ’’روشنی کاسال‘‘ قراردیا تھا۔ چنانچہ دنیاکے مختلف شہروں میں ابن الہیثم کے احترام میں سینکڑوں تقریبات منعقدکی گئیں۔ عالم اسلام کے مختلف شہروں میں اگرچہ چھوٹی بڑی تقریبات منائی گئیں لیکن مجموعی حیثیت سے مسلم سماج ابن الہیثم کے نام سے لاتعلق اورنامانوس رہا۔ مسلمان اس وقت جن مسائل سے دوچارہیں، شاید انھوں نے اس طرف توجہ دینے کی مہلت نہ دی   ؎

مہلت ہی نہ دی فیض کبھی بخیہ گری نے

                عالم اسلام کے دوسرے حصوں کی طرح ریاست جموں وکشمیر میں بھی چند ایک محدودتقریبات کوچھوڑ کرخاموشی رہی۔ شمالی کشمیر میں درگمولہ کپوارہ کے ایک اسکول نے ۲۵جولائی ۲۰۱۵ء  کویہ تقریب منائی۔ علمی اکیڈمیوں، تعلیمی اداروں، ادبی اورثقافتی تنظیموں کے ہمہ داں ذمہ داروں کوسال بھرتک پتہ ہی نہیں چلا کہ مغرب میں روشنی کاسال چل رہاہے۔بڑے بڑے اداروں میں تاریکی چھائی رہی اگرکہیں محدودسطح پرابن الہیثم کے احترام میں کوئی تقریب ہوئی بھی توآگہی کی روشنی اس قدرمدھم تھی کہ مقررین حضرات ابن الہیثم کوابن الحاتم پڑھتے تھے۔

                ہم نے خودعلمی اداروں کے ذمہ داروں سے بات کی کہ کالجوں اوراسکولوں میں ابن الہیثم کی یادمیں سمینار اورمباحثے کرائے جائیں لیکن کسی ذمہ دارنے اس طرف توجہ ہی نہیں دی۔ ایسابھی نہیں کہ ہمارے اداروں میں تقریبات نہیں ہوئیں۔ بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں تقریبات کااہتمام ہوتارہا۔ رقص وسرودکی محفلیں جمتی رہیں۔ کھیل کودکے مقابلے بھی ہوتے رہے بس’’روشنی‘‘غائب تھی۔’’ابن الہیثم ‘‘ موجودنہ تھا۔ اکبرالٰہ ؔآبادی پرخداکی رحمت ہو، شاید ایسے ہی حالات کے لئے کہاتھا   ؎

 بے علم بھی ہم لوگ ہیں غفلت بھی ہے طاری

افسوس کہ اندھے بھی ہیں اورسوبھی رہے ہیں

                آئیے دیکھیں کہ پوری دنیا میں روشنی بکھیرنے والے عظیم سائنسداں ابن الہثیم کون تھے؟

                ان کاپورانام ابوعلی الحسن بن الحسین بن الہیثم البصری المصری تھا۔ عام طورپر ابن الہیثم کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ مغرب میں ’’الہازن‘‘ کے نام سے مشہورہیں۔

                ابن الہیثم ۳۵۴ھ/۹۶۵ء عراق کے شہر بصرہ میں پیداہوئے۔ ابن الہیثم کازمانہ مسلمانوں کاسنہر ی دورتھا۔پوری دنیا میں علوم وفنون میں صف اول کے ماہرین مسلمان تھے۔ بڑے بڑے سائنسدان ابن سینا، البیرونی وغیرہ ابن الہیثم کے ہم عصرتھے۔ عالم اسلام کے بلادوامصارمیں بہترین علمی ادارے اورکتب خانے موجودتھے اس لئے علم حاصل کرنا چنداں دشوارنہ تھا۔ابن الہیثم نے مختلف علوم حاصل کئے۔فاطمی خلیفہ الحاکم نے انھیں قاہرہ بلایاتووہاں انھیں دریائے نیل کے بہاؤ کوقابو کرنے کے لئے ایک بند کی تعمیر کاکام سپردہوامگراس میں مشکلات حائل ہوئیں اورمنصوبہ مکمل نہ ہوسکا۔ ابن الہیثم کوخدشہ ہواکہ کہیں خلیفہ ناراض ہوکرانھیں قتل نہ کرڈالے۔ اس خوف کے پیش نظرانھوں نے بہانہ کیا کہ وہ دیوانہ ہوچکے ہیں۔ دیوانگی کی بنیادپرانھیں ملازمت سے نکال دیاگیا۔ خلیفہ حاکم کی زندگی کے آخری لمحات تک ابن الہیثم دیوانہ بن کراپنے گھر میں محصوررہے۔ ۴۱۱ھ/۱۰۲۱ء میں خلیفہ حاکم پراسرارطورقتل گئے۔ ان کے قتل کے بعدابن الہیثم کاخوف دورہوا۔ انھوں نے اعلان کیا کہ وہ دیوانہ نہیں بلکہ صحیح العقل ہیں۔ انھوں نے زندگی کے اگلے انیس برس تصنیف وتالیف میں گزاردئے۔اپنی زندگی کابڑاحصہ انھوں نے جامع ازہرمیں گزاراجہاں وہ ایک حجرے میں رہ کرتحقیق کرتے تھے۔ ابن الہیثم کی زندگی کے آخری دس برس زرخیز تریں رہے ہیں۔ ان کی بہترین سائنسی تحقیقات انھیں دس برسوں کی کاوشوں کانتیجہ ہیں۔ ان کاانتقال قاہرہ میں ۴۳۰ھ/۱۰۳۹ء میں ہوا۔

                ابن الہیثم کی زندگی سادہ تھی۔ وہ اپنے ہاتھ سے روزی کماتے تھے۔وہ اقلیدس المجسطی اورالمتوسطات کونقل کرتے تھے جس سے انھیں ایک سوپچاس دینارمل جاتے تھے۔ سال بھروہ انھیں کتابوں کی نقول سے ملنے والی آمدنی پرگزارہ کرتے تھے۔ کئی مرتبہ انھیں امراء کی طرف سے مالی امدادکی پیش کش کی گئی مگران کی غیرت اورخودداری نے کسی کااحسان اٹھانا گوارانہ کیا۔ ان کے کردارکے بارے میں مؤرخین نے ایک واقعہ لکھاہے کہ سمنان کے ایک امیرنے جس کانام سرخاب تھا،ان سے پڑھنے کی خواہش کا اظہارکیا۔ ابن الہیثم نے ان سے ماہانہ ایک سودینارکامعاوضہ مانگا۔امیرنے خوشی سے منظورکرلیااورپڑھناشروع کیا۔ابن الہیثم نے انھیں تین سال تک پڑھایا۔ امیرکی تعلیم مکمل ہوئی توابن الہیثم نے تین سال کی تمام رقم لوٹادی اورکہاکہ میں تمہارے شوق کی آزمائش کررہاتھا، نیک کام کے لئے اجرت، رشوت یاہدیہ لیناناجائزہے۔

                ابن الہیثم مختلف علوم وفنون میں درک رکھتے تھے۔ انھوں نے فلکیات، ریاضیات، طبیعیات، طب،منطق،کلام، اخلاقیات،سیاسیات، موسیقی اورشاعری پر کم وبیش دوسوکتابیں اوررسالے تصنیف کئے ہیں۔ فلکیات اورریاضی کے موضوعات پرابن الہیثم نے بیس کتابیں لکھی ہیں۔ ان کے زمانے تک سہ درجی مساوات کاایک مسٔلہ لایخل چلاآرہاتھا۔ یہ مسٔلہ الماہانی کے نام سے مشہورتھا۔ابن الہیثم نے یہ مسٔلہ قطع مخروطات کے ذریعہ حل کرلیا۔ انھوں نے ریاضی میں ایک مسٔلہ حل کیاجومماثلات سے متعلق تھا اورجس کے حل کاسہرااہل مغرب نے بعدمیں ولسن کے سرباندھ دیا۔آج یہ ولسن تھیورم کے نام سے مشہورہے۔

                ریاضی میں ایک مسٔلہ آج تک ابن الہیثم کے نام پرمشہورہے۔یہ مسٔلہ ’’مسٔلہ الہازن‘‘ Al-Hazen’s Problem کے نام سے جاناجاتاہے۔

                ریاضی میں ابن الہیثم نے گراں قدرعلمی خدمات انجام دی ہیں۔ ان کی تحریروں کاایک بڑاحصہ ابھی تک قلمی مخطوطات کی صورتوں میں پڑاہواہے، اس لئے ان کی تمام تحریروں کاجائزہ ابھی تک نہیں لیاگیاہے۔

                لیکن مئیرہاف ایک جگہ لکھتے ہیں :

                ’’مسلم سائنس کی شان بصریات میں نمایاں ہوئی ہے۔ یہیں ایک ابن الہیثم اورایک کمال الدین کی ریاضیاتی صلاحیت نے اقلیدس اور بطلیموس کی صلاحیتوں کوماند کردیاہے۔ سائنس کے اس شعبے میں ان کے سراصل اورپائیدارترقیوں کاسہراہے‘‘۔

                ابن الہیثم کی عبقریت بھی بصریات میں سامنے آئی ہے۔ انھوں نے طبیعیات میں ۴۴کتابیں قلمبند کی ہیں مگر ان کی شہرت کاسارادارومدار’’کتاب المناظر‘‘پرہے۔ حالانکہ انھوں نے دوسرے شعبوں میں جوتحریری آثارچھوڑے ہیں ان میں بھی ان کی عبقری شان نمایاں ہوئی ہے۔

                ابن الہیثم کے پیشرو اورہم عصرمسلم سائنسدانوں میں کندی، ابن سینااورالبیرونی نے بھی بصریات کے موضوع پرکام کیاہے مگرابن الہیثم نے اپنی بصریاتی تحقیق کوبامِ عروج پرپہنچادیا۔جارج سارٹن نے انھیں ’’اسلام کاعظیم ترین ماہرطبیعیات ‘‘اور’’تاریخ بصریات کے عظیم ترین محققین میں سے ایک محقق ‘‘قراردیاہے۔

                کتاب المناظر کی ممتازچیزاس کاطریق بحث ہے جومن وعن سائنسی ہے۔ابن الہیثم نے اس کتاب میں ہی نہیں بلکہ اپنی دوسری تحریروں میں بھی استقرائی طریقۂ بحث جسے Inductive Methodکہتے ہیں اختیارکیاہے۔انھوں نے تجرباتی سائنس کی بنیاد رکھی۔تجربے کے لئے انھوں نے ’’اعتبارکالفظ استعمال کیاہے وہ تجربات کے دوراں قسم قسم کی نلکیاں، ڈوریاں اورتاریک ڈبے استعمال کرتے تھے۔ بعض اوقات وہ ایک ہی مسٔلے کے لئے کئی بارتجربے کیاکرتے تھے اوران سے صیح نتائج اخذ کرتے تھے۔ ان کی ایک اورخصوصیت ان کا ریاضیاتی اسلوب ہے۔ ابن الہیثم کااستقرائی، تجربی اورریاضیاتی اسلوب جدیدسائنس کامسلمہ اسلوب قرارپایاجس نے انسان کوآسمان کی بلندیوں تک پہنچایا۔ان کے اس اسلوب کومغرب کے سائنسدانوں نے اختیارکرلیا حتیٰ کہ جواصطلاحات انھوں نے استعمال کی ہیں، وہی مغرب والوں نے بھی اختیار کیں۔ ابن الہیثم نے تجربہ کے لئے ’’اعتبار‘‘کالفظ استعمال کیا۔ کتاب المناظر کے لاطینی ترجمے میں مغرب والوں نے experimentumلکھا۔ تجربہ کرنے والے کے لئے ابن الہیثم نے ’’المُعْتَبِرْ‘‘کالفظ دیاتھا۔ مغرب والوں نے اسے ’’experimentator‘‘ میں ترجمہ کیا۔ کتاب المناظر میں جس سائنسی اسلوب کی بنیاد ڈالی گئی، وہ سائنس کی دنیا کے لئے مشعل راہ بنا۔ وِل دوراں کے بقول’’قرون وسطیٰ کی تمام کتابون میں غالباً یہ کتاب طریقِ بحث اورفکرمیں کلی طورپر سائنسی اسلوب کی حاصل ہے‘‘۔

                ابن الہیثم نے اچھوتے نظریات پیش کئے۔انھوں نے یہ نظریہ دیاکہ سورج اورچاندطلوع سے پہلے اورغروب کے بعدنظرآتے ہیں، ان کے مطابق شفق یادھندلکے کی ابتدااورانتہا اس وقت ہوتی ہے جب سورج افق سے ۱۹درجے نیچے ہوتاہے، اسی بنیادپرانھوں نے کرۂ باد کی بلندی کااچھوتاخیال ظاہرکرتے ہوئے کہاکہ زمین سے ۵۲۰۰۰ قدم کی بلندی تک ہوا کی تہہ موجودہے جومیکس مئیرہاف اوروِل دوراں کے بقول دس انگریزی میلوں کے برابرہے۔ابن الہیثم نے ایک انکشاف یہ کیاہے کہ فضا کی لطافت یاکثافت کی بناپرچیزوں کے وزن میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے،نیز سورج چاند اورستارے جب افق کے قریب ہوتے ہیں توبڑے نظرآتے ہیں، انھوں نے اس کی صحیح سائنسی توجیہہ کی ہے۔

                ابن الہیثم کی تحقیقات کاایک موضوع ’’آئینے‘‘ رہاہے۔ انھوں نے آئینوں اورنور کے بارے میں اہم حقائق دریافت کئے۔اپنی ایک تصنیف ’’المرایاالمحرقہ‘‘ میں انھوں نے انعطاف کوناپنے کے لئے ایک ایسی بصریاتی وحدت پیدا کی ہے جویونانیوں سے بہترتھی۔انھوں نے تجربات کی بنیاد پرتمسیک تکبیر،تقلیب تمثال اوررنگوں کی تشکیل کے بارے میں نئے اوردرست تصورات پیش کئے ہیں۔ اپنی دوتحریروں ’’مقالہ فی المرایاالمحرقہ بالدوائر ‘‘اور’’مقالہ فی المرایاالمحرقہ بالقطوع‘‘میں انھوں نے کروی،مقمر اور مسکافی آئینوں کے متعلق نئے حقائق دریافت کئے ہیں۔ یہ ان کے اہم اور شاندارکارناموں میں شمارہوتے ہیں۔

                ابن الہیثم نے روشنی پربھی خاصی توجہ دی ہے۔ ان کے نزدیک روشنی توانائی کی ایک قسم ہے جوحرارت کی توانائی کے مشابہ ہے۔انھوں نے شعاع کی صحیح تعریف کرتے ہوئے کہاہے کہ شعاع روشنی کا وہ راستہ ہے جوایک خط کی صورت میں ہوتاہے۔ روشنی کی شعاع ایک واسطے یامیڈیم میں بخط مستقیم چلتی ہے۔ اوریہ روشنی کی ذاتی خاصیت ہے جس کاکسی واسطے پرانحصارنہیں ہوتا۔

                ابن الہیثم نے روشنی کے بارے میں کئی قوانین دریافت کئے اوران کے ثبوت فراہم کئے۔ان قوانین میں سے دوقوانین آج بھی مشہورہیں :

                روشنی کی شعاع جب ایک واسطے سے دوسرے واسطے میں داخل ہوتی ہے توپہلے راستے سے ایک طرف کومڑجاتی ہے،اسے روشنی کاانعطاف کہتے ہیں۔ ابن الہیثم نے انعطاف پربھی بحث کی ہے۔انھوں نے مقالہ فی کرۃ المحرقہ میں شیشے میں گزرنے والی متوازی شعاعوں کے راستے کامطالعہ کیاہے۔ انھوں نے کرہ کاطول ماسکہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس میں پیداہونے والے کروی ضلال کی نشاندہی کی ہے۔

                ابن الہیثم پہلے سائنسدان ہیں جنہوں نے کیمرہ مظلمہ (Camera Obscura)کااصول دریافت کیا۔انھوں نے اس کے لئے ’’البیت المظلم‘‘کانام اختیار کیا۔Camera Obscura اسی کالاطینی ترجمہ ہے۔ول دوراں کابیان ہے:

                ’’انھوں نے کھڑکی کے کواڑ(پٹ)میں بنائے گئے چھوٹے سوراخ کی مدمقابل دیوارپر گرہن کے دوران سورج کے نیم قمری عکس کا مشاہدہ کیاجودستیاب معلومات حدتک کیمرہ مظلمہ یاتاریک خانہ کااولین تذکرہ ہے جس پرتمام فوٹوگرافی کی بنیادہے‘‘۔

                کیمرہ مظلمہ کاتذکرہ ابن الہیثم نے اپنی تصنیف ’’مقالہ فی صورۃ الکسوف‘‘میں کیاہے۔انھوں نے اسے استعمال بھی کیاہے۔

                ابن الہیثم نے سوراخ داریاسوئی چھیدکیمرے کااصول بھی دریافت کیا اوراسے ثقبالہ کانام دیا۔ اسے Pinhole Cameraکہتے ہیں۔ انھوں نے تجربے سے ثابت کیاکہ اگرکسی تاریک خانے میں تنگ سوراخ ہو اور اس کے سامنے کوئی منورجسم ہوتواس جسم کاعکس تاریک خانے کے اندرپردے پر الٹاہوگا اوراگرسوراخ کے سامنے کئی منور جسم (مثلاًموم بتیاں ) ہوں گے تونہ صرف ان کے عکس ہی الٹے ہوں گے بلکہ دائیں طرف کے جسموں کے عکس پردے پر بائیں طرف نظرآئیں گے۔

                ابن الہیثم کاسب سے اہم کارنامہ نظریہ بصارت ہے جس کی بنیاد پروہ بطلیموس کے بعدوہ سب سے بڑے سائنسدان مانے جانتے ہیں۔ قدیم حکماء اقلیدس اور بطلیموس نے بصریات کے موضوع پرکتابیں تحریرکرکے بصارت کی توجیہہ کرتے ہوئے یہ نظریہ پیش کیاتھا کہ انسان کی آنکھ سے روشنی کی شعاعیں باہرنکلتی ہیں اور وہ جس چیز پرپڑتی ہیں وہ دیکھنے والی آنکھ کونظرآتی ہے۔تقریباً ایک ہزارسال تک یہ نظریہ ساری دنیا میں تسلیم شدہ نظریہ تھا۔

                ابن الہیثم پہلے سائنسداں ہیں جنہوں نے تجربوں اورتحقیق کی بنیادپرقدیم حکماء کے نظریہ بصارت کوچلینج کیا۔انھوں نے کتاب المناظر میں بصارت پربحث کرتے ہوئے ثابت کردیا کہ آنکھ سے نکلنے والی کرنوں کاکوئی وجودہی نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ روشنی جب کسی چیزپرپڑتی ہے تواس کی مختلف سطحوں سے شعاعیں واپس مڑکرفضا میں پھیل جاتی ہیں، ان میں سے کچھ شعاعیں آنکھ میں داخل ہوتی ہیں جس سے وہ چیزآنکھوں کونظرآنے لگتی ہے۔ابن الہیثم کی تحقیق نے روشنی کے بارے میں یونانی نظریے کوکالعدم کردیا۔اس کی جگہ ابن الہیثم کی نئی تحقیق نے لی۔

                انسائیکلوپیڈیا بڑٹانیکا میں ابن الہیثم کی اس تحقیق کااعتراف ان الفاظ میں کیاگیاہے:

                ’’پایان کارفیثا غوثی نظریہ ترک کیاگیا اور۱۰۰۰ء  کے لگ بھگ عرب ریاضی داں اورماہرطبیعیات ابن الہیثم کے زیراثریہ نظریہ قطعی طورپرتسلیم کیاگیا کہ روشنی کی کرنیں اس شئے سے آنکھ کی طرف جاتی ہیں جس پرروشنی پڑتی ہے۔

                انسائیکوپیڈیا برٹانیکا ہی کے ایک اورنوشتے میں کہاگیاہے:

                ’’وہ پہلے سائنسداں تھے جنہوں نے بصارت کی درست توجیہہ پیش کی اوریہ صحیح انکشاف کیا کہ روشنی دیکھنی جانے والی چیزسے آنکھ کی طرف آتی ہے‘‘۔

                مؤرخین کے نزدیک ابن الہیثم کی عبقریت اس وقت زیادہ نمایاں ہوتی ہے جب ان کے زمانے کے ماحول کوپیش نظر رکھاجائے جس میں لاشوں کی چیرپھاڑسختی سے منع تھی۔ کسی شخص کے لئے اس حرکت کاارتکاب کئے بغیر آنکھ کی ساخت پرتحقیق کرکے حقیقت کاانکشاف کرناآسان نہ تھا۔

                ابن الہیثم نابغہ روزگارتھے۔انھوں نے مغرب پربے پناہ اثرات ڈالے ہیں۔ مغرب کے بڑے سائنسدانوں نے نہ صرف ان سے بھرپوراستفادہ کیاہے بلکہ ان کی قابل رشک دماغی صلاحیتوں کااعتراف کیاہے۔ پول وایٹلو(المتوفیٰ :۱۲۸۰ء ) پولینڈ کے سائنسدان گزرے ہیں۔ بصریات پرانھوں نے جوکتاب تحریرکی تھی اس کی بنیادابن الہیثم کی تحقیقات پرہے۔ واٹیلونے یہ کتاب ۱۲۷۰ء اور۱۲۷۸ء  کے دوران مکمل کی تھی۔

                راجربیکن (المتوفیٰ ۱۲۹۲ء) کوجدیدسائنس کاموجدماناجاتاہے۔ان کی کتاب کاجوحصہ سائنس سے متعلق ہے وہ ابن الہیثم سے ماخوذہے۔ و ہ قدم قدم پرابن الہیثم کاحوالہ دیتے ہیں۔ کتاب کاپانچواں باب بصریات سے متعلق ہے۔ سارے کاساراابن الہیثم کی تحقیقات پرمبنی ہے۔ کتاب کاچھٹاباب بھی ابن الہیثم سے لیاگیا ہے۔وِل دوراں کابیاں ہے کہ اگرابن الہیثم نہ ہوتے توراجربیکن کانام سننے میں بھی نہ آتا۔

                پیک ہیم(المتوفیٰ ۱۲۹۲ء) کی کتاب Perspectiva Communisکے نام سے معروف ہے مگریہ کتاب ابن الہیثم کی کتاب المناظر کاخلاصہ ہے۔کتاب المناظر سے استفادہ کرنے والوں میں دیترخ فان فرائی برگ (المتوفیٰ ۱۳۱۰ء ) قوس قزح پرکام نے کے لئے مشہورہیں۔ ان کی ذاتی شہادت موجود ہے کہ انھوں نے ابن الہیثم کی کتاب المناظر سے استفادہ کیاہے۔ ابن الہیثم کی تحقیقات سے استفادہ کرنے والوں میں لیونارڈوڈاونسی(المتوفیٰ ۱۵۱۹ء )،ہیریٹ (المتوفیٰ ۱۶۲۱ء)،سنیل (المتوفیٰ ۱۶۲۶ء) بیک مین، فرمیٹ(المتوفیٰ ۱۶۶۵ء) شامل ہیں۔ ان سب نے ابن الہیثم کے حوالے دئے ہے۔ڈیکارٹ (المتوفیٰ ۱۶۵۰ء ) نے ابن الہیثم سے استفادہ توکیاہے لیکن حوالے نہیں دئے ہیں۔ ابن الہیثم سے استفادہ کرنے والوں میں کپلر(المتوفیٰ ۱۶۳۰ء )بھی شامل ہیں۔

                مغربی اہل قلم کے بقول انھوں نے کتاب المناظر سے حددرجہ خوشہ چینی کی ہے۔ ان کے علاوہ مغرب کے دوسرے سائنسدانوں گلیلیو(المتوفیٰ ۱۶۴۲ء) اورنیوٹن (المتوفیٰ ۱۷۲۶ء) نے بھی ابن الہیثم کے چراغ سے چراغ جلائے ہیں۔ قرون وسطیٰ کے یورپ پرابن الہیثم کے اثرات کے بارے میں میکس مئیرہاف کاکہناہے کہ ’’راجربیکن (تیرھویں صدی عیسوی)اور قرون وسطیٰ کے تمام ماہرین بصریات خاص کرپول وایٹلو کی تحریریں کتاب المناظر کے لاطینی ترجمے پرمبنی ہیں۔ علاوہ ازیں کتاب المناظر نے لیونارڈو ڈاونسی اورکپلر پربھی اثرات ڈالے ہیں ‘‘۔موسیوساشیل کاخیال ہے کہ بصریات کے بارے میں یورپ کی تمام معلومات ابن الہیثم کی کتاب سے ماخوذہیں۔

                قرون وسطیٰ کے دوران مغرب میں ابن الہیثم کی تحریریں بہت مقبول تھیں۔ شفق کے موضوع پران کی ایک چھوٹی سی تصنیف کاترجمہ جرارقرمونی نے بارھویں صدی عیسوی میں کیاتھا۔ کتاب المناظر کالاطینی ترجمہ بارہویں صدی عیسوی میں عام ہوچکاتھا۔ شفق کے موضوع پرابن الہیثم کی تصنیف سب سے پہلے شائع ہوئی۔ یہ ۱۵۴۲ء  میں برنن سے شائع ہوئی تھی۔کتاب المناظر کے لاطینی ترجمے کامتن فریڈرک رزنرنے Thesarus Opticusکے عنوان سے ۱۵۷۲ء  میں باسل سویزرلینڈ سے شائع کی۔اس کے ساتھ شفق کے موضوع پرابن الہیثم کی تصنیف کاوہ لاطینی ترجمہ بھی شامل تھا جواس سے قبل برنن سے شائع ہواتھا۔ رزنرکے شائع کردہ ایڈیشن کے ساتھ پول وایٹلو کی بصریاتی تصنیف Perspectivaبھی شامل تھی۔چودھویں صدی عیسوی میں لورنزوگبرٹی (المتوفیٰ ۱۴۵۵ء )نے کتاب المناظر کے اطالوی ترجمے کامطالعہ کیاتھا۔ اس سے لگتاہے کہ کتاب المناظر کا اطالوی ترجمہ چودھویں صدی میں عام تھا۔ کتاب کے لاطینی اوراطالوی ترجمے مغربی سائنسدانوں کے زیرمطالعہ رہے ہیں۔ ابن الہیثم کی دوسری تحریروں کے ترجمے عبرانی اورلاطینی کے علاوہ مغرب کی دوسری زبانوں جرمن، فرنچ اورانگریزی میں شائع ہوچکے ہیں۔

                ابن الہیثم کی مقبولیت عصرجدیدمیں بڑھ رہی ہے۔ان کی ایک تحریر’’مقالہ فی استخراج سمت القبلہ‘‘ کے عنوان سے ہے جس میں انہوں نے Theorem of Cotangentقائم کیا۔ اس کاترجمہ C.Schoyنے جرمن زبان میں کیاہے۔ابن الہیثم نے جیومیٹری کے مسائل پربھی متعددرسالے اورمقالے تحریرکئے ہیں۔ ان میں سے ایس۔رونزنے دورسالوں ’’مقالہ فی التربیع الدائرہ‘‘ اور’’مقالہ فی مساخت المجسم المکافی‘‘ کے جرمن ترجمے بالترتیب ۱۸۹۹ء  اور۱۹۱۲ء  میں شائع کئے۔مجموعہ رسائل مطبوعہ حیدرآباد دکن ۱۳۵۷ھ/۱۹۳۸ء میں ’’مقالہ فی اصول المساحۃ‘‘ کے عنوان سے جورسالہ اس کاجرمن ترجمہ ویدماں نے ۱۹۱۲ء  میں شائع کیا۔’’قول می مسٔلہ ھندسیۃ‘‘اور ’’قول فی استخراج مقدمات ضلع المسبعہ‘‘ کے جرمن ترجمے سی سخوئے C.Schoy نے بالترتیب ۱۹۲۶ء  اور۱۹۲۷ء  میں شائع کئے۔ ابن الہیثم کی دوسری ہندسی تحریروں کے ترجمے بھی یورپی زبانوں جرمن،فرنچ،انگریزی وغیرہ میں دستیاب ہیں۔ ان کے علاوہ ابن الہیثم نے اقلیدس کے اشکالات کے حل پربھی تحریریں چھوری ہیں جن میں اقلیدس کے مفروضہ پنجم کوزیر بحث لایاگیاہے۔

                ابن الہیثم کی تصانیف کابڑاحصہ ابھی تک قلمی صورتوں میں محفوظ ہے۔ سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ ان کی عظیم شخصیت کے ساتھ اہل علم کی دلچسپی روزبروزبڑھ رہی ہے۔ گزشتہ دوسالوں سے یورپ اورامریکہ کے ناموراہل قلم ان کے احوال وآثارپرموقرعلمی جریدوں اوررسالوں میں گراں قدرتحقیقی مقالات شائع کرتے رہے ہیں۔ ان کے گراں قدرسائنسی خدمات کے پیش نظر یونیسکو نے ۲۰۱۵ء  کوان کے اعزازمیں ’’روشنی کاسال‘‘پوری دنیامیں منانے کااہتمام کیاتھا۔بقول اکبرؔ    ؎

 نگاہیں کاملوں پرپڑہی جاتی ہیں زمانے کی

کہیں چھپتاہے اکبرؔ پھول پتوں میں نہاں ہوکر

٭٭٭

تبصرے بند ہیں۔