الیکشن، نت نئے ایشوز اور ہمارا رول

"بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا​ "

عمارہ فردوس

(جالنہ مہاراشٹر)

نیک نامی ایک جھٹکے میں نہ سہی مگر مستقل بھلے کاموں کا نتیجہ ہوتی ہے۔  دلوں پر راج کرتی ہے، نیک نامی کا متضاد بھی بڑا غیر معمولی ہے جو دلوں پر تو نہیں مگر گدیوں پر راج تو کرہی لیتا ہے۔ بعض اوقات شہرت کی چاہ یہ راستہ دکھاتی ہے۔ اور اپنے آپ کو بدنامی کے جھٹکے لگا کر ہی بام عروج کو چھونے کی خواہش جاگ اٹھتی ہے۔ تاکہ بھلے نہ سہی برے کاموں سے ہی سستی شہرت مل جائے۔

ووٹ بینک مضبوط کرنے کی فکر میں ہمارے ملک میں بدنامی جھیل کر خود کی پارٹی مضبوط کرنے کا یہ کھیل پرانا ہے، لیکن کچھ سالوں سے اسکے بغیر حکومتیں دو قدم بھی چلنے سے معذور ہیں، اب وہ کسی ایسی کمزور آواز کو دباتے ہیں تاکہ "صدا دبے گی تو حشر ہوگا” اور یہ حشر ہی ان کے لیے قیمتی ثابت ہوجاتا ہے۔ یہ حشر اسوقت انکا فخر بن جاتا ہے، جب مسلم مخالف سماج متحد ہوکر حکومت کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیتا ہے،بس یہ سمجھ لیں کہ ہر ایشو انڈے جیسا ہے، جس کے پھوٹتے ہی ایسے بچے نکل پڑتے ہیں جو انکے نطریاتی ایجنڈا کے وارث بن سکیں۔  سابق میں سی اے اے،  حجاب مخالف تحریک، طلاق ثلاثہ ایشو، اور حال میں یو سی سی،اینٹی مسلم کوڈ اور منی پور واقعات اسکی مثال ہے۔

موجودہ حکومت کو کرناٹک الیکشن میں اپنی ڈور کمزور پڑتی نظر آئی تو یو سی سی جیسے مضبوط ایشوز سامنے لاکر ساری دنیا کی توجہ اپنی جانب کھینچنے کا فارمولہ دہرایا گیا۔  جیسے ایک گھر میں کوئی کمزور بچہ سارے گھر کی توجہ حاصل کرنے کے لیے نت نئی شرارتیں اور حرکات کرنے لگتا ہے تاکہ سارے بہن بھائیوں میں وہ نمایاں لگے، بس یہی کمزوری و بیماری ان کھوکھلی حکومتوں میں بار بار عود آتی ہے۔

انکی چالیں اسوقت کامیاب ہوجاتی ہیں جب انکے ہمدرد و ہمنوا ہر جگہ سے امڈ پڑتے ہیں اور انکی اس بیماری کی عیادتیں میٹنگوں، کانفرنسوں، اور اپنے میڈیائی ہمدردوں کے ذریعہ ہوتی ہیں، اور تب یہ بدنامی حکومت کی شہرت کا سبب بنکر اس کے وجود کو مزید مستحکم بنادیتی ہے۔

مسلم امت کا رول ایسے موقعوں پر کیا ہو یہ ایک غور طلب امر ہے؟

ہماری فاش غلطی یہ ہے کہ حکومت کی سیاسی چالیں سمجھیں بنا ہم اسکی ہر چال پر اپنی مظلومیت، اقلیت، کمزوری اور بے بسی کا اظہاریہ زور و شور سے کرتے ہیں۔ اگر ہم حکومت کی جانب سے درپیش عمومی مسائل اور کسی ایک قوم کی طرف داری کیے بنا ملک کی بہبودی سے متعلق بیانیے تشکیل دینے کا کام کرتے تو خود بہ خود یہ تار عنکبوت ایسے کمزور اور بے جان ہوجاتا کہ اسکے ایک ایک کالے کرتوت اور کالے چہرے بے نقاب ہوسکتے تھے۔ ہماری مضبوط حکمت عملی، سیاسی بصیرت، بنا جھنجھلاہٹ کے خاموش منصوبہ بندی، دور رس تبدیلی کو ممکن بنا سکتی ہے۔ ہم طے کرلیں کہ ہم حکومت کی جانب سے پیدا کردہ ایشوز کو خاموش تحریک کے ذریعہ زمین دوز کریں گے اور ملک کے وہ ایشوز پرزور اٹھائیں گے جس میں سارے ملک کا فائدہ پوشیدہ ہے ناکہ کسی ایک کمیونٹی کا۔

اس بحث میں یہ بات طے ہے کہ ان ستر سالوں میں مسلم امت کے لیے ایک بڑا محاذ سازشوں والا محاذ ہے، جسمیں امت کا اجتماعی طور پر استحصال ہورہا ہے، اور اسکا مستقل علاج اجتماعیت کی حکمت عملی اور ٹھوس لائحہ عمل ہے، تاکہ دور رس تبدیلی کو ممکن بنایا جاسکے، حکومتوں میں پھیلا یہ مرض ہماری صحیح تشخیص سے ہی علاج پذیر ہوگا۔

ایک مفکر ڈیل کارنیگی ایک درخت کا واقعہ لکھتا ہے کہ وہ چار سو برس سے کھڑا تھا اور صدیوں تک پھیلی اس طویل زندگی میں نہ جانے کتنی بار بڑی بڑی آندھیوں کا سامنا کرچکا تھا، پھر بھی اپنی جگہ برقرار رہا، لیکن پھر کیڑوں مکوڑوں نے اس تناور درخت پر حملہ کردیا تو کچھ ہی دنوں میں اسے زمین بوس کردیا۔ جس درخت کو آندھیاں نہیں اکھاڑ سکی تھیں،اسے ایسے کیڑوں نے کھالیا جنہیں انسان ایک انگلی سے بھی مسل سکتا ہے۔

بڑی اہم بات اس مثال میں پوشیدہ ہے کہ یہ مضبوط اجتماعیت و اکثریت بھلے ہی برسوں سے اور صدیوں سے اقلیت پر ظلم ڈھا رہی ہو، ہم محض چونٹیوں کے اس اتحاد و اتفاق سے سبق حاصل کرسکتے ہیں۔

تاریخ کا روشن باب جسمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خاموش انقلاب جو سب سے پہلے انسانی قلوب و اذہان پر لایا گیا تب جاکے ظلم کے بڑے بڑے پہاڑ سرکنے پر مجبور ہوگیے۔ اور ایک وقت یہ آیا کہ ظالم ہاتھ جوڑنے پر مجبور ہوئے، تو یہ کہہ کر اسلام کے ماننے والوں کی شان بلند کی گئ کہ لا تثریب علیکم الیوم و انتم الطلقاء۔

پھر چشم فلک نے دیکھا ظلم کے تناور درخت جو اندر سے کھوکھلے ہوچکے تھے دھڑام سے گر پڑے، مضبوط و توانا پہاڑ سرک گیے اور اہل ایمان سر بلند ہوئے۔

کاش۔ ۔ ۔ !!فطرت کے یہ اشارات ہماری آنکھ دیکھ لے جو چیونٹیوں،  درختوں اور پہاڑوں میں موجود ہیں۔ ۔ ومن یوت الحکمہ فقد اوتی خیراً کثیرا اور جسے حکمت ملی اسے خیر کثیر کا خزانہ ملا۔ (٢٦٩سورہ بقرہ )سید قطب شہید علیہ الرحمہ نے فرمایا :

’’حکمت اس اندرونی بصیرت کا نام ہے جس سے صحیح اعمال و حرکات کی طرف رہنمائی ملتی ہے۔ ‘‘

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔