کشمیر میں جی 20 سمٹ: خطہ پیر پنجال کے لیے کتنی سود مند؟

سیّد انیس الحق

(پونچھ)

کشمیر میں حال ہی میں منعقدہ جی20 ٹورازم ورکنگ گروپ کی میٹنگ جو 22 سے 24 مئی تک ہوئی۔ یقینا یہ جموں و کشمیر میں اپنی نوعیت کا ایک پہلا اور کامیاب اجلاس رہا جو عالمی سطح کا تھا اور جموں و کشمیر میں منعقد ہوا،اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ وہیں اجلاس میں شامل ہوئے دنیا کے مختلف ممالک سے آئے مندوبین نے دنیا پر جنت تصور کی جانے والی وادی ِکشمیر کی خوبصورتی اور یہاں کی ثقافت، طرز زندگی کا نہایت ہی باریک بینی سے مشاہدہ کیا۔ واقعہ ہی کشمیر میں منعقدہ یہ اجلاس کشمیر کی سیاحتی،ثقافتی اور اقتصادی ترقی کیلئے سومند ثابت ہوگااور یقینا وادی کی طرف اس اجلاس کی وجہ سے عالمی سیاحوں کی توجہ مزید بڑھے گی۔ حالانکہ وادی کے علاوہ جموں و کشمیر میں بیشتر ایسے سیاحتی مقامات موجود ہیں۔ لیکن وہاں سالانہ سیاحوں کی آمد نہ کے برابر ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیایو ٹی کی گرمائی دارالسلطنت سرینگرکے شیر کشمیر انٹرنیشنل کنونیشن سینٹر میں مسلسل تین روز تک چلنے والی جی 20 سمٹ کا اثر یوٹی کے دیگر مقامات پر پڑے گا؟کیا یہ علاقے جو آج تک سیاحوں کی نظروں سے اوجھل ہیں وہ بھی عالمی سیلانیوں کی توجہ کا مرکز بن پائیں گئے؟ جو آج تک اس انتظار میں ہیں کہ انہیں سیاحتی نقشہ پر لایا جائے۔ ان ہی میں سے اپنے قدرتی حسن سے مالا مال سرحدی ضلع پونچھ اور راجوری پر مشتمل خطہ پیر پنجال کی دلکش پہاڑیاں اور مرگ ہیں۔ یہاں کی آب و ہوا، خوبصورت جھرنے، قد آور درخت پیر پنجال کی خوبصورتی کو مزید چار چاند لگاتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ خطہ پیر پنجال کی یہ حسین وادیاں، ڈھوک اور مر گوں کے علاوہ مغلیہ دور کے عظیم شا ہکار آج بھی سیاحتی عدم توجہی کے باعث اپنی قسمت کا رونا رو رہے ہیں۔

حق تو یہ ہے کہ خطہ پیر پنجال کا اگر ایک سیاحتی سروے کیا جائے تو تقریباً دونوں اضلاع کے ہر گاؤں میں سیاحت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ اس سے کسی کو انکار نہیں کہ اگر یہاں پر سیاحت شعبہ کو فروغ دیا جائے تو وہ دن دور نہیں جس دن ملک کے ان آخری اضلاع کا شمار ہندوستان بھر کے خوبصورت اور ترقی یافتہ اضلاع میں ہوگا۔ اِ ن اضلاع میں اتنی خوبصورت جگہیں ہیں کہ اگر ا نہیں سیاحتی نقشے پر لایاجائے تو یہ کسی بھی لحاظ سے کشمیر کے مشہور سیاحتی مقامات گلمرگ، پہلگام، سونہ مرگ، یوز مرگ جیسی جگہوں سے کم نہیں۔ سر سبز میدان، برف پوش چوٹیاں،جھرنے، پرسکون فضاجیسے حسین وجمیل علاقوں کے ساتھ ساتھ یہاں پر مذہبی سیاحت کے بھی وسیع ترامکانات موجود ہیں۔ جن میں مغلیہ دور کے کئی اعظیم شہکاروں کے علاوہ دیگر سیاحتی مقامات جیسے پیر کی گلی، نوری چھم، پناڑ، پوشانہ، بفلیاز، نندی چھول، گرجن ڈھوک، پنج دھارنی مرگ، راجاڑہ ڈھوک، جموں شہید، دھیرہ گلی، جبی طوطی، نور پر، لورن، گگڑیاں، پرنائی، زیارت سائیں میراں باباؒ، زیارت سائیں الہی بخشؒ، بٹل کوٹ، ڈھیرہ ننگالی صاحب، بڈھا امر ناتھ، پونچھ قلعہ، شیش محل، موتی محل، وغیرہ جیسے مقامات ہیں جنہیں اگر سیاحتی نقشے پر لایا جائے تو پیر پنجال میں ترقی ہی ترقی ہوگی اورکئی روزگار کے مواقع کھل جائیں گے۔ مگر افسوس باوجود اس کے پیر پنجال خطہ آج تک سیاحتی نقشے سے اوجھل ہے۔ وہیں اگر بات کی جائے تو ایک رپورٹ کے مطابق سیاحتی شعبہ فی الحال براہ راست اوربلاواسطہ طور پر بھارت میں کل نوکریوں کا 12.9 فیصد مہیا کرتا ہے۔ اور تجرباتی سیاحت میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کے مد نظر مقامی برادریوں،خاص کر خواتین سرمایہ کاروں کیلئے اس میں بے انتہا اقتصادی امکانات موجود ہیں۔ جبکہ پیر پنجال جیسے خطے میں مردوں کے مد مقابل خواتین زیادہ کام کاج کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اگر انہیں موقع فراہم کی جائے یا سیاحوں کی آمد کا سلسلہ پیر پنجال میں شروع ہو جائے تو یقیناً پیر پنجال کی خواتین کو بھی صاحب ِروزگار بنایا جا سکتا ہے۔

واضح رہے وادی کشمیر میں گزشتہ سالوں کے مد مقابل حالات بہتر ہونے کی وجہ سے امسال سیاحوں کی آہ و جائی پہلے سے بہتر دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ سیاح اب کشمیر اور جموں کے بھی کئی صحت افزاء مقامات کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں اور آنا پسند بھی کرتے ہیں۔ مگر یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جموں کے مد مقابل اگر خطہ پیر پنجال یعنی پونچھ راجوری کی طرف سیاحوں کی توجہ مبزول کروائی جائے یا ان اضلاع میں سیاحت کو فروغ دیا جائے تو یہ ایک بہترین پہل ہوگی۔ وہیں تاریخی مغل شاہرہ ہو یا جموں پونچھ ہائی وے، ان دونوں سڑکوں کے اطراف پر بھی کئی ایسے صحت افزاء مقامات ہیں جہاں سیاحتی ترقی کے امکان موجود ہیں۔ وہیں اگر بات کی جائے جموں پونچھ ہائی وے کی اسی سڑک پرراجوری ضلع کے تحت چنگس کے مقام پر مغلیہ خاندان کے مشہور بادشاہ جہانگیر کی یاد میں ایک مقبرہ نما ڈھانچہ موجود ہے جو ایک بہترین قدیم قلعوں کی یاد تازہ کرواتا ہے۔ کہا جاتا ہے یہاں بادشاہ جہانگیر کی آناتیں دفن ہیں کیونکہ بادشاہ جہانگیر کا انتقال ۸ نومبر 1627ء کو کشمیر سے لاہور واپسی پر خطہ پیر پنجال میں ہی ہوا تھا اور ملکہ نور جہاں نے جہانگیر بادشاہ کے نعش کو لاہور لے جانے کا فیصلہ کرتے ہوئے نعش کو خراب ہونے سے بچانے کیلئے آنتوں کو چنگس سرائے میں دفن کروایا تھا۔ جبکہ بادشاہ جہانگیر کا مقبرہ اس وقت پاکستان کے لاہور میں دریائے راوی کے کنارے شاہدرہ کے ایک باغ دلکشا میں واقع ہے۔ خیر اس کے علاوہ جموں پونچھ شاہرہ یعنی 144Aپر کئی دیگر ایسے مقامات ہیں جن کی اپنی ہی تاریخ ہے اور تاریخی اہمیت کے حامل بھی ہیں۔ جن میں شاہدرہ شریف زیارت، دندی دھار قلعہ، دودھا دھاری مندر، کالاکوٹ بروئی، تھنہ منڈی،طوطا گلی، وغیرہ قابل زکر ہیں،وہیں اگر بات کی جائے وادی کو ضلع پونچھ اور راجوری سے جوڑنے والی تاریخی مغل شاہرہ کی تو آمد و رفت کا یہ قدرتی راستہ ہندوستان میں مغلوں کے دور میں مغل روڈ کے نام سے مشہور ہوا۔ کیونکہ مغلیہ دور اقتدار میں مغل بادشاہوں، وزراء اور گورنر اور دیگر عہدے داروں اور اہلکاروں کا سفر اسی راستے سے ہوتا تھا۔ کہا جاتا ہے،مغل بادشاہ جہانگیرکے عہد کے مشہور انجینئر علی مردان خان نے اس راستے کو باقاعدہ سڑک بنایا تھا اور اس پر با ضابطہ طور پر قیام گاہیں بھی بنائیں گئی تھی تاکہ اس وقت مسافروں کو آسانیاں مل سکیں۔ اس سے صاف ہے کہ تاریخی شاہرہ مغل اور اس کے ملحقہ علاقہ جات تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ وہیں مغل شاہرہ پر موجود صحت افزاء مقامات جیسے پیر کی گلی، پوشانہ، بہرام گلہ، نوری چھم، مغل سرائے، پناڑ وغیر کو سیاحتی نقشے پر لایا جائے تو یقیناً یہاں ترقی کا ایک نیا دور شروع ہونے کے ساتھ ساتھ روزگار کے کئی مواقع بھی کھل کر سامنے آئیں گئے،جو کہ خطہ کے بے روزگار نوجوانوں کیلئے سود مند ثابت ہونگے۔

واضح رہے کہ مغل روڈ والے راستے پونچھ راجوری سے وادیِ کشمیر محض 200کلو میٹر سے بھی کم کی مسافت پر ہے،جبکہ وادی میں ہر سال ملکی و غیر ملکی سیلانیوں کا تانہ بانہ لگا رہتا ہے۔ مگر افسوس کے پیر پنجال کی خوبصورتی تا ہنوز سیاحتی نقشے سے اوجھل ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاحوں کے کانوں میں اس کی خبرتک بھی نہیں۔ اگر سیاحوں کو خطہ پیر پنجال کی خوبصورتی سے روشناش کروایا جائے اور بالخصوص خطہ پیر پنجال کی طویل پہاڑیوں پر موجود قدرتی پانی کے ذخائر والے سات سروں کی سیر کروائی جائی تویقینا سیاح متاثر ہونگے ۔ اس کے علاوہ ضلع پونچھ اور راوجوری کے دیگر سیاحتی مقامات کا اگر ایک سیاحتی سروے کروایا جائے اور ان کی خوبصورتی کو دنیا کی نظروں کے سامنے لایا جائے تو ترقی کے ایک نئے باب کا نہ صرف آغاز ہوگا بلکہ خطہ پیر پنجال پوری دنیا کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن سکتا ہے۔ اسی سلسلہ میں جب راقم نے ملک کے نامور ادارے علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کر چکے ڈاکٹر ریحان احمد سے ان کے تاثرات جاننے کی کوشش کی جنہوں نے گزشتہ دنوں مغل روڈ کا سفر بھی طے کیا ہے، ڈاکٹر ریحان کہتے ہیں انسان جب شوپیاں سے پونچھ کی اور سفر کر رہا ہوتا ہے ایسا لگتا ہے وہ قدرت کے بلند نظاروں کی اور بڑھ رہا ہے۔ ریحان نے پونچھ راجوری ضلع کو وادی سے جوڑنے والی تاریخی شاہرہ یعنی مغل روڈ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہاں کے جنگلوں کو ہی لیا جائے یا دونوں طرف برف سے ڈھکے ہوئے سفید پہاڑوں کو لیا جائے تو قدرتی حسن کی جھلک نمایا ہوتی ہے۔ مگر افسوس کے مغل شاہرہ کو بنے کئی سال گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک محکمہ سیاحت کی طرف سے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں یہاں سیاحت کے کئی طرح کے امکانات موجود ہیں۔ اگر شاہراہ پر جگہ جگہ چھوٹے ٹورازم ہَٹ بنائے جائیں، یا سیلفی پوئنٹ ہی بنائے جائیں تو یقینا مسافر ان جگہوں پر ٹھرنا پسند کریں گے اور ان ہی مقامات پر روزگار کے مواقع بھی کھل کر سامنے آئیں گے۔ وہ کہتے ہیں یہاں تصویر نگاری سے لیکر کئی طرح کے روزگار کھولے جا سکتے ہیں جن سے سینکڑوں بے روزگار نوجوانوں کو فائدہ مل سکتا ہے۔ وہیں ریحان نے ضلع پونچھ کے دیگر مقامات جیسے جبھی طوطی وغیرہ کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ سڑک رابطے نہ ہونے کی وجہ سے یہ مقامات نظر انداز ہو رہے اگر یہاں تک سڑکیں پہنچائی جائی تو یقینا سیاح ان مقامات پر بھی آنا پسند کریں گے۔

حالانکہ وہیں گزشتہ ماہ کی دس تاریخ کو مرکزی وزیر برائے روڈ ٹرانسپورٹ اور ہائی وئز نتن گڈکری نے ایک تقریب کے دوران اپنے ایک بیان میں جہاں جموں و کشمیر خاص کر ضلع پونچھ میں کئے جارہے متعدد کاموں اور سڑک ٹنلوں کا ذکر کیا۔ وہیں انہوں نے تاریخی مغل شاہرہ کیلئے ایک بڑا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ سڑک سردی کی موسم میں بند ہو جاتی ہے جس سے لوگوں کو بہت تکلیف ہوتی ہے اب اس سڑک پر برف سے حفاظت کیلئے سنو گیلری بنا کر سڑکوں کو پورے سال کیلئے جاری رکھا جائے گا۔ وہیں وزیر موصوف نے مغل روڈ کیلئے 6ہزار آٹھ سو بیالیس کروڑ کی لاگت کے تعمیری کام اور پیر کی گلی سے پانچ ہزار کروڑ کی لاگت سے دس کلو میٹر کا ٹنل تعمیر کیا جانے کا اعلان بھی کیا، جس کا ڈی پی آر رواں سال ہی بنائے جانے کی یقین دہانی بھی کروائی۔ تاہم اس سے صاف ہے کہ مرکزی سرکار بذات خود اس تاریخی شاہرہ کی تعمیر اور ترقی کیلئے کوشاں ہے۔ جو ایک خوش آئند بات ہے اور عوام بھی اس سے خوش ہیں۔ مگر اسی کے ساتھ یہاں کے عوام یہ بھی چاہتے ہیں کہ اگر وزارات ِ سیاحت بھی اس تاریخی شاہرہ پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے خطہ پیرپنجال کی شان مغل سڑک کے علاوہ دیگر مقامات کو سیاحتی نقشے پر لانے کی با ضابطہ ایک حکمت ِعملی تیار کرے تو یقینا یہ خطہ پیر پنجال اور سرحدی اضلاع پونچھ و راجوری کی تعمیر ترقی کیلئے ایک عظیم اقدام ثابت ہوگا۔ امید کی جانی چاہئے کہ جی 20کا کامیاب اجلاس اس جانب پہلا  قدم ثابت ہوگا۔ (چرخہ فیچرس)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔