مملکت سعودی عرب: تاریخ، معاشی چیلنجز اور حکمت عملی

ڈاکٹر آصف نواز

ہر قوم کی تاریخ میں کچھ تایخی اور یادگار دن ہوتے ہیں جو اس کے وجود اور اس کے تاریخی سفر کے مراحل کوبتاتے ہیں۔ ان میں ایک وہ ہوتا ہے جب وہ قوم منصہ وجود پر نمودار ہوکراپنے تاسیسی مراحل طے کرتی ہےاور دوسرا وہ موقع ہوتا ہے  جب وہ اپنی آزادی کا جشن مناتی ہے۔ یہ دونوں دن اس قوم کی اجتماعی یاداشت میں نمایاں سنگ میل کے طور دیکھے جاتے ہیں۔ اب تو یہ ایک معمول بن گیا ہے کہ جدید قومی ریاستیں ان خوشگوار لمحات کو منانے کے لیے ملک کے ہر حصے میں رنگا رنگ سرگرمیوں کا انعقاد کرتی ہیں، جس میں قوم  وملک کے تئیں اپنی مظبوط وابستگی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر،ہندوستان  ہر سال 15 اگست اور 26 جنوری کو بالترتیب برطانیہ سے اپنی آزادی اور ملک میں جمہوریت کے قیام  کا جشن مناتا ہے۔اور یہ دونوں دن جدید ہندوستان کی تاریخ میں سب سے اہم یادگار دن مانے جاتے ہیں۔ریاستہائے متحدہ امریکہ بھی 4 جولائی کو اپنا قومی تہوار "آزادی کا اعلان” (Declaration of Independence)  کی منظوری کی یادگارمیں ہر سال  یوم آذادی کے طور پر مناتاہے۔اسی طرح، سعودی عرب  میں بھی ہر سال کچھ خاص دنوں کو قومی یادگار کے طور پر منایا جاتاہے۔اور ان ہی خاص دنوں میں ایک 23 ستمبر کا دن جسے سعودی عرب میں قومی دن کے طور پر ہر سال منایا جاتا ہے ۔

سعودی عرب کئی امتیازی خصوصیات رکھتا ہے۔ اس کی ایک خصوصیت اورشناخت مذہبی نوعیت کی ہے ۔ یہ جگہ نزول قرآن، بعثت نبوی اور آغاز اسلام کے ساتھ ساتھ روضہ مبارک اور بیت اللہ کی سرزمین ہے، جس کا رخ کر کے دنیا کا ہر مسلمان ہر روز عبادت کرتا ہے اور جس کی زندگی میں ایک بار زیارت ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے۔ دوسرا امتیاز اس ملک کا محل وقوع، اس کی معیشت، اس کی سیاست، اس کی حکومت ہے۔  یہاں تک کہ اس کے باشندوں کا رہن سہن اور ان کے عادت و اطوار، دنیا کےدوسرے ملکوں کے مقابلے میں اپنی ایک الگ پہچان اور خصوصیت رکھتے ہیں۔ سعودی عرب دنیا میں ایک ایسا ملک ہے جہاں سرکاری چھٹیوں (public holidays) کی تعداد  سب سے کم ہے۔ آج 2023 میں سعودی عرب میں کل پانچ سرکاری چھٹیاں ہوتی ہیں۔ ۱)  عید الفطر ، ۲)  عید الاضحی، ۳)  قومی دن، ۴) یوم تاسیس اور ۵) یوم پرچم، جبکہ تاسیس 2022 میں اور یوم پرچم 2023 میں پہلی مرتبہ سعودی عرب میں متعارف ہوئے ہیں۔  اس کا مطلب ہے کہ 2022 سے پہلے سعودی عرب میں صرف تین ہی سرکاری چھٹیاں ہی ہوا کرتی تھیں۔ان تین میں 2  مذہبی نوعیت کی ہیں اورایک قومی یا غیر مذہبی نوعیت کی۔ جن دو کا بعد میں اضافہ ہوا ان کا شمار بھی  قومی یا غیر مذہبی نوعیت میں ہی ہوتا ہے۔  یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ  عید الفطر اور  عید الاضحی میں سے ہر ایک چھٹی کا دورانیہ 10 دن پر محیط ہوتا ہے ۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عید الاضحی کے ساتھ حج اور حاجیوں کی خدمت کی ذمہ داری بھی سعودی عرب کو ادا کرنی ہوتی ہے اور عید الفظر مسلمانوں کا سب سے بڑا تہوار ہوتا ہے۔ اس طرح کل سرکاری چھٹیوں کے دن کی تعداد سعودی عرب میں 20 سے متجاوز ہوجاتی ہے۔ اور شاید اسی وجہ سے  بہت سے لوگ مانتے ہیں کہ سب سے کم سرکاری چھٹیوں والا ملک سعودی عرب نہیں بلکہ سوئٹزرلینڈ ہے۔ لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے اس لیے کہ سوئٹزرلینڈ میں بھی سرکاری چھٹیوں کی تعداد  7-8 کے درمیان ہوتی ہیں، ہاں یہ الگ بات ہے کہ اس کا دورانیہ سعودی عرب کے مقابلے میں کم ہے ۔

جیسا کی اوپر ذکر کیا گیا ہے،  تاریخی اور مذہبی  لحاظ سے ممتاز سر زمین سعودی عرب کی موجودہ نیشنلسٹ قیادت نے حال ہی  میں اپنے قومی یادگار کے دنوں میں کچھ اور اضافے کیے ہیں جن کا مقصد اپنی تاریخی شناخت اور اپنی صدیوں پرانی میراث کو مضبوط کرنا ہے۔ ان نئے اضافوں پرگفتگو سے پہلے، ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس خاص یادگار دن پر بات کی جائے جو سعودی عرب میں برسوں سے منایا جاتا رہا ہے۔ اور وہ 23 ستمبر کی تایخ ہے جس کی سعودی کیلنڈر میں کافی اہمیت ہے۔ یہ دن  سعودی عرب کا قومی دن ہے۔ سعودی عرب کے لوگ اس روز بالخصوص تیسرے سعودی ریاست کے بانی عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن آل سعود (1953-1876) اور  ان کے کارناموں کو یاد کرکے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ جدید سعودی مملکت کی  تخلیق ابن سعود کے ہاتھوں  1932 میں عمل میں آئی۔ اسی واقعہ نے سعودی عرب کے مختلف علاقائی اور قبائلی گروہوں کو ایک جھنڈے کے تحت اکٹھا کردیا تھا۔

آج سعودی عرب کا 93 ویں واں قومی دن ہے۔ تقریباایک صدی پہلے آج ہی کے دن عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن آل سعود  کے ایک شاہی فرمان نے  جزیرہ نمائے عرب کے اس حصے کا نام "مملکت نجد و حجاز” سے بدل کر "مملکت سعودی عرب ” کردیا تھا۔ ابن سعود نے دراصل یہ نام اپنے جد امجد اور پہلے سعودی ریاست کے بانی محمد (1765-1727) کے والد محترم سعود (1736-1640) کے نام پر رکھا تھا۔ ان کا پورا سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے، عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن بن فیصل بن ترکی بن عبداللہ بن محمد بن سعود ہے۔  اگرچہ تیسری سعودی ریاست کے قیام کی شروعات 1902 میں ہی ہو گئی تھی جب آل سعود نے ریاض شہر کو دوبارہ اپنے تسلط میں لے لیا تھا، لیکن یہ سلسلہ اپنے حتمی انجام تک اس وقت پہنچا جب ٓال سعود نے 1925 میں شریف مکہ  وشاہ حجاز  سید حسین ابن علی ہاشمی (1931-1854) کو شکست دے کر حجاز پر بھی اپنا تسلط قائم کر لیا ۔ اس شکست کے نتیجے میں حجاز میں ہاشمی بادشاہت کا مکمل خاتمہ ہوگیا جو جزیرہ عرب پر 1879 سے قائم تھی۔ 1932 کا سال جدید سعودی عرب کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ اسی سال سعودی مملکت ایک ایسے پائیدار اتحاد کی شکل میں نمودار ہوتی ہے جس میں تمام علاقائی اور قبائلی اکائیوں کے درمیان رشتوں کو مضبوط کرکے ایک مملکت کی بنیاد ڈالی جاتی ہے جسے اب "مملکت سعودی عرب” کے نام سے جانا جاتا ہے۔

جہان تک رہی پہلی سعودی ریاست کی بات تو وہ محمدبن سعود  (1765-1727)  کے ہاتھوں 1727 میں قائم کی گئی  اور 1818 میں عثمانی سلطنت نے مداخلت کرکے اسکا خاتمہ کردیا۔ نسبتاً تھوڑے مدت تک قائم رہنے والی اس ریاست نے خطے میں آل سعود کے اقتدار اور اثر و رسوخ کی بنیاد ڈالنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔اسی کی مناسبت سے سعودی فرمانرواں نے 2022 میں ایک شاہی فرمان کے ذریعہ اس دن کو باقاعدہ ایک تقریب کی شکل میں متعارف کر وایا جسے "سعودی یوم تاسیس” کا نام دیا گیا۔

1818 میں پہلی سعودی ریاست کے خاتمے  کے بعد خود آل سعود بھی باہمی سیاسی خلفشار اور اقتدار کی کشمکش میں ملوث ہوگئے۔ لیکن 1824ء میں ترکی بن عبداللہ بن محمد (1834-1769)  کی قیادت میں دوسری سعودی ریاست پھر سے قائم ہوگئی۔ اس ریاست کے ذریعہ آل سعود نے طویل عرصے تک حکمرانی کا لطف اٹھایا، جو 1891 تک جاری رہی، اور بالآخر اس کا بھی خاتمہ آل رشید کی افواج کے ہاتھوں ہوگیا۔

اس پورے عرصے میں  آل سعودمسلسل سیاسی اتار چڑھاؤ، اور میدان جنگ میں ہار اورجیت کا مشاہدہ کرتے رہے۔ لیکن آل سعود کو بالآخر 1902/1932 میں تیسری سعودی ریاست کے قیام کے بعد ہی أصلا بڑی اور دیرپا کامیابی حاصل ہوئی اور یہ ملک "جدید مملکت سعودی عرب” کہلایا۔ اس وقت سے اب تک آل سعود منصب اقتدار پر پوری قابلیت اور استحقاق کے ساتھ جلوہ افروز ہیں۔ جزیرہ عرب میں آل سعود کی تاریخ تین الگ الگ ادوار پر مشتمل ہے جسے پہلی، دوسری اور تیسری سعودی ریاست کے نام سےموسوم کیا جاتا ہے۔ عام طور پر، آل سعود کی یہ تاریخ فتح اور شکست کی تاریخ ہے۔ پہلی اور دوسری سعودی ریاستیں بالآخر ختم ہو  گئیں، لیکن ان دونوں ریاستوں میں جو سیاسی تجربہ آل سعود کو حاصل ہوا اسی نے موجودہ سعودی ریاست کی تشکیل  کے لیے راستے ہموار کئے ۔

عام طور  پر آل سعود کے بارے میں مشہور بیانیہ یہی ہے کہ یہ خاندان 1727 سے جزیرہ نمائے عرب کے اس علاقے پر حکمرانی کر رہا ہے، لیکن کچھ ایسے بھی مورخین ہیں جو کہتے ہیں اور جس کا دعویٰ  خود آل سعود بھی کرتے ہیں، کہ اس خطے پر ان کی حکمرانی اور اقتدار کی تاریخ اس سے بھی طویل ہے۔ وہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ آل سعود کی حکمرانی کی تایخ اس خطہ میں چھ صدیوں پر محیط ہے، جس کا آغاز "درعیہ” نامی ایک قصبے سے ہوتا ہے جو آج  دارالحکومت ریاض کے شمال مغربی مضافات میں واقع ہے۔ چند سال قبل، سابق سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر، جو اس وقت وزیر مملکت برائے امور خارجہ کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں، نے بھی ایک انٹرویو میں یہی دعویٰ کیا تھا کہ آل سعود کے پاس جزیرہ عرب پر حکمرانی کا تاریخی ورثہ چھ صدیوں سے چلا آرہا ہے۔

آج جب ہم جزیرہ عرب میں آل سعود کی حکومت کے تاریخی شواہد کا مطالعہ کرتے ہیں  تو ہمیں مانع بن ربیعہ المدیری (1400-1463) نامی ایک شخصیت ملتی ہے، جو پندرہویں صدی عیسوی میں رہتی تھی اور جنکی اہمیت اس طور سے بہت زیادہ ہے کہ اس کا شمارآل سعود کے جد امجد کے طور پر ہوتا ہے۔ ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ مانع بن ربیعہ المریدی نے ہی 1446 میں درعیہ میں پہلی امارت کے قیام میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس لحاظ سے آل سعود کا یہ دعویٰ کہ درعیہ پر ان کی حکومت کی تاریخی وراثت 600 سال پر محیط ہے،  حقیقت سےقریب تر معلوم ہوتی ہے۔اگرچہ پندرھویں صدی عیسوی سے سترھویں صدی عیسوی کے درمیاں یعنی مانع بن ربیعہ (1400-1463) کے دور سے لیکر سعود بن محمد (1640-1736) کے زمانے تک  رہنے والے آل سعود کی نسل میں اہم شخصیات کا تذکرہ تو ملتا ہے،مگراس دور میں ان کے سیاسی اور سماجی حالات کیا تھے اس کی تفصیل نہیں ملتی، سوائے اس کے کہ اس زمانے میں ان کے درمیان بڑے پیمانے پرباہمی تنازعات اور ہنگامہ خیز لڑائیاں ہوئیں اور شاید اسی کی وجہ سے ان کا سیاسی اور سماجی تاریخی ریکارڈ محفوظ نہ ہو سکااورو دنیا کے سامنے نہ آسکا۔

اب چاہے جزیرہ نمائے عرب میں آل سعود کی حکمرانی کے زمانے  کو تین صدیوں پر محیط مانیں یا چھ صدیوں پر ، یا ایسے ہی اب چاہے عربستان کی تاریخ پر بات کریں یا آل سعود کے تایخی سفر کو بیان کریں، دونوں صورتوں میں یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ جزیرہ نمائے عرب اور آل سعود دونوں  کی تاریخ ایک دوسرے کے لیے تتمہ اورتکمیلہ ہے اور ہر ایک دوسرے کی تاریخ کو سمجھنے میں ممدد ومعاون ہے۔

ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ پوری اسلامی تاریخ میں خلفائے راشدین کو چھوڑ کر (وہ بھی صرف پہلے تین خلفائے راشدین، کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دار الخلافہ کو کچھ غیر متوقع حالات کی وجہ سے مدینہ سے عراق منتقل کر دیا تھا) ہمیں کوئی مسلم خلافت، بادشاہت، آمریت یا حکومت ایسی نہیں ملتی جس نےاسلام، قرآن اور نبی کی سرزمیں "جزیرہ نمائے عرب” یا اس کے کسی بھی حصے کو اپنی حکومت کا دار الخلافہ یا اپنی سیاسی، سماجی یا معاشی سرگرمیوں کا بنیادی مرکز بنایا ہو۔ اگر ہم امویوں سے لے کر عثمانیوں تک کی ہر ایک مسلم خلافت، سلطنت، ریاست اور حکومت پر نظر ڈالیں، تو ہمیں ملتا ہے کہ ان سب نے اس جگہ کو حقیقتا "وادیئ غیر ذی ذرع” سمجھ کے  نظر انداز کیا کہ کہیں اس مقام، اس کے باشندوں اور اس کے زائرین کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر نہ آجائے۔یا شاید، اس بے اعتنائی کی وجہ یہ تھی کہ  اس وقت کے عربستان میں ان حکمرانوں کے پرتعیش مزاج کے مطابق  سامان آسائش مہیا نہیں تھے، یا شاید یہ حکمران، جوکہ بہر صورت مسلمان تھے،اور اسی وجہ سے اس مقدس مقام پر شراب وکباب کی محفلیں لگاکر عیش و عشرت کی جرأت نہیں رکھتے تھے۔

آج جب ہم جزیرہ نمائے عرب کی تاریخ کا گہرائی سے جائزہ لیتے ہیں تو یہ حقیقت واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ دور نبوت اور خلافت راشدہ کے بعد دراصل آل سعود کاہی وہ دور ہے جہاں اس خطے میں مادی خوشحالی کے ساتھ ساتھ روحانی ترقی کے ایک اہم دور کا آغاز  ہوتا ہے۔ اس بات کو تسلیم کرنے میں کو مضائقہ نہیں کہ اس خطے کے بارے میں حضرت ابراہیمؑ کی زبانی جس "بلدا آمنا”  کا تصور قرآن نے آج سے چودوہ سو سال پہلے پیش کیا تھا، وہ حقیقی معنوں میں کبھی ظاہر ہی نہیں ہوا، سوائے بیسویں صدی عیسوی میں آل سعود کے دور حکومت کے ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن نے اس علاقے کو سلامتی اور امن کا شہر کیوں بنانا چاہا؟ اس کا جواب قرآن کی اس خواہش میں مضمر ہے کہ اس جگہ کو اقتصادی اور تجارتی سرگرمیوں کا بھی مرکز بنایا جائے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اگر ہم کسی مقام کو تجارتی مرکز بنانا چاہتے ہیں توپہلے اس جگہ میں پرامن اور محفوظ ماحول کو یقینی بنانا ہوگا۔قرآن کا یہ تصور صرف مناسک حج کی ادائیگی کے حوالے سے  نہیں ہے، اس لیے کہ کسی جگہ کو امن و آشتی سے متصف کرنے کا مقصد دراصل وہاں پر معاشی سرگرمیوں میں اضافہ اور  اس جگہ پر من جملہ خوشحالی کو فروغ دینا ہوتا ہے۔ تو حج اپنی تعبدیت کے پہلو کے ساتھ ساتھ ان پہلووٗں کو بھی سموئے ہوئے ہے۔ مگر سفر حج کا مقصد اس سے کہیں زیادہ تھا۔ اس عالمی اجتماع کے مقاصد میں یہ پہلو بھی شامل تھا کہ اس موقع کو زائریں کے درمیان سماجی ربط وتعامل، تجارت، دوستی، اور بین الاقوامی تجارت کے مواقع فراہم کیئے جائیں۔ مزید یہ کہ، اسلام کے عروج سے بہت پہلے بھی، حج بیت اللہ کاروبار کرنے کے ایک موقع کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔

یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ اس مقدس سرزمین میں امن وامان  کی آمد آل سعود کے اقتدار میں آنے کے ساتھ نمودار ہوئی، جنہوں نے اس خطے کی مختلف علاقائی، قبائلی اور مذہبی اکائیوں کو متحد کرنے میں کامیابی حاصل کی اور اپنی ایک متحدہ شناخت سے دینا کو متعارف کرایا جسے "سعودی عرب”  کے نام سے پہچان ملی۔1932 میں تیسری سعودی مملکت کے قیام کے بعد ابھی صرف 6 سال ہی سکون  کے ایام  گزرے تھے کہ 1938میں  تیل جیسی نعمت کی دریافت ہوگئی جسے "کالا سونا”تعبیر کیا گیااور اسی دریافت نے جزیرہ نمائے عرب میں اقتصادی ترقی اور خوشحالی  کی داغ بیل ڈال دی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے صرف چند دہائیوں کے اندر سعودی عرب کی سر زمین مسلمانوں کا صرف مذہبی قبلہ ہی نہیں رہی بلکہ یہ پوری دنیا کے لیے ایک معاشی قبلہ بن کر ابھری اور ایک عالمی اقتصادی قوت بن کرنمو دار ہو ئی، جس کے ساتھ اس وقت کی بڑی عالمی طاقتوں نے تعلقات استوار کر نے کے لیے تگ ودو شروع کر دی۔

جدید سعودی عرب میں ترقی اور خوشحالی کا سفر تقریباً ایک صدی سے جاری وساری ہے ۔ ذیل میں ہم مملکت کے بارے میں صرف چند اہم پہلووٗں اور حقائق پر ہی بات کریں گے۔

عالمی تحقیقی ادارے "ورلڈو میٹر "کے مطابق مملکت سعودی عرب کی موجودہ آبادی 3.69 ملین سے کچھ متجاوز ہے اور جس میں تقریباً 30 سے ​​35 فیصد غیر ملکی شہری ہیں جن کا تعلق دنیا کے مختلف ممالک سے ہے۔ سعودی عرب کے دیگر امتیازات میں سے ایک اہم پہلو یہ ہے کہ دوسرے ممالک کے مقابلے میں مملکت میں نوجوانوں کی تعداد کافی ذیادہ ہے۔ سعودی جنرل اتھارٹی برائے شماریات کی جاری کردہ 2020 کی رپورٹ کے مطابق سعودی آبادی کا 36.7 فیصد حصہ 15 سے 34 سال کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جدیدسعودی عرب کے قیام سے پہلے اور اس کے بعد بھی کافی عرصے تک، مملکت میں ایک قبائلی نظام ہوا کرتا تھا، لیکن صرف ایک نسل کے کزرنے کے ساتھ ہی مملکت اپنے روایتی قبائلی نظام کو کافی پیچھے چھوڑ کے ایک جدید اور ترقی پسند ریاست میں تبدیل ہو گئی، جس کی وجہ سے سعودی عرب میں تقریبا سبھی انسانی ترقی کے اشاریوں  میں حیرت انگیز ترقی دیکھنے میں آئی۔ بیسویں صدی کی 1930 اور 1940 کی دہائیوں کے مقابلے میں آج انسانی ترقی کےسبھی معیار اور اشاریے  دوگنے ہو گئے ہیں ۔ مثال کے طور پر سعودی شہریوں کی اوسط متوقع عمر جو بیسویں صدی کی 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں 37 سال ہوا کرتی تھی اب بڑھ کر 75 سال ہو گئی ہے۔ اسی طرح، مملکت میں نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات جو کہ 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں دنیا کے غریب ترین ممالک جیسی ہوا کرتی تھی، اب ترقی یافتہ یورپی اور امریکی ممالک کے معیار کی ہو گئی ہے۔ نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات کے سلسلے میں اعداد و شمار فراہم کرنے والی ویبسائٹ "میکرو ٹرینڈ” کے مطابق مملکت سعودی عرب میں اس وقت بچوں کی اموات کی شرح 5.29 فی ہزار ہے، جب کہ امریکہ میں یہ شرح 5.61، روس میں 4.80،  برطانیہ میں 3.33،  فرانس میں 2.67، جرمنی میں 2.13، جاپان میں 1.56 اور چین میں 8.39 ہے۔

سعودی عرب میں تعلیم کے فروغ میں تو پچھلی ایک صدی کے دوران، نمایاں تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے۔ جہاں سو سال قبل 95 فیصد سعودی آبادی پڑھنے لکھنے قاصر ہوا کرتی تھی، وہیں آج مملکت کی 95.33 فیصد آبادی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہے اور ایک جامع سماجی اورثقافتی سمجھ بوجھ کی حامل ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سعودی عرب میں 1950 اور 1960 کی دہائیوں کے دوران خواتین کے تعلیم کا نظام یا تو سرے سے تھا ہی نہیں یا بالکل  زوال کاشکار تھا۔ اس ضمن میں موجودہ سعودی منظر نامہ میں ایک مثالی تبدیلی دکھائی دیتی ہے ۔ آج سبھی سعودی سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے والے طلباء میں سے 55% سے زیادہ تعداد صرف خواتین کی ہوتی ہے۔ تعلیم کے میدان میں اس بتدریج تبدیلی نے سعودی شہریوں کی مجموعی ترقی وخوشحالی میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے اور اس تبدیلی کے مثبت اثرات سعودی عرب کے معاشی اور اقتصادی ڈھانچے پر بھی پڑے ہیں۔ 1960 کی دہائی میں سعودی عرب میں فی کس آمدنی اوسطاً 400 امریکی ڈالر ہوا کرتی تھی، لیکن آل سعود کے ذریعہ  تعلیم کے میدان میں اٹھائے گئے ٹھوس اقدامات اور انتھک لگن سے مملکت میں نمایاں اقتصادی ترقی دیکھنے کو ملی اور اس وقت فی کس آمدنی اوسطاً 20,000امریکی ڈالر سے بھی متجاوز کر گئی ہے، جو تعلیم اور معاشی خوشحالی کے درمیان براہ راست تعلق کو اجاگر کرتی ہے۔ سعودی شہریوں کی آمدنی میں یہ غیر معمولی اضافہ ان کے تعلیمی سفر میں ہونے والی زبردست پیش رفت کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے اور اسی کے نتیجے میں سعودی آبادی کی عمومی فلاح وبہبود پر مثبت اثرات پڑے۔سعودی عرب میں شرح خواندگی اور ذاتی آمدنی میں مسلسل اضافہ اور ترقی کی وجہ سے آج یہ مملکت دوسرے ممالک کے لیے ایک مثالی ماڈل ہے جو اپنے تعلیمی معیار کو بلند کرنے اور ایک مہذب اور تعلیم یافتہ معاشرہ تشکیل کرنے کوشش کر رہی ہے ۔

کسی بھی معاشرے کی خوشحالی کا سفر اس کی معاشی ترقی کا مرہون منت ہوا کرتا ہے۔ اور سعودی عرب میں جو قابل ذکر خوشحالی دیکھنے کو ملی  ہے وہ بھی اس  سرزمین میں تیل کے بڑے وسائل کی دریافت کی مرہون منت ہے۔  تیل کی اس غیر معمولی دریافت سے  پہلے، سعودی معیشت بہت محدود ہوا کرتی تھی، جو سالانہ حج، ٹیکسوں اور زرعی پیداوار سے حاصل ہونے والی آمدنی پر پوری طرح منحصر ہوا کرتی تھی۔ اس وقت کے سعودی عرب کو درپیش معاشی چیلنجز کی ایک واضح تصویر کشی شیخ رستم نے اپنی کتاب ’’سعودی عرب اینڈ آئیل ڈپلومیسی‘‘ میں  کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ "سعودی عرب میں اس وقت رائج زرعی طرز عمل اور کاشتکاری کےطریقے بھی بہت پرانے اور فرسودہ ہوا کرتےتھے، غربت اور ناخواندگی اپنے عروج پر ہوا کرتی تھی، اور بیماریاں آئے دن پھیلتی رہتی تھیں”۔ اس وقت کی سعودی معیشت کا حال یہ تھا کہ 1920 کی دہائی میں سعودی حکومت کی سالانہ آمدنی تقریباً 5 لاکھ امریکی ڈالر ہوا کرتی تھی، جس کا پانچواں حصہ صرف حاجیوں سے ان کے قابل تجارت سامان پر ٹیکس لگا کر وصول کیا جاتا تھا۔ 1929 کے "گریٹ ڈپریشن” نامی معاشی بحران کے دوران، جب پوری دنیا معاشی کساد بازاری سے جوجھ رہی تھی، اس سال حاجیوں کی تعداد میں بھی ساٹھ فیصد گراوٹ دیکھنے کو ملی تھی جس کا براہ راست اثر سعودی عرب کی معیشت پر پڑا تھا۔ اور یہ اتنا شدید تھا کہ شاہ عبدالعزیز نے اقتصادی دباؤ سے نکلنے کے لیے برطانیہ اور سوویت یونین سے رابطہ کرکے  تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔

دوسری طرف، یہ بات قابل ذکر ہے کہ مملکت سعودی عرب آج عالمی اقتصادی منظر نامے میں ایک اہم ملک کے طور پر ابھر چکا ہےاوراس وقت اس کا شمار دنیا کی سترہویں بڑی معیشت کے طور پر ہوتا ہے۔ اس غیر معمولی کامیابی کے پیچھے کئی سارے عوامل  کار فرماں ہیں، جن میں مملکت میں پائے جانے والے بے شمار قدرتی وسائل، معدنی ذخائر، اور عالمی معیار کا جدید انفراسٹرکچر شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج سعودی عرب اس  پوزیشن میں ہے کہ مشترکہ وباہمی مفادات کی بنیاد پر دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ نتیجہ خیز دوستی، مضبوط تعلقات اور موثر دوطرفہ معاملات قائم کر سکتا ہے۔ جبکہ آج دنیا کی ساری بڑی معیشتیں اور سیاسی طاقتیں سعودی عرب سے شراکت داری رکھتی ہیں۔ علاقائی اور عالمی معیشت میں سعودی عرب کی حیرت انگیز حصہ داری، جیسا کہ اس کی جی ڈی پی اور اسٹاک مارکیٹ کی قدر وحجم سے ظاہر ہوتا ہے، اقتصادی منظر نامے میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر اس کی پوزیشن کو اور مضبوط کرتاہے۔ آج سعودی معیشت کے حجم کا حقیقی اندازہ ان اعدادوشمار سے لگایا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب ہی اکیلے پورے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے خطے کی مشترکہ جی ڈی پی کے 20 فیصد حصے کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، سعودی سٹاک مارکیٹ کی قدر اس ملک کے معاشی غلبے کاایک اہم  ثبوت ہے، جو مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کی تمام سرمایہ کاری کی منڈیوں میں کل سرمائے اور اثاثوں کے 50 فیصد حصے کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ اعداد وشمار سعودی مارکیٹ کے استحکام اور اس کی کشش کو ظاہر کرتے ہیں جس کی وجہ سے مملکت نے بیشمار علاقائی اور بین الاقوامی بڑے سرمایہ کاروں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے، جس سے دن بدن اقتصادی طاقت کے طور پر مملکت کی پوزیشن اور مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔

سعودی عرب میں تیل کی دریافت نے اس کے شہریوں کی زندگیوں کو یکسر تبدیل کردیا۔ ان کی خانہ بدوشانہ طرز زندگی مکمل طور پر بدل گئی اور بے مثال خوشحالی کے دور کا آغاز ہو گیا۔ پیٹرول کی شکل میں اس نئی مالداری نے نہ صرف ان کی معاشی اور سماجی حالت میں ایک انقلاب برپا کر دیا بلکہ ان کے ذہن، سوچ اور دنیا کے بارے میں ان کے تصور میں بھی ایک انقلابی تبدیلی رونما ہو گئی۔

آج جب ہم عرب ممالک اور خاص طور پر مملکت سعودی عرب کے لوگوں کا موازنہ مغرب ومشرق کے ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والے لوگوں سے کرتے ہیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگران دونوں کے معیار زندگی کا موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مملکت کے باشندے پرتعیش اور آرام دہ طرز زندگی گزارنے کے معاملے میں مغربی یا مشرقی ممالک کے شہریوں سے کسی بھی طرح سے کمتر نہیں ہیں، جبکہ اگر ہم 1930 اور 1940 کی دہائیوں کے سعودی عرب کا گہرائی سے جائزہ لیں، جس وقت جدیدمملکت سعودی عرب کی بنیاد رکھی جارہی تھی، تو ہمیں بہت سارے ایسے تاریخی شواہد مل سکتے ہیں جو واضح طور پر اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ اس مدت میں سعودی شہری کس حد تک غربت وافلاس کی زندگی گزارنے پر مجبور  تھے۔ عالم یہ تھا کہ اس زمانے میں سعودی بادشاہ اپنے پورے خاندان کے ساتھ مٹی کی اینٹوں سے بنے انہی محلات میں رہتے تھے جہاں ان کے آباؤ اجداد صدیوں سے رہتے چلے آرہے تھے۔ واضح رہے کہ آل سعود کو اس تکلیف دہ طرزِ زندگی سے نکلنے کے لیے بے پناہ چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، لیکن انھوں نے اپنی زندگیوں میں معنی خیز  تبدیلی کے حصول کے لیے کبھی بھی کسی کٹھن سفر یا راستے کو اختیار کرنے سے گریز نہیں کیا۔ ایک طرف تو جہاں قدرت نے ان پر احسان کیا اور  تیل کی وافر دولت تک ان کی رسائی کرا دی، وہیں دوسری طرف آل سعود نے اپنے اعزاز کو محفوظ رکھنے اور اس دولت پراپنا تسلط برقرار رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

سعودی عرب کی تاریخ میں ایک دلچسپ اور حیرت انگیز واقعہ  ملتا ہے ۔ یہ واقعہ مملکت کے بانی شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن سے متعلق ہے، جنہیں عام طور سے "ابن سعود” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اقتدار سنبھالنے کے کافی عرصے بعد، 1945 میں یہ اہم واقعہ پیش آیا تھا جب ابن سعود نے پہلی مرتبہ اپنی مملکت کی سرحدوں سے باہر اپنا قدم رکھا۔ اس انتہائی اہم سفر کو نہایت ہی رازداری سے انجام دیا گیا۔ اس خفیہ سفر کا مقصد دراصل ابن سعود اور اس وقت کے ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر فرینکلن ڈی۔ روزویلٹ (1882-1945) کے درمیان مصر کے سوئز نہر میں لگژری امریکی سمندری جہاز” یو ایس ایس کوئنسی (سی-71)”  پر ایک ملاقات تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ملاقات انتہائی اہمیت کی حامل تھی، کیونکہ یہ امریکہ اور مملکت سعودی عرب کی قیادت کے مابین پہلی ملاقات تھی۔ اور خاص طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس اہم ملاقات نے ہی امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان اس مضبوط اور پائیدار تعلق کی بنیاد رڈالی تھی جو پچھلے ساڑھے سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے بحسن وخوبی چلا آرہا ہے۔ اپنی پر تکلف اور پر جوش ضیافت کے دوران، امریکی صدر نے سعودی بادشاہ کو ثقافتی تبادلے کے اشارے کے طور پر  دو امریکی چیزوں سے متعارف کرایا: "آئس کریم” اور "ہالی ووڈ فلمیں”۔ شاہ ابن سعود کو ان دونوں نئی ​​چیزوں نے امریکی ثقافت کی ایک خوشگوار جھلک فراہم کی، کیونکہ انہوں نے اپنی پوری زندگی میں ان دو چیزوں کا کبھی تجربہ نہیں کیا تھا۔

حقیقت پر مبنی اس واقعے  سے، ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آل سعود کو اپنے موجودہ مقام ومرتبہ  تک پہنچنے کے لیے کتنے مسائل اور چیلنجوں  سامنا کرنا پڑا ہوگا۔یہ امرواقعی قابل ذکر ہے کہ سعودی عرب کے شہری، جو 75 سال پہلے تک آئس کریم کے تصور سے ناواقف تھے، اب پورے مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ  میں آئس کریم کی کل کھپت کا 30% حصہ اکیلے استعمال کرتے ہیں۔ صنعت کے رجحانات اور مارکیٹ کے سائز پر نظر رکھ کر جامع ڈیٹا بیس فراہم کرنے والا مشہور ریسرچ پلیٹ فارم  "بزنس مارکیٹ انسائٹ” کی طرف سے تیار کی گئی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، خلیجی ممالک میں آئس کریم کی مارکیٹ کا حجم  2018 میں 543.0 ملین امریکی ڈالر تھا، جس میں آنے والے سالوں میں نمایاں بڑھوتری کے امکانات ہیں۔  یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ 2027 تک آئس کریم کی مارکیٹ کا حجم  969.1 ملین امریکی ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ بڑھوتری 2019 سے 2027 تک 6.7٪ کی لاگاتار سالانہ نمو کی شرح سے حاصل ہوگی۔ یہ اعدادوشمار اس قابل ذکر پیش رفت اور ترقی کو بیان کرتے ہیں جو سعودی عرب نے نسبتاً کم مدت میں حاصل کیا ہے۔ سعودی عرب میں آئس کریم کے مارکیٹ کی تیزی سے بڑھتی ہوئی وسعت، صرف مملکت میں معاشی ترقی  کو ظاہر نہیں کرتی، بلکہ وہاں کے شہریوں میں پائے جانے والی  کاروباری اسپرٹ، جذبے اور ان کے عزم  وحوصلے کا بھی ثبوت ہے۔  یہ اس بات کا بھی واضح ثبوت ہے کہ کس طرح سعودی عرب نے خود کو دنیا کے خوشحال ملکوں کی صف میں کھڑا کر لیاہے ، اور جس کی اقتصادی ترقی پورے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے خطے کی معیشت کو بھی پروان چڑھانے میں نمایاں کردار ادا کررہی ہے۔ مزید یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ سعودی عوام اب سبھی نامساعد حالات میں کس طرح چیلنجوں پر قابو پا یا، زمانے کے تقاضوں کے حساب سے کیسے اور کیا تبدیلیاں کو قبول کیں اور ایک ترقی یافتہ  معیشت کے طور پر ابھرنے کے لیے ان کو کیا کیا جتن کرنے پڑے۔

جہاں تک بات ہالی وڈ کی فلم کی  ہے، تو گرچہ انٹرٹینمنٹ کی دنیا میں یہ ایک نیا اور بہت پرکشش اضافہ تھا جس کی کوئی صدیوں پرانی تاریخ نہیں تھی، لیکن فلم انڈسٹری سے متعلق جو حقائق یا افسانے آج موجود ہیں، ان کے مطابق ، ہالی ووڈ میں بننے والی پہلی فلم "دی اسکوا مین” (The Squaw Man)  تھی جسے 1914 میں "سيسيل بلونت ديميل” (Cecil Blount DeMille) نے ڈائریکٹ کیا تھا۔  تو اس کا مطلب یہ ہوا  کہ سعودی بادشاہ ابن سعود اور امریکی صدر کے درمیان یہ تاریخی ملاقات پہلی ہالی ووڈ فلم کے منظر عام پر آنے کے صرف 31 سال بعد ہی ہوگئی تھی۔

اوپر مذکورہ  واقعے سے ہم دو اہم نتائج اخذ کر سکتے ہیں۔

ایک تو یہ کہ ان عربوں کے بارے میں غیر ضروری اور غیر منطقی طور سے یہ تصور نہیں بنا لیا گیا ہے کہ یہ جاہل، بیوقوف، غیرمہذب، اجڈ اور بد اخلاق قوم ہے۔ جبکہ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ یہ عرب نہایت ہی ہوشیار ، تیز ذہن اور جلد سیکھ جانے والے لوگ ہیں۔ جیسے ہی انکے یہاں خوشحالی آئی اور تیل وگیس کے ذخائر سے ان کا رشتہ  بنا، انہیں دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے  اور  پیسہ کمانے کا سلیقہ آگیا، اورمختصر عرصے میں اتنا پیسہ کمالیا کہ ان کے  طرز فکر و عمل اور زندگی کا ڈھب ہی یکسر  تبدیل ہو گیا۔ انہوں نے اپنے بدویانہ طرز زندگی اور پرانے سماجی ڈھانچے کی جگہ ایک عالیشان طرز معاشرت کو اپنالیا، جس میں انہوں نے اپنوں کے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی خوب خیال رکھا۔ یہ بات اب دعوے سے کہی جا سکتی ہے کہ ان عربوں کے پاس آج دنیا کا سب سے بہترین انفراسٹرکچر اور ترقی کا سب سے عمدہ ماڈل ہے، جو یورپ اور امریکہ کے معیارات سے کسی بھی طور پر کمتر نہیں ہے۔ مزید یہ کہ یہ عرب اب دینا میں irrelavant نہیں ہے، geopolitically اور geostratigically  انکی اہمیت دنیا کے کسی بھی ملک سے کہیں زیادہ ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ دنیا کی نصف آبادی اپنی توانائی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے انہی عربوں پر منحصر ہے۔

دوسرا اہم نکتہ جو اس قصے سے اخذ کیا جاسکتا ہے وہ  30 سالہ مشہور امریکی بینکر  "ہینڈرتھ اسمتھ” کے ایک اقتباس میں مضمر ہے جو ان کی کتاب "دی ویلتھ ریفرینس گائیڈ: این امریکن کلاسک” سے ماخوذ ہے۔  وہ لکھتے ہیں کہ:

“Money earned is proof of value provided. Money earned is proof of worth recognized”

” اگر آپ نے پیسہ کمایا تو اسکا مطلب ہے کہ آپ نے اس پیسے کے بدلے میں کوئی قابل قدر چیز یا خدمت سامنے والے کو دی ہوگی۔ اسی طرح اگر آپ نے پیسہ کمایا تو اس کا مطلب ہے کہ اس پیسے کے بدلے میں سامنے والے کو آپ نے جو چیز یا خدمت دی وہ اس کی نظر میں قابل قدر اور قیمتی ہے۔”

آج جب ہم مملکت سعودی عرب میں موجودہ خوشحالی کی صورتحال پر غور کرتے ہیں اور اس خوشحالی کے پیچھے کارفرما عوامل کا تجزیہ کرتے ہیں، تو سعودی عرب نے  جو عزت و احترام دنیا بھر میں مکہ ومدینہ کی خدمت کرکے حاصل کیا ہے اگر اسے تھوڑی دیر کے لیے بالائے طاق رکھ دیں، تو یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ پیسہ اگر انسان کے پاس آجائے  تو وہ کچھ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے اور اگر اس کے پاس خوب سارا پیسہ آجائے تو وہ سب کچھ حاصل کرسکتا ہے۔ اس لیے کہ جب پیسہ آتا ہے تو وہ اپنے ساتھ سب کچھ لے کر آتا ہے، حتی کہ شہرت بھی لے کر آتا ہے، آداب بھی لیکر آتا ہے، اخلاق بھی لیکر آتا ہے اور پرانی تہذیب وثقافت کو سنوارنے کے ساتھ نئی تہذیب وثقافت کو بھی لے کر آتا ہے۔ سعود ی عرب کے باب میں بھی یہی ہوا۔ تیل سے حاصل دولت کی فراوانی نے ان کو ایک بدویانہ سماج کے خول سے نکال کر دنیا کی سیادت اور قیادت کرنے والے لوگوں کی صفوں میں لا کھڑا کیا۔

سعودی عرب کے تاریخی اور عصری حالات وظروف کے مذکورہ بالا تجزیے کے بعد، یہ ضروری ہے کہ ہم اس موقع پر سعودی عرب کے مستقبل پر ایک مختلف زاویے سے بات کریں ۔

گزشتہ کئی دہائیوں سے مملکت سعودی عرب مختلف شعبوں، محاذوں اورعالم اسلام کی مختلف تنظیموں اور پلیٹ فاروں ، عرب دنیا، تیل کی صنعت اور خلیج تعاون کونسل وغیرہ  میں سر پرستی اور سربراہی کے فرائض انجام دے رہاہے۔ بہت سے سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ مملکت نے جو  حیثیت اور مقام حاصل کیا ہے، وہ دراصل تیل کی توانائی کے شعبے میں حاصل کامیابیوں اور دولت کا مرہون منت ہے۔ تاہم، کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو اس خیال کا اظہار کر رہے ہیں کہ چونکہ دنیا میں ٹکنالوجی اب حفری ایندھن (Fossil Fuels) سے صاف توانائی (Clean Energy) اور قابل تجدید توانائی (Renewable Energy) کی طرف منتقل ہو رہی ہے، اس لیے اس بات کا امکان ہے کہ آنے والے سالوں میں سعودی عرب یا تواپنا موجودہ حاصل شدہ مقام و مرتبہ برقرار نہیں رکھ پائے گایا موجودہ پوزیشن کو برقرار رکھنے کے لیے اسے انتھک جدوجہد کرنی ہو گی۔

اس سلسلے میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ سعودی قیادت ہمیشہ دور اندیشی کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔ اپنے ملک اور عوام کے محفوظ مستقبل کے لیے اکثر کئی سالوں پہلے منصوبہ بندی اور ان پر عمل پیرا ہوتی نظر آتی ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ تیل کی اہمیت اتنی کم ہو جائے کی سعودی عرب اپنی پوزیشن کھو بیٹھے،  ایسا بھی کچھ ہوتا ہوا مستقبل قریب میں نظر نہیں آتا۔  اور تیسری بات یہ ہے کہ  اگراس طرح کا کوئی خدشہ یا غیر یقینی صورتحال کے واقع ہونے کا امکان ہے تو اس بات کا  امکان اس بھی کہیں زیادہ ہے کہ سعودی عرب نے پہلے ہی ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے ایک جامع اور مؤثر ایکشن پلان تیار کر لیا ہو، اور وہ پوری تندہی سے اس پر عمل پیرا ہو رہا ہوگا۔ یہاں تھوڑی دیر ٹھہر کر ہم سوچ سکتے ہیں کہ وژن2030 اسی ضمن کی کوئی پلاننگ ہے؟

یہاں یہ بات زور دے کر کہی جا سکتی ہے کہ سعودی عرب کو یہ مقام و مرتبہ صرف اس وجہ سے حاصل نہیں ہوا ہے کہ وہ عرب اور اسلامی دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے جس کے پاس دنیا میں دوسرا سب سے زیادہ تیل کا ذخیرہ ہے۔ اس  کے علاوہ بھی بہت سے عوامل اور وجوہات ہیں جنہوں نے سعودی عرب کو اس مقام تک آ پہونچایا ہے؟ اس سلسلے میں یہاں  چار اہم عوامل کا ذکر کیا جا رہا ہے ۔

سعو دی عرب کی ایک اہم خاصیت جو اس کی اہمیت  کو مستقبل میں بھی برقرار رکھے گی وہ اس کی مسلم دنیا کی رہبری اور رہنمائی  میں اہم  کردار ہے۔ اسلام کے دونوں سب سے اہم اور مقدس مراکز، مکہ میں کعبہ شریف اور مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کی وجہ سے سعودی عرب عالم اسلام اور مسلمانوں کی رہبری اور رہنمائی کے سلسلے میں فیصلہ کن اور اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں تھا، ہے اور رہے گا۔ دنیا بھر میں ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمان روزانہ کم از کم پانچ بار کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے ہیں۔ مملکت کی ذمہ داری صرف ان مقدس مقامات کی حفاظت ہی نہیں ہے بلکہ اس سے بڑھ کر ہے۔ اسے یہ بھی یقینی بناناہے کہ یہ مقامات صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں  بلکہ پوری انسانیت کے لیے خوشحالی، فلاح اور برکت کے مراکز رہیں۔ جیسا کہ مسلمان اس وقت پوری دنیا کی آبادی کے پانچویں  یا اس سے کچھ زیادہ کی نمائندگی کرتے ہیں، تو اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ سعودی عرب کی قیادت صرف مسلمانوں کے بجائے پوری انسانیت کی فلاح ،بہبود  کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرےگی ۔ سعودی عرب کا یہ منفرد مقام مملکت کی قیادت کو وسیع ترکردار ادا کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے جو دوسرے اسلامی ممالک کے پاس نہیں ہے۔ اسلام، قرآن اور پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش کے طور پر مملکت کی تاریخی اور روحانی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ وہ جگہ بھی ہے جہاں مسلمان ہر سال حج کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ گزشتہ پچاس برسوں کے دوران مملکت سعودی عرب نے حرمین شریفین کے زائرین کو جو بنیادی سہولیات اور مدد فراہم کرنے کی بھرپور کوششیں کی ہیں، پوری اسلامی تاریخ میں کسی اور مملکت یا حکومت کی طرف سے فراہمی  کی ایسی نظیرملنا مشکل ہے۔ جب تک سعودی عرب دنیا بھر کے مسلمانوں کے درمیان اتحاد کو فروغ دیتے ہوئے ان دو مقدس مقامات کی خدمت اور حفاظت کرتا رہے گا، اس وقت تک مسلمانوں کی قیادت اور عالم اسلام کا اعتماد اسے حاصل رہے گا۔ اور ساتھ ہی ساتھ اسلامی دنیا میں سعودی عرب کی قیادت اور اس کے اثر و رسوخ کو سبھی اہم عالمی تنظیموں اور فورمز میں وسیع پیمانے پر تسلیم اور احترام کیا جاتا رہے گا۔

بیسویں اور اکیسویں صدی میں سعودی عرب نے جو ترقی کا سفر  طے کیا وہ اس کی توانائی پر منحصر معیشت سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے  اور توانائی کی مارکیٹ ہی وہ مارکیٹ ہے جس میں اتار چڑھاو کے اثرات دنیا بھر کے انسانوںپر براہ راست پڑتے ہیں۔ اسلیے کہا جاتا ہے کہ توانائی کی عالمی منڈی  وہ رسی ہے جو دنیا کے سبھی ملکوں کو آپس میں میل جول کےبندھن میں باندھے رکھتی ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مستقبل میں بھی زمین سے نکلنے والا تیل دنیا کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں اہم اور کلیدی کردار ادا کرتا رہے گا۔ تاہم، اس وقت دنیا میں، خاص طور پر توانائی اور توانائی سے متعلق ٹیکنالوجیز میں، بہت سی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔  اس لیے یہ خیال کرنا غیر معقول ہے کہ سعودی عرب اس بدلتے ہوئے منظر نامے کے ساتھ اپنے پورانے طور طریقے پر بدستور چلتا رہے گا اور کسی نئی تبدیلی کو قبول نہیں کرے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب کے مزاج میں ٹھہراؤ اور ثبات نہیں ہے، اس نے ہمیشہ زمانے کے ساتھ قدم ملا کر چلنا سیکھا ہے۔ سعودی عرب کی پالیسیوں میں اگر کسی چیز کو مستقل ثبات حاصل ہے تو وہ تغیر کو ہے، نئے حالات کو اپنانے کے ہنر کو ہے ۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ماضی میں حفری ایندھن کا استعمال آج کے  مقابلے میں بہت زیادہ ہوا کرتا تھا، اس خیال سے اختلاف کرنا عملی طور پر ناممکن ہے کہ آج سے ایک یا دو دہائیوں کے بعد اس قسم کے ایندھن کے استعمال میں آج کے مقابلے نمایاں کمی واقع ہو جائے گی۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ سعودی عرب موجودہ توانائی کے وسائل کی تلاش،  پیداوار اور ذمہ دارانہ استعمال کی کوششوں میں دیگر  عالمی طاقتوں اورممالک کے ساتھ مل کر سرگرم عمل ہے۔ لہٰذا، حفری ایندھن کے دور کا مکمل اختتام صرف سعودی عرب کو ہی نہیں متاثر کرے گا، بلکہ دیگر ممالک پر بھی اس کے وسیع تر اثرات مرتب ہوں گے۔  دوسری چیز یہ ہے کہ جس طرح سعودی عرب کے پاس تیل کا ذخیرہ ہے اسی طرح اس کے پاس شمسی توانائی کا بھی ذخیرہ ہے۔ اللہ نے جس طرح سعودی عرب کوسب سے سستےاور سب سے زیادہ  حفری ایندھن کی دولت سے نوازا ہے اسی طرح کافی سستے شمسی توانائی کے وسائل سے بھی نوازا ہے۔ وہ اس طور سے کہ اس ملک میں کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں سورج کی شعائیں سب سے زیادہ پڑتی ہیں اور سب سے زیادہ شدید ہوتی ہیں۔  یہ منفرد خاصیت سعودی عرب کو  مستقبل میں متبادل توانائی فراہم کرنے والوں کی دوڑ میں بھی سب سے آگے کر کے اس میدان میں بھی قیادت کے منصب پر فائز کر سکتی ہے​​۔ تاہم، ابھی ایسا لگتا نہیں ہے کہ دنیا مستقبل قریب میں تیل اور گیس کے استعمال سے مکمل طور پر بے نیاز ہو جائے گی۔ اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ سعودی عرب نے ابھی تک توانائی کے متبادل ذرائع کی دریافت اور اس کی ترقی پر کام شروع نہیں کیا ہے،  بلکہ اس کے برعکس، سعودی عرب کافی عرصے سے اس شعبے میں تحقیق اور ترقی کے عمل میں مصروف ہے اور قوی امکان ہے کہ جب صاف اور قابل تجدید توانائی کا دور آئے گا تواس میدان میں بھی سعودی عرب سب سے آگے رہے گا۔ ابھی کچھ سالوں پہلے ہی سعودی عرب نے ملک میں ہائیڈروجن کی پیداوار بڑھانے کے لئے ایک بڑی سرمایہ کاری کی ہے اور ہائیڈروجن سےجو توانائی حاصل ہوتی ہے وہ صاف توانائی کے زمرے میں آتی ہے جس میں کاربن ہوگا ہی نہیں اور جسکا استعمال ماحولیاتی آلودگی کی روکنے میں مددگار ثابت ہو گا۔

تیسرا اور اہم عنصر جو اس تصور کو مستحکم کرتا ہے کہ سعودی عرب مستقبل قریب میں اپنی عالمی قیادت کے منصب پر فائز رہے گا، وہ اسکا  جغرافیائی اور اسٹریٹیجک محل وقوع ہے۔ یقیناً اس ملک کا تزویراتی محل وقوع اس کی قیادت کے تسلسل اور خطے میں اس کےکلیدی کردار کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مملکت کےاسٹریٹجک محل وقوع کی اہمیت اس بات سے واضح ہوتی ہے کہ یہ ملک اس خطے میں واقع ہے جو  مشرق وسطیٰ میں اور عالمی سطح پر بھی جغرافیائی طور پر سب زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ سعودی عرب نے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر اتحاد اور شراکت داری قائم کر کے پوری دنیا کے سیاسی، معاشی اور سلامتی کے امور میں ایک اہم شراکت دار کے طور پر اپنی نمایاں پوزیشن کو مضبوط کیا ہے، جس کی وجہ سے اس نے اپنے کلیدی  کردار کے تسلسل کو یقینی بنایا ہے۔ یہ ملک عالمی سطح پر تیل کی صنعت میں ایک بڑے  پیداواری کے طور پر اپنی پہچان رکھتاہے، جس کے پاس وینیزویلا کے بعد دنیا میں سب سے بڑے تیل کے ذخائر موجود ہیں، اور یہ چیز مملکت کو زبردست اقتصادی اثر و رسوخ فراہم کرتی ہے جس کی وجہ سے اسے دنیا کے اقتصادی اور سیاسی دونوں منظر ناموں پر اعلی مقام  حاصل رہے گا۔ اسی طرح جب علاقائی سلامتی اور استحکام کی بات ہوتی ہے  تو سعودی مملکت کا استحکام اپنے اثرات  کے اعتبار سے خطہ میں استحکام کا ذریعہ ہوگا اور مملکت خطے کے اندر پیدا ہونے والے تنازعات اور بحرانوں کے حل میں بھی فعال کردار ادا کرتارہا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا جو خطے اور دنیا بھر میں اس کی پوزیشن اور اثر و رسوخ میں اضافہ کا باعث ہوگا۔ مزید یہ کہ سعودی عرب جزیرہ نمائے عرب کے مشرق ومغرب دونوں  ساحلوں پر واقع ہے۔ یہ ایک ایسا اہم جغرافیائی محل وقوع ہے  جس کی وجہ سے یہ ملک  دنیا کے مختلف حصوں تک آسان رسائی حاصل کر لیتا ہے اور یہی چیز اس کے تجارتی اور سفارتی رابطے کی صلاحیت میں اضافہ کا ذریعہ ہے۔ مملکت کا جغرافیائی محل وقوع دنیا بھر میں توانائی کی ترسیل اور اس کی فراہمی کے اعتبار سے بھی کافی اہمیت رکھتا ہے ، اس لیے کہ یہ خطہ عالمی معیشتوں کو تیل کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس طرح مملکت تیل کی منڈی میں استحکام کو برقرار رکھنے اور مستحکم سپلائی کو یقینی بنانے میں ایک اہم کردار ادا کی حامل ہے۔

 ان مختلف عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب کا مخصوص جغرافیائی محل وقوع نہ صرف اس کی موجودہ قائدانہ کردار کو اہم بناتاہے بلکہ اس بات کا اندازہ لگانے میں بھی مدد  کرتا ہے کہ آیا وہ آنے والے دنوں میں  مشرق وسطیٰ کے خطے میں اس کی قیادت وسیادت کی پوزیشن گھٹے گی یا بڑھے گی۔

چوتھی چیز یہ ہے کہ سعودی عرب نے خود محسوس کر لیا ہے کہ مملکت کی معیشت اپنی طویل مدتی ترقی اور استحکام کے حصول کے لیے صرف توانائی پر ہی منحصر نہیں رہ سکتی۔  اسی کی وجہ سے  مملکت نے اپنی معیشت کو متنوع بنانے اور آمدنی کے متبادل ذرائع تلاش کرنے کے لیے نئی حکمت عملی کے ساتھ اقدامات شروع کر دئےہیں۔ یہ کوششیں پچھلے کئی سالوں سے جاری ہیں، اور بالخصوص اپریل 2016 سے اس ضمن میں ٹھوس اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ ان سبھی کوششوں کا مرکزی پہلو وژن 2030 کا نفاذ ہے۔  یہ وژن ایک جامع معاشی منصوبہ ہے جس کا مقصد سعودی معیشت کا  تیل کے شعبے پر انحصار ختم یا کم کرکے دوسری جہتوں میں توسیع کرنا ہے، اور یقینی طور پر،اگلے دس سالوں میں، وژن 2030 کے تحت تیل کے علاوہ آمدنی کے متعدد دوسرے ذرائع تلاش کر لیے جائیں گے۔ اس جانب جو  بنیادی اقدامات کیے جا رہے ہیں ان میں  سے سب سے اہم  "نیوم سٹی پروجیکٹ” ہے، جو ان سبھی اقتصادی تبدیلیوں کے سلسلے میں اٹھائے جا رہے اقدامات میں  سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب اس وقت ایک بڑی اور کثیر جہتی تبدیلی سے گزر رہا ہے۔ اور یہ تبدیلی سعودی معاشرے، معیشت اور اس کی حکمت عملی کے متعدد  پہلووٗں  کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔  موجودہ آل سعود کی قیادت میں، مملکت کے سماجی ڈھانچے کی تنظیم نو  اس طرح کی جا رہی ہے جو ملک کی ترقی کے لیے ایک متحرک اور مستقبل کے وژن کی عکاسی کرتاہو۔ آل سعود نے اپنی پوری تاریخ میں کامیابیوں اور ناکامیوں دونوں کا سامنا کیا ہے مگر اس کے باوجود سعودی عرب نے ابھی تک ترقی کا جو سفر طے کیا ہے اس پر آل سعود  کے تاریخی حکمرانی کی میراث  کا نمایاں اثر رہا ہے جو بالآخر جدید سعودی ریاست کے قیام کا باعث بنا۔ خاص طور پر مملکت میں تیل کے وسائل کی دریافت نے سعودی عرب کو عالمی معیشت میں ایک اہم مقام اور فیصلہ کن کردار عطا کر دیا اور اسی کے نتیجے میں سعودی شہریوں کےمعیار زندگی، خواندگی کی شرح اور مجموعی انسانی ترقی کے اشاریے  میں نمایاں بہتری نظر آئی۔ مختصراً یہ کہ سعودی عرب کا یہ تبدیلی کا سفر مختلف مراحل سے ہوتا ہواآج جس مقام پر  ہے اس میں نرمی، لچک، عزم اور تزویراتی بصیرت سب کچھ شامل ہے۔ آج سعودی عرب اپنے تاریخ ورثے کو محفوظ رکھنے، اپنی معیشت کو متنوع بنانے، سماج ترقی کو فروغ دینے اور قابل تجدید توانائی کو اپنانے کے لیے پرعزم نظر آتا ہے۔ وہ جدت طرازی اور لگن کے ساتھ چیلنجوں کا سامنا کررہا ہے اور جو بھی مواقع ملتے ہیں ان کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔وہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کررہا ہے کہ سعودی عرب بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے میں بھی ایک اہم قوت بنارہے۔ مزید برآں، سعودی عرب کا اتحاد، شراکت داری اور علاقائی استحکام کو برقرار رکھنے میں اہم کردار  اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا میں سلامتی، اقتصادیات اور سیاست کے شعبوں میں اس کی قیادت کی اہمیت  نمایاں اور مسلم ہے۔ جیسا کہ مملکت عالمی تبدیلیوں کے مطابق خود کو ڈھال رہا ہے ، تو آنے والے دنوں میں وہ نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا کے مستقبل کو تشکیل دینے میں ایک اہم کردار ادا کر سکتاہے۔ مملکت کی اسٹریٹیجک  پوزیشن، اس کی تاریخی اہمیت، مذہب اسلام کے سلسلے میں اس کی مذہبی قیادت، عربی زبان کے سلسلے میں ان کی لسانی پاکیزگی اور توانائی کے شعبے میں ان کا اہم کردار، علاقائی اور عالمی معاملات میں ان کے مسلسل اثر و رسوخ کو یقینی بناتا ہے۔ ​​تاہم، جیسے جیسے دنیا صاف توانائی کے ذرائع کی طرف بڑھ رہی ہے، سعودی عرب بھی اسی توانائی کی تلاش اور ترقی کے عمل میں سرگرم عمل ہے۔ سعودی عرب کے پاس شمسی توانائی کے ذرائع کی کثرت ہے، جو اسے بدلتے ہوئے توانائی کے منظر نامے میں بھی آنے والے وقت میں سب سے آگے کر دیگی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔