آئیے، آنے والوں کی دنیا بہتر بنائیں

سہیل بشیر کار

آج سے چار سال قبل ایک معروف روزنامہ ‘دی گارڈین’ میں سرخی لگتی ہے کہ مارک زکربرگ اور پریسیلا چھین نے اپنی بچی کی پیدائش کا اور 45ارب ڈالر کی چیریٹی کا اعلان کیا۔ مارک زکربرگ Facebook کے موجد ہیں اور کم عمری میں ہی ارب پتی فہرست میں نام بنانے والوں میں سے ہیں۔ بچی کی پیدائش پر Facebook کے %99 شئیرز کو چیریٹی میں دینے کا اعلان کرتے ہیں۔ اپنے FB پوسٹ کے زریعے اپنی نوزائدہ بچی میکس کے نام ایک خط میں وہ اس announcement کی یہ دلیل دیتے ہیں۔ ” سبھی والدین کی طرح ہم بھی چاہتے ہیں کہ تمہاری پرورش اُس دنیا میں ہو جو ہماری دنیا سے بہتر ہو۔ ” فیس بک کے مالک آئندہ نسل کے لئے بہتر دنیا بنانا چاہتے ہیں اور اپنی دولت کا %99 اسی آئندہ نسل کے نام کرتے ہیں۔ میں گاہے اس خط نما پوسٹ کی طرف دیکھتا ہوں اور گاہے مسلمانوں کے موجودہ جم غفیر کی طرف۔ مسلمانوں کے پاس تو اس کی تعلیم بھی موجود تھی لیکن ہم ہیں کہ کسی دلدل میں جا پھنسے ہیں۔ ہمارا وجود بےوزن سا ہوگیا ہے۔ کیا ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارے نبی نے اعمال صالحہ کا  ہمہ گیر تصور دیا ہے اور ان اعمال صالحہ کا وافر حصہ ہمیں آئندہ نسل کی خوشی اور ان کا تحفظ یقینی بناتا نظر آتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث مبارکہ ہم سب کو یاد ہوگی کہ "اگر قیامت برپا ہورہی ہو اور تمہیں پودا لگانے  کا موقع مل جائے تو فورا اس نیکی میں شامل ہوجاؤ۔” (بخاری)

اسی طرح وہ حدیث بھی آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ سات چیزیں ایسی ہیں جن کا اجر انسان کو اپنے مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے، ان میں سے ایک درخت لگانا بھی ہے۔ظاہر ہے شجر کاری سے فائدہ کس کو ہوگا، درخت نہ ہی جلدی بڑا ہو جاتا ہے اور نہ ہی جلدی فصل دینا شروع کرتا ہے۔ اس شجر کاری کا فائدہ آئندہ نسل کو ہی ہوگا۔ مذاہب یہی تو چاہتے ہیں کہ آئندہ آنے والے انسانوں کی زندگی بہتر ہو۔ دین اسلام میں صدقہ جاریہ کا تصور ملتا ہے یعنی وہ صدقہ جس کا ہمیشہ فائدہ ہو، لیکن بدقسمتی سے ہم اسلام کی روح بلا چکے ہیں۔ اسلام چاہتا ہے کہ آنے والی نسلوں کے لیے وسائل (Resource) کا تحفظ ہو، عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ سعد بن ابی وقاصؓ کے پاس سے گزرے اس حال میں کہ وہ وضو کر رہے تھے تو آپﷺ نے فرمایا: یہ اسراف کیوں؟ تو حضرت سعد ؓنے عرض کیا: کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: ہاں! اگرچہ تم بہتی نہر پر ہی (وضو کیوں نہ کر رہے) ہو‘‘۔یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے  عراق کے فتح کے موقع پر یہ فیصلہ فرمایا کہ ‘فے’ کا مال موجودہ مسلمانوں میں تقسیم نہ کیا جائے اور آنے والی نسلوں کو آمدنی کے اس قیمتی اثاثہ سے محروم نہ کیا جائے۔چنانچہ جب مسلمانوں نے عراق میں سواد کی زمین فتح کی تو مسلمانوں نے اس سے بھی اسی طرح تقسیم کرنا چاہا یعنی اس کا پانچواں حصہ بیت المال میں دے دیا جائے، باقی ان مجاہدین میں تقسیم کیا جائے جنہوں نے فتح میں حصّہ لیا ہو لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے منع کیا اور پھر فرمایا "پھر ان مسلمانوں کا کیا بنے گا جو بعد میں آئیں گے، ایسا نہ ہو کہ آبائی وراثت کے حقوق سے دوسروں کو ہمیشہ کے لیے محروم کیا جائے۔ ” حضرت فاروق اعظم نے حضرت سعد بن وقاص کو خط لکھا کہ نہروں اور زمین کی تقسیم فاتحین میں تقسیم نہ کی جائے تاکہ آئندہ نسلیں اس سے محروم نہ رہے (فاروق اعظم، محمد حسین ہیکل)۔

آئندہ نسلوں کی بہتری کے لئے سوچنا ہم سب کی اخلاقی ذمہ داری ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم دنیا کے مشکلات کو چن چن کر ہٹانے کی کوشش کریں تاکہ آنے والے لوگوں کے لیے دنیا اور خوبصورت ہو۔ امت مسلمہ کی حالت تشویشناک ہے، زندگی کے ہر شعبہ میں ہم کمزور ہیں، تعلیم، انفرا، صحت، سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہمارا کوئی رول نہیں۔ ہم پر دوہری ذمہ داری ہے کیونکہ ہم خیر امت ہیں اور آخری پیغمبر کی تعلیمات کے امین۔ دنیا میں ہمارا ہونا یا نہ ہونا جیسا وجود نہیں رہنا چاہئے۔ ہم انتھک محنت کر کے اپنی ترجیحات کا صحیح تعین کرتے ہوئے نہ صرف زمانہ حال میں انسانیت کےلئے خیر کا وجود بن جائیں بلکہ آئندہ نسلوں کے لئے بھی بہتر دنیا اور دنیاوی وسائل پیدا کریں۔

رابطہ 9906653927

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔