سدھارتھ

مبصرہ: نرگس حور

کتاب کا نام :- سدھارتھ، مصنف:- ہرمن ہیسے، مترجم:- یعقوب یاو ، قیمت:- 400 روپئے، صفحات:- 151

زیر تبصرہ کتاب ’سدھارتھ‘ جرمن کے مشہور ناول نگار ہرمین ہیسے کی شاہ کار ناول کا اردو ترجمہ ہے۔  ہرمین ہیسے نے کئی کتابیں لکھیں ہیں، جس میں فکشن، نان فکشن، نظمیں، چھوٹی کہانیاں شامل ہیں۔ انھوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے ادب کی دنیا میں اپنا لوہا منوایا۔ ان کے ناول دی گلاس بیڈ گیم (The Glass Bead Games) کو ادب کا نوبل انعام ملا۔ ہیسے کو دوسری تہذیبوں کا مطالعہ کرنا بہت پسند تھا۔ خصوصاً مشرقی تہذیبیں۔ اسی سلسلے میں وہ ستمبر 1911 کو قدیم ہندوستانی تہذیب کا مطالعہ کرنے ہندوستان آئے اور لمبے عرصے تک یہاں قیام کیا۔ جس کا نتیجہ ناول سدھارتھ ہے۔

151 صفحات کی زیر تبصرہ کتاب سدھارتھ  پہلی مرتبہ 1922 میں جرمن زبان میں شائع ہوئی۔ جب ہیسے کو 1946 میں نوبل پرائز ملا تو ان کی دوسری تصانیف کی طرف بھی دنیا کی نظر جانے لگی۔ امریکہ میں یہ ناول پہلی بار 1951 میں شائع ہوئی۔ پھر یہ دیگر زبانوں میں منتقل ہوتا ہوئی بالآخر اردو کی دنیا میں بھی پہنچ گئی۔

ناول کی شروعات ایک دلکش منظر سے شروع ہوتی ہے۔ ندی کے کنارے انجیر اور آم کے درختوں کا ایک باغ ہے۔ ہر طرف گھنی ٹھندی چھاؤں ہے۔ نرم سبزہ چار سو پھیلا ہوا ہے۔ برہمن زادہ سدھارتھ ندی کے ٹھنڈے پانی میں غسل کر رہا ہے اور اس کے کاندھے ہون کرتے ہوئے آفتاب کی تمازت سے سنولا گئے ہیں۔ کیا دلکش منظر ہے کیا انداز بیاں ہے۔ قاری مطالعہ کے دوران ایک نئی دنیا آباد کرتا ہے۔ پورے ناول کو پڑھتے ہوئے میں سدھارتھ کے ساتھ جنگلوں میں سفر کرتی رہی اور دوران مطالعہ قدرت کے حسیں نظاروں کو دیکھتے ہوئے فرحت بخش احساسات سے گذرتی رہی۔

سدھارتھ گوتم بدھ کے زمانے کا ایک نوجوان کردار ہے۔ جو حق کا متلاشی ہے۔ اس کے سفر حق کی روداد، زندگی میں آنے والے نشیب و فراز کی یہ داستان بڑی دلچسپ ہے۔ فاضل مترجم ناول کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’سدھارتھ ہندوستان کے روحانی اور معاشی پس منظر سے ابھرتا ہوا ذہنی انتشار اور کشمکش میں مبتلا ایک کردار ہے۔ جو تلاش حق میں سرگرداں رہ کر اپنی منزل مقصود حاصل کر لیتا ہے۔ واضح ہو کہ سدھارتھ اور گوتم بدھ دو الگ کردار ہے۔ ان کے خیالات میں یکسانیت کے باوجود ہرمن ہیسے نے دونوں کی انفرادیت کو برقرار رکھا ہے جو کہ مصنف کا کارنامہ ہے۔‘‘

سدھارتھ ایک نوجوان برہمن زادہ ہے۔ کم عمر میں ہی وہ برہمن عالموں سے کافی کچھ سیکھ لیتا ہے۔ اس کا باپ ایک مذہبی شخص ہے۔ سدھارتھ نے اب تک جو بھی علم اپنے استادوں سے، اپنے باپ سے کتابوں سے حاصل کیا ہے وہ بہت ہے لیکن پھر بھی وہ ایک کشمکش کا شکار ہے۔ اس کی روح بوجھل ہے، اس کا دل مطمئن نہیں ہے۔ وہ دائمی مسرت کی تلاش میں ہے۔ ایسے سچ کی تلاش میں جس کے بعد کوئی تلاش باقی نا رہے۔ اس کے ذہن میں وہی کچھ سوالات جنم لیتے ہیں جو کبھی ہمارے ذہن میں لیتے تھے، جیسے: خدا کون ہے؟ کہاں ہے؟ کیسا ہے؟ کیا وہ لافانی ہے؟ ہے تو ایسا کیوں ہے؟ وغیرہ۔

اس کے بعد سدھارتھ طے کرتا ہے کہ وہ ان سوالات کی تحقیق کرے گا۔ اسی لیے وہ وہ شرونوں کے ساتھ جانے کا فیصلہ کرتا ہے۔ وہ سب کو چھوڑنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ ماں باپ اور اپنے عزیز دوست گووندا کو بھی۔ لیکن باپ اس کی اجازت نہیں دیتا کہ اس کا لخت جگر گھر بار چھوڑ کر شرونوں کے ساتھ جنگلوں میں بھٹکتا پھرے۔ لیکن سدھارتھ اپنے ارادے میں پختہ تھا اس نے ضد کی کہ وہ جائے گا اور اسی  اسرار میں وہ پوری رات کھڑے رہ کر گزارتا ہے۔ باپ جب صبح دیکھتا ہے کہ سدھارتھ پوری رات کھڑا رہا تو  باپ دل پر پتھر رکھ کر بیٹے کو جانے کی اجازت دیتا ہے۔ گووندا بھی اپنے دوست کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ وہ دونوں شرونوں کے ساتھ رہنے لگتے ہیں اور تپسیا کرنے لگتے ہیں۔ یہاں وہ شرونوں سے تین چیزیں سیکھتے ہیں:

۱۔ سوچنا

۲۔ بھوکا رہنا

۳۔ انتظار کرنا

ایک وقفے کے بعد وہ شرونوں کو بھی چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہے۔ اسی اثنا میں انہیں گوتم بدھ کے آمد کی خبر ملتی ہے تو دونوں ان سے ملنے کے سفر پر نکل پڑتے ہیں۔

وہ دونوں گوتم سے ملتے ہیں، ان کی تعلیمات کو سنتے ہیں، لیکن اب بھی سدھارتھ مطمئن نہیں ہوتا اور گوتم سے مکالمے کے بعد اانھیں بھی چھوڑ دیتا ہے۔ اب وہ سفر میں تنہا ہے کیونکہ گووندا نے گوتم کی شرن میں پناہ لے لی ہے۔ اب یہاں سے سدھارتھ کے امتحان ہوتے ہیں۔ سفر کے بیچ وہ کملا سے ملتا ہے جو کہ ایک مشہور دولت مند طوائف ہے۔

سدھارتھ اس میں کشش محسوس کرتا ہے اور اس کا شاگرد بننا چاہتا ہے۔ لیکن کملا اسے سکھاتی ہے کہ سوچنے، بھوکے رہنے اور انتظار کرنے سے کچھ نہیں ملتا، سب کچھ دولت سے ملتا ہے۔ اب وہ سدھارتھ کو دولت کمانے کی ترغیب دیتی ہے اور مشہور تاجر کام سوامی کے پاس بھیجتی ہے۔ سدھارتھ کام سوامی سے ملتا ہے اور اپنی ذہانت سے اس کے ساتھ پارٹنر شپ میں کام کرتا ہے۔ خوب دولت کماتا ہے، جوا کھیلتا ہے، رنگین راتیں گزارتا ہے، غریبوں کی تضحیک کرتا ہے۔ انہیں مشاغل میں وہ اپنی تعلیمات اور اپنے مقاصد کو بھلا دیتا ہے۔ لیکن ایک دن کملا اسے گوتم کے بارے میں پوچھتی ہے تو اس کا ضمیر پھر سے جاگ جاتا ہے۔ اور پھر وہ ایک دن اچانک سب چھوڑ کر جنگل کی طرف نکل پڑتا ہے۔

اس کے بعد کملا کی کیا حالت ہوئی؟ واسودیو کون تھا؟ سدھارتھ کی اپنے بیٹے سے ملاقات، کملا کی موت، ماضی کی یادیں اور اس کے عرفان ذات کی روداد جاننے کیلئے آپ کو ناول پڑھنا ہوگا۔

فاضل مترجم یاور یعقوب نے اس ناول کا اس قدر حسین ترجمہ کیا ہے کہ قاری کو یقین ہی نہیں ہوتا کہ یہ ناول کا ترجمہ ہے۔ کتاب کی قیمت 400 روپے ہے۔ میٹر لنک نے دیدہ زیب طباعت کے اسے ساتھ شائع کیا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔