گرین ہاؤس لگائیں، منافع کمائیں

سہیل بشیر کار

چونکہ ہر جگہ الگ الگ موسم ہونے کی وجہ سے ہر وقت سبزیاں تیار کرنا ممکن نہیں۔ کشمیر میں قریباً 7 ماہ تک ٹھنڈ رہتی ہے جس کی وجہ سے ایگریکلچر سیکٹر متاثر رہتا ہے۔ اگر ہم یورپی ممالک میں دیکھیں وہاں کا موسم کشمیر جیسا ہی ہوتا ہے بلکہ اس سے بھی ٹھنڈا رہتا ہے، البتہ وہ لوگ اچھی طرح سبزیاں اگاتے ہیں۔ گرین ہاوس سے ہم یہ چیزیں کنٹرول کر سکتے ہیں۔

گرین ہاؤس ( greenhouse) اُس عمارت کو کہتے ہیں جو گرم علاقوں کے پودے کسی سرد علاقے میں اگانے کے لیے بنایے جاتے ہیں۔ ان کی دیواریں اور چھتیں عام طور پر پلاسٹک شیٹ کی بنی ہوتی ہیں۔ سورج کی روشنی پلاسٹک میں سے گزر کر گرین ہاؤس میں داخل ہو تی ہے اور اندر ماحول پر پڑتی ہے جو گرم ہو کر انفرا ریڈ شعاعیں خارج کرتی ہیں۔ لمبی طول موج والی انفرا ریڈ شعاعیں پلاسٹک شیٹ میں سے نہیں گزر سکتیں اور اندر ہی قید ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے گرین ہاؤس اندر سے گرم ہوتے ہیں۔ گرین ہاوس بہترین طریقہ ہے جس سے ہم سبزیاں زیادہ وقت تک لگا سکتے ہیں۔ گرین ہاوس کی وجہ سے ہم برف باری، سخت سردی،ژالہ باری اور wind سے اپنی فصل کو بچا سکتے ہیں۔ ہائے ٹیک گرین ہاؤس کے ذریعہ ہم اس کے علاوہ  تیز دھوپ سے بھی بچ سکتے ہیں چونکہ ہائے ٹیک میں شیڈ نیٹ استعمال کرتے ہیں جس سے ڈائریکٹ سورج کی روشنی نہیں پڑتی،ہائے ٹیک میں انسکٹ نیٹ بھی ہوتا ہے لہذا ہم کیڑے مکوڑوں سے بھی اپنی سبزی کو بچا سکتے ہیں۔

نرسری ریزینگ بہت منافع بخش کاروبار ہے چونکہ گرین ہاوس کے ذریعہ ہم سردی میں بھی سبزیاں اگا سکتے ہیں؛ اس طرح اگر ہم اپنے گھر کے لیے گرین ہاوس لگائیں گے تو ہم سال بھر تازہ سبزیاں کھا سکتے ہیں۔ اگر ہم کمرشل بنیاد پر سبزیاں یا پنیری بیچنا چاہتے ہیں پھر بھی گرین ہاوس سے کافی نفع حاصل کر سکتے ہیں۔ پودے کے لیے پانچ چیزیں ضروری ہیں :روشنی، درجہ حرارت، نمی, کاربن ڈائکسائڈ اور معدنیات۔ گرین ہاؤس میں پودوں کی یہ ضروریات ہر موسم میں مناسب طریقے پر manageکی جاسکتی ہے۔

کشمیر میں بھی اب لوگوں کے اندر گرین ہاوس کے دلچسپی بڑھ رہی ہے بلکہ اب محکمہ زراعت نے بہت سی جگہوں پر ہائے ٹیک گرین ہاوس لگایے ہیں اور لوگوں میں ہاے ٹیک لگانے کے لئے قریب پچاس فیصد سبسڑی بھی دی جاتی ہے۔

نرسری ریزنگ جہاں اچھا کاروبار ہے وہیں آجکل چونکہ hybrid seeds بہت مہنگے دام کے ملتے ہیں ایسے میں ضرورت ہے کہ نرسری اگانے کے لیے اچھا ماحول ہو تاکہ ہماری investment ضائع نہ ہو جائے، گرین ہاوس میں ایسا ماحول ہوتا ہے جو کہ نرسری ریزنگ کے لیے موافق ہوتا ہے-

گرین ہاوس لگانے کے فوائد:

1۔ ہم سبزیاں ان مہینوں میں بھی اگا سکتے ہیں جن میں ٹھنڈ کی وجہ سے ممکن نہیں۔

2۔ فصل کی پیداوار میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

3۔ گرین ہاوس میں جو سبزی تیار کی جاتی ہے وہ زیادہ معیاری سبزی ہوتی ہے۔

4۔ بیماری، کیڑے اور weed کی منیمجٹ آسان ہو جاتی ہے

5۔ چونکہ سبزیاں آف سیزن مل جاتی ہیں لہذا  منافع بھی بڑھ جاتا ہے

7۔ سبزیاں زیادہ دیر تک پھل دیتی ہیں ،ہائے ٹیک میں لگایا جانے والا ٹماٹر 6 سے 7 ماہ تک پھل دیتے ہیں۔

گرین ہاوس کی عمر:

اگر گرین ہاوس کو اچھے سے maintain کیا جائے تو یہ 25 سال تک چل سکتے ہیں البتہ فلم 6 سال کے بعد تبدیل کرنی پڑتی ہے۔

گرین ہاوس کی اقسام:

کشمیر میں جو گرین ہاوس لگایے جاتے ہیں اس کی چار اقسام ہیں:

1۔ ہائے ٹیک (climatic controlled green house)

اس میں ہر چیز کنٹرول ہوتی ہے۔ اس میں سبزیاں جیسے ٹماٹر، چری ٹماٹر زیادہ وقت تک پھل دیتے ہیں،  عام طور پر گرین ہاوس کا جو تصور ہمیں ہے وہ یہ کہ اس میں صرف سردیوں میں کام لیا جاسکتا ہے معاملہ اس کے برعکس ہے، ہاے ٹیک گرین ہاوس میں ہر چیز کنٹرولڈ ہوتی ہے جہاں گرمی کا معقول انتظام ہوتا ہے وہیں پر موسم کو معتدل رکھنے کے لیے ہائے ٹیک گرین ہاوس میں کولنگ پیڈ اور exhuast ہوتے ہیں، جس سے اندر کا ٹمپریچر کنٹرول کیا جا سکتا ہے، اس میں شیڈ نیٹ کے علاوہ insect net بھی لگا ہوتا ہیں۔ ہر چیز کنٹرول میں رہتی ہے، سنچائی کے لیے سپرنکل یا ڈرپ اریگیشن سسٹم لگا ہوتا ہے، ساتھ ہی الٹرا وائلٹ لائٹس بھی لگی رہتی ہیں۔ ہاے ٹیک میں ہم شلف بھی لگا سکتے ہیں جس پر  cucrbits کی پنیری تیاری کی جاتی ہے۔ 500 میٹر کے لیے قریب 5 سے 6 لاکھ کا خرچہ آتا ہے جس میں ڈپارٹمنٹ 2۔ 5 لاکھ تک سبسڈی دیتا ہے، محکمہ زراعت نے گزشتہ دو سالوں میں ہر ضلع میں ان کو متعارف کیا ہے۔

2۔ سیمی گرین ہاوس:

اس میں کولنگ پیڈ اور exhaust لگے ہوتے ہیں تاکہ گرمیوں میں ٹمپریچر کو maintain کیا جا سکے، اس میں اگرچہ اتنی  زیادہ سہولیات نہیں ہوتی ہے لیکن پھر بھی یہ ہر طرح کے موسم کے لیے بہتر ہے۔ اس میں بھی insect net اور شیڈ نیٹ ہوتے ہیں۔

 3۔ کوسٹ گرین ہاؤس (cost green house)

اس میں کم قیمت پر لوہا لگا ہوتا ہے اور سردیوں میں اس پر پلاسٹک کی شیٹ ڈالی جاتی ہے تاکہ اندر گرمی رہے۔ یہ سردیوں میں استعمال ہوتا ہے،اس میں ایک طرف کھڑکی ہوتی ہے اور ایک طرف دروازہ، دروازہ سے اندر جا کر کام کر سکتے ہیں۔

کشمیر میں چلی کلاں میں جو سخت سردی ہوتی ہے اس سے پودے میں injury ہو سکتی ہے۔ کم قیمت والے گرین ہاوس ٹھنڈ سے پودے کو بچاتے ہیں۔ ساتھ ہی جرمنیشن کے لیے جس درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی  ہے وہ ہم حاصل کر سکتے ہیں،اس گرین ہاوس کی اونچائی چھ فٹ رہتی ہے۔ عام طور پر یہ گرین ہاوس 15 سے 20 ہزار میں تیار ہوتے ہیں جس پر محکمہ زراعت 50 فیصد سبسڈی دیتا ہے۔

4۔ نیٹ ہاوس:

مارکیٹ میں دو طرح کے نیٹ ملتے ہیں ایک شیڈ نیٹ جس کے ذریعہ سخت گرمی میں ہم پودوں کو ڈائریکٹ دھوپ سے بچا سکتے ہیں۔ یہ مختلف رنگوں کے ہوتے ہیں، زیادہ تر کالے، سفید اور سبز رنگ کے شیڈ نیٹ مارکیٹ میں ملتے ہیں۔ سبزیوں اور پھولوں کے لیے شیڈ نیٹ جہاں سخت دھوپ سے بچاتے ہیں  وہی ژالہ باری سے بھی ہم سبزیوں کو بچا سکتے ہیں۔ دوسری قسم کا نیٹ ہاوس وہ ہوتا ہے جس میں insect net استعمال ہوتا ہے،مارکیٹ میں 25 سے 60 میش کے نیٹ ملتے ہیں، چالیس میش بہتر ہے کیونکہ اس سے جہاں insects سے بچا جاسکتا ہے وہی جتنی دھوپ چاہیے ہوتی ہے وہ ملتی ہے۔

گرین ہاوس میں سبزیوں یا پھولوں کی پیدوار اسی طرح کی جاتی ہے جس طرح کھیتوں میں ،البتہ کچھ سبزیوں میں pollination مشکل ہو جاتی ہے اس لیے وہاں پر hand pollination کی جاتی ہے،بہتر ہے کہ drip irrigation سسٹم کے ذریعہ سینچائی کی جائے۔ گرین ہاوس میں کسی بھی fungicide کی وقفہ وقفہ سے سپرے کرنی چاہیے۔ Humidity کی وجہ سے فنگل بیماریوں کا خطرہ رہتا ہے اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ ساتھ ہی سینچائ اچھے سے کرنی چاہیے، بہتر ہے کہ کھیرا،کدو،لوکی ،خربوزہ ،تربوزہ ، بھنڈی ،کریلا وغیرہ سبزیوں کے بیج کو لگانے سے پہلے 12 گھنٹے پانی میں ڈبوکر رکھا جائے، اگر آپ پنیری فروخت کرنے کے لیے تیار کر رہے ہیں تو ٹرانسپلانٹنگ سے پہلے hardening ضرور کیجئے تاکہ پنیری باہر کے ماحول میں survive کریں۔

کشمیر جیسے علاقے میں ضرورت ہے کہ وہ لوگ جو سبزیوں کا کاروبار کرتے ہیں وہ گرین ہاوس ضرور لگائیں اور خوب نفع کمائیں ، اگر کسی کے پاس 500 مربع میٹر میں ہاے ٹیک لگا ہو ،تو وہ سالانہ کم از کم 5 لاکھ روپے کما سکتا ہے، لہذا دیر کس بات کی، فوراً محکمہ زراعت کے نزدیکی دفتر سے رابطہ قائم کرکے مزید جانکاری حاصل کی جائے۔

(مضمون نگار محکمہ زراعت میں جونیر ایگریکلچر ایکسٹنشن افسسر ہے۔ )

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔