کچن گارڈن

سہیل بشیر کار

 اس بات سے سب واقف ہیں کہ ہماری صحت کے لیے سبزیوں کی کس قدر اہمیت ہے، سبز پتوں والی سبزیاں وٹامنز، معدنیات اور فائیٹو نیوٹرنٹس سے بھرے طاقتور سپر فوڈز ہوتے ہیں۔ یہ اینٹی آکسیڈنٹ، وٹامن سی، ای اور بیٹا کیروٹین  سے بھرپور ہوتے ہیں جو ہمارے خلیوں کی حفاظت کرتے ہیں اور کینسر کی روک تھام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ فولیٹ سے بھی بھرپور ہوتے ہیں، اس میں شامل بی وٹامن جو دل کی صحت کو بڑھاتا ہے اور پیدائشی نقص کو وٹامن کے ذریعے روکنے میں مدد کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ہڈیوں کی صحت کے لئے فائدے مند ثابت ہوسکتا ہے۔

سبز پتوں والی سبزیوں میں آئرن، میگنیشیم، کیلشیم اور پوٹاشیم جیسے بہت سارے فائبر اور معدنیات ہوتے ہیں، یہ سب ہمارے جسم میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان میں کولیسٹرول، سوڈیم اور کاربوہائیڈریٹ بھی کم ہوتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے مارکیٹ میں جو سبزیاں دستیاب ہوتی ہیں؛ ان میں کافی مقدار میں کیمیائی کھاد اور دوائیاں استعمال ہوتی ہے جس کی وجہ سے سبزیاں صحت کے لیے ٹھیک نہیں رہتی۔آج کل بازار میں بہت ہی غیر معیاری اور کیڑے مار دواؤں سے آلودہ سبزیاں مل رہی ہیں۔ موسمی اور بے موسمی تمام سبزیاں دستیاب ہوتی ہیں، مگر سبزیوں میں کیمیکل کرکے ان کو ان کے موسم کے بعد بھی کاشت کیا جاتا ہے اور مارکیٹ میں یہ سبزیاں سارا سال دستیاب ہوتی ہیں۔ ان سبزیوں میں نہ تو موسمی سبزیوں کی طرح خوش نما رنگ ہوتا ہے اور نہ ہی ذائقے میں یہ ان کا مقابلہ کرسکتی ہیں۔ ان سبزیوں کے استعمال سے روز بہ روز آپ کی صحت گرتی چلی جاتی ہے اور آپ مختلف امراض کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ ایک طرف سبزی کی ضرورت دوسری طرف مارکیٹ میں مضر سبزی کی دستیابی۔ اپنا کچن گارڈن بنانے سے آپ ان تمام مصائب سے بچ سکتے ہیں۔کچن گارڈن سے مراد گھر کے آس پاس  سبزیاں اگانا ہے۔ کچن گارڈن آپ اپنے گھر کے کسی بھی حصے میں اگاسکتے ہیں۔ اگر آپ کسی فلیٹ میں رہتے ہیں تب بھی آپ یہ کام خوش اسلوبی سے کر سکتے ہیں اور اسکے لئے آپ اپنی کھڑکیوں یا بالکونی کو استعمال کرکے ورٹیکل گارڈن سے اپنے گھر کی سبزی کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔

کچن گارڈن کے لیے کسی زیادہ اہتمام کی ضرورت نہیں، اگر آپ کے پاس تھوڑی سی بھی زمین ہے تو معیاری پنیری یا بیج استعمال کرکے آپ اپنی گھریلو ضروریات کے لیے مختلف سبزیاں اگا سکتے ہیں۔ گھر کے اندر سبزیوں اور پھلوں کی کاشت کا مشغلہ نہ صرف انسان کے جسم اور دماغ کو توانا رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے بلکہ آج کل  کی مہنگائی کے دور میں گھریلو بجٹ کو بھی قابو میں رکھتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ دال اور سبزیاں آسانی سے کوئی بھی خرید سکتا تھا لیکن مہنگائی سے متوسط طبقے کے لیے دسترخوان کی ضرورت پوری کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں گھریلو کاشت کاری کا مشغلہ اپنایا جائے تو اس سے نہ صرف اخراجات میں توازن آئے گا بلکہ سستی اور تازہ سبزیاں بھی ملیں گی۔دنیا بھر میں بازاری سبزیوں کی خریداری اور ان کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے کچن گارڈننگ رواج پا رہی ہے، عام طور پر ہمارے بجٹ کا ساٹھ فیصد حصہ گھریلو ضروریات میں ہی صرف ہوتا ہے لہذا ہم کچن گارڈن سے نہ صرف یہ کہ اپنی ضرورت کی سبزی حاصل کر سکتے ہیں بلکہ اس طرح ہم اچھی  خاصی رقم بھی بچا سکتے ہیں۔ کچن گارڈن میں آپ ٹماٹر، مرچ، کھیرا، بینگن، بھنڈی، کریلہ، توری، پیاز، پالک، دھنیا اور لہسن کے علاوہ اور بہت سی سبزیاں اگاسکتے ہیں۔ یہاں تک کہ آلو اور شلجم یا گاجر تک اگائے جاسکتے ہیں۔

 آجکل ایسے بیج بازار میں دستیاب ہیں جو زیادہ اور جلدی پھل دیتے ہیں اور بیماریوں سے بھی کم متاثر ہوتے ہیں۔ بیج کے علاوہ کسی اچھی نرسری سے ان سبزیوں کی پنیری بھی لئے جاسکتے ہیں، جو جلد پھل دیتے ہوں۔ اگر اچھی variety استعمال کی جائے تو ایک گھر کے لیے ٹماٹر کے پانچ، بیگن کے تین، کریلے کے دو، کدو کے دو، مرچ کے دس پودے کافی ہیں۔ آجکل ٹماٹر کی ایسی قسمیں دستیاب ہیں جو 40 کلو تک ایک پودا دے سکتا ہے۔ سبزیوں کو اگانے اور ان کی دیکھ بھال کے طریقے آن لائن دیکھے جاسکتے ہیں۔ ساتھ ہی محکمہ زراعت سے رابط کرکے ہم معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ زمانہ قدیم میں زراعت کی ابتداء کچن گارڈننگ سے  ہی ہوئی۔ملکی سطح پر کچن گارڈننگ کی سب سے بڑی مثال چین نے قائم کی ہے۔ چین میں ہر کسی نے اپنے گھر میں ایک چھوٹا سا کچن گارڈن بنا رکھا ہے جو گملوں پر مشتمل ہوتا ہے اور اس میں وہ روز مرہ کے استعمال کی ہر قسم کی سبزیاں کاشت کرتے ہیں۔ ان کی اس محنت کا نتیجہ ہی ہے کہ وہاں امراض کی شرح میں نمایاں کمی آئی ہے اور شرح امراض تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔

 سبزیوں کی دیرپا فراہمی کے لیے بہتر ہے کہ ان کی بجائے وقفے وقفے سے کریں۔ تا کہ ان کی فراہمی کا تسلسل دیر تک جاری رہے۔ مثلاً مولی کو اگر ایک ہی وقت میں کاشت کرتے ہیں تو اُن کی فراہمی  بھی تقریباً ایک ہی وقت پر ہوجائے گی۔ جن کا استعمال بھی تقریباً چند دنوں تک محدود رہ جا تاہے۔ اگر اس کی بجائے دس دن کےوقفہ سے دو یا تین دفعہ کریں گے تو ان کی فراہمی تقریباً ایک ماہ تک جا ری رہے گی۔ اسی طرح با قی سبزیوں کی بجائی انہی طریقوں پر کی جائے تو فراہمی کو دیر تک جاری رکھا جاسکتا ہے۔کچن گارڈن میں ورمی کمپوسٹ استعمال کریں، ورمی کمپوسٹ آپ گھروں کے اندر ہی کچن ویسٹ سے بناسکتے ہیں، ( اس کا طریقہ کار کسی اور مضمون میں بتایا جائے گا) کچن گارڈن میں بیڈ چھوٹے چھوٹے بنائے تاکہ گوڈائی کرنے میں آسانی ہو،آپ سب سے پہلے کچن گارڈن کے لیے جگہ منتخب کریں، کچن گارڈن کے چاروں طرف شیڈ نیٹ لگائیں۔ بہتر ہے raised bed بنائے جائے اور کچن گارڈن سے حاصل کردہ مٹی کی جانچ کرائے اور جو سفارشات محکمہ دے ان پر عمل کریں، مٹی کے ساتھ ورمی کمپوسٹ اچھے سے ملائیں، جس بیڈ میں ایک سال ایک سبزی لگائے کوشش کریں کہ دوسری بار یہ سبزی دوسرے بیڈ میں لگائے،اس کے بہت سارے فائدے ہیں، بیج شمال کی سمت میں لگائے جائیں تاکہ اگنے والے پودے کا رخ جنوب کی سمت میں ہو کیونکہ سبزیاں ہمیشہ سورج کی طرف اگتی ہیں، بیج لگانے کا طریقہ سبزیوں کی نوعیت کے مطابق زمین تین طریقوں سے تیار کی جاتی ہے۔ پہلے طریقے میں زیر زمین اگنے والی سبزیاں مثلاً مولی،شلجم اورگاجروغیرہ لگانے کے لئے زمین میں کھلیاں(ridges) بنائی جاتی ہے۔ ہر کھلی کی چوڑائی ایک فٹ اور اونچائی نو انچ رکھی جاتی ہے جبکہ لمبائی میں آپ ضرورت اور جگہ کے مطابق کمی بیشی کرسکتے ہیں۔ ایک جگہ پر مناسب فاصلے پر دو سے تین بیج لگانے چاہئیں۔ دوسرا طریقہ بنے (raised beds) بنانا ہے جو تین فٹ چوڑے اورنو انچ اونچے ہونے چاہئیے۔ مٹی کے بنوں میں بیلوں والی سبزیوں کے بیج مثلاً کھیرا،کدو اور توری وغیرہ دبائے جاتے ہیں۔بیج شمال کی سمت میں لگائے جائیں تاکہ اگنے والے پودے کا رخ جنوب کی سمت میں ہو کیونکہ سبزیاں ہمیشہ سورج کی طرف اگتی ہیں۔ تیسرا طریقہ کیاریاں (flat beds)بنا کر سبزیاں اگانے کا ہے۔ گھروں میں چھوٹی کیاری بنائی جاتی ہے۔ اگر آپ چھوٹے بیج والی سبزیاں یا وہ پودے لگانا چاہتے ہیں جو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل نہیں کئے جاسکتے مثلاً پالک،میتھی اور دھنیا وغیرہ تو ان کے بیج ان کیاریوں میں لگا دیجئے۔ پانی دینے کا طریقہ اوپر بتائے گئے طریقوں کے مطابق آپ نے جو کھلیاں،بنے اور کیاریاں بنائی ہیں؛ ان کے درمیان ایک سے ڈیڑھ انچ جگہ خالی رکھیں۔ اس نالی نما خالی جگہ میں اتنا پانی چھوڑیں کہ اس کی سطح بیج کے لئے بنائی گئی جگہوں (کھلیوں‘ بنوں اور کیاریوں) سے بلند نہ ہو۔ اس طرح بیج کو اس کی ضرورت کے مطابق ہی پانی مل پائے گا۔ ہمارے کشمیر میں ایک غلطی یہ کی جاتی ہے کہ کچن گارڈن میں کثرت سے ساگ اور مرچ لگائی جاتی ہے۔ اس کے برعکس یہ کوشش کریں کہ ہر قسم کی سبزی لگائی جائے، مختلف اوقات میں کچن گارڈن سے گھاس نکالنا لازمی بنائیں، ضرورت پڑنے پر پانی دیجئے اور وقفہ وقفہ سے گوڈائی کریں، جن سبزیوں میں staking کی ضرورت ہو مثلاً کدو، کھیرا، ٹماٹر ان میں staking ضرور کریں، مارکیٹ میں نیٹ ملتے ہیں ان کے سہارے کدو، لوکی، کھیرا چڑھائے۔

 جن لوگوں کے پاس کچن گارڈن کے لیے زمین نہیں ہے وہ گملوں یا پرانے پلاسٹک برتنوں میں بھی سبزیاں اگا سکتے ہیں، البتہ بہتر ہے کہ وہ HDPE والے grow bags میں سبزیاں اگائیں۔، گرو بیگس آسانی سے مارکیٹ میں دستاب ہے، یہ آن لائن کم قیمت پر دستاب ہے، اگر آپ  350 GSM کا grow bag خریدو گے تو یہ پانچ سے دس سال تک چلتا ہے، آپ بیس Grow bag خریدیں، تین تین بیگس میں الگ الگ سبزی اگائیں، گرو بیگس میں سبزیاں اگانا آسان ہے، آپ ہر بیگ میں 70 فیصد مٹی اور تیس فیصد ورمی کمپوسٹ ڈالیے اچھے سے ملائے؛ اس کے بعد بیج ڈالیے، ضرورت پڑنے پر پانی دیجئے، گرو بیگس کو ہم اپنے برآمدے، میں بھی رکھ سکتے ہیں یعنی جس کے پاس ایک مرلہ زمین بھی نہیں یا جو زیادہ محنت نہیں کرنا چاہتے ان کے لیے اچھا ہے کہ وہ گرو بیگس میں سبزیاں اگائے۔ مارکیٹ میں مختلف کلر کے گرو بیگس دستاب ہے۔ ان سے گھروں کی خوبصورتی میں بھی اضافہ ہوتا ہے،گرو بیگس کو اٹھانا بھی آسان ہے لہذا موسم کے اعتبار سے ان کی جگہ تبدیل کی جاسکتی ہے، وادی سے باہر لوگ Teres پر یہ لگاتے ہیں، چونکہ یہاں ٹریس نہیں ہوتے لہذا برآمدے میں ان کے ذریعہ کاشتکاری کی جا سکتی ہے۔

 آج لوگ ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہیں، کچن گارڈن میں مصروف رہ کر وہ ذہنی اور جسمانی طور پر پر فٹ بھی رہیں گے۔تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ جو لوگ کچن گارڈن کے ساتھ وقت گزارتے ہیں وہ نہ صرف جسمانی طور پر صحت مند رہتے ہیں بلکہ ذہنی طور پر بھی پرسکون رہتے ہیں، لہذا آج ہی عہد کریں کہ ہم گھروں میں اپنی ضرورت کی سبزیاں اگائیں گے اورہر گھر کوشش کرے کہ وہ اپنی ضرورت کی سبزی خود کاشت کرے اور خود کفیلی کی طرف قدم بڑھائیں۔

(کالم نگار محکمہ زراعت میں جونیر ایگریکلچر ایکسٹنشن افسسر ہے۔)

 رابطہ نمبر: 9906653927

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔